Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حقیقت وحدت الوجود

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حقیقت وحدت الوجود

    فلسفہ وحدۃ الوجود

    ۔۔۔۔۔وحدۃ الوجود کی حقیقت کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی تصور یا نظریہ کے بارے میں حقیقی مؤقف جاننے کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں ایک یہ کہ مذکورہ نظریہ کو ماننے والوں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے یا کیا تعبیرات اور تشریحات و توضیحات ہیں اور دوسرا یہ کہ اس نظریہ پر مخالفین کی کیا رائے ہے اور وہ کیا الزام تراشی کرتے ہیں؟ اس کی مثال میں عموما یوں دیا کرتا ہوں کہ اسلام دشمن اکثر اسلام کو دہشت اور بربریت کا مذہب قرار دیتے ہیں (اورایسا وہ ہمارے اندر ہی موجود بعض کج فہم عناصر کی وجہ سے کرتے ہیں ) جبکہ مسلمان مسلسل اپنی صفائیاں پیش کرتے نہیں تھکتے ۔ ہر بالغ نظر اور عقلمند شخص جب صحیح نتیجے تک پہنچنے کے لیے غیر جانبداری سے حقائق کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ اسلام دشمن منفی پروپگینڈہ کرنے والے عناصر کی باتوں پر کان دھرنے کی بجائے صحیح اسلامی تعلیمات سے سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اصل اسلامی ماخذات کا مطالعہ کرئے ۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص افغانستان میں موجود کسی نام نہاد جہادی تنظیم کے کارکنوں سے ملنے کے بعد ان ہی کے خیالات کو اصل اسلامی تعلیمات کی روح قرار دے ۔جب بھی ہم کسی مکتبہ فکر کے نظریات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس مکتبہ فکر مسلمہ پیشواؤں کے مستند بیانات کو سامنے رکھیں لیکن بدقسمتی سے بریلوی مکتبہ فکر کے ساتھ عام طور پر یہ زیادتی کی جاتی ہے کہ عموما صاحب مزار کی مرقد پر ہونے والی تمام خرافات کو بریلوی مسلک کے اکابرین کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے (حالانکہ حقیقت میں اس مسلک کے اکابرین نے سختی سے اس قسم کی تمام بدعات کی تردید کی ہے)اور ایسا کرنا کسی بھی مکتبہ فکر کے ساتھ ظلم ہے ۔
    خیر اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ مسئلہ وحدۃ الوجود بڑا ہی دقیق اور فلسفیانہ بحث کا متقاضی ہے اور ہمارا علم ہر گز اتنا نہیں ہے کہ ہم اس مسئلہ کی وضاحت یہاں مکمل طور پر پیش کرسکیں مگر ہرچند ہم اپنی سی کوشش ضرور کریں گے کہ اس مسئلہ کی غلط توضیحات پیش کرکے جس طریقے سے حقیقی تصوف سے لوگوں کے ذھنوں کو پرانگندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ہم اپنے ناقص علم پر مبنی توضیحات کے زریعے لوگوں کے زہنوں پر پڑھنے والی اس گرد کا کسی نہ کسی حد تک ازالہ کرسکیں ۔باقی ہمیں اپنی علمی بے بضاعتی کا حقیقی ادراک ہے لہذا ہم علماء کرام ہی کی کتب کو سامنے رکھتے ہوئے ان سب ی اس مسئلہ پر گفتگو کو اپنے الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کریں گے ۔


    وحدۃ الوجود( ماخوذ از جمال السنہ از جہانگیر)


