Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی استا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی استا



    وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی استاد ہیں


    سیدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہما حبیبہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم

    حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ جیسے فقہیہ و عالم صحابی حضرت عائشہؓ کے علم و فضل کے متعلق اپنا اور اپنے جیسے دوسرے ساتھیوں کا تجربہ بیان کرتے ہیں:

    '' ہم اصحاب رسول ؐ کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئی اور ہم نے اسے حضرت عائشہؓ سے درےافت کیاتوان کے پاس اس کا علم پایا۔''
    (جامع ترمذی،کتاب المناقب باب من فضل عائشۃ ؓ :3883 )

    عمرۃ بنت عبدالرحمان

    ابن شہاب زہری ،قاسم بن محمد کو کہتے ہیں کہ میں تمہیں علم کا بہت حریص دیکھتا ہوں کیا میں تمہیں اس کے خزانے پر مطلع نہ کروں ؟ علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو جاؤ عمرۃ کے پاس۔ قاسم بن محمد کا کہنا ہے کہ عمرۃ کے پاس جاکر مجھے ایسا لگا کہ وہ کبھی نہ خشک ہونے والا سمندر ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء 508/4)
    تیسری صدی کی معروف محدثات :
    تیسری صدی میں عابدۃالمدینہ، ام عمر الثقفیۃ، زینب بنت سلیمان ، نفیسہ بنت حسن بن زید، خدیجہ ام محمد، عبدۃ بنت عبدالرحمان ،عباسہ امام احمد ابن حنبل کی اہلیہ اور دیگر بہت سی خواتین قابل ذکر ہیں جنہوں نے حدیث رسولؐ پر باقاعدہ لیکچرز دیے ، جن میں بڑے بڑے محدثین شامل ہو تے تھے ۔ عابدہ جو ایک سیاہ فام لونڈی تھیں لیکن افق حدیث کا چمکتا ہوا ستارہ بھی تھیں،جب محمد بن یزید نے انہیں حبیب بن الولید الدحون الاندلسی کو ہبہ کردیا تو وہ ان کے علم سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں آزاد کرکے ان سے شادی کرلی
    اور اپنے ساتھ اندلس لے آئے جہاں پر وہ تقریباََ دس ہزار احادیث،
    امام دار الھجرہ مالک بن انس اور دیگر مدنی اساتذہ سے روایت کرتی رہیں اور یوں وہ یورپ میں فروغ تعلیمات نبویؐ کا باعث بنیں۔(المقتبس من أنباء الأندلس لابن حیان القرطبی 228/1)

    کریمۃالمروزيہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ صحیح بخاری کی روایت میں وہ يکتائے زمانہ تھیں ۔بڑے بڑے ائمّہ جن میں ابو بکر الخطیب البغدادی بھی شامل ہیں جو بغداد سے مکہ پہنچ کر کریمہ سے صحیح بخاری کا سماع کرتے ہیں ۔ ابوبکر بن منصور سمعانی کا کہنا ہے کہ میرے والد کریمہ کی علمی شخصیت سے بہت متاثر تھے ،وہ کہتے تھے کہ میں نے کریمہ جیسا کوئی نہیں دیکھا ۔(تاریخ اسلام للذہبی ،ت بشار 223/10)
    صحیح البخاری کی روایت میں مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمرکا نام بطور خاص لیا جاتا ہے ، جو طویل عرصہ تک دمشق اور مصر میں درس و تدریس کرتی رہیں اور جن کی روایت ِبخاری بھی بہت شہرت کی حامل ہوئی ۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 397/2)
    ام الخیر امۃ الخالق مدرسہ حجاز کی آخری راویہ صحیح بخاری تھیں۔ (شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 21/10)
    اسی طرح عائشہ بنت عبدالہادی بھی تدریس بخاری کے لےے ایک ممتاز مقام رکھتی تھیں۔(شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 399/10)

