نماز میں سلام کا جواب
نماز میں سلام کا جواب صرف ہاتھ کے اشارہ سے دیا جاسکتا ہے چونکہ نماز میں کلام نماز کو باطل کردیتا ہے اس لئے نمازی کا ہاتھ کے اشارہ سے جواب دے دینا ہی کافی ہے یا پھر نماز سے فارغ ہوکر جواب دے دیا جائے۔
= عبداللہؓ کہتے ہیں کہ:
" کنا نسلم علی النبی! وھو في الصلاة فیرد علینا من عند النجاشی سلمنا علیہ فلم یرد علینا وقال " إن فی الصلاۃ شغلا"
= حضرت صہیبؓ سے روایت ہے کہ میں نبیؐ کے پاس سے گزرا آپؐ نماز اداکررہے تھے میں نے سلام کیا تو آپؐ نے سلام کا جواب انگلی کے اشارے سے دیا۔ (صحیح ابوادود:۸۱۸)
غسل ِ واجب میں وضو شامل ہے
غسل ِ واجب کے بعد دوبارہ وضو کرنا ضروری نہیں کیونکہ وضو اسی غسل میں شامل ہے یا اگر نواقض وضو میں سے کوئی عارضہ لاحق ہوجائے ، مثلاً شرمگاہ کو ہاتھ لگ جانا وغیرہ تو غسل کے بعد نماز کے لئے وضو کرنا ضروری ہوگا۔
= حضرت میمونہؓ آپؐ کے غسل جنابت کا طریقہ یوں بیان کرتی ہیں:
= حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
ملحوظہ:
= غسل کرتے ہوئے سر کو پہلے دائیں اور پھر بائیں سے دھونا مسنون ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
" فبدأ بشق رأسہ الأیمن ثم الأیسر"
= عورت کے لئے ضروری نہیں کہ وہ اپنی مینڈھیاں کھولے بلکہ اگر وہ گندھے ہوئے بالوں پرہی پانی انڈیل لیتی ہے تو اس کی اجازت ہے۔ حضرت اُم سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے نبیؐ سے پوچھا کہ میں سر پر سختی سے مینڈھیاں باندھنے والی عورت ہوں توکیا غسل جنابت کے لئے میں اس کو کھول لیا کروں۔ آپؐ نے فرمایا:
" لا إنما یکفیک أن تحثی علی رأسک ثلاث حثیات ثم تفیضین علیک الماء فتطھرین "
اَوقات نماز
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر دن رات میں پانچ وقت نماز فرض کی ہے اور اسی طرح ہر نماز کو بھی اس کے وقت پر پڑھنے کا حکم فرمایا جیساکہ اس کا ارشاد ہے:
" إنَّ الصَّلوة کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا"
پانچوں نمازوں کا ابتدائی وقت
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں:
" فصلی الظہر حین زالت الشمس وکان الفئ قدر الشراک ثم صلی العصر حین کان الفئ قدر الشراک وظل الرجل ثم صلی المغرب حین غابت الشمس ثم صلی العشاء حین غاب الشفق ثم صلی الفجر حین طلع الفجر"
مندرجہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ:
ظہر: جب جوتے کے تسمہ کے برابر زوال کا سایہ پہنچ جائے
عصر: جب آدمی کے برابر سایہ پہنچ جائے
مغرب: سورج غروب ہونے پر
عشاء: سرخی غائب ہونے پر
فجر : طلوع فجر سے
پانچوں نمازوں کا اول و آخر وقت
٭ حضرت ابوہریرؓہ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
" للصلاة أولاً وآخراً وإن أول وقت صلاة الظہر حین تزول الشمس وآخر وقت حین یدخل وقت العصر وإن أول وقت صلاة العصر حین یدخل وقتھا وإن آخر وقتھا حین تصفر الشمس وإن أول وقت المغرب حین تغرب الشمس وإن آخر وقتھا حین یغیب الافق وإن أول وقت العشاء الآخرة حین یغیب الافق وإن آخر وقتھا حین ینتصف اللیل وإن أول وقت الفجر حین یطلع الفجر وإن آخر وقتھا حین تطلع الشمس "
٭ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا کہ حضرت جبرائیل ؑ نے کعبہ کے پاس دو مرتبہ نماز میں میری امامت کی۔
" فصلی الظہر فی الاولی منھما حین کان الفئ مثل الشراک،ثم صلی العصر حین کان کل شئ مثل ظلہ،ثم صلی المغرب حین وجبت الشمس وأفطر الصائم،ثم صلی العشاء حین غاب الشفق ثم صلی الفجر حین برق الفجر وحرم الطعام علی الصائم وصلی المرۃ الثانیۃ الظہر حین کان ظل کل شئ مثلہ لوقت العصر بالامس ثم صلی العصر حین کان ظل کل شئ مثلیہ،ثم صلی المغرب لوقتہ الاول ثم صلی العشاء الآخرة حین ذہب ثلث اللیل ثم صلی الصبح حین اسفرت الأرض ثم التفت إلیّ جبریل فقال یا محمد! ھذا وقت الانبیاء من قبلک والوقت فیما بین ھذین الوقتین "
