نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےنعلین مبارک اورشرعی حیثیت
امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :
اس کے بعد آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے بالوں کے بغیر چمڑے کی دو پرانی جوتیاں پیش کیں جن پر دو پٹیاں تھیں پھر فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک ہیں ۔ ( صحیح بخاری ، فرض الخمس : 3107 )
اس قسم کے جوتے میں پاؤں کا اکثر حصہ کھلا رہتا ہے چنانچہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں یا جرابوں پر مسح کرتے وقت اپنے پاؤں جوتوں سے نہیں نکالتے تھے بلکہ جوتوں سمیت مسح کر لیتے تھے ۔ ( سنن ابن ماجہ : الطہارہ : 559 ) بلکہ جوتے اتارے بغیر پاؤں بھی دھو لیتے تھے ۔ ( صحیح بخاری ، الوضوء: 166 )
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر آپ کا جوتا ہمارے ہاں ہوائی چپل کی طرح ہوتا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نبوت 23 سال پر محیط ہے ، اس دوران آپ نے کئی جوتے استعمال کئے ہوں گے چنانچہ احادیث میں مختلف جوتوں کی تفصیل ملتی ہے لیکن جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے وہ یہی ہے جو ہوائی چپل کی طرح تھا چنانچہ حضرت قتادہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کیسے تھے تو انہوں نے ایک پرانا جوتا نکال کر دکھایا جس کے اوپر دو پٹیاں تھیں اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جوتے ہیں ۔ ( صحیح بخاری ، اللباس : 5858 ) بعض روایات میں ہے کہ وہ گائے کے چمڑے کے تھے اور انہیں پیوند لگا ہوا تھا ۔ ( مسند امام احمد ص 6ج 5 ) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوران نماز اتار دیا ، سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوران نماز بتایا کہ انہیں گندگی لگی ہوئی ہے لہٰذا میں نے انہیں اتار دیا ۔ ( مستدرک حاکم ص 260 ج 1 ) بہرحال یہ نعلین سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں اور انہیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ ان کے پاس ہی رہنے دیا گیا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ عمر کے آخری حصہ میں دمشق چلے گئے تھے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہوگئیں ، احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی ذاتی اشیاءبہت کم تعداد میں موجود تھیں ، امام بخاری نے اپنے عنوان میں جن ذاتی اشیاءکا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں زرہ ، عصا ، تلوار ، پیالہ ، انگوٹھی ، موئے مبارک ، نعلین اور چند ایک برتن ، پھر جو احادیث اس عنوان کے تحت ذکر کی ہیں ان میں صرف پانچ چیزوں کا ذکر ہے پہلی میں انگوٹھی ، دوسری میں نعلین ، تیسری میں چادر چوتھی میں پیالہ پانچویں میں تلوار ، باقی اشیاءیعنی زرہ ، موئے مبارک ، چھڑی اور عصا کے متعلق دوسرے مقامات پر احادیث ذکر کی ہیں ، ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاءاور آثار شریفہ بابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا شرعاً جائز ہے
لیکن اس تبرک کیلئے دو شرائط ہیں :
1 تبرک لینے والا شرعی عقیدہ اور اچھے کردار کا حامل ہو ، جو شخص عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے اچھا مسلمان نہیں اسے اللہ تعالیٰ اس قسم کے تبرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے ۔
2 جو شخص تبرک حاصل کرنا چاہتا ہو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی آثار میں سے کوئی شئی حاصل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے محض دیکھ لینے سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا ، لیکن ہم یہ بات بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے آثار شریفہ اور تبرکات معدوم ہو گئے یا جنگوں اور فتنوں کی نذر ہو کر ضائع ہو گئے جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے ۔
( الف ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا رکھی تھی جسے آپ پہننے تھے ، آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے استعمال کیا ، ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی بالآخر بئر اریس میں گر گئی اور تلاش بسیار کے باوجود وہ نہ مل سکی ۔ ( صحیح بخاری ، اللباس : 5879 )
( ب ) عباسی دور کے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رداءمبارک اور چھڑی جس سے آپ کھجلی کیا کرتے تھے ، ہنگاموں میں ضائع ہوگئیں ، یہ سن 656 کے واقعات ہیں ۔
( ج ) دمشق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک بھی نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہو گئی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے ۔
( د ) آپ کے آثار شریفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ تھی کہ جس خوش قسمت انسان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نشانی تھی اس نے وصیت کر دی کہ اسے قبر میں اس کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے چادر تیار کی اور آپ کو بطور تحفہ پیش کی ۔ آپ نے اسے قبول کرتے ہوئے زیب تن فرمایا ، لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کے پیش نظر کہ وہ آپ کا کفن ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر مانگ لی ۔ بالآخر وہ چادر ان کا کفن بنی ۔ ( صحیح بخاری ، الجنائز : 1277 ) اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قمیص رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنایا گیا ، اسے بھی بطور کفن قبر میں دفن کر دیا گیا ۔ ( صحیح بخاری ، الجنائز : 1270 )
