بسم الله، والحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله!
انبیاء کرام علیہم السلام تمام انسانوں کے افضل ہیں، جن کے سردار سیدنا نبی کریمﷺ ہیں۔ جو تمام بنی آدم کے سردار بھی ہیں اور سید الانبیاء والمرسلین بھی۔ آپﷺ تمام لوگوں میں اکمل ترین، افضل ترین اور سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز بھی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے آپ میں سے بشریت کے خصائص سلب ہوگئے ہیں یا آپ کے اندر خالق کی صفات میں سے کوئی صفات آگئی ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ آپ کی افضیلت اور اللہ کے ہاں محبوب ہونے کی بنیادی وجہ ہی آپ کی کامل بندگی وکامل ترین عبودیت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کو باوجود افضل ترین شخصیت ہونے کے وہ چیزیں لاحق ہوتی تھیں جو دیگر لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں، مثلاً آپ کو کھانے پینے، سونے اور شادی وغیرہ کرنے کی احتیاج ہوتی تھی، اسی طرح آپ بیمار بھی ہوتے تھے، اور اسی طرح آپﷺ دیگر انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، اسی لئے آپﷺ کیلئے کفن دفن اور قبر مبارک وغیرہ کا اہتمام کیا گیا۔ فرمان باری ہے:
﴿ کل نفس ذائقة الموت ﴾
نیز فرمایا: ﴿ إنك ميت وإنهم ميتون ﴾
نیز فرمایا: ﴿ وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد أفائن مت فهم الخلدون ﴾
دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بھی فوت ہوئے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:﴿ تلك أمة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ﴾
جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق نے اپنا مشہور مقولہ فرمایا تھا: (من کان یعبد محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فإن محمدا قد مات ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، وقال: (إنك ميت وإنهم ميتون) وقال: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسول أفائن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا) ...صحيح البخاري
1. یقیناً آپ (اے میرے حبیب!) فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار) بھی مر جائیں کے۔
ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: اس کا مفہوم بھی پچھلی حدیث مبارکہ کی طرح ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انبیاء کرام بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ فوت ہوگئے لیکن وہ اپنے قبروں میں زندہ ہیں، جیسے شہید اپنی قبروں میں زندہ ہیں، تو یہ بات صحیح ہے، صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
اسی طرح سیدنا انس سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:... مسند البزار، وصححه الألباني رحمه الله
لیکن یہ بات واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء وغیرہ کی یہ زندگی برزخی زندگی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی دنیا میں موجود زندہ لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ جیسے ہی انبیاء وشہداء فوت ہوتے ہیں، ان کی برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے، لیکن دفنانے سے پہلے وہ ہمارے سامنے تو مردہ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ انبیاء کرام اور شہداء وغیرہ کی قبر کی زندگی برزخی ہے، جسے دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، فرمان باری ہے: ﴿ ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾
یہ آیت کریمہ بہت واضح دلیل ہے کہ ہم اس برزخی زندگی کے معاملات نہیں سمجھ سکتے۔
امام ابن کثیر شہادت کے بعد شہداء کی روحوں کا سبز پرندوں میں آنا اور اور جنت کی سیر وغیرہ اور پھر شہیدوں کا اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کو دنیاوی اجساد میں لوٹانے کے مطالبے کے متعلق فرماتے ہیں: (يدل على أن هذا النعيم نعيم الأرواح ، وهذه الحياة هي حياة الأرواح أيضا ، وهي حياة برزخية ، لا تشبه الحياة الدنيا بوجه ، وأن الأرواح ليست في أجسادها التي كانت لها في الدنيا ، ولذا سألت الله أن ترد إلى أجساها حتى تقتل ...تفسیر ابن اکثیر 2 ؍1 164)
علماء لجنہ دائمہ فرماتے ہیں: حياة الأنبياء والشهداء وسائر الأولياء حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله ، وليست كالحياة التي كانت لهم في الدنيا " انتهى ... "فتاوى اللجنة الدائمة"
اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے فوت ہونے کے بعد ان کے جانشین خلیفہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات دیکھتے، ان کو نمازیں پڑھاتے، فتوے دیتے اور ان کے دیگر اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اور اسی لئے جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ زندہ ہوتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی وراثت نہ مانگتیں اور ابو بکر صدیق انہیں یہ جواب دیتے کہ ابھی تو نبی کریمﷺ فوت ہی نہیں ہوئے لیکن سیدنا ابو بکر صدیق نے انہیں جواب میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی انبیاء کی اصل وراثت ان کا علم ہوتا ہے، ان کی درہم ودینار کی وراثت تو صدقہ ہوتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