    اللہ پاک کی زات پر ایمان رکھنا تمام انبیاء کی بنیادی تعلیمات کا جز رہا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا مرکزی موضوع بھی یہی تھا جب اسلامی سلطنت نے عجمی خطوں کو اپنے زیر نگیں کیا تو وہاں کے سابقہ افکار و نظریات نو مسلم معاشروں پر اثر انداز ہوئے جس کے نتیجے میں نت نئے فرقوں نے جنم لینا شروع کیا اور یوں پھر اسلامی تعلیمات کی نت نئی تعبریات اور تشریحات پیش کی جانے لگیں اوراس میں سب سے زیادہ ہاتھ یونانی فلسفہ کا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی مفکرین نے ان نت نئی تعبریات کا جواب دینے کے لیے ایک باقاعدہ فن ایجاد کیا جس کا نام علم الکلام رکھا گیا ۔اس فن میں بطور خاص الٰہیات اور عمومی طور پر تمام اسلامی عقائد کے بارے میں جزوی نکات کو فلسفہ اور عقل و منطق کی بنیادوں پر موضوع بحث بنایا گیا تاکہ یونانی فلسفہ و فکر کے حاملین لوگوں کے تمام قسم کے شکوک وشبہات کا عقلی دلائل اور خود اسلامی فلسفہ کی روح قلع قمع کیا جاسکےآج بھی اگر آپ علم الکلام کی مستند کتابوں کا مطالعہ کریں تو اس میں آپکو بہت سے ایسے زیلی مباحث ملین گے کہ جو ہماری اور آپکی سمجھ کے اوپر سے گذر جائیں گے
    (جیسے علم الکلام کی امھات کتب شرح مواقف، شرح مقاصد ،شرح عقائد مع خیالی وغیرہ) اسی طرح اگر آپ علم فقہ کی کسی کتاب کا مطالعہ کریں تو اس میں بھی آپ کو بہت سے ایسے ذیلی مباحث ملیں گے جو کہ صراحت کے ساتھ قرآن سنت میں مذکور نہ ہونگے اسی طرح علم حدیث اور علم اصول حدیث کے بارے میں بھی بہت سے ایسے ذیلی مباحث ہیں جو کہ بعد کے زمانوں میں ضبط تحریر میں لائے گئے اور انکا ابتدائی دو صدیوں میں کوئی وجود نہیں ملتا ۔
    دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہی فلسفہ اسلامی علوم وفنون میں شامل ہوچکا تھا اور اس کا موضوع بحث کیا تھا ؟ اور کن صدیوں میں یہ کون سے مراحل سے گزرتا رہا یہ ایک طویل بحث ہے لیکن سردست ہمارا موضوع سخن چھٹی صدی ہجری کے مشہور صوفی اور فلسفی شیخ اکبر ابن عربی کا پیش کردہ فلسفہ وحدۃ الوجود ہے کیونکہ آجکل اکثر جہلاء اس فلسفے کے حقیقی فہم کا ادراک نہ ہونے کے باعث اپنی کج فہمی سے اسی وحدۃ الوجود کی آڑ میں نفس تصوف پر زبان طعن دراز کرتے ہیں ۔
    برصغیر پاک و ہند میں چار بڑے مکاتب فکر موجود ہیں دیو بند ، بریلوی ، اہل حدیث اور شیعہ ان میں سے دیو بند اور بریلوی ابن عربی کو کامل صوفی اور عارف تسلیم کرتے ہیں دیوبند کے مشھور عالم دین علامہ اشرف علی تھانوی صاحب نے ابن عربی کی حمایت میں دو مستقل کتابیں بھی تصنیف کی ہیں (جنکا نام سردست ہمارے ذہن سے اتر گیا ہے)جبکہ صرف اہل حدیث یعنی غیر مقلدین فرقے سے تعلق رکھنے والے حضرات ابن عربی کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات پیش کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ بعض جدت پسند مفکرین جیسے امین اصلاحی اور ان جیسے دیگر نے بھی تصوف اور ابن عربی دونوں کو مورود الزام ٹھرایا ہے ۔یہ وہ مہربان ہیں جو کہ خود کو توحید کا ٹھیکدار سمجھتے ہیں اور انکے فہموں میں توحید بس وہی ہے جو انکو اور انکی جماعت کے بڑوں کی سمجھ میں آئی ہے۔
    انیسویں صدی کے ممتاز محقق، علم منطق و حکمت کے امام علامہ فضل حق خیر آبادی نے نظریہ وحدۃ الوجود کے اثبات میں ایک مختصر رسالہ تصنیف کیا
    (یاد رہے کہ مشھور شاعر مرزا غالب کو بھی علامہ سے خصوصی شغف تھا)جو کہ اپنی مثال آپ ہے ان سے پہلے ہندوستان کی غیر متنازعہ شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ رحمہ نے بھی اپنی کتابوں میں شیخ اکبر ابن عربی کی توصیف کی ہے اور ان سے بھی پہلے حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ
    (کہ جن سے علامہ اقبال کو خصوصی انس تھا اقبال کے بیٹے جاوید اقبال اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ میرے والد میری پیدائش سے پہلے سرہند گئے اور حضرت مجدد کے مزار پر فاتحہ خوانی کے بعد دعا کی کہ اگر اللہ پاک نے مجھے فرزند عطا کیا تو اس کو ساتھ لیکر آپ کی بارگاہ میں حاضری دوں گا اور جب پھر میں پیدا ہوا اور میری عمر گیارہ برس ہوئی تو ابا جان مجھے شیخ مجدد کے مزار پر حاضری کے لیے لے گئے ) نے بھی ابن عربی کو مقبولان بارگاہ الٰہی میں سے قرار دیا ہے ۔ لیکن سلفی کہلانے والے حضرات ہمارے یہ مہربان لاشعوری طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ توحید کے بارے میں حرف آخر وہی ہے جو کہ یہ سمجھتے ہیں ۔اور ہمارے برصغیر میں پائے جانے والے اس طبقے کی علم کم مائگی کا یہ عالم ہے کہ سابقہ پچاس یا سو برس کے دوران لکھی جانے والی اردو کتابوں پر اعتماد کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے توحید کا علم حاصل کرلیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ انھوں نے جن مصنفین کی تحریرات پر اعتماد کرتے ہوئے توحید کا علم حاصل کیا اگر آپ کبھی انکے شخصی احوال کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت آپ پر منکشف ہوگی کہ انھوں نے بھی کبھی تحقیق کی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ اپنے ہی بڑوں کے خیالات کو الفاظ کی تقدیم و تاخیر کے ساتھ نقل کردیا ہے ۔
    شیخ اکبر وحدۃ الوجود سے کیا معنٰی و مفھوم لیتے ہیں اس کا ایک عکس تو ہم اپنی پچھلی رپلائی میں پیش کر چکے ہیں رہ گیا یہ تصور کہ شیخ کے نزدیک اس تصور کے کیا کیا خدوخال ہیں اور اسکا حقیقی معنی و مفھوم شیخ کے نزدیک کیا ہے تو اس کا حقیق ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں کیونکہ ہمارا مبلغ علمی اتنا زیادہ نہیں ہے مگر تاہم ایک تیسرے درجے کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے ہم اس نظریہ کے امکانی پہلوؤں کا جائزہ پیش کرسکتے ہیں ۔
