مقامات انبیاء علیھم السلام پر عبادت
یہاں تین مسائل قابل غور ہیں:
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارداہ قصد معلوم کیے بغیر آپ کے فعال کی ظاہری صورت کے مطابق پیروی کرنے میں مشہور اختلاف ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے ہم عصروں نے ایک بات کہی ہے، اور باقی لوگوں نے دوسری بات کہی ہے، مہاجرین و انصار کا عام مسلک ابن عمر رضی اللہ عنہ کےبالکل خلاف تھا لیکن یہ چيز اس وقت ہماری بحث میں داخل نہین ہے- اسی قبیل سے یہ مسئلہ بھی ہے کہ مسافر، نماز کا وقت آجانے پر کسی ایسی جگہ نماز پڑھ لے، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اترے تھے اور نماز پرھی تھی-
2- یہ کہ قصد و ارادے کے ساتھ خاص نماز پڑھنے کے لی ےوہاں اترے، اگرچہ نماز کا وقت بھی نہ ہو تو یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے نہ کسی صحابی سے، بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے والد یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا اس فعل سے منع کرنا ثابت ہے اور تمام مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعیم سے بھی ایسا کرنا ثابت نہیں- اور اکر یہ بات ثابت بھی ہوجائے یہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایسا کیا ہے، تو ان کا یہ فعل حجت نہیں ہوسکتا-
3- یہ کہ وہ مقام راستے میں نہیں پڑتا لیکن مسافر خاص طور پر سفر کرکے وہاں نماز و دعا کے لیے جاتا ہے- جیسا کہ بعض لوگ اس غرض سے غار حرا، یا غار ثور، یا جبل طور وغیرہ مقامات و مشاہد پر جاتے ہیں، تو قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اس طرح کی کوئی بات بھی نہیں کرتے تھے- بلاشبہ جاہلیت میں قریش جبل حرا پر عبادت کے لیے جایا کرتے تھے- نبوت سے پہلے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ کیا ہے، بلکہ آپ پر وحی غار حرا ہی میں نازل ہوئی تھی لیکن نبوت سے مشرف ہونے کے بعد پھر کبھی اس غرض سے وہاں تشریف نہیں لے گئے- آپ خود وہاں گئے نہ مومنین اولین جو افصل الخلائق تھے، حالانکہ اسلام کے بعد 13 برس تک مکہ میں قیام رہا، پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور کئی دفعہ مکہ میں آمد ورفت ہوئی، مگر کبھی غار حرا کا قصد نہین کیا- اسی طرح آپ کے بعد خلفاء راشدین اور دوسرے سابقون اولون رضی اللہ عنھم نے غار حرا میں یا اس طرح کے کسی اور مقام کا دعا وغیرہ کے لیے قصد نہیں کیا-
اسی قدر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام کے سوا مکہ میں کوئی مسجد تعمیر نہیں کی- مکہ کی تمام مسجدیں بعد میں بنائی گئ ہیں- جن میں سمجد مولود کا بھی شمار ہے- اسی طرح آپ نے اپنی جائے پیدائش کی زیارت کا حکم دیا نہ بعیت عقبہ کی جگہ زیارت کا جو منی کے پیچھے واقع ہے، حالانکہ اگر یہ چيز مشروع اور مستحب ہوتی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ اس کی اطلاع ہوتی- پھر آپ کے بعد صحابہ رضی اللہ عنھم کو اس کا سب سے زیادہ علم ہوتا اور وہ اس عمل میں سب سے زیادہ آگے ہوتے لیکن چونکہ انھوں سے اس طرح کی کوئی بات نہین کی، لہذا وہ بدعت ہے- پس جو کوئی اسے عبادت و قربت اور اطاعت قرار دیتا ہے، تو وہ ان بزرگوں کے خلاف راستہ اختیار کرتا ہے اور دین میں ایک ایسی بات ایجاد کرتا ہے جس کا حکم اللہ تعالی نے نہیں دیا-