    خواتین نے نہ صرف صحیح بخاری کی درس و تدریس اور روایت کا اہتمام کیا بلکہ دیگر کتب حدیث کی روایات اور درس و تدریس میں قابل ذکرحصہ ڈالا، اس سلسلے میں ام الخیر فاطمہ بنت علی بغدادیہ کا نام قابل ذکر ہے جو اپنے وقت کی مشہور راویہ صحیح مسلم تھیں ۔ (سیر اعلام النبلاء 265/19)
    ام ابراہیم فاطمہ الجوزدانیہ معجم للطبرانی کی روایت کیا کرتی تھیں۔(تاریخ اسلام ۔ت:تدمری 126/43)
    ام احمد زینب بنت المکی بن علی بن کامل الحرانی چورانوے سال تک زندہ رہیں،ان کے گرد طلبہ کا ہجوم رہتا ، مسند احمد کی روایت کیا کرتی تھیں(شذرات الذہب 607/7)
    ابن نقطہ نے اپنی کتاب التقیيد لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (ص :497)میں ایسی بارہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے دور میں کتب ِاحادیث کی روایت میں مشہور ہوئیں۔

    چوتھی صدی کی مشہور محدثات :
    چوتھی صدی میں فاطمہ بنت عبدالرحمان الحرانیہ ام محمد (تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 441/14)،
    ام سلمہ فاطمہ بنت أبی بکر بن أبی داود -سنن ابی داؤد کے مولف امام ابو داؤدسجستانی کی پوتی -(تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 442/14)
    امۃ الواحد بنت قاضی ابی عبداﷲ حسین بن اسماعیل المحاملی (تاریخ اسلام ، ت:بشار 437/8)
    ام الفتح امۃ السلام بنت القاضی احمد بن کامل بغدادیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 465/8)
    ام الحسین جمعۃبنت احمد المحیۃ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 634/16)
    فاطمہ بنت ہلال الکرجیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
    اور طاہرۃ بنت احمد ا لتنوخیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
    کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے علم حدیث میں کمال پیدا کرکے لازوال نقوش چھوڑے ، انکے دروس میں بے شمار لوگ شریک ہوتے تھے ۔

    پانچویں صدی کی مشہور محدثات :

    پانچویں صدی میں مشہور صوفی حسن بن علی الدقاق کی بیٹی اور ابو قاسم القشیری کی زوجہ محترمہ فاطمہ نے بھی سند عالی کے لیے شہرت پائی جو ابو نعیم الاسفرائنی اور حاکم نیشاپوری سے حدیث روایت کرتی تھیں(تاریخ اسلام ، ت:بشار 457/10)
    اس کے علاوہ خدیجہ بنت محمد شاہجہانیہ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 118/10)
    سُتَیْتَہ بنت قاضی ابن ابی عمرہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 693/9)
    خدیجہ بنت البقال(تاریخ اسلام ، ت:بشار 636/16)
    اور جبرۃ السوداء (تاریخ اسلام ، ت:بشار 637/16)
    نے شہرت پائی ۔

    چھٹی صدی کی مشہور محدثات :

    چھٹی صدی میں ام البہاء فاطمہ بنت محمد مسندۃ اصفہان(تاریخ اسلام ، ت:بشار 716/11)
    ام الخیر فاطمہ بنت علی مسندۃ خراسان (تاریخ اسلام ، ت:بشار 576/11)
    مسندۃ الوقت خدیجہ بنت محمد(تاریخ اسلام ، ت:بشار 43/14)
    تجنی بنت عبداﷲ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 550/12)
    اور شہدۃ بنت احمد مسندۃ العراق سند عالی کے لیے مشہور ہیں(التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والأسانیدص:105) ، شہدۃ جنہیں فخرالنساء کا خطاب دیا گیا ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد حاضر ہوا کرتی ، علو سند میں ان کی اس شہرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا استاد قرار دیا،ذکی الدین البرزالی نے ان کا مشیخہ آٹھ اجزاء میں مرتب کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد ، ط: العلمیۃ394/15 نیز دیکھیے العمدۃ من الفوائد والآثار الصحاح والغرائب فی مشیخۃ شہدۃ)