    اور وہ یہ ہے ہے کہ اللہ پاک نے کائنات کو پیدا کیا اور یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس کائنات کو کہاں پیدا کیا گیا ؟ اس کی ایک امکانی صورت بالفرض محال یہ ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک کا وجود (نعوذ باللہ ) محدود تھا کہ جس کہ پرے کچھ خلاء موجود تھا اور وہاں اس کائنات کو پیدا کیا گیا ۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟یقینی طور پر نہیں کیونکہ محدود ہونا مخلوق کی خصوصیت ہے اور اللہ کی زات اس سے پاک ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب آپ کائنات کو محدود قرار دیتے ہیں اور اللہ پاک اور کائنات دونوں کو مستقل طور پر موجود مانتے ہیں تو تو اس کا بالواسطہ مطلب یہ ہوگا کہ ایک مقام ایسا ہے کہ جہاں آکر کائنات ختم ہوجاتی ہے اور وہاں سے پھر اللہ پاک کا وجود شروع ہوجاتا ہے (معاذاللہ)۔
    دوسرا امکان بالفرض محال یہ ہے کہ*آپ اس کائنات کو ایک دائرہ فرض کرلیں پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیا اس کے چاروں طرف اللہ پاک موجود ہے یعنی اس کا وجود ہے اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خود اللہ پاک کے وجود کے اندر ایک خلاء موجود ہے (نعوذباللہ)
    اور اس خلاء کے ہی اندر کائنات کو پیدا کردیا گیا جس طرح ہمارے وجود میں بہت سے خلاء ہیں اور ان میں پیدا ہونے والی ممکنہ شئے ہمارے ہی وجود کا حصہ ہوگی کیونکہ وہ ہمارے وجود کے حصے یعنی ایک خلاء میں پیدا ہوئی اور وہ خلاء ہمارے وجود کے اندر ہونے کی وجہ سے ہمارے ہی وجود کا ایک حصہ قرار پایا بالکل اسی طرح ممکنہ خلاء اللہ پاک کا وجودی حصہ قرار پایا اور اس میں پیدا ہونے والی کائنات اس خلاء کا اللہ پاک کے وجود کا حصہ ہونے کی وجہ سے خود زات باری تعالٰی کا وجودی حصہ قرار پائی(نعوذباللہ من ذالک)۔
    اوپر بیان کی جانے والی دونوں امکانی صورتیں کیا کسی بھی طریقہ سے اسلام کے نظرہہ توحید سے مطابقت رکھتی ہیں ؟ آپ کا جواب یقینا نہ میں ہوگا تو پھر کائنات اور خدا دونوں کے وجود کی امکانی صورت کیا پیش کی جاسکتی ہے؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے کہ جس کہ جواب میں شیخ اکبر نے نظریہ وحدۃ الوجود پیش کیا کیونکہ انھوں نے اپنی عقل اور مشاہدے کے زریعے باآسانی یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ خدا اور کائنات دونوں کو بیک وقت مستقل طور پر موجود تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس لیے ہمین یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ درحقیقت موجود صرف اللہ پاک کی ذات ہے اور اس کے علاوہ سب کچھ معدوم ہے اور اسی معدوم میں وجود عدم ایک دوسرے کے ساتھ نسبت کے اعتبار سے موجود و معدوم ہیں وگرنہ حقیقت یعنی زات باری کے اعتبار سے یہ دونوں ہی معدوم ہیں اور رہیں معدوم رہیں گے ۔
    اللہ پاک کی عظمت توحید کی شان کے اظہار کے لیے ابن عربی نے جو نظریہ پیش کیا اسکی روشنی میں اسلامی نظریہ توحید پر کسی قسم کا کوئی اشکال حقیقت میں وارد ہی نہیں ہوتا ۔
    ہم یہ حقیقت بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نظریہ وحدۃ الوجود کی بعض لوگوں نے غلط تعبیر پیش کی ہے اور اس کی آڑ میں حلال و حرام کی تمیز ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور وحدت ادیان کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں بہت سی خرابیوں نے جنم لیا لیکن کیا ان سب اسباب کی وجہ سے وحدۃ الوجود یا نفس تصوف کو ہی مسترد کردیا جائے گا؟عام فہم سی بات ہے کہ اگر کوئی شخص کسی صحیح بات کی غلط تعبیر پیش کرتا ہے تو اس تعبیر کا انکار کیا جائے نہ کہ اس کے نتیجے میں صحیح بات کو رد کیا جائے گا۔
    یہاں ایک اور حقیقت کی طرف بھی آپ لوگوں کی توجہ مبذول کروانا بھی نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ مسئلہ وحدۃ الوجود کے دو پہلو ہیں ایک اس کا عقلی اور فلسفیانہ پہلو ہے کہ جس کے اعتبار سے اس کے بنیادی نکات کی نشاندہی ہم نے کردی اور دوسرا اسکا روحانی اور کشفی پہلو ہے اور ابن عربی اور شیخ مجدد الف ثانی کا اس مسئلہ میں جو اختلاف وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے نام سے مشھور ہے اس کا تعلق اس کے روحانی اور کشفی پہلو سے ہے نہ کہ اس کہ فلسفیانہ پہلو سے بلکہ اس کے فلسفیانہ پہلو پر دونوں شیخ متفق ہیں ۔
    اور کشفی پہلو پر اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ جب کوئی سالک ریاضت اور مجاہدے کی بنیاد پر سلوک کی منازل طے کرنا شروع کرتا ہے تو تب وہ ایک خاص مقام پر پہنچ کر ہر شئے میں اللہ پاک انوار و تجلیات کو دیکھتا ہے تو تب سالک کو اللہ پاک کی زات کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کیفیت راہ سلوک کا اختتام ہے ؟شیخ اکبر یعنی ابن عربی کے نزدیک سلوک کی انتہاء یہی ہے جبکہ حضرت مجدد کے نزدیک اس کیفیت کے آگے ایک اور کیفیت بھی ہے کہ جہاں پہنچ کر سالک کو اللہ پاک کی زات اور کائنات دونوں علیحدہ علیحدہ محسوس ہوتے ہیں ۔ لہذا تصوف میں ذات باری تعالیٰ کے اعتبار سے (ظاہرا) دو مختلف موقف سامنے آئے ایک وحدۃ الوجود کہ اس وجود حقیقی کے علاوہ کسی چیز کا وجود نہیں ہے ۔ دوسرا وحدۃ الشھود کہ تمام موجودات اپنی جگہ پر قائم اور موجود ہیں مگر وجود حقیقی نے ان پر ایسا پردہ ڈال دیا ہے کہ وہ معدوم نظر آتے ہیں یا جس طرح ستارے آفتاب کے طلوع ہونے کے بعد اس کے نور کے سامنے ماند پڑجاتے ہیں۔ سو مجدد الف ثانیعلیہ رحمہ نے ان میں سے دوسرا نظریہ اختیار کیا اور دلائل دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ وحدۃ الوجود راہ سلوک کی ایک منزل ہے اس شخص کو مشاہدہ نظر آتا ہے کہ وجود حقیقی کے علاوہ کسی چیز کا وجود نہیں لیکن اگر توفیق الٰہی شامل حال اور شریعت رہنما ہو تو سالک کی ہمت بلند ہوتی ہے تو وحدۃ الشھود کی منزل تک رسائی ہو جاتی ہے۔
    ہم ان دونوں نظریات کی اس حقیقت سے واقف نہیں کیونکہ یہ حقیقت ان دونوں نطریات میں مکمل طور پر کشف اور شھود کا مسئلہ ہے ۔ لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ صوفیاء کی اکثریت کی تائید اس مسئلہ مین شیخ اکبر کو حاصل ہے ۔
    اب اس موڑ پر ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ مختصر طور پر نطریہ حلول کی بھی وضاحت کردیں کیونکہ اس نظریہ کو بھی تروڑ مروڑ کر صوفیائ پر غلط طریقے سے چسپاں کیا جاتا ہے ۔

    اتحاد کی تعریف


    اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ مستقل وجود الگ سے موجود ہوں اور پھر یوں دونوں آپس میں باہم مل جائیں کہ ایک ہی وجود کی شکل اختیار کر جائیں اگر چہ دونوں کا مستقل وجود اپنی جگہ قائم رہے ۔اس طرح کی بہت سی مثالیں ہم اپنے معاشرہ میں دیکھتے ہیں جیسے مختلف سیاسی پارٹیوں کا اپنا اپنا انفرادی وجود برقرار رکھ کر ایک دوسرے سے اتحاد کرنا ۔

    حلول کی تعریف


    حلول کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز دوسری چیز کے اندر اس طرح داخل ہوجائے کہ پھر اس کے اپنے وجود کو دوسری سے الگ کرنا ممکن نہ رہے جیسے پانی میں نمک اور چینی دونوں کا باہم ملکر پانی بن جانا اللہ پاک کے لیے اتحاد اور حلول دونوں عقیدے رکھنا جائز نہیں کیونکہ ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے کہ اللہ پاک کمیت اور کیفیت سے پاک ذات ہے جسم کا کوئی بھی عارضہ اسے لاحق ہی نہیں کیونکہ جسم کے لیے شرط ہے لمبائی چوڑائی ، گہرائی ، اونچائی اور ان تمام حوالوں سے اسکی ایک مخصوص حد ہوتی ہے جب کہ اللہ پاک تمام حدود سے پاک و منزہ ہے ۔اسی طرح اتحاد یا حلول اس وقت پایا جائے گا جب ایک جسم کے اجزاء کے اندر خلاء موجود ہو تو اور دوسرا جسم اس خلاء میں سما کر اس پہلے جسم کا حصہ بن جائے ۔اور ایسا ہونا ممکن الوجود کی خصوصیات میں سے ہے جب کہ اللہ پاک ممکن الوجود نہیں بلکہ واجب الوجود ہے ۔
    اللہ پاک کی ذات سے حلول و اتحاد کی نفی سے اہل ظاہر کے ان نظریات کی تردید ہوتی ہے جو کہ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اللہ پاک عرش کے عین اوپر ہے اور ہر رات آسمان دنیا پر نزول کرتا ہے لہذا اس اعتبار سے پہلے اس کے وجود کا اتصال عرش کے وجود کے ساتھ مانا گیا اور بعد میں آسمان دنیا کے وجود کے ساتھ یاد رکھیں کہ خود کو صوفی یا پھر اہل توحید کہلانے والے جاہل کی طرح خود عرش بھی اللہ ہی کی مخلوق ہے اور جس طرح اللہ پاک کی زات کا اتصال (یعنی اتحاد یا پھر حلول) کسی بھی جاہل صوفی یا اہل توحید کے کی زات کے ساتھ ناممکن ہے اسی طرح عرش اور آسمان دنیا کے ساتھ اللہ پاک کی زات کا اتحاد یا اتصال اتنا ہی ناممکن ہے کیونکہ بنیادی نقطعہ یہ ہے کہ واجب الوجود کو ممکن الوجود جو کہ حادث ہوتا ہے کی کسی بھی خصوصیت کے ساتھ متصل نہیں کیا جاسکتا ۔
    لہذا اسی لیے تمام امت اس قسم کی آیات کہ جن میں بظاہر اللہ پاک کے جسم ہونے کا امکان نظر آتا ہے میں تاویل کی قائل ہے اور قرآن وسنت میں بیان ہونے والی اس قسم کی تمام نشانیاں متشابہات کی قبیل سے ہیں کہ جن میں تاویل واجب ہے اور وہ تاویل اللہ ہی جانتا ہے ہمارے لیے بس اتنا ہی کافی ہے کہ ہم اسے اللہ کی شان کہ لائق کہہ کر حقیقت حال کو اللہ ہی پر چھوڑدیں اور آخر میں ہم دارالعلوم دیوبند کہ فتوٰی پر جو کہ انتہائی مختصر طور پر وحدۃ الوجود کی وضاحت میں ہے پر اپنی بات کا اختتام کریں گے ۔ ۔ والسلام

    جب دارالافتاء دیوبند سے اسی مسئلہ کی وضاحت کی بابت سوال کیا گیا تو ارشاد ہوا کہ ۔ ۔
    وحدة الوجود صوفیہ کی اصطلاح ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وجود کامل ہے اور اس کے بالمقابل تمام ممکنات کا وجود اتنا ناقص ہے کہ کالعدم ہے، عام محاورہ میں کامل کے مقابلہ میں ناقص کو معدوم سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے کسی بڑے علامہ کے مقابلہ میں تعلیم یافتہ کو یا کسی مشہور پہلوان کے مقابلہ میں معمولی شخص کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں، حالانکہ اس کی ذات اور صفات موجود ہیں، مگر کامل کے مقابلہ میں انھیں معدوم قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وجودِ کامل کے مقابلہ میں تمام مخلوق کے وجود کو حضراتِ صوفیہ معدوم قرار دیتے ہیں، تقریر بالا سے معلوم ہوا کہ وحدة الوجود کے یہ معنی نہیں کہ سب ممکنات کا وجود اللہ تعالیٰ کے وجود سے متحد ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وجود کامل صرف واحد ہے بقیہ موجودات کالعدم ہیں جیسے کہ کوئی بادشاہ کے دربار میں درخواست پیش کرے بادشاہ اسے چھوٹے حکام کی طرف رجوع کا مشورہ دے اوریہ جواب میں کہے کہ حضور آپ ہی سب کچھ ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب حکام آپ سے متحد ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ کے سامنے سب حکام کالعدم ہیں

    جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2
    Re: حقیقت وحدت الوجود