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامات کا یہ حکم ہے- مثلا غار حرا جہاں سب سے پہلے اللہ کا پیام آیا اور اسلام س ےپہلے بھی عبادت گاہ تھی، یا غار ثور جس کا ذکر قرآن میں وارد ہے اور جہاں اپ پر اللہ کی سکینت نازل ہوئی، جب ان مقامات کا یہ حال ہے تو دوسرے انبیاء علیھم السلام کے مقامات کا کیا حکم ہوگا- ظاہر سے عبادت و دعا کے لیے ان کا قصد اور بھی زیادہ خلاف شریعت ہوگا اور یہ اس صورت میں جب کہ ان مقامات کی صحت ثابت ہوجائے- لیکن یہ بات اور بھی زیادہ مکروہ ہوجاتی ہے جب معلوم ہوجائے کہ وہ محض فرضی ہین یا ان کی صحت ثابت نہیں کی جاسکتی-
کسی مقام کو بوسہ دینا:
اسی قبیل سے کسی مقام کو تبرک کے خیال سے مسح کرنا یا بوسہ دینا بھی ہے- نبی صلی اللہ عنیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے حجر اسود کے سوا خانہ کعبہ کے کسی مقام کو بوسہ نہین دیا- حتی کہ مقام ابراہیم کا بھی، تو ظاہر ہے آپ کے قدم کی جگہ یا کسی اور آدمی کے قدم کی جگہ بوسہ دینا، مسح کرنا کیونکر جائز ہے- بہت سے جاہلوں نے پتھروں پر قدم کے نشان بنا رکھے ہیں اور یہ دعوای کرتے ہیں اور لوگوں سے ان کی تعظیم کراتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشانات ہیں- حالانکہ اگر یہ تسلیم کربھی نیا جائے اور ان کی صحت ثابت بھی ہوجائے تو بھی ان کا بوسہ و مسح جائز نہ ہوگآ، لیکن جب کہ ان کا فرضی ہونا ثابت ہے تو اس طرح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا-
مقام ابراہیم اور دوسرے مقامات:
اگر کہا جائے کہ اللہ تعالی نے مقام ابرکہیم کو مصلی قرار دینے کا حکم دیا ہے، اسی پر دوسرےمقامات کا بھی قیاس کرلینا چاہیے؟ تو جواب یہ ہے کہ یہ حکم صرف مقام ابراہیم کے ساتھ ہی خاص ہے خواہ اس سے مراد وہ مقام ہو جو کعبہ کے پاس واقع ہے یا عرفہ و مزدلفہ و منی کے مشاعر ہوں-
تمام مسلمان اس بارے میں متفق ہیں کہ ان مشاعر کے خاص احکام میں دوسرے مقامات شریک نہین ہیں- مثلا کعبہ کے لیے طواف خاص ہے اور دوسرے مقامات کا طواف مشروع نہین- پس ان مقامات کے لیے جو دعائيں خاص کردی گئي ہیں، ان پر دوسرے مقامات کو قیاس کرنا روا نہیں- اور جو خصوصیات ان مقامات کو حاصل نہیں، وہ دوسرے مقامات کو بھی حاصل نہیں ہونگی- ہمارا ہستدلال یہ ہے کہ چونکہ ان خاص مقامات کا بوسہ و مسح بھی مشروع نہیں اس لیے دوسرے مقامات کا بوسہ و مسح بدرجہ اولی مشروع نہ ہوگا اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جو بات ان مقامات کے لیے مشروع ہو، وہ دوسرے مقامات کے لیے بھی مشروع ہوجائے-
اصل اس بارے میں یہ ہے کہ جن مساجد کے لیے خصوصیت کے ساتھ سفر کا اہتمام کرنا چاہیے، وہ صرف تین ہیں- مسجد حرام، مسجد اقصی اور مسجد نبوی- پس نماز، دعا، ذکر، تلاوت، اعتکاف اور دیگر اعمال صالحہ کے لیے انھی تین مقامات کا سفر کرنا چاہیے- ان کے سوا باتفاق علماء کسی مسجد کے لیے بھی خصوصیت کے ساتھ سفر نہیں کرنا چاہیے-
تالیف: امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
Comment