نبی کریم ﷺ پر قاتلانہ حملے اور سازشیں
مولانا عبدالرحمن کیلانی ؒ
آپﷺ کازمانہ نبوت صرف ۲۳ سال ہے۔ جن میں سے ابتدائی تین سال تو انتہائی خفیہ تبلیغ کے ہیں۔ باقی بیس سال میں اس محسن انسانیت پر کم و بیش اٹھارہ دفعہ قاتلانہ حملے یا آپؐ کو ختم کرنے کے لئے سازشیں ہوتی رہیں۔
ان میں سے دس حملے یا سازشیں تو مشرکین مکہ سے تعلق رکھتی ہیں، تین یہود سے، تین بدوی قبائل سے، ایک منافقین سے اور ایک شاہِ ایران خسرو پرویز سے۔
لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کولوگوں سے محفوظ رکھنے کی ذمہ داری لے رکھی تھی لہٰذا دشمن کی ہر تدبیر ناکام ہوتی رہی اور بالآخر اللہ کی تدبیر ہی غالب ہوئی اور اسلام کو باقی تمام اَدیان پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ اسلام کے سارے دشمن مل کر بھی نہ اسلام کو ختم کرسکے اور نہ پیغمبر اسلام کو۔ دنیا کی تاریخ میں شاید آپ کو کوئی دوسری ہستی نہ مل سکے گی جس کو ختم کرنے کے لئے اتنی کثیر تعداد میں حملے اور سازشیں کی گئی ہوں۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی اس ذمہ داری کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپﷺ دشمنوں کے ہر طرح کے شر سے محفوظ و مامون رہے بلکہ آپؐ زندگی بھر ان کی طرف سے دکھ اور ایذائیں سہتے رہے، البتہ وہ آپؐ کو جان سے ختم نہ کرسکے، پھر اس ذمہ داری کی اطلاع بھی آپ کو زندگی کے آخری دور میں دی گئی۔ مندرجہ بالا آیات
سورہ مائدہ کی آیت ہے جو مدنی دور کی آخری سورتوں میں سے ہے اور ترتیب ِنزولی کے لحاظ سے اس کا نمبر ۱۱۲ ہے۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کو ہر موقع پر احتیاطی تدابیر سے کام لینا پڑتا تھا اور اذیت بھی برداشت کرنا پڑتی تھی۔
بعض اوقات آپؐ کو دشمن کے مذموم ارادہ کی اطلاع بذریعہ وحی ہوجاتی تھی او رجب اس سے بچائو اور مدافعت آپ کے بس سے باہر ہوتی تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد شامل ہوجاتی اور آپ ؐ کی جان کے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی ذریعہ پیدا ہوجاتا تھا۔ذیل میں ایسے واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
1۔ آپﷺ کی جان بچانے والے کی شہادت
(۱۵:۹۴) (آپ ؐ کو جوحکم دیا جاتا ہے، وہ کر گزرئیے)
نازل ہوئی تو آپؐ نے حرمِ کعبہ میں جاکر توحید کا اعلان فرمایا۔ اس وقت تک مسلمانوں کی تعدادچالیس ؍پینتالیس سے زیادہ نہ تھی او ر وہ چھپ چھپا کر و قت گزار رہے تھے۔ کفار کے نزدیک آپؐ کا یہ اعلان مشرکین مکہ کی سب سے بڑی توہین کے مترادف تھا۔ چنانچہ دفعۃً ایک ہنگامہ بپا ہوگیا اور ہر طرف سے لوگ آپؐ پر پل پڑے۔ آپؐ کے ربیب (حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے خاوند سے بیٹے) حارث بن ابی ہالہ گھر میں موجود تھے۔ انہیں خبر ہوئی تو دوڑتے ہوئے آئے اور آپؐ کو بچانا چاہا۔ اب ہر طرف سے ان پر تلواریں پڑنے لگیں اور وہ شہید ہوگئے۔ اسلام کی راہ میں یہ پہلا خون جو بہایا گیا۔(۱)
2۔ ابوجہل کا ارادہ قتل
یہ واقعہ مختصراً یوں ہے کہ ایک دن ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ
اس کے ساتھیوں نے کہا:
اس تجویز کے مطابق ابوجہل ایک بھاری پتھر لے کر کعبہ میں پہنچا اور مناسب موقع کا انتظار کرنے لگا۔ چنانچہ جب آپؐ سجدہ میں گئے تو ابوجہل پتھر لے کر آپؐ کے قریب پہنچا۔ مگر یکدم خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹنے لگا۔ اس کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور وہ پتھر کو بھی مشکل ہی سے نیچے رکھ سکا۔ اس کے ساتھی بڑے متعجب تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے پوچھا:
3۔ عقبہ بن ابی معیط کا ارادہ قتل
عقبہ بن ابی معیط ہر وقت اس تاک میں رہتا تھا کہ آپؐ کا گلا گھونٹ کر آپؐ کا کام تمام کردے اور ایسا موقعہ مشرکین کو اس وقت میسر آتا تھا جب آپؐ کعبہ میں نماز ادا کر رہے ہوں۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ مشرکین مکہ نے رسول اللہﷺ کو جو سخت ایذا پہنچائی وہ کیا تھی؟ تو انہوں نے اپنا چشم دید واقعہ یوں بیان کیا کہ
آپؐ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر آپؐ کے گلے میں ڈال کر اسے اس قدر بل دیئے کہ آپؐ کا کلا گھٹنا شروع ہوگیا۔ آنکھیں باہر آئیں ا ور قریب تھا کہ آپؐ کا کام تمام ہوجاتا
کہ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ آن پہنچے انہوں نے زور سے عقبہ کو پرے دھکیل کر آپؐ کو چھڑا دیا اور فرمایا۳)
تو مشرکین حضرت ابوبکرؓ پر حملہ آور ہوگئے اور جب حضرت ابوبکرؓ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔(۴)
4۔ حضرت عمرؓ کا ا سلام لانے سے قبل آپؐ کے قتل کاارادہ
ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھے پیغمبر اسلامؐ کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غوروفکر کر رہے تھے کہ حضرت عمرؐ جوش میں آکر کہنے لگے کہ میں ابھی جاکر یہ جھنجٹ ختم کئے دیتا ہوں۔ چنانچہ ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ؓملے، انہوں نے پوچھا:
حضرت عمرؓ نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی اور حضرت خبابؓ بن ارت انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ آپؐ نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو حضرت عمرؓ نے بے تحاشا اپنے بہنوئی کو پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آگئیں تو اسے بھی مار مار کر لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں:
بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے: اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن سننے کے بعد آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارِارقم کی طرف چل پڑے۔ گو تلوار بدستور گردن میں حمائل تھی مگر ارادہ بدل چکا تھا۔ دارِارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر تلوار سنبھالے دروازے پر کھڑے ہیں۔ جس سے مسلمان کچھ سہم گئے۔ حضرت حمزہؓ وہاں موجود تھے۔ کہنے لگے کہ دروازہ کھول دو۔ اگر عمر کسی برے ارادے سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سرقلم کردوں گا۔ چنانچہ دروازہ کھول دیا گیا۔ رسول اللہﷺ خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا۔
حضرت عمرؓ نے بڑے ادب سے کہا کہ اسلام (۵)لانے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ چنانچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ پڑھا۔ تو سب مسلمانوں نے نعرہ ٔ تکبیر بلند کیا۔ گویا حضرت عمرؓ کاارادہ قتل ہی آپؐ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔
Comment