    ساتویں صدی ہجری
    میں ام محمد زینب بنت احمد المقدسی (المتوفیہ 722 ھ ) نے طلبِ حدیث کی خاطر فلسطین سے مصر ، شام اور مدینہ کا سفر کیے ، زینب علماء سے علم حدیث حاصل کرنے اور اجازتِ حدیث لینے کے بعد جب مسندِ تدریس پر بیٹھیں تو دور دراز سے طلبہ سفر کرکے ان کے پاس سماع ِحدیث کے لیے کھنچے چلے آتے۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید368/2)
    عائشہ بنت ابراہیم جو ابنۃ الشرائحی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اس میدان میں کمال حاصل کرنے کے بعد مصر ، شام اور بعلبک وغیرہ میں درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا ۔(التنبیہ والإیقاظ لما فی ذیول تذکرۃ الحفاظ، ص:109)
    عائشہ بنت محمدبن مسلم الحرانیہ جو سلائی کڑھائی کرکے اپنا پیٹ پالتی تھیں، کثرتِ روایت کے علاوہ بعض اجزاءِ حدیث کی روایت میں منفرد حیثیت رکھتی تھیں (ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 382/2)۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر دمشق کے دوران726ھ میں جامع بنی امیّہ میں ان سے سماع حدیث کیا
    مسندۃ خراسان زینب بنت عبد الرحمن بن الحسن الاشعریہ ، جن کی وفات سند عالی کے انقطاع کا باعث بنی (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:501)
    عائشہ بنت معمر الاصبہانیہ مسند ابی یعلی کی روایت میں شہرت کی حامل تھیں مشہور محدث ابن نقطہ آپ کے شاگردوں میں سے تھے (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:449)
    مسندہء شام کریمہ بنت عبد الوہاب بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل تھیں جنھیں روایت حدیث کے لےے بڑے بڑے علماء سے اجازت حاصل تھی ۔ اور وہ کبھی روایت حدیث سے اکتاتی نہیں تھیں(سیر اعلام النبلاء 92/23)
    زینب بنت عبد اللہ بن أسعد المکی کے دروازے پر ہمیشہ طلبہِ علم کا ہجوم رہتا(الاعلام للزکلی 66/3)
    شامیہ امۃ الحق متعدد اجزاء حدیث کی روایت میں منفرد تھیں (تاریخ اسلام ، ت : بشار 542/15)
    عجیبہ بنت محمد البغدادیہ نے اپنا مشیخہ دس اجزاء میں مرتب کیا(تاریخ اسلام ، ت : بشار 581/14)۔

    آٹھویں صدی ہجری : میں اسماء بنت محمد ابی المواہب ابن حصری ، امۃ العزیز بنت ذہبی ، فاطمہ بنت البرازلی ، اسماء بنت خلیل بن کیکلدی العلائی ، رقیہ بنت ابن دقیق العید ، زینب بنت ابن قدامہ المقدسی ، زینب بنت ابن جماعی الکنانی، ام البھائ، زینب بنت ابن العجمی ،ست النعم بنت العلامہ نجم الدین الحرانی ،ست الوزراء بنت عمر ابن منجاء ،ستیہ بنت تقی الدین السبکی ، ستیہ بنت نجم الدین الدمیاطی ، عائشہ بنت ابراہیم حافظ المزی کی اہلیہ ، عائشہ بنت عبداﷲ محب الدین الطبری کی پوتی ،لوزہ بنت عبداﷲمولاۃ ابن دقیق العید ، ست الرکب علی ابن حجر کی بہن ، زینب بنت عبداﷲتقی الدین ابن تیمیہ کی بھتیجی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔ (الدررالکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ)
    تاریخ ِدمشق کے مؤلف ابن عساکر اپنے مشیخہ میں 80 خواتین کا ذکر کرتے ہیں جن سے انہوں نے درس حدیث لیا۔ابو طاہر السلفی اپنی کتاب'' مشیخہ البغدادیہ ''''معجم السفر'' اور'' مشیخہ الاصبہانیہ'' میں اور ابوسعید السمعانی ''الخبیرفی المعجم الکبیر'' میں متعدد خواتین کو اپنے شیوخ میں شمار کرتے ہیں جن سے انہوں نے بطریق سماع یا اجازۃ روایت کی ۔ ''وفیات الاعیان'' کے مؤلف ابن خلکان زینب بنت اشعری م524ھ کے شاگرد رہے ۔ ابن بطوطہ کا شمار اگرچہ محدثین میں نہیں ہوتا لیکن شوق طلب حدیث میں متعددخواتین وحضرات اور خصوصاََزینب بنت احمد کمال
    م710ھ سے سماع کیا۔ نویں صدی کے مشہور محدث عفیف الدین جنید نے سنن دارمی کا درس فاطمہ بنت احمد قاسم سے لیا ۔نفیسہ بنت ابراہیم برزالی اور ذہبی کی استادرہیں،حافظ العرقی اور الھیثمی ست العرب بنت محمد البخاری کے شاگرد رہے ۔ (الاعلام للزرکلی 77/3)