    السلام علیکم
    بہت شکریہ تحریر کو پسند کرنے کا اور اپنی رائے دینے کا جہاں تک آپ کے کیے گئے اعتراض کی بات ہے تو عرض ہے کہ سب سے پہلے یہ واضح کردوں کہ ہمارا مرتب کردہ مندرجہ بالا مقالہ کافی عرصہ پہلے کا ہے اور یہ مجرد فلسفہ وحدۃ الوجود کہ بیان میں نہیں تھا بلکہ اصل موضوع بحث تصوف تھا جب ہم فریق مخالف پر قرآن و سنت سے تصوف کہ جواز پر حجت قائم کرچکے تو پھر فریق مخالف نے ہمیشہ کہ حربے کی طرح کبھی ادھر سے اُدھر اور کبھی اُدھر سے ادھر مختلف فیہ اختلافی تصورات تصوف کی ڈالوں پر پھدکنا شروع کردیا اور انہی میں سے ایک ڈال وحدۃ الوجود و شہود کی تھی سو اس پر ہم نے مختصرا وضاحت پیش کی ۔۔۔
    آپ اگر ہمارے مرتب کردہ مقالہ کا سرسری سا بھی مطالعہ کریں تو آپ پر یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ یہ اصلا فلسفہ وحدۃ الوجود کی وضاحت پر نہیں بلکہ تصوف کے تتمہ کہ بطور مسئلہ وحدۃ الوجود کی عامیانہ ورژن کی وضاحت و نفی میں ہے نیز آپ پر یہ بھی روشن ہوگا کہ ہمارا خود مبلغ علمی اس مسئلہ میں قریبا نہ ہونے کی برابر ہے بس اسی لیے اس مسئلہ کی جو وضاحت علماء حق نے بیان کی ہے یا جس تعبیر کو اپنایا ہے ہم نے بھی اسی پر اپنے اعتماد کا اظہار اپنی تمام تر علمی بے بضاعتی کو سامنے رکھتے ہوئے کیا مگر تاہم پھر بھی ہم کوشش کریں گے کہ آپ احباب کہ سوالات کا جواب ہم دے سکیں لیکن اگر آپ احباب کہ تشفی نہ ہوئی تو ہمیں برائے مہربانی اس مسئلہ میں علمی اعتبار سے معذور جانیے گا ۔۔
    رہ گیا آپ کا یہ کہنا کہ اگر بات اتنی سی ہوتی تو شیخ ابن تیمیہ سے لیکر آج تک علمائے امت اس فکر کی مخالفت نہ کرتے تو اس کا الزامی جواب تو یہ ہے میرے بھائی کہ امت مسلمہ میں وہ کونسی ایسی فکر ہے سوائے چند معدودے کہ جسکی مخالفت امت کہ جمہور سے صادر نہ ہوئی ہو خود ابن تیمیہ کی فکر کی بھی جمہور امت نے مخالفت کی ہے اور ابن تیمیہ وہ پہلے شخص ہیں کہ جنھوں نے مسئلہ وحدۃ الوجود پر تنقید میں شدت سے کام لیکر شیخ اکبر کو نہ جانے کیا کیا کہہ دیا ہے خیر کہنا یہ چاہتا ہوں کہ دلائل کہ میدان میں یہ کوئی محل استدلال نہیں کہ فلاں فکر کی مخالفت کی گئی ہے نیز حقیقت حال کو اگر دیکھا جائے تو امت مسلمہ کی اکثریت اور جمہور نے مسئلہ وحدۃ الوجود کو بطور فکر کہ اپنایا ہے لیکن یہ مسئلہ چونکہ نہایت دقیق و فسلفیانہ ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ خالصتا فلسفیانہ ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ عوام تو عوام اکثر اہل علم کو اس میں ٹھوکر لگی ہے آپ اقبال کو ہی اگر پڑھیں تو ابتداء وہ اس فکر کہ مخالف تھے مگر بعد میں اسی فکر کے قائل ہوگئے تھے یہی وجہ ہے کہ اقبال جیسا فلسفی بھی اس مسئلہ کی تفہیم میں حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ سے مراجعت بصورت مراسلت کرتا ہے جب اقبال کو ایک بار یورپ میں کہیں شیخ اکبر پر لیکچر دینا ہوتا ہے تو وہ شیخ کہ فلسفہ وحدۃ الوجود کی تفہیم کے لیے حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب سے خط لکھ کر امداد مانگتے ہیں اور اگر آپ اقبال کا فلسفہ خودی کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو اقبال کا فسلفہ خودی اپنے تمام تر انفرادیت کہ باوجود منتج وحدۃ الوجود پر ہی ہوتا ہے باقی ایک بار پھر عرض ہے کہ ہم گاہے گاہے اس مسئلہ میں آپ احباب کی تسلی و تشفی کا سامان کرتے رہیں گے تب تک کے لیے پلیززز دھیرج رکھیئے والسلام
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #3
      Re: حقیقت وحدت الوجود

      آبی بھائی
      یہ تو ہوا جواب الزامی
      لیکن نیچے جو اشعار ذکر کئے گئے ہیں ابن عربی کے اور وہ عبارات جو ہمارے مرید خاص عبد اللہ آدم بھائی نے ذکر کی ہیں ان کا بھی کچھ مداوا ہو جائے
      ۔۔

      بجا فرمایا راجہ بھائی آپ نے مگر عرض فقط اتنی ہی ہے کہ میرے پیارے عبداللہ آدم بھائی تو اکثر و بیشتر مجھ ناچیز کی اردو تحاریر میں "دقیقیت " کی شکایت کرتے یا شکایات کرنے والوں کہ ساتھ نظر آتے ہیں تو پھر بھلا بتلایئے کہ وہ ابن عربی کی مشھور زمانہ عربی تصنیف فصوص الحکم کو کیونکر سمجھ سکتے ہیں ؟؟؟
      حالانکہ اس کو سمجھنے میں تو بڑے بڑے عربی دانوں اور فلسفیوں نے بھی ٹھوکر کھائی ہے لیکن پھر بھی اگر عبداللہ بھائی کی ذاتی تحقیق فلسفہ وحدۃ الوجود کہ خلاف ہے تو ان سے عرض ہے کہ وہ پہلے یہ بتلائیں کہ ان کے نزدیک فلسفہ وحدۃ الوجود کی کیا تعریف متعین ہے نیز جو تعریف ان کے نزدیک متعین ہے اسے انھوں نے کس معتبر صوفی سے بطور تعریف کہ اخذ کیا ہے تو پھر ہی کوئی بات بنے گی نیز جو اشعار و عبارات انھوں نے نقل کی ہیں وہ اگر انکی ذاتی فہم و تحقیق کی وجہ سے ان پر گراں گزر رہی ہیں تو انکی وضاحت فرمائیں کہ کہاں وہ عبارات و اشعار اسلام کہ کس عقیدہ کو منہدم کررہی ہیں اور اگر انھوں نے کسی اور کی تحقیق کو نقل کیا ہے تو بھی اس کا حوالہ دیں ۔ ۔ ۔ والسلا
      م

      سوال
      آپ اقبال کو ہی اگر پڑھیں تو ابتداء وہ اس فکر کہ مخالف تھے مگر بعد میں اسی فکر کے قائل ہوگئے تھے
      عابد بھائی
      یہ دعوی بہت ہی مضبوط دلیل کا متقاضی ہے
      شکریہ