سفر میں ظہر کی نماز ٹھنڈا کرکے پڑھنا
حضرت ابوذرغفاریؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبیؐ کے ساتھ سفر پر تھے مؤذن نے ظہر کی اذان کہنا چاہی :
فقال النبی! " أبرد" ثم أراد أن یوذن فقال لہ " أبرد " حتی رأینا فئ التلول فقال النبی! " إن شدة الحر من فیح جھنم فإذا اشتد الحرفابردوا بالصلاة "
عشاء کی نماز میں تاخیر
عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے۔ آپؐ نے اس کی ترغیب دلائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" لولا أن اشق علی أمتی لأمرتھم أن یؤخروا العشاء إلی ثلث اللیل أو نصفہ "
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے:
مکثنا ذات لیلة ننتظر رسول اﷲ لصلاة العشاء فخرج إلینا حین ذھب ثلث اللیل أو بعدہ فلا ندري أشئ شغلہ أم غیر ذلک فقال حین خرج: " أتنتظرون ھذہ الصلاة؟ لولا أن تثقل علی أمتي لصلیت بھم ھذہ الساعة " ثم أمر المؤذن فأقام الصلاة۔
ملحوظہ:
مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا افضل ہے جبکہ باقی نمازوں کا اپنے اول وقت میں پڑھنا افضل ہے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ میں نے نبیؐ سے افضل عمل کے متعلق پوچھا تو
فرمایا: " الصلاة في أول وقتھا "
عصرکا وقت معلوم کرنے کا طریقہ
٭ پہلا طریقہ:
ایک لکڑی لے کرزوال سے تھوڑی دیر پہلے سپاٹ زمین پر گاڑ دیں سایہ گھٹ رہا ہوگا،گھٹتے گھٹتے جب ایک جگہ رک جائے یہی زوال کا وقت ہے جو چند ثانیے تک رہتا ہے رکے ہوئے سایہ کی پیمائش کرلیں سایہ جب لکڑی کے برابر ہوجائے پیمائش کئے ہوئے فاصلے کو لکڑی کے برابر کے آئے ہوئے سایہ سے ملا کر نشان لگا لیں اب جب سایہ اس نشان پر پہنچے گا تو یہ ظہر کا آخری اور عصر کا اول وقت ہوگا اور ایک مثل ہوگا۔
٭ وسری طریقہ :
لکڑی کو گاڑ دیا جائے اور زوال کا سایہ جب رُک جائے تو اس لکڑی کو نکال کر سایہ کی انتہا پر گاڑ دیا جائے جب سایہ بڑھنا شروع ہو اور لکڑی کے مثل ہوجائے بس یہی عصر کا اول وقت ہے۔
ملحوظہ:
سایہ پیمائش کرتے ہوئے کسی بھی صورت میں زوال کا سایہ مثل میں شمار نہیں ہوگا۔
اوقات و مقامات مکروہہ
اَوقات
٭ حضرت عقبہ بن عامر جہنیؓ سے روایت ہے کہ:
" ثلاث ساعات کان رسول اﷲ! ینھانا أن نصلي فیھن،أو أن نقبر فیھن موتانا،حین تطلع الشمس بازغة حتی ترتفع،وحین یقوم قائم الظہیرة حتی تمیل وحین تضیف الشمس للغروب حتی تغرب"
٭ ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ :
" نہی رسول اﷲ! عن صلاتین: بعد الفجر حتی تطلع الشمس،وبعد العصر حتی تغرب الشمس"
لہٰذا مکروہ اوقات یہ ہوئے:
1۔نماز فجر کے بعد سے جب تک سورج اچھی طرح نکل نہ آئے
2۔زوال کے وقت
3۔عصر کی نماز کے بعد سے سورج جب تک غروب نہ ہوجائے
ملحوظہ:
٭ اگر کسی کی صبح کی سنتیں رہ گئی ہوں صرف اس کے لئے اجازت ہے کہ وہ پڑھ لے جیساکہ حضرت قیسؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے مجھے فجر کی نماز کے بعد نما زپڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا
" مھلا یا قیس اصلاتان معا"(صحیح ترمذی:۳۴۶)
اے ابا قیس! کیا تو دو نمازیں پڑھ رہا ہے۔ میں نے کہایارسول اللہؐ صبح کی دو سنتیں مجھ سے رہ گئی تھیں آپ ؐ نے فرمایا: " فلا إذن " (تب اجازت ہے)
٭ اسی طرح اگر نماز پڑھتے پڑھتے فجر اور عصر کے وقت سورج طلوع اور غروب ہوگیا اس کی باقی نمازدرست ہوگی۔ ابوہریرہؓ سے روایت ہے آپؐ نے فرمایا:
" من أدرک من العصر رکعة قبل أن تغرب الشمس فقد أدرک ومن أدرک من الفجر رکعة قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک "
٭ اسی طرح مسجد حرام ان ممنوعہ اوقات سے مستثنیٰ ہے اس میں دن رات کی کسی بھی گھڑی میں نمازاور کوئی دوسری عبادت کی جاسکتی ہے۔ حضرت جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا:
" یابني عبد مناف،لا تمنعوا أحدا طاف بہذا البیت وصلی اَیّة شاء من لیل أونہار "
مقامات
قبرستان اور حمام:
قبرستان اور حمام میں نبیؐ نے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" الارض کلھا مسجد إلا الحمام والمقبرة "
اونٹوں کے باڑا میں:
اونٹوں کے باڑ ا میں نماز پڑھنا منع ہے۔
حضرت براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ نبیؐ سے اونٹوں کے باڑا میں نما زپڑھنے کے متعلق پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا:
" لا تصلوا فی مبارک الابل "
تعداد رکعات فرائض و نوافل نماز پنجگانہ
فرائض:
ہر دن کی پانچ نمازوں کے فرائض کی تعداد 17 ہے جو کہ روایات اور امت کے عملی تواتر سے ثابت ہیں۔
سنت مؤکدہ:
اسی طرح نمازوں کے فرائض سے پہلے یا بعد کے نوافل جو آپؐ کی عادت اور معمول تھا کہ تعداد زیادہ سے زیادہ 12 ہے جس کی تاکید و ترغیب بھی آپ ؐ سے منقول ہے۔
حضرت اُم حبیبہؓ فرماتی ہیں:
" سمعت رسول اﷲ یقول: "من صلی اثنی عشرة رکعة فی یوم ولیلة بنی لہ بیت فی الجنة "
فجر:
تعداد رکعات :4 ( 2 نفل+ 2 فرض)
نوافل:
حضرت اُم المومنین حضرت حفصہؓ فرماتی ہیں کہ :
فرائض:
حضرت ابو برزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ آپؐ صبح کی نماز پڑھاتے:
" وکان یقرأ فی الرکعتین أو أحدھما ما بین الستین إلی المائة"
ملحوظہ:
آپ ؐ سے فجر کے فرائض سے پہلے دو رکعت نماز پرمداومت ثابت ہے جیساکہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
"أن النبیؐ لم یکن علی شيء من النوافل أشد معاہدة منہ علی رکعتین قبل الصبح"
ظہر:
ظہر کی زیادہ سے زیادہ رکعات 12 (2؍4 نفل+4 فرض+2؍4 نفل)
نوافل:
= حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ :
" کان یصلي فی بیتي قبل الظہر أربعا ثم یخرج فیصلي بالناس ثم یدخل فیصلي رکعتین "
= ابن عمرؓ فرماتے ہیں:
" صلیت مع النبيﷺ سجدتین قبل الظہر السجدتین بعد الظہر "
= حضرت اُم حبیبہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" من حافظ علی أربع رکعات قبل الظہر وأربع بعدھا حرم علی النار"
ملحوظ:
مذکورہ بالا روایات سے ظہر کی کم از کم 4 رکعات نوافل موکدہ ثابت ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
" أن النبی کان لا یدع أربعا قبل الظہر رکعتین قبل الغداة "
فرائض:
حضرت ابوقتادہ سے روایت ہے کہ
عصر:
کل رکعات8 (4 نفل +4 فرض)
نوافل:
= حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ :
" کان النبیؐ یصلي قبل العصر أربع رکعات"
حضرت ابوسعیدخدریؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
" کنا نحرز قیام رسولؐ اﷲ فی الظہر والعصر۔۔۔فحزرنا قیامہ فی رکعتین الاولیین من العصر علی قدر قیامہ فی الاخریین من الظہر وفی الاخریین من العصر علی النصف من ذلک "
ملحوظہ:
= عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات نوافل غیر موکدہ ہیں،کیونکہ اس پر آپؐ کا دوام ثابت نہیں۔البتہ آپؐ نے ان نوافل کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا:
" رحم اﷲ امرأ صلی قبل العصر أربعا "
= ظہر اور عصر کے پہلے چار چار نوافل کو دو دو رکعات کرکے پڑھنا بھی نبیؐ سے ثابت ہے جیسا کہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
" یصلي قبل الظہر أربعا وبعدھا رکعتین وقبل العصر أربعا یفصل بین کل رکعتین بالتسلیم "
مغرب:
کل رکعات 5 (3 فرض+ 2 نفل)
فرائض:
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے (سفر میں) مغرب اور عشاء اکٹھی کیں:
" فصلی المغرب ثلاثا ثم صلی العشاء رکعتین ثم قال ھکذا رسول اﷲیصنع فی ھذا المکان "
نوافل:
حضرت عائشہؓ نبیؐ کی فرض نمازوں سے پہلے اور بعد کے نوافل بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:
" وکان یصلي بالناس المغرب ثم یدخل فیصلي رکعتین "
ملحوظہ:
مغرب کی نما زسے پہلے دو رکعت نفل بھی آپؐ سے ثابت ہیں۔حضرت عبداللہ المزنی سے روایت ہے کہ
" أن رسول اﷲصلی قبل المغرب رکعتین "
لیکن یہ دو رکعت موکدہ نہیں ہیں۔ عبداللہ بن المزنی سے ہی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
" صلوا قبل صلاة المغرب" قال فی الثالثة " لمن شائ " کراھیة أیتخذھا الناس سنة "
عشاء:
عشاء کی کل رکعات کم ازکم ایک وتر کے ساتھ 7 (4فرض +2؍4نفل+1 وتر) ہیں
فرائض:
حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ سے اہل کوفہ کی شکایت کے بارے میں پوچھا کہ آپ ؓ نماز اچھی طرح نہیں پڑھاتے تو آپؓ نے جواب دیا:
" أما أنا واللہ فإنی کنت أصلی بہم صلاة رسول اللہ ما أخرم عنہا أصلی صلاة العشاء فأرکد فی الأولیین،وأخف فی الأخریین قال:ذاک الظن بک یا أبا إسحاق "
عشاء کے فرضوں کے بعد نبیؐ سے 2 اور 4 نوافل پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔
نوافل:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں:
= ابن عباسؓ فرماتے ہیں:ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہؓ کے گھر میں گزاری:
" فصلی رسول اﷲ العشاء ثم جاء فصلی أربع رکعات ثم نام"
ملحوظہ:
نبیؐ کے عام حکم کہ
" بین کل اذانین صلاة بین کل اذانین صلاة " ثم قال في الثالثة " لمن شائ "
ثابت ہوتا ہے کہ ہر نماز کی امامت سے پہلے دو رکعت نماز کی ترغیب ہے۔ لہٰذا اس مشروعیت کے مطابق عشاء کی نماز سے پہلے بھی دو رکعت نوافل ادا کئے جاسکتے ہیں۔
وتر کے بعد دو سنتیں پڑھنا آپؐ سے ثابت ہے جیسا کہ اُم سلمہؓ سے روایت ہے کہ:
" أن النبی کان یصلي بعد الوتر رکعتین "
وتر:
آپؐ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔
= حضرت ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
آپؐ کی قولی و فعلی احادیث سے ایک، تین، پانچ ،سات اور نو رکعات کے ساتھ وتر ثابت ہے۔
= حضرت ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
" الوتر حق علی کل مسلم فمن أحب أن یوتر بخمس فلیفعل ومن أحب أن یوتر بثلاث فلیفعل،ومن أحب أن یوتر بواحدة فلیفعل "
+ حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں:
وتر پڑھنے کا طریقہ:
1۔تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔
1۔تین وتر پڑھنے کے لئے دو نفل پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک وتر الگ پڑھ لیا جائے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :
" کان یوتر برکعة وکان یتکلم بین الرکعتین والرکعة"
2۔پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں بیٹھ کر سلام پھیرا جائے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
" کان رسول اﷲ! یصلي من اللیل ثلاث عشرة رکعة یوتر من ذلک بخمس لا یجلس فی شیئ إلا فی آخرہا"
3۔ سات وتر کے لئے ساتویں پر سلام پھیرنا۔حضرت عائشہؓ سے ہی روایت ہے۔ حضرت اُم سلمہؓ فرماتی ہیں کہ:
4۔ نو وتر کے لئے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھا جائے اور نویں رکعت پر سلام پھیرا جائے۔ حضرت عائشہؓ نبیؐ کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:
Comment