    نویں صدی میں جس کثیر تعداد میں خواتین تعلیمات نبوی ؐ کے فروغ میں مصروف نظر آتی ہیں ، تعداد کے اعتبار سے یہ کثرت دوسرے ادوار میں نظر نہیں آتی ان میں سے جن خواتین نے بطور خاص شہرت پائی ان کا ذکر باعث طوالت ہوگا۔یہاں مثال کے طور پر سخاوی اور ابن حجر کی ایک ایک استاد کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ام ہانی مریم بنت عبد الرحمٰن الہورینیہ م871 ھ جنہیں ادب ، شعر اور خطاطی میں مہارت کے علاوہ حفظِ قرآن اور اسلامی علوم پر بھی عبور تھا۔ انہیں قاہرہ اور مکہ میں حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے باقاعدہ تدریس کے ساتھ حدیث میں اجازت نامے جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مریم بنت احمد الاذرعی بھی اس میدان میں سند کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کے اساتذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن حجر نے ان کی باقاعدہ ایک معجم مرتب کی، ان کے شاگرد وں کی تعداد بھی ان گنت ہے ۔(المجمع المؤسس 559/2،انباء الغمر 126/5)

    فاطمہ الفضیلیہ م 1247ھ ہیں ،جو بارہویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئیں ، ماہر خطاط تھیں خود اپنے ہاتھوں سے بہت سی کتب کو نقل کیا ۔ حدیث میں بھی بہت دلچسپی رکھتی تھیں بہت سے علماء سے اجازت بھی حاصل کی اور محدثہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زندگی کے آخری حصہ میں مکہ میں رہائش پذیر ہوئیں اور ایک بڑی لائبریری کی بنیاد ڈالی ۔ بڑے بڑے علماء ان سے سند حدیث کے لئے رجوع کرتے تھے۔
    اور ماضی قریب میں علویۃ الحبشیہ کو علو سند میں جو مقام حاصل تھا وہ مردوں میں صرف عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی کو حاصل تھا یا ایک دو مرد انکے علاوہ تھے ۔ محترمہ علویہ سے کتب حدیث روایت کرنے والے بے شمار لوگ اب بھی دنیا میں زندہ موجود ہیں اور وہ سند کے اعتبار سے سب سے اعلى اسانید کے حامل ہیں ۔ یعنی عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی اور علویہ حبشیہ سے روایت کرنے والے لوگ اعلى اہل الارض اسناداً ہیں ۔ کہ انکے اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے مابین صحیح سند کے ساتھ باعتبارعشاریات ابن حجر 18 اور باعتبار عشاریات سیوطی 17 وسائط ہیں ۔
    اور بحمد اللہ تعالى میں بھی اجازۃ ان سے روایت کرتا ہوں ۔



    Last edited by lovelyalltime; 24 June 2012, 06:54.

  • #2
    Re: وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی است&#1575

    سبحان اللہ

    جزاک اللہ
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی است&#1575

      jazakAllah khair

      Comment


      • #4
        Re: وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی است&#1575

        جزاک الله خیر آج کے پر فتن دور میں جب خواتین کو اشتہار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ اسلام نے عورت کو کیا مقام عطا کیا ہے اور یہ لوگ اسے کہاں لے جارہے ہیں .
        یہ پوسٹ پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ بعض جاہل سمجھتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو گھر میں بند کرکے رکھا ہے اسلام نے عورت کو آزادی دی ہے مگر اس کے عزت وقار اور اس کی عظمت کے ساتھ .

