Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا طواغیت کے لشکروں کا تعین کرکے انہیں کا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کیا طواغیت کے لشکروں کا تعین کرکے انہیں کا

    بسم اللہ الرحمن الرحیم



    کیا طواغیت کے لشکروں کا تعین کرکے انہیں کافر قرار دیا جاسکتا ہے؟

    ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم

    سوال نمبر: ۵۲۷
    تاریخ اشاعت: ۲۹۔١۰۔۲۰۰۹
    موضوع: عقیدہ
    جواب منجانب: منبر التوحید والجہاد کی شرعی کمیٹی


    سوال: اس میں کچھ شک نہیں کہ طواغیت تو ملّت اسلامیہ سے متعیّن طور پر مرتد ہیں، مگر میرا سوال اُن کی افواج اور پولیس کے بارے میں ہے کہ کیا ہم اُن کے افراد کو متعیّن کرکے مرتد کہہ سکتے ہیں؟ اور کیا پاکستانی اور افغانی فوج کے درمیان کوئی فرق بھی ہے کہ جو مومنوں کے خلاف دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور امریکی فوج کا کرداد ادا کرتے ہیں؟ اسی طرح مثلاً مصر اور مراکشی فوج کے درمیان؟ اور اگر طواغیت کے مددگار ادارے گروہ کے طور پر کافر ہیں، تو پھر کیا انسداد دہشت گردی فورس اور پولیس کے درمیان بھی کوئی فرق ہے؟ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

    سائل: ابو حمزہ الشامی

    جواب: بسم اللہ والحمد للہ والصلاة والسلام علی رسول اللہ، وبعد۔

    میرے سائل بھائی ۔۔۔ ! اللہ تعالی آپ کو ہر اچھے کام کی توفیق دے۔ جان لیجیے کہ طاغوتی حکومتوں کی افواج اور اُن کی پولیس اور اُن کے تمام سیکیورٹی ادارے، جن میں انسداد دہشت گردی فورسز بھی شامل ہیں، یہ سب متعیّن طور پر مرتد ہیں۔

    کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں کہ جو طواغیت کی مدد، اُن کی حمایت وتائید کرتے ہیں اور اُن کی حکومتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور یہی انسانی بناوٹی قوانین اور کفریہ دستوروں کا نفاذ لوہے اور آگ (لاٹھی گولی) کے ذریعے کرتے ہیں۔ اور یہی مجاہدین، علماء اور مؤحدین کو اِن کے جہاد، توحید اور اِن کی شریعت کے نفاذ کی کوششوں کی وجہ سے قتل کرتے ہیں۔ اور اِس کے علاوہ اور کئی ظاہری کفریہ کاموں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہذا طاغوت کے لشکروں کا بھی وہی شرعی حکم ہے، جو خود طاغوت کا شرعی حکم ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

    إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ

    واقعی فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر (اپنی تدبیر میں) بڑے غلط کار تھے۔ (القصص: ۸)

    اور اللہ تعالی کا فرمان:

    وَقَالُوا رَبَّنَا إِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا

    (الاحزاب: ٦۷)

    اور اللہ تعالی کا فرمان:

    الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ

    جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے، و ہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں۔ (النساء: ۷٦)

    لہذا ایک فوج کا دوسری فوج سے کوئی فرق نہیں اور کوئی بھی اس شرعی حکم سے باہر نہیں ہے سوائے اُس کے کہ جس کے حق میں کوئی شرعی مانع ملے، جو صرف وہمی نہ ہو بلکہ معتبر ہو۔ اور ہم آپ کو اس مسئلے سے متعلق دو اہم سوالوں کے جوابات کا مطالعہ کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ جو کہ آپ کو نیٹ کے درج ذیل دو لنکس پر ملیں گے:


    بہرحال یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ کسی کافر گروہ کے اداروں کی قیادت اور افراد میں کوئی فرق نہیں۔ جیسے پولیس اور انسداد دہشت گردی فورسز اور دیگر طاغوتی ادارے۔ کیونکہ یہ سب مل کر ہی طاغوتی نظام کا وہ جنگجو گروہ بنتے ہیں کہ جو شان وشوکت رکھتے ہوئے بھی اللہ تعالی کی شریعت سے رُکے ہوئے ہیں اور اُسکے دین کے خلاف لڑتے ہیں۔ لیکن ان میں اتنا فرق تو ہے کہ اِن میں سے بعض ادارے اور افراد دوسرے کئی اداروں اور افراد سے زیادہ کفریہ اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں۔چنانچہ انسداد دہشت گردی فورسز کا کفر پولیس کی دیگر فورسز کی نسبت زیادہ شدید اور سخت ہے، جس کی وجہ ان کا مؤحدین کے دین اور جہاد کی وجہ سے اُن کے خلاف براہ راست لڑنا ہے، اور اس کے برعکس پولیس کی دوسری فورسز کے بعض افراد کی ذمہ داری بناوٹی قوانین کی نصرت وحمایت اور اُس کے پہرے کی ہوتی ہے۔ اور یہ درجہ بندی عام کفر اور شدید کفر کے درمیان ہے۔ کیونکہ شریعت میں عام کفر کے مرتکب کافر کی سزا اور اُس کا معاملہ، اُس کافر کے کفر کی سزا کی طرح نہیں کہ جو اپنے کفر میں دین پر تنقید اور استھزاء کے ساتھ ساتھ اُس کے خلاف لڑتا بھی ہے، اور یہ بات کفر کے اوپر مزید کفر کا اضافہ کر کے اس کو شدید تر بناتا ہے۔ جیسے اندھیروں کا اوپر تلے اکھٹا ہونا ہے۔

    اور تمام توفیق اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔

    جواب منجانب: الشیخ ابو الولید المقدسی
    عضو شرعی کمیٹی
    منبