Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سرسید احمد خان کے باطل افکار

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سرسید احمد خان کے باطل افکار



    سرسید احمد خان کے باطل افکار


    تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان سے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔ سرسید کا عقیدہ کیا تھا ؟ مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ سرسید احمد تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے۔







    سرسید کی چند تصنیفات
    سرسید کی عربی شناسی

    قرآن کی من مانی تشریحات

    جنت ودوزخ کا انکار
    بیت اللہ شریف کے متعلق موقف
    سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
    سرسید جبرائیل امین کا منکر
    سرسید کا واقعہٴ معراج سے انکار
    جنات وشیاطین کے وجود کا انکار



  • #2
    Re: سرسید احمد خان کے باطل افکار

    سر سید احمد خان میرے لیے میرے غائبانہ استاد کی حیثیت رکھتے ہیں


    اور میری نظروں میں انکا بہت بڑا مقام ہے


    تم لوگ کبھی بھی ان کی عظمت کو نہیں* سمجھ سکتے


    ایک چھوٹی سی مثال دے رہا ہوں* آج جس ٹیکنالوجی کو تم انکے لیے یہ الفاظ لکھنے کے لیے استعمال کررہے ہو۔۔ یہ ان ہی کے مرہون منت ہے





    Comment


    • #3
      Re: سرسید احمد خان کے باطل افکار

      Originally posted by Baniaz Khan View Post
      سر سید احمد خان میرے لیے میرے غائبانہ استاد کی حیثیت رکھتے ہیں


      اور میری نظروں میں انکا بہت بڑا مقام ہے


      تم لوگ کبھی بھی ان کی عظمت کو نہیں* سمجھ سکتے


      ایک چھوٹی سی مثال دے رہا ہوں* آج جس ٹیکنالوجی کو تم انکے لیے یہ الفاظ لکھنے کے لیے استعمال کررہے ہو۔۔ یہ ان ہی کے مرہون منت ہے



      میرے بھائی یہاں بات ٹیکنالوجی کی نہیں ھو رہی . یہاں نظریات کی بات ھو رہی ہے . کیا آپ اپنے غائبانہ استاد کے نظریات جو انھوں نے اپنی تفسیر القرآن میں لکھے ھیں پورا پورا اتفاق کرتے ھیں



      Comment


      • #4
        Re: سرسید احمد خان کے باطل افکار


        مسلمانوں کو سائنس سے مانوس کرانے کے لیے انہوں نے مذہبی عقائد کی ترجمانی سائنس کی نقطہ نظر
        سے کرنے کی کوشش کی ان کے زمانے میں ہر طرف نیچرل سائنس کا دور دورہ تھا اس لئے انہوں نے
        مذہب اسلام کو نیچر کے قوانین کے مطابق ثابت کرنے کے لیے عقلی اسدلال سے کام لینا شروع کیا
        ان کا معرکہ آرا استدلال یہ تھا کہ خدا کے فعل یا نیچر ورک آف گاڈ
        اور خدا کے قول یعنی قرآن ورڈ آف گاڈ میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا قران میں جو واقعات بیان ہوئے
        ہیں وہ طبعی قوانین کے عین مطابق ہیں اس نظرئے کو بنیاد فکر بنا کر انہوں نے تفسیر
        احمدی لکھنا شروع کی اور قرانی ایات کی تاویل و توجیہیہ کر کے اسلامی عقائد اور سائنس کے
        اصولوں میں مفاہمت اور مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی تھ
        ی

        جنت دوزخ لوح و قلم عرش و کرسی پل صراط میزان صور اسرافیل و فشار قبر
        کے متعلق کہا کہ یہ محض استعارے ہیں جن سے افہام و تفہیم کا کام لیا گیا ہے ان کا اصل وجود کچھ بھی نہیں
        ان تاویلات پہ ان کی تکفیرکی گئی ان کو ملحڈ ، کافر نیچری، کرستائن وغیرہ کے لقب بھی گئے
        لیکن یہ تاویلات جیسی بھی تھیں اج کل متکلمین ان میں سے اکثر کو قبول کر چکے ہیں انہیں سر سید
        کا قابل فخر کارنامہ نہیں سمجھا جا سکتا لیکن ان کی تہ میں عقلی و فکری تحقیق
        و تجیسس اور اجتہاد رائے کا جو بے پناہ جذبہ مخفی ہے وہ سر سید کی عظمت سے بڑا شاہد ہے ان کا ملت
        اسلامیہ کے ساٹیفک انداز نظر اور تحقیق کی اہمیت واضح کرنا اور خود اس پر عمل کی جرات کرنا
        انے والی صدیوں میں ان کو عظیم ترین کارنامہ سمجھا جائے گا





        جن راہوں کو سر سید احمد خان کے عقلی استدلال اور حقیقت پسندانہ طر فکر نے روشن کیا
        تھا انہیں خطیبانہ جوش و خروش اور فرسودہ روش فکر نظر کے غبار نے دوبارہ انکھوں سے اوجھل کر دیا
        اور جن لوگوں کو سر سید کی تحریروں سے دور حاضر کی نئی قدروں اور جدید تقاضوں کا واضح احساس
        ہوگیا تھا ان کے ذہن و دماغ پھر سے الجھنوں کے شکار ہو گئے۔۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سر سید احمد
        کے بعد اج تک کسی کو یہ الجھنیں سلجھانے کی جرات نہیں ہوئ




        خوش رہیں




        ڈاکٹر فاسٹس



        :(

        Comment


        • #5
          Re: سرسید احمد خان کے باطل افکار

          Originally posted by lovelyalltime View Post


          میرے بھائی یہاں بات ٹیکنالوجی کی نہیں ھو رہی . یہاں نظریات کی بات ھو رہی ہے . کیا آپ اپنے غائبانہ استاد کے نظریات جو انھوں نے اپنی تفسیر القرآن میں لکھے ھیں پورا پورا اتفاق کرتے ھیں




          پورا پورا اتفاق تو میں قرآن کے علاوہ دنیا کی کسی کتاب سے نہیں کرتا
          اور کر بھی سکتا ہوں

          باقی بات یہ ہے کہ اگر ان کے کارناموں کو مانتے ہی ہو تو ذرا نام عزت اور احترام سے لو





          Comment


          • #6
            Re: سرسید احمد خان کے باطل افکار

            Originally posted by Dr Faustus View Post

            مسلمانوں کو سائنس سے مانوس کرانے کے لیے انہوں نے مذہبی عقائد کی ترجمانی سائنس کی نقطہ نظر
            سے کرنے کی کوشش کی ان کے زمانے میں ہر طرف نیچرل سائنس کا دور دورہ تھا اس لئے انہوں نے
            مذہب اسلام کو نیچر کے قوانین کے مطابق ثابت کرنے کے لیے عقلی اسدلال سے کام لینا شروع کیا
            ان کا معرکہ آرا استدلال یہ تھا کہ خدا کے فعل یا نیچر ورک آف گاڈ
            اور خدا کے قول یعنی قرآن ورڈ آف گاڈ میں تضاد نہیں ہو سکتا لہذا قران میں جو واقعات بیان ہوئے
            ہیں وہ طبعی قوانین کے عین مطابق ہیں اس نظرئے کو بنیاد فکر بنا کر انہوں نے تفسیر
            احمدی لکھنا شروع کی اور قرانی ایات کی تاویل و توجیہیہ کر کے اسلامی عقائد اور سائنس کے
            اصولوں میں مفاہمت اور مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی تھ
            ی

            جنت دوزخ لوح و قلم عرش و کرسی پل صراط میزان صور اسرافیل و فشار قبر
            کے متعلق کہا کہ یہ محض استعارے ہیں جن سے افہام و تفہیم کا کام لیا گیا ہے ان کا اصل وجود کچھ بھی نہیں
            ان تاویلات پہ ان کی تکفیرکی گئی ان کو ملحڈ ، کافر نیچری، کرستائن وغیرہ کے لقب بھی گئے
            لیکن یہ تاویلات جیسی بھی تھیں اج کل متکلمین ان میں سے اکثر کو قبول کر چکے ہیں انہیں سر سید
            کا قابل فخر کارنامہ نہیں سمجھا جا سکتا لیکن ان کی تہ میں عقلی و فکری تحقیق
            و تجیسس اور اجتہاد رائے کا جو بے پناہ جذبہ مخفی ہے وہ سر سید کی عظمت سے بڑا شاہد ہے ان کا ملت
            اسلامیہ کے ساٹیفک انداز نظر اور تحقیق کی اہمیت واضح کرنا اور خود اس پر عمل کی جرات کرنا
            انے والی صدیوں میں ان کو عظیم ترین کارنامہ سمجھا جائے گا





            جن راہوں کو سر سید احمد خان کے عقلی استدلال اور حقیقت پسندانہ طر فکر نے روشن کیا
            تھا انہیں خطیبانہ جوش و خروش اور فرسودہ روش فکر نظر کے غبار نے دوبارہ انکھوں سے اوجھل کر دیا
            اور جن لوگوں کو سر سید کی تحریروں سے دور حاضر کی نئی قدروں اور جدید تقاضوں کا واضح احساس
            ہوگیا تھا ان کے ذہن و دماغ پھر سے الجھنوں کے شکار ہو گئے۔۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سر سید احمد
            کے بعد اج تک کسی کو یہ الجھنیں سلجھانے کی جرات نہیں ہوئ




            خوش رہیں




            ڈاکٹر فاسٹس





            سرسید،سانٹااورسائنس

            ابوالمیزان

            ( ایڈیٹر" ماہنامہ دی فری لانسر")

            عجیب اتفاق ہے کہ سین سے سرسید، سین سے سانٹا کلوز اور سین سے ہی سائنس ہوتا ہے۔ اس اتفاق کے علاوہ تینوں میں ایک بہت گہرا سمبندھ بھی ہے۔ وہ یہ کہ جس بات پر سائنس نے سرسید کا کان گرم کیا تھا، آج سانٹاکلوز اسی بات پر سائنس کے کان اینٹھ رہا ہے۔
            آج سے کئی سال پہلے کی بات ہے، ایک تھے سرسید۔ چونکہ وہ مسلمان تھے اس لیے اس وقت کے مسلمانوں کو ہر نئی چیز سے بھاگتا ہوا دیکھ کر بہت افسوس کرتے تھے۔ انگریز اور سائنس کا زمانہ تھا، مسلمانوں کو چھوڑ کر باقی لوگ نئی تعلیم کو اپنا کر آگے بڑھتے چلے جارہے تھے۔ سرسید صاحب کو اپنی قوم کی غفلت پر بڑا تعجب ہوا۔ کمر کس کے میدان میں اتر آئے اور نئی نسل کو نئی تعلیم سے بہرہ آور کرنے کا بیڑا اٹھالیا۔ اور اس مہم کو سر کرنے کے لیے انھوں نے ملک بھر میں گھوم گھوم کر چندے اکٹھے کیے۔ پھر کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر نئی تعلیم کا ایک چھوٹا سا پودا لگایا جو آج بوڑھا ہوچکا ہے اور جسے لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانتے ہیں۔

            اب یہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کہ اپنے اس ٹارگیٹ کو پانے کے لیے سرسید صاحب کو بہت بڑی بڑی قیمتیں چکانی پڑیں۔ اور سب سے بڑی قیمت جو انھوں نے چکائی ، وہ یہ کہ کئی موقعوں پر اپنے بنیادی عقیدے سے بھی سمجھوتہ کربیٹھے۔ ان کے سائنس نے جن باتوں کی نفی کردی، چاہے اس کا ثبوت اسلام یعنی قرآن اور حدیث میں موجود ہی کیوں نہ ہو، سرسید صاحب بلاچوں وچرا اس پر ایمان لے آئے۔
            سائنس نے کہا شیطان کوئی چیز نہیں ہے۔ میڈیکل سائنس بھوت پریت میں یقین نہیں رکھتا۔ تو قرآن وحدیث میں اس کا تذکرہ ہونے کے باوجود سرسید صاحب نے مان لیا کہ شیطان واقعی کوئی چیز نہیں ہے۔ ان کا یہ سمجھوتہ سائنس پر مکمل ایمان لانے کی وجہ سے ہوا تھا یا اسلام اور سائنس میں تطبیق دینے کی وجہ سے، پتا نہیں۔ مگر اتنا تو طے تھاکہ اسلام اور سائنس کے تئیں ایسے نظریے کا حامل شخص ضرور کہیں نہ کہیں آگے جاکر راستے سے بھٹک جائے گا۔
            یہاں سرسید کے عقائد میں پیدا ہونے والے لوچ کا تذکرہ کرنا بالکل مقصود نہیں ہے۔اور نہ ہی اس معزز تاریخی کردار کو لعن طعن کرنے کا ارادہ ہے جیسا کہ کچھ لوگ کرتے ہیں۔ بلکہ سائنس کی ترقی یافتہ ایڈیشن کو نگاہ میں رکھتے ہوئے گزرے ہوئے کل اور گزر رہے آج کا ایک تجزیہ کرنا مقصود ہے کہ کس طرح سچائیوں کے اردگرد مفروضات بنا پایل کے گھنگھرو بجابجاکے ناچتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچے پکے خیالات کی بنیادوں پر قائم کیے جانے والے انسانی تصوارت میں سچ سے نظریں ملانے اور جھوٹ سے دامن بچانے کا کتنا مادہ ہوتا ہے۔ بلکہ کس طرح غباروں پر تکیہ کرنے والوں کا سرہوا نکلتے ہی ایک دن زمین سے جالگتا ہے۔
            کہا جاتا ہے کہ سانٹا کلوز( جو کہیں نہیں ہیں پھر بھی) کرسمس کے موقعے پر دنیا بھر کے اچھے بچوں بچیوں کو گھوم گھوم کر تحفے بانٹا کرتے ہیں۔ وہ اپنی جادوئی بگھی پر سوار ہوکر یہ نیک کام بڑی آسانی سے انجام دیتے ہیں۔
            ہوسکتا ہے سانٹا کلوز کے اس خیالی کردار کو کسی قلم کار نے تخلیق کیا ہو مگر اسے پروموٹ کرنے کا کام ضرور کسی تجارتی کمپنی نے کیا ہوگا۔ خاص طور سے کرسمس کے موقعے پر بچوں کا سانٹا سے لگاؤ کروڑوں کا بزنس دیتا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انسان کے دماغ میں صدیوں سے پل رہے روایتی کرداروں کی نفی کرنے والا سائنس آج ٹیکنالوجی کا سہارا لے کر سانٹا کلوز کو ایک چلتی پھرتی حقیقت بنانے پر تلا ہوا ہے۔

            امریکہ کے North Carolina State University سے میکانیکل اور ایرواسپیس انجینئرنگ کے پروفیسر Larry Silverberg کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ بریکنگ سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے سانٹا کلوز دنیا بھر کے اچھے لڑکوں اور لڑکیوں کو تحفے بانٹ سکتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ اب تک ناممکن تصور کیا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ کیونکہ "Santa is using technologies that we are not yet able to recreate in our own labs".یعنی سانٹا جس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے یہ کرشمے انجام دے رہے ہیں اس سے ہم ابھی تک محروم ہیں۔


            سائنس دانوں نے ٹھان رکھی ہے کہ سانٹا کلوز کے خیالی کیریکٹر کو ایک نہ دن دنیا بھر کے سامنے کھڑا کرکے ہی دم لیں گے۔ ان کے اپنے لیب میں یہ کام بڑے زور وشور سے جاری ہے۔

            کاش کہ سرسید صاحب زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ جس سائنس کے لیے انھوں نے شیطان کے کردار کی نفی کرکے اپنے ایمان کو ہمیشہ کے لیے
            داغدار بنالیا تھا وہ کتنا ترقی کرگیا ہے کہ

            آج
            2009 میں
            The science of Santa
            کا درس دے رہا ہے۔

            (ممبئی مرر: 25؍دسمبر2009)

            Comment


            • #7
              Re: سرسید احمد خان کے باطل افکار

              کاش تم بھی اپنے دماغ کو استعمال میں لا کر کام کرنا شروع کردو

              گالیاں دینے والے تو میرے بھائی پیغمر کو بھی دیتے ہیں اور دیتےہی چلے آرہے ہیں
              اب کوئی تمھارے سامنے دوسروں کا لکھا پیش کردے تو کیا کرو گے

              بات گھوم پھر کر پھر وہیں آجاتی ہے ۔۔۔سر سید صاحب کو مسلمان یا کافر سمجھنے سے تمھارے یا میرے ایمان کا کوئی تعلق ہے ہی نہیں ۔۔اب یہیں سے اندازہ لگالو۔۔۔جو انکے بارے میں نازیبا الفاظ بھی ٹائپ کرتا ہے ۔۔۔ذرا سا گہرائی میں مشاہدہ کرلے ۔۔۔اور اپنے پرانے بزرگوں کے عقائد اور نظریات سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔۔۔ تو کوئ شک نہیں کے بلا شبہ کہہ اٹھے گا۔۔۔۔واقعی ۔۔اس قوم کی ترقی کے لیے جو کچھ سر سید احمد خان نے کیا۔۔۔
              وہ آج تک کوئی دوسرا نہیں کرسکا۔۔۔
              لیکن ۔۔۔جہاں ۔۔بات ہو اندھی تقلید ۔۔اور بنا سوچے سمجھے بک بک کرنے کی ۔۔۔تو وہاں
              پیغمبروں کے ہوتے ہوئے انکی سچی اور کھری تعلیم کچھ نہی کرسکی تو میری کیا اوقات ہے

              مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آتی پتہ نہیں کس نے تم کو یہ سکھا دیا ہے کہ یہ سب کچھ چھاپتے چلے جاو تمھاری عاقبت سنور جائے گی۔۔

              میں تو صرف تم سےیہی کہوں گا
              تمھارے لیے تمھارا دین ۔۔۔میرے لیے میرا دین

              مجھے مزید تم سے اب اس ٹاپک پر کوئ بحث نہیں کرنی

              تاریخی حقائق کے ساتھ کافی اچھے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے بھی اپنی بات پیش کی ہے

              سچی بات تو یہ ہے کہ اگر اتنا ہی برا جانتے ہو تو پھر تم کو ہر اس چیز سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے جو انکے طفیل تم کو ملی ہے





              Comment


              • #8
                Re: سرسید احمد خان کے باطل افکار

                میرے بھائی میں پہلے ہی عرض کر چکا سر سید احمد صاحب نے اپنے معرکہ آرا استدلال
                کہ ورک اف گاڈ یعنی نیچر اور ورڈ اف گاڈ یعنی قران پاک میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا اس کو لیکر انہوں نے
                مذہبب اور سائنس میں مفاہمت کی کوشش کی سر سید صاحب کو اصول تفسیر تو تھا ہی یہی کہ
                خدا نے ان پڑھ بدوں کے لیے قران ان ہی کی زبان میں اتارا پس قران مجید کے سیدھے سادے معنی
                لینے چاہیے لیکن بعد میں انہیں یہ اشکال در پیش ہوا کہ سیدھے سادے معنی لینے سے جدید دور کے
                تعلیم یافتہ طبقے کی تسکین نہیں ہو سکتی چنانچہ اخوان الصفا کی طرح انہوں نے
                بھی قران کی تمثیلی تفسیر لکھنے پہ کمر باندھی


                اور میں اوپر پوسٹ میں عرض کر چکا کہ ان کی اس تفسیر کو کوئی قابل فخر کارنامہ نہیں سمجھا
                جاسکتا لیکن ان لیکن ان کی تہ میں عقلی و فکری تحقیق
                و تجسس اور اجتہاد رائے کا جو بے پناہ جذبہ مخفی ہے وہ سر سید کی عظمت سے بڑا شاہد ہے ان کا ملت
                اسلامیہ کے ساٹیفک انداز نظر اور تحقیق کی اہمیت واضح کرنا اور خود اس پر عمل کی جرات کرنا
                انے والی صدیوں میں ان کو عظیم ترین کارنامہ سمجھا جائے گا


                واسلام


                فاسٹس

                :(

                Comment

                Working...
                X