        Comment


        • #5
          Re: وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی است&#1575

          Originally posted by lovelyalltime View Post


          وہ کون سی مشہور محدثات ہیں جو مردوں کی استاد ہیں


          سیدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہما حبیبہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم

          حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ جیسے فقہیہ و عالم صحابی حضرت عائشہؓ کے علم و فضل کے متعلق اپنا اور اپنے جیسے دوسرے ساتھیوں کا تجربہ بیان کرتے ہیں:

          '' ہم اصحاب رسول ؐ کو جب کبھی کسی حدیث کے معاملے میں کوئی مشکل پیش آئی اور ہم نے اسے حضرت عائشہؓ سے درےافت کیاتوان کے پاس اس کا علم پایا۔''
          (جامع ترمذی،کتاب المناقب باب من فضل عائشۃ ؓ :3883 )

          عمرۃ بنت عبدالرحمان

          ابن شہاب زہری ،قاسم بن محمد کو کہتے ہیں کہ میں تمہیں علم کا بہت حریص دیکھتا ہوں کیا میں تمہیں اس کے خزانے پر مطلع نہ کروں ؟ علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو جاؤ عمرۃ کے پاس۔ قاسم بن محمد کا کہنا ہے کہ عمرۃ کے پاس جاکر مجھے ایسا لگا کہ وہ کبھی نہ خشک ہونے والا سمندر ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء 508/4)
          تیسری صدی کی معروف محدثات :
          تیسری صدی میں عابدۃالمدینہ، ام عمر الثقفیۃ، زینب بنت سلیمان ، نفیسہ بنت حسن بن زید، خدیجہ ام محمد، عبدۃ بنت عبدالرحمان ،عباسہ امام احمد ابن حنبل کی اہلیہ اور دیگر بہت سی خواتین قابل ذکر ہیں جنہوں نے حدیث رسولؐ پر باقاعدہ لیکچرز دیے ، جن میں بڑے بڑے محدثین شامل ہو تے تھے ۔ عابدہ جو ایک سیاہ فام لونڈی تھیں لیکن افق حدیث کا چمکتا ہوا ستارہ بھی تھیں،جب محمد بن یزید نے انہیں حبیب بن الولید الدحون الاندلسی کو ہبہ کردیا تو وہ ان کے علم سے اتنا متاثر ہوئے کہ انہیں آزاد کرکے ان سے شادی کرلی
          اور اپنے ساتھ اندلس لے آئے جہاں پر وہ تقریباََ دس ہزار احادیث،
          امام دار الھجرہ مالک بن انس اور دیگر مدنی اساتذہ سے روایت کرتی رہیں اور یوں وہ یورپ میں فروغ تعلیمات نبویؐ کا باعث بنیں۔(المقتبس من أنباء الأندلس لابن حیان القرطبی 228/1)

          کریمۃالمروزيہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ صحیح بخاری کی روایت میں وہ يکتائے زمانہ تھیں ۔بڑے بڑے ائمّہ جن میں ابو بکر الخطیب البغدادی بھی شامل ہیں جو بغداد سے مکہ پہنچ کر کریمہ سے صحیح بخاری کا سماع کرتے ہیں ۔ ابوبکر بن منصور سمعانی کا کہنا ہے کہ میرے والد کریمہ کی علمی شخصیت سے بہت متاثر تھے ،وہ کہتے تھے کہ میں نے کریمہ جیسا کوئی نہیں دیکھا ۔(تاریخ اسلام للذہبی ،ت بشار 223/10)
          صحیح البخاری کی روایت میں مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمرکا نام بطور خاص لیا جاتا ہے ، جو طویل عرصہ تک دمشق اور مصر میں درس و تدریس کرتی رہیں اور جن کی روایت ِبخاری بھی بہت شہرت کی حامل ہوئی ۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 397/2)
          ام الخیر امۃ الخالق مدرسہ حجاز کی آخری راویہ صحیح بخاری تھیں۔ (شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 21/10)
          اسی طرح عائشہ بنت عبدالہادی بھی تدریس بخاری کے لےے ایک ممتاز مقام رکھتی تھیں۔(شذرات الذہب فی أخبار من ذہب 399/10)