انبیاء کرام علیہم السلام تمام انسانوں کے افضل ہیں، جن کے سردار سیدنا نبی کریمﷺ ہیں۔ جو تمام بنی آدم کے سردار بھی ہیں اور سید الانبیاء والمرسلین بھی۔ آپﷺ تمام لوگوں میں اکمل ترین، افضل ترین اور سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز بھی ہیں۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی وجہ سے آپ میں سے بشریت کے خصائص سلب ہوگئے ہیں یا آپ کے اندر خالق کی صفات میں سے کوئی صفات آگئی ہیں، نہیں ہرگز نہیں، بلکہ آپ کی افضیلت اور اللہ کے ہاں محبوب ہونے کی بنیادی وجہ ہی آپ کی کامل بندگی وکامل ترین عبودیت ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کو باوجود افضل ترین شخصیت ہونے کے وہ چیزیں لاحق ہوتی تھیں جو دیگر لوگوں کو لاحق ہوتی ہیں، مثلاً آپ کو کھانے پینے، سونے اور شادی وغیرہ کرنے کی احتیاج ہوتی تھی، اسی طرح آپ بیمار بھی ہوتے تھے، اور اسی طرح آپﷺ دیگر انسانوں کی طرح فوت بھی ہوئے، اسی لئے آپﷺ کیلئے کفن دفن اور قبر مبارک وغیرہ کا اہتمام کیا گیا۔ فرمان باری ہے:
﴿ کل نفس ذائقة الموت ﴾
نیز فرمایا: ﴿ إنك ميت وإنهم ميتون ﴾
نیز فرمایا: ﴿ وما جعلنا لبشر من قبلك الخلد أفائن مت فهم الخلدون ﴾
دیگر انبیاء کرام علیہم السلام بھی فوت ہوئے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:﴿ تلك أمة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ﴾
جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدنا ابو بکر صدیق نے اپنا مشہور مقولہ فرمایا تھا: (من کان یعبد محمدا صلی اللہ علیہ وسلم فإن محمدا قد مات ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، وقال: (إنك ميت وإنهم ميتون) وقال: (وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسول أفائن مات أو قتل انقلبتم على أعقابكم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا) ...صحيح البخاري
1. یقیناً آپ (اے میرے حبیب!) فوت ہونے والے ہیں اور یہ (کفار) بھی مر جائیں کے۔
ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: اس کا مفہوم بھی پچھلی حدیث مبارکہ کی طرح ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انبیاء کرام بشمول سید الانبیاء والمرسلینﷺ فوت ہوگئے لیکن وہ اپنے قبروں میں زندہ ہیں، جیسے شہید اپنی قبروں میں زندہ ہیں، تو یہ بات صحیح ہے، صحیح حدیث میں سیدنا ابو الدراء سے مروی ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
اسی طرح سیدنا انس سے مروی ایک اور صحیح حدیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:... مسند البزار، وصححه الألباني رحمه الله
لیکن یہ بات واضح رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور شہداء وغیرہ کی یہ زندگی برزخی زندگی ہے، جس کا دنیاوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی دنیا میں موجود زندہ لوگ اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ بلکہ جیسے ہی انبیاء وشہداء فوت ہوتے ہیں، ان کی برزخی زندگی شروع ہوجاتی ہے، لیکن دفنانے سے پہلے وہ ہمارے سامنے تو مردہ ہی ہوتے ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ انبیاء کرام اور شہداء وغیرہ کی قبر کی زندگی برزخی ہے، جسے دنیا کے لوگ نہیں سمجھ سکتے، فرمان باری ہے: ﴿ ولا تقولوا لمن يقتل في سبيل الله أموات بل أحياء ولكن لا تشعرون ﴾
یہ آیت کریمہ بہت واضح دلیل ہے کہ ہم اس برزخی زندگی کے معاملات نہیں سمجھ سکتے۔
امام ابن کثیر شہادت کے بعد شہداء کی روحوں کا سبز پرندوں میں آنا اور اور جنت کی سیر وغیرہ اور پھر شہیدوں کا اللہ سے دوبارہ اپنی روحوں کو دنیاوی اجساد میں لوٹانے کے مطالبے کے متعلق فرماتے ہیں: (يدل على أن هذا النعيم نعيم الأرواح ، وهذه الحياة هي حياة الأرواح أيضا ، وهي حياة برزخية ، لا تشبه الحياة الدنيا بوجه ، وأن الأرواح ليست في أجسادها التي كانت لها في الدنيا ، ولذا سألت الله أن ترد إلى أجساها حتى تقتل ...تفسیر ابن اکثیر 2 ؍1 164)
علماء لجنہ دائمہ فرماتے ہیں: حياة الأنبياء والشهداء وسائر الأولياء حياة برزخية لا يعلم حقيقتها إلا الله ، وليست كالحياة التي كانت لهم في الدنيا " انتهى ... "فتاوى اللجنة الدائمة"
اسی طرح انبیاء کرام علیہم السلام کے فوت ہونے کے بعد ان کے جانشین خلیفہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے معاملات دیکھتے، ان کو نمازیں پڑھاتے، فتوے دیتے اور ان کے دیگر اختلافات کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اور اسی لئے جب نبی کریمﷺ فوت ہوئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وراثت کا مطالبہ کیا تھا، اگر آپ زندہ ہوتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کبھی اپنی وراثت نہ مانگتیں اور ابو بکر صدیق انہیں یہ جواب دیتے کہ ابھی تو نبی کریمﷺ فوت ہی نہیں ہوئے لیکن سیدنا ابو بکر صدیق نے انہیں جواب میں یہ حدیث مبارکہ پیش کی انبیاء کی اصل وراثت ان کا علم ہوتا ہے، ان کی درہم ودینار کی وراثت تو صدقہ ہوتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
Comment