      الجواب



      اسلام علیکم محترم راجہ بھائی اور عبداللہ بھائی !
      جیسا کہ ہم پہلے بھی عرض کرچکے کہ مسئلہ وحدت الوجود پر ہمارا علم انتہائی محدود ہے سو اس لحاظ سے ہم نے اسکی جو تعبیر مختلف اکابرین امت سے اخذ کی ہمارا ایمان فقط اسی پر ہے اور اسی کو ہم نے اپنے اولین مقالہ میں رقم کیا اور اسکی تعبیر و تشریح ہمارے ذمہ ہے جہاں تک آپ بھائیوں کی پیش کردہ ابن عربی علیہ رحمہ کی عبارات کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ابن عربی کو سمجھنے میں بڑے بڑوں سے تساہل ہوا ہے اور بڑے بڑے نامور اکابرین دانشور مفکرین و فلسفی ناکام رہے ہیں جبکہ میں اور آپ اور ہما و شما کا تو یہ مقام ہی نہیں کہ ابن عربی پر زبان دراز کریں ۔ ۔
      آپ اگر اپنے مطالعہ کو وسعت دیں تو آپ پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائگی کہ جہاں ایک طرف ابن عربی کے مخالفین کی ایک رو ہے کہ جس میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جیسے علامہ ابن تیمیہ ،حافظ ابن حجر اور علامہ عزالدین ابن السلام وغیرہ تو وہیں امت کے جمہور کی ایک بڑی رو انکی حمایت میں ہے کہ جس میں شیخ شہاب الدین سہروردی سے لیکر امام فخرالدین رازی ،امام سبکی ،سراج الدین بلقینی ،جلال الدین سیوطی،شیخ قطب الدین شیرازی ،شیخ کمال الدین زملکانی،شیخ مجدد الدین فیروز آبادی ،شیخ مجدد الف ثانی ،شیخ محدث عبدالحق دہلوی کا سارا خانوادہ شیخ ولی اللہ دہلوی سمیت حتٰی کہ شاہ اسماعیل دہلوی اور اشرف تھانوی سمیت سب کہ سب اسی رو میں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں ان کے علاوہ بھی بے شمار نام ہیں کہ جو سردست گنوائے نہیں جاسکتے بے شمار اکابرین امت ہیں جن میں دور قریب کہ حضرت علامہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ کہ جنکو 14 صدی میں شیخ ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کا سب سے بڑا محقق و مفسر تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ ان کے اس تخصص کو نہ صرف ان کے زمانہ بلکہ انکے ماقبل کہ زمانہ کے لیے بھی بالاتفاق تسلیم کیا گیا ہے کہ ان سے بڑا وحدت الوجود کا شارح و مفسر پیدا ہی نہیں ہوسکا (تحقیق کے لیے انکی کتب ملفوظات مہریہ اور تحقیق الحق فی کلمۃ الحق کا مطالعہ کیا جائے ) لہذا یہی وجہ تھی کہ خود اقبال جیسے مفکر اور فلسفی نے بھی انکو خط لکھ کر اسی مسئلہ کی بابت چند استفسارات کیئے مگر افسوس کہ جب تک اقبال کو خبر ہوئی اس وقت پیر صاحب عالم استغراق میں جاچکے تھے سو خط کا جواب نہ دسکے اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کرگئے انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔
      خیر کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ ابن عربی کہ مخالف اور حمایتی ہر دو مکاتب فکر اس بات پر تو متفق ہیں کہ شیخ ابن عربی ایک نہایت ہی جلیل قدر عالم دین صوفی اور ہمہ جہتی علوم کے بحر ذخار تھے ۔
      بات بہت دور نکل گئی عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ میرے بھائی ہم لوگوں کا مطالعہ بھی اور مشاہدہ بھی قلیل ہے مگر حال ہمارا یہ ہے کہ علم و فن کہ ہر شعبہ میں تنقید کو ہم اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں جہاں تک معاملہ ہے ابن عربی علیہ رحمہ اور انکے فلسفہ وحدت الوجود کا تو ہم نے نہایت ہی آسان پیرائے میں اسکی جو تعبیر پیش کی اسی پر ہمارا ایمان بھی اگر آپ بھائیوں کو اس پر اعتراض تو یہاں پیش کیجیئے لیکن اگر آپ بھائیوں کو ابن عربی کی فصوص اور فتوحات پر اعتراضات ہیں تو عرض ہے کہ اپنے مطالعہ کو وسعت دیجیئے اور انکے شارحین کو پڑھیئے تاکہ اول تو آپ کو یہ خبر ہو کہ ابن عربی کو محض پڑھنا ہی کتنا دقیق کام ہے چہ جائکہ سمجھنا تو بہت دور کی بات دوم یہ کہ ہمارے نزدیک وحدت الوجود کا مسئلہ ہمہ جہتی بلکہ کثیر الجہات ہے اسکا شرعی اور کلامی پہلو بھی ہے اور فلسفیانہ و منطقی اور تعقلی پہلو بھی ہے نیز اس کا تعلق شہودی ،وہبی ،کشفی اور ذوقی مشاہدات و میلانات سے بھی ہے اور آپ اتنا تو جانتے ہی ہونگے کہ کشفی منازل میں عرفان کی حدوں کے ذوقی میلانات کو لفظوں کہ مادی وجود میں قید کرنا انتہائی دشوار گزار اور کھٹن مرحلہ ہوتا ہے مگر کمال ہنر مندی سے ابن عربی نے اپنی قلبی واردات کو الفاظ کہ پیرائے میں معنٰی کے سمندر دیے کر قید کردکھایا ہے یہی وجہ ہے کہ انکو شہود کی بعض ذوقی منازل کے عرفان کی تاثیر کو بیان کرنے کے لیے چند علمی اصطلاحات کو ایجاد کرنا پڑا۔
      ابن عربی اور انکی تصنیف فصوص الحکم :
      جیسا کہ آپ احباب جانتے ہیں کہ مصادر دین میں اول کتاب اللہ ہے اور دوم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے لہذا ان دونوں کا بنیادی عنوان اول الٰہ اور الٰہیات دوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و اسوہ محمدی اور سوم تخلیق کائنات ہے سو ان تینوں رموز سے آشنا ابن عربی علیہ نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں اسی ترتیب سے کلام کیا ہے کہ جسکو بعض شارحین ابن عربی نے یوں ہدیہ تبریک پیش کیا ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔
      ابن عربی نے الٰہ اور الٰہیات کو آغاز تحریر میں ذکر کرتے ہوئے تبریک حاصل کی اور درمیان مین قدرت اور اسکے ارادے کہ مقاصد کو سامنے رکھ کر حالات پیغمبری سے گفتگو کی اور ہر ایک چیز کا تتمہ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کے تذکرے سے کیا اور اپنی آخری فص میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر اپنی پوری روحانی اور فطری قوت کو صرف کرکے مظہر ذات کبریا پر اپنی طوق بشریت کے مساوی اور انمٹ نقوش مرتب کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کے جواہر تصوف کو پاکیزہ رسی میں پرو کر اہل دل اور زندہ افکار صوفیاء کے سامنے ہمہ وقت استعمال ہونے والی مالا کہ بطور پیش کیا ۔
      محمد ریاض قادری رقمطراز ہیں کہ ۔ ۔
      شیخ اکبر ابن عربی عالم اسلام اور دنیا تصوف کہ وہ درخشندہ ستارے ہیں کہ
      جن کے علم و عرفان سے دنیا کئی صدیوں سے منور ہورہی ہے ۔تصوف کہ تمام سلاسل نے انکو شیخ اکبر کا لقب دیا ہے تمام سلاسل کہ تمام مشائخ ،اولیائے کاملین ،صوفیائے عظام اور علمائے حق انکے بارے میں رطب اللسان ہیں ۔ انکی کشفی اور الہٰامی کیفیات مسلم ہیں انکی ہمہ گیر کثیر الجہات شخصیت انکے علوم و معارف ،حیرت انگیز باطنی احوال ،کثیر التصانیف عمیق عرفان اور دیگر افکار کہ تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کوئی ایسی ہستی جس نے علم و عرفان اور اسرارات الٰہیہ کے (یوں) دریا بہا دیئے ہوں عالم اسلام میں (سوائے انکے اور کوئی) نظر نہیں آتی۔تصوف ، فلسفہ اور دینیات تو انکی شخصیت کہ اجزائے ترکیبی ہیں تصوف کہ حوالہ سے انھوں نے ایسے ایسے رموز و اسرار کی نقاب کشائی کی جس سے راہ طریقت کھل کر سامنے آگئی ۔
      یہی وجہ ہے کہ اپنے عہد کہ مشھور فلسفی ابن رشد جو اپنے وقت میں چیف جسٹس کہ عہدہ پر فائز تھے ۔ابن عربی ان سے ملنے قرطبہ گئے اور انکو کو اس قدر متاثر کیا کہ وہ خود ابن عربی کے حلقہ بگوش ہوگئے ۔