          خواتین نے نہ صرف صحیح بخاری کی درس و تدریس اور روایت کا اہتمام کیا بلکہ دیگر کتب حدیث کی روایات اور درس و تدریس میں قابل ذکرحصہ ڈالا، اس سلسلے میں ام الخیر فاطمہ بنت علی بغدادیہ کا نام قابل ذکر ہے جو اپنے وقت کی مشہور راویہ صحیح مسلم تھیں ۔ (سیر اعلام النبلاء 265/19)
          ام ابراہیم فاطمہ الجوزدانیہ معجم للطبرانی کی روایت کیا کرتی تھیں۔(تاریخ اسلام ۔ت:تدمری 126/43)
          ام احمد زینب بنت المکی بن علی بن کامل الحرانی چورانوے سال تک زندہ رہیں،ان کے گرد طلبہ کا ہجوم رہتا ، مسند احمد کی روایت کیا کرتی تھیں(شذرات الذہب 607/7)
          ابن نقطہ نے اپنی کتاب التقیيد لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید (ص :497)میں ایسی بارہ خواتین کا ذکر کیا ہے جو اپنے اپنے دور میں کتب ِاحادیث کی روایت میں مشہور ہوئیں۔

          چوتھی صدی کی مشہور محدثات :
          چوتھی صدی میں فاطمہ بنت عبدالرحمان الحرانیہ ام محمد (تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 441/14)،
          ام سلمہ فاطمہ بنت أبی بکر بن أبی داود -سنن ابی داؤد کے مولف امام ابو داؤدسجستانی کی پوتی -(تاریخ بغداد،ط: العلمیۃ 442/14)
          امۃ الواحد بنت قاضی ابی عبداﷲ حسین بن اسماعیل المحاملی (تاریخ اسلام ، ت:بشار 437/8)
          ام الفتح امۃ السلام بنت القاضی احمد بن کامل بغدادیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 465/8)
          ام الحسین جمعۃبنت احمد المحیۃ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 634/16)
          فاطمہ بنت ہلال الکرجیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
          اور طاہرۃ بنت احمد ا لتنوخیہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 635/16)
          کے نام قابل ذکر ہیں جنہوں نے علم حدیث میں کمال پیدا کرکے لازوال نقوش چھوڑے ، انکے دروس میں بے شمار لوگ شریک ہوتے تھے ۔

          پانچویں صدی کی مشہور محدثات :

          پانچویں صدی میں مشہور صوفی حسن بن علی الدقاق کی بیٹی اور ابو قاسم القشیری کی زوجہ محترمہ فاطمہ نے بھی سند عالی کے لیے شہرت پائی جو ابو نعیم الاسفرائنی اور حاکم نیشاپوری سے حدیث روایت کرتی تھیں(تاریخ اسلام ، ت:بشار 457/10)
          اس کے علاوہ خدیجہ بنت محمد شاہجہانیہ (تاریخ اسلام ، ت:بشار 118/10)
          سُتَیْتَہ بنت قاضی ابن ابی عمرہ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 693/9)
          خدیجہ بنت البقال(تاریخ اسلام ، ت:بشار 636/16)
          اور جبرۃ السوداء (تاریخ اسلام ، ت:بشار 637/16)
          نے شہرت پائی ۔

          چھٹی صدی کی مشہور محدثات :

          چھٹی صدی میں ام البہاء فاطمہ بنت محمد مسندۃ اصفہان(تاریخ اسلام ، ت:بشار 716/11)
          ام الخیر فاطمہ بنت علی مسندۃ خراسان (تاریخ اسلام ، ت:بشار 576/11)
          مسندۃ الوقت خدیجہ بنت محمد(تاریخ اسلام ، ت:بشار 43/14)
          تجنی بنت عبداﷲ(تاریخ اسلام ، ت:بشار 550/12)
          اور شہدۃ بنت احمد مسندۃ العراق سند عالی کے لیے مشہور ہیں(التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والأسانیدص:105) ، شہدۃ جنہیں فخرالنساء کا خطاب دیا گیا ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد حاضر ہوا کرتی ، علو سند میں ان کی اس شہرت کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے انہیں اپنا استاد قرار دیا،ذکی الدین البرزالی نے ان کا مشیخہ آٹھ اجزاء میں مرتب کیا ہے ۔ (تاریخ بغداد ، ط: العلمیۃ394/15 نیز دیکھیے العمدۃ من الفوائد والآثار الصحاح والغرائب فی مشیخۃ شہدۃ)

