ایک خیال کے مطابق انسان کا مذہبی شعور "خلقی" ہوتا ہے یعنی وہ انسانی تخلیق کے اولین مراحل میں "رد و اختیار" کی قوت عطا کیے جانے سے بھی پہلے اس کی خلقت میں ودیعت کردیا جاتا ہے لہذا یہ مذہبی شعور اپنی برترفنکشننگ ، بہترین اجزاء یا اپنی استعداد کے زیادہ بامعنی حصوں میں چند خلقی مطالبات، تصورات اور فطری معیارات رکھتا ہے جو وہ دین کے ٹیکسٹ سے نہیں سیکھتا کیونکہ یہ فطری معیارات وہ دے کر پیدا کیا گیا ہے
لہذا ہر دین میں فقط اسلام ہی میں نہیں جس طرح فقہ جیسا ایک قانون سازی کا ادارہ ضرور ہوتا ہے، کلام جیسا ایک علم العقائد ضرور ہوتا ہے اسی طرح سے تصوف جیسا انسٹی ٹیوشن بھی ہر دین میں حتٰی کہ یہودیت جیسے ٹھیٹھ قانونی دین میں بھی پیدا ہوا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین اپنے ساتھ وابستگی پرمبنی تسلسل میں بعض پہیے اپنے ماننے والوں کے اندر ایجاد ،پیدا یا اختراع کرتا چلا جاتا ہے ۔ تصوف اس مذہبی شعور کے زیادہ گہرے، زیادہ بامعنی اور زیادہ مستقل حصوں کے دینی ورژن کا نام ہے۔
لہذا ہر دین میں فقط اسلام ہی میں نہیں جس طرح فقہ جیسا ایک قانون سازی کا ادارہ ضرور ہوتا ہے، کلام جیسا ایک علم العقائد ضرور ہوتا ہے اسی طرح سے تصوف جیسا انسٹی ٹیوشن بھی ہر دین میں حتٰی کہ یہودیت جیسے ٹھیٹھ قانونی دین میں بھی پیدا ہوا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین اپنے ساتھ وابستگی پرمبنی تسلسل میں بعض پہیے اپنے ماننے والوں کے اندر ایجاد ،پیدا یا اختراع کرتا چلا جاتا ہے ۔ تصوف اس مذہبی شعور کے زیادہ گہرے، زیادہ بامعنی اور زیادہ مستقل حصوں کے دینی ورژن کا نام ہے۔
یعنی دین کو مذہبی شعور کی برترین سطح پر رکھ کر کنٹین کرنے اور فنکشنل رکھنے کا نام تصوف ہے ۔
ذرا سے لفظی تصرف کے ساتھ احمد جاوید صاحب کے کلام سے افادہ عام ۔۔۔
Comment