      چناچہ یہی وجہ ہے کہ جب شہاب الدین سہروردی علیہ رحمہ کی ملاقات ابن عربی سے ہوئی تو دونوں احباب نے محض رسمی تعارف ایکدوسرے سے حاصل کیا بعد میں کسی نے شہاب الدین سے ابن عربی کی بابت دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ ابن عربی رحمہ اللہ حقائق و عرفان کا ایک بحر بے کنار ہیں اور ابن عربی سے جب یہی سوال شیخ شہاب کہ بارے میں ہوا تو انھوں نے فرمایا کہ وہ شیخ شہاب سراپا شریعت کا مظہر اور قرآن و سنت میں رنگے ہوئے ہیں ۔۔

      شیخ اکبر ابن عربی کو ایک متنازعہ شخصیت سمجھا جاتا ہے کیونکہ تاریخ اسلام کی یہ واحد شخصیت ہیں کہ جنکی حمایت و مخالفت میں بڑے بڑے لوگوں نے صدیوں تک کلام کیا ہے اور آج تک انکی تصانیف موضوع بحث ہیں اسکی ایک بـڑی وجہ انکے افکار و معارف کا عام فہم زبان میں نہ ہونا ہے (جسکی ایک بڑی وجہ ہم اوپر بیان کرچکے کہ عرفانی مشاہدات کو معنٰی کے اعتبار سے جامعیت کہ الفاظ پہنانا خاصا دقیق کام ہے ) اسلوب بیان بھی آسان نہیں کہ فوری طور پر مفھوم ٹھیک طور پر سمجھا جاسکے اسی تناظر میں مشھور مستشرق آر ـ اے نکلسن جس نے تصوف اسلامی پر کافی کام کیا ہے لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔
      "ابن عربی کی تحریر بے دشوار اور ژولیدہ اور ناقابل فہم ہے انھوں نے جو کچھ الٰہیات پر لکھا ہے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اسے کما حقہ بیان کرنا تو کجا اس کا ایک (مرتب) خلاصہ پیش کرنا بھی مشکل ہے اور یہ کام اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مستشرق انکی تحریر کو بڑے غور و خوض سے پڑھے پوری تندہی اور یکسوئی مزاج کہ ساتھ اس پر کام کرئے ۔ ابن عربی کے مفسر کہ لیے ضروری یے کہ وہ تصوف کے تمام مسائل (اصطلاحات) کو نہ صرف سمجھتا ہو بلکہ بیان کرنے کی اتنی ہی صلاحیت رکھتا ہو کہ جتنی خود ابن عربی کو اپنی زبان پر تھی ۔"
      آپ نے دیکھا نکلسن نے غور و خوض سے پڑھنے پر زور دیا ہے جس کے لیے تندہی اور یکسوئی بھی درکار ہے اگر وہ اس وقت دنیا مین موجود ہوتے تو کوئی اہل نظر ان سے پوچھ سکتا تھا کہ جناب آپ نے کشف المحجوب کا نامکمل (abridged) ترجمہ کیوں کیا ؟؟؟؟؟ آپ مکمل ترجمہ کیوں نہ کرسکے ؟؟؟ جبکہ داتا گنج بخش علیہ رحمہ کی یہ کتاب آسان فارسی میں ہے ؟ مگر نکلسن صاحب نے کمال فراخ دلی سے یہ تسلیم کیا ہے کہ میں نے ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے مگر جہاں عبارت میری سمجھ و فہم سے بالا تر تھی میں نے چھوڑ دیا ہے ۔
      قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ کتاب کشف المحجوب جو کہ آسان فارسی زبان میں ہے اس میں جہاں کہیں بھی (مابعد الطبعیاتی مسائل کے ضمن میں) فلسفہ الٰہیات اور حقائق و معارف کی ادق بحث آتی ہے وہاں نکلسن کا انگریزی ترجمہ موجود نہیں جبکہ حقیقت میں مسئلہ توحید ہی تو کتاب کشف المحجوب کی جان ہے اور توحید کا دوسرا نام وحدت الوجود ہے کہ جسکو خود ابن عربی نے توحید وجودی سے تعبیر کیا ہے اور جسکے فہم سے ہم عاری ہیں کیونکہ تصوف کی زبان قالی نہیں حالی ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ شیخ اکبر کی اس کتاب فصوص الحکم کی بنیاد میں کتابی علوم و فنون کی بجائے کشفی ،وہبی علوم کو مرکز و اصول کی حیثیت حاصل ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی اس کتاب میں کشف و الہام کو ہی بنیادی حیثیت حاصل ہے تبھی تو انکو رئیس المکاشفین بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ علوم الٰہیہ اول باطنی طور پر ہی حاصل کرتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں عرفانی علوم کا تعلق ہی باطنی سربلندیوں سے ہے لہذا جسکو اللہ عطا فرمائے وہی مستفیض ہوسکتا ہے چناچہ یہی بات ابن عربی نے امام فخر الدین رازی علیہ رحمہ کو بھی ایک خط میں لکھی تھی ۔
      چناچہ ایک بار کسی نے امام احمد رضا علیہ رحمہ سے باطنی علوم کی بابت دریافت فرمایا کہ باطنی علوم کا ادنٰی درجہ کیا ہے ؟؟
      تو آپ نے ذوالنون مصری علیہ رحمہ کا یہ قول نقل کردیا کہ انھوں نے فرمایا کہ ۔ ۔
      میں ایک بار سفر پر گیا تو وہ علم لایا کہ جسے خواص و عام سب نے قبول کیا دوسری بار سفر پر گیا تو وہ علم لایا کہ جسے صرف خواص نے قبول کیا جب تیسری بار سفر پر گیا تو جو علم لایا وہ خواص و عام کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آیا۔
      "راقم الحروف کو یاد پڑتا ہے کہ اسی موضوع سے ملتی جلتی ایک حدیث صحیح البخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (اللہ کمی بیشی معاف فرمائے کہ ) جسکا مفھوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ رضی اللہ نے فرمایا کہ میں نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے دو قسم ک علوم اخذ کیے ایک وہ جو میں تم سے بیان کرتا ہوں اور دوسرے وہ جو میں اگر تم سے بیان کردوں تو تم لوگ مجھے قتل کردو " نیز اسی قسم کا ایک قول غالبا حضرت امام زین العابدین و امام جعفر یا امام باقر رضی اللہ عنھم وغیرہم سے بھی راقم الحروف نے کسی کتاب میں پڑھا تھا ۔
      قصہ مختصر یہ ہے شیخ السلام صاحب قاموس لکھتے ہیں کہ مجھے آج تک معلوم نہیں پڑا کہ کوئی شخص علم شریعت و حقیقت میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کو پہنچا ہو کیونکہ وہ ناپید کنار ایک سمندر ہیں اور انکی تصانیف بحر زخار ہیں کسی نے ایسے رموز و مطالب بیان نہیں کیے اور انکی کتابوں کا مطالعہ کرنا حق تعالی کا قرب حاصل کرنا ہے ۔ ۔ ۔۔
      ابن عربی کو متنازعہ کہنا ان کے لیے جائز ہوگا کہ جن کی (علوم و معارف کہ اس گنجینہ ناپید کنارکہ ) اس بحر زخار تک رسائی نہیں کیونکہ انکا کلام قالی نہیں بلکہ انتہائی عرفانی اور مشاہداتی ہے خلقی نہیں بلکہ حقی ہے ۔اور پھر انکی کیفیات و مشاہدات کو بیان کرنا ایک عام فہم زبان میں انتہائی مشکل کام ہے اسی لیے انھوں نے اپنے افکار (thoughts) کو بیان کرنے کہ لیے کچھ مخصوص اصطلاحات وضع کیں ۔ لہزا متنازعہ تو ہماری اپنی شخصیت ،اپنی کم عقلی وکم علمی ۔اعمال و کردار کی اخلاقی پستی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے روگردانی ،روحانی و عرفانی قدروں سے لاتعلقی اور مادہ پرستی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #4
        Re: حقیقت وحدت الوجود