          ساتویں صدی ہجری
          میں ام محمد زینب بنت احمد المقدسی (المتوفیہ 722 ھ ) نے طلبِ حدیث کی خاطر فلسطین سے مصر ، شام اور مدینہ کا سفر کیے ، زینب علماء سے علم حدیث حاصل کرنے اور اجازتِ حدیث لینے کے بعد جب مسندِ تدریس پر بیٹھیں تو دور دراز سے طلبہ سفر کرکے ان کے پاس سماع ِحدیث کے لیے کھنچے چلے آتے۔(ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید368/2)
          عائشہ بنت ابراہیم جو ابنۃ الشرائحی کے نام سے پہچانی جاتی ہیں انہوں نے بھی اس میدان میں کمال حاصل کرنے کے بعد مصر ، شام اور بعلبک وغیرہ میں درس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا ۔(التنبیہ والإیقاظ لما فی ذیول تذکرۃ الحفاظ، ص:109)
          عائشہ بنت محمدبن مسلم الحرانیہ جو سلائی کڑھائی کرکے اپنا پیٹ پالتی تھیں، کثرتِ روایت کے علاوہ بعض اجزاءِ حدیث کی روایت میں منفرد حیثیت رکھتی تھیں (ذیل التقیید فی رواۃ السنن والأسانید 382/2)۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر دمشق کے دوران726ھ میں جامع بنی امیّہ میں ان سے سماع حدیث کیا
          مسندۃ خراسان زینب بنت عبد الرحمن بن الحسن الاشعریہ ، جن کی وفات سند عالی کے انقطاع کا باعث بنی (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:501)
          عائشہ بنت معمر الاصبہانیہ مسند ابی یعلی کی روایت میں شہرت کی حامل تھیں مشہور محدث ابن نقطہ آپ کے شاگردوں میں سے تھے (التقیید لمعرفۃ رواۃ السنن والمسانید ، ص:449)
          مسندہء شام کریمہ بنت عبد الوہاب بھی ایک منفرد حیثیت کی حامل تھیں جنھیں روایت حدیث کے لےے بڑے بڑے علماء سے اجازت حاصل تھی ۔ اور وہ کبھی روایت حدیث سے اکتاتی نہیں تھیں(سیر اعلام النبلاء 92/23)
          زینب بنت عبد اللہ بن أسعد المکی کے دروازے پر ہمیشہ طلبہِ علم کا ہجوم رہتا(الاعلام للزکلی 66/3)
          شامیہ امۃ الحق متعدد اجزاء حدیث کی روایت میں منفرد تھیں (تاریخ اسلام ، ت : بشار 542/15)
          عجیبہ بنت محمد البغدادیہ نے اپنا مشیخہ دس اجزاء میں مرتب کیا(تاریخ اسلام ، ت : بشار 581/14)۔

          آٹھویں صدی ہجری : میں اسماء بنت محمد ابی المواہب ابن حصری ، امۃ العزیز بنت ذہبی ، فاطمہ بنت البرازلی ، اسماء بنت خلیل بن کیکلدی العلائی ، رقیہ بنت ابن دقیق العید ، زینب بنت ابن قدامہ المقدسی ، زینب بنت ابن جماعی الکنانی، ام البھائ، زینب بنت ابن العجمی ،ست النعم بنت العلامہ نجم الدین الحرانی ،ست الوزراء بنت عمر ابن منجاء ،ستیہ بنت تقی الدین السبکی ، ستیہ بنت نجم الدین الدمیاطی ، عائشہ بنت ابراہیم حافظ المزی کی اہلیہ ، عائشہ بنت عبداﷲ محب الدین الطبری کی پوتی ،لوزہ بنت عبداﷲمولاۃ ابن دقیق العید ، ست الرکب علی ابن حجر کی بہن ، زینب بنت عبداﷲتقی الدین ابن تیمیہ کی بھتیجی خاص طور پرقابل ذکر ہیں ۔ (الدررالکامنۃ فی أعیان المائۃ الثامنۃ)
          تاریخ ِدمشق کے مؤلف ابن عساکر اپنے مشیخہ میں 80 خواتین کا ذکر کرتے ہیں جن سے انہوں نے درس حدیث لیا۔ابو طاہر السلفی اپنی کتاب'' مشیخہ البغدادیہ ''''معجم السفر'' اور'' مشیخہ الاصبہانیہ'' میں اور ابوسعید السمعانی ''الخبیرفی المعجم الکبیر'' میں متعدد خواتین کو اپنے شیوخ میں شمار کرتے ہیں جن سے انہوں نے بطریق سماع یا اجازۃ روایت کی ۔ ''وفیات الاعیان'' کے مؤلف ابن خلکان زینب بنت اشعری م524ھ کے شاگرد رہے ۔ ابن بطوطہ کا شمار اگرچہ محدثین میں نہیں ہوتا لیکن شوق طلب حدیث میں متعددخواتین وحضرات اور خصوصاََزینب بنت احمد کمال
          م710ھ سے سماع کیا۔ نویں صدی کے مشہور محدث عفیف الدین جنید نے سنن دارمی کا درس فاطمہ بنت احمد قاسم سے لیا ۔نفیسہ بنت ابراہیم برزالی اور ذہبی کی استادرہیں،حافظ العرقی اور الھیثمی ست العرب بنت محمد البخاری کے شاگرد رہے ۔ (الاعلام للزرکلی 77/3)