پھر اس نقش نعل کے متعلق لکھا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھنے والے کو مندرجہ ذیل برکات حاصل ہوں گی ۔
1 سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی ۔
2 اس کو اپنے پاس رکھنے سے شیطان کے شر سے حفاظت ہو گی ۔
3 اس کو آنکھوں پر رکھنے سے امراض چشم سے نجات حاصل ہوگی ۔
4 گنبد خضراءکی حاضری نصیب ہوگی ۔
5 اس کو اپنے پاس رکھنے سے ظالموں کے ظلم سے نجات حاصل ہوگی ۔
6 اس کے واسطہ سے دعا مانگی جائے تو پوری ہوگی ۔
7 ہر قسم کے جادو ٹونے سے حفاظت ہوگی ۔
8 اس کو اپنے پاس رکھنے سے ہرحاسد کے حسد و نظر بد سے حفاظت ہو گی ۔
9 جس کشتی میں ہو وہ نہ ڈوبے اور جس گھر میں ہو چوری سے محفوظ ہے ۔
نوٹ : یہ فضائل اس صورت میں حاصل ہوں گے جب نیت درست اور یقین کامل ہو ۔
ہمارے نزدیک نقش نعلین کے مذکورہ فضائل و مناقب خودساختہ اور بناوٹی ہیں ، احادیث میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا ، حضرت انس رضی اللہ عنہ جو نعلین کے نگران تھے ، ان سے کچھ بھی منقول نہیں ہے ، بلکہ ہمارے نزدیک یہ تمام نقش ہی جعلی اور بناوٹی ہیں ، خاص طور پر درمیان میں بڑا جوتا جو دور حاضر کی سوفٹی کی شکل پر تیار کیا گیا ہے ، اس کے بناوٹی ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش کی تصویر بنانے میں چنداں حرج نہیں ، اگر کوئی محبت کے پیش نظر ایسا کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ پاپوش کی اصلیت اور حقیقت سے واقف ہو ، لیکن اس نقش سے برکت حاصل کرنا اور اسے باعث فضیلت قرار دینا کسی صورت میں بھی صحیح نہیں ہے جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں البتہ اصلی پاپوش مبارک اگر کہیں موجود ہے تو اس میں خیر و برکت کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی جیسا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے جو انہیں فضل بن ربیع کے کسی لڑکے نے عنایت فرمائے تھے ۔ آپ ان بالوں کو بوسہ دیتے ، آنکھوں پر لگاتے اور پانی میں بھگو کر شفا کے طور پر اس پانی کو نوش کرتے ، جن دنوں آپ پر آزمائش آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہوتے تھے ، بعض لوگوں نے آپ کی آستین سے موئے مبارک نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے ۔ ( سیر اعلام النبلاءص250ج11 )
آخر میں ہم اس امر کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کے آثار شریفہ سے تبرک حاصل کیا اور آپ کے لعاب دھن کو اپنے چہروں اور جسموں پر ملا ۔ آپ نے انہیں منع نہیں فرمایا ایسا کرنا جنگی حالات کے پیش نظر انتہائی ضروری تھا مقصد یہ تھا کہ کفار قریش کو ڈرایا جائے اور ان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا جائے کہ مسلمانوں کا اپنے رہبر و راہنما سے تعلق کس قدر مضبوط ہے ، انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر والہانہ عقیدت و محبت ہے وہ آپ کی خدمت میں کس قدر فنا ہیں اور وہ کس کس انداز سے آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے چھپایا جا سکتا ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے حکیمانہ انداز میں اور لطیف اسلوب کے ساتھ مسلمانوں کی توجہ اعمال صالحہ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش فرمائی جو اس قسم کے تبرکات کو اختیار کرنے سے کہیں بہتر ہیں ، مندرجہ ذیل حدیث اس سلسلہ میں ہماری مکمل راہنمائی کرتی ہے ۔
ابوقراءسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو فرمایا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنا شروع کر دیا ، آپ نے دریافت فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ بات کرتے ہوئے سچ بولے ، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اسے ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرے ۔ ( الاحادیث الصحیحہ : رقم 2998 )
مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ کے ذریعے اللہ کی طرف سے ملا ہے اس پر عمل کیا جائے اور آپ کی صورت و سیرت کی اتباع کی جائے تو اس دنیا و آخرت کی خیر و برکات سے ہم مشرف ہوں گے ،
اب ہم سوالات کے مختصر جوابات دیتے ہیں ۔
1 کارڈ پر شائع کردہ تصاویر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاپوش مبارک کی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے ۔
2 اس میں جو فضائل و مناقب درج کئے گئے ہیں وہ حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں ، بلکہ یہ خود ساختہ ہیں ، ان سے عقیدہ کی خرابی لازم آتی ہے ۔
4 ایسے کارڈ پر دعوت نامہ بنا کر تقسیم کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بدعات کی اشاعت ہوتی ہے ۔
5 جس عالم دین نے ثواب سمجھ کر اس کی اشاعت کی ہے ، اس کا یہ اقدام انتہائی محل نظر ہے ۔ واللہ اعلم
Comment