        Assalm-0-Alaikom bhai....
        buht shukriyaa aap nay itni detailed post ki ....:jazak:
        main nay isay perha hai aur mujhay dobara perhnay ki zuroorat hai ... INSHA ALLAH TALA dobara perhongi ... takeh achi tarah samjh sakon..
        ALLAH TALA aap ko jazaye khair ata fermaaye,... hamesha aaap per apni Rehmat saya figan rakhay ...AMEEN SUM AMEEN
        For New Designers
        وَ بَارِکْ لِيْ فِيْمَا أَعْطَيْتَ

        Comment


        • #5
          Re: حقیقت وحدت الوجود

          Originally posted by *Rida* View Post
          Assalm-0-Alaikom bhai....
          buht shukriyaa aap nay itni detailed post ki ....:jazak:
          main nay isay perha hai aur mujhay dobara perhnay ki zuroorat hai ... INSHA ALLAH TALA dobara perhongi ... takeh achi tarah samjh sakon..
          ALLAH TALA aap ko jazaye khair ata fermaaye,... hamesha aaap per apni Rehmat saya figan rakhay ...AMEEN SUM AMEEN
          aap bar bar aprho aur jis cheez ki ji jumlay ki jis lafaz ki ya jis ibarat ki samjh naheen aati bilajhijhak sawal karo main puri koshish karon ga k aap ko asaan se asaan peray main samjha sakoon w slaam
          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

          Comment


          • #6
            Re: حقیقت وحدت الوجود

            آبی ٹوکول بھائی میں نے آپ کا ٹاپک حقیقت وحدت الوجود پڑھا اور آپ نے بہت اچھے طریقے سے وضاحت کی ہے وحدت الوجود کی.
            میرے خیال میں اصل میں یہ ٹاپک علماء تک محدود ہونا چاہیے اور ہم جیسے کم علم لوگوں کو اس پہ بحث نہیں کرنی چاہیے.
            اور خاص طور پہ علامہ ابن عربی رحمہ اللہ کے بارے میں علماء کے دو نظریے ہیں اور کچھ علماء تو ان کو کافر کہتے ہیں اور اکثر علماء ان کی تائید کرتے ہیں اور ان کو شیخ اکبر کہتے ہیں اور یہ تو آج کل کے اہلحدیثوں نے ان کو اکفر کہنا شروع کیا ہے ورنہ ان کے اکابرین بھی علامہ ابن عربی رحمہ اللہ کی تعریف کرتے آئے ہیں اور ان کو حق پہ تسلیم کرتے آئے ہیں.
            اس لئے ایسی بحثوں سے دور ہی رہنا چائیے.

            بہرحال آپ کا مضمون بہت اچھا تھا اور اس کو پڑھ کر کافی کچھ معلوم ہوا.

            Comment


            • #7
              Re: حقیقت وحدت الوجود

              Jazak ALLAH khair

              Comment

              Working...
              X