          نویں صدی میں جس کثیر تعداد میں خواتین تعلیمات نبوی ؐ کے فروغ میں مصروف نظر آتی ہیں ، تعداد کے اعتبار سے یہ کثرت دوسرے ادوار میں نظر نہیں آتی ان میں سے جن خواتین نے بطور خاص شہرت پائی ان کا ذکر باعث طوالت ہوگا۔یہاں مثال کے طور پر سخاوی اور ابن حجر کی ایک ایک استاد کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے ۔ام ہانی مریم بنت عبد الرحمٰن الہورینیہ م871 ھ جنہیں ادب ، شعر اور خطاطی میں مہارت کے علاوہ حفظِ قرآن اور اسلامی علوم پر بھی عبور تھا۔ انہیں قاہرہ اور مکہ میں حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ انہوں نے باقاعدہ تدریس کے ساتھ حدیث میں اجازت نامے جاری کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مریم بنت احمد الاذرعی بھی اس میدان میں سند کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ ان کے اساتذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن حجر نے ان کی باقاعدہ ایک معجم مرتب کی، ان کے شاگرد وں کی تعداد بھی ان گنت ہے ۔(المجمع المؤسس 559/2،انباء الغمر 126/5)

          فاطمہ الفضیلیہ م 1247ھ ہیں ،جو بارہویں صدی کے اواخر میں پیدا ہوئیں ، ماہر خطاط تھیں خود اپنے ہاتھوں سے بہت سی کتب کو نقل کیا ۔ حدیث میں بھی بہت دلچسپی رکھتی تھیں بہت سے علماء سے اجازت بھی حاصل کی اور محدثہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ زندگی کے آخری حصہ میں مکہ میں رہائش پذیر ہوئیں اور ایک بڑی لائبریری کی بنیاد ڈالی ۔ بڑے بڑے علماء ان سے سند حدیث کے لئے رجوع کرتے تھے۔
          اور ماضی قریب میں علویۃ الحبشیہ کو علو سند میں جو مقام حاصل تھا وہ مردوں میں صرف عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی کو حاصل تھا یا ایک دو مرد انکے علاوہ تھے ۔ محترمہ علویہ سے کتب حدیث روایت کرنے والے بے شمار لوگ اب بھی دنیا میں زندہ موجود ہیں اور وہ سند کے اعتبار سے سب سے اعلى اسانید کے حامل ہیں ۔ یعنی عبد الرحمن بن الشیخ الحبشی اور علویہ حبشیہ سے روایت کرنے والے لوگ اعلى اہل الارض اسناداً ہیں ۔ کہ انکے اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے مابین صحیح سند کے ساتھ باعتبارعشاریات ابن حجر 18 اور باعتبار عشاریات سیوطی 17 وسائط ہیں ۔
          اور بحمد اللہ تعالى میں بھی اجازۃ ان سے روایت کرتا ہوں ۔



          اللہ ربّ العزت آپ کو خیرِ کثیر عطا فرمائے آمین۔

          Comment

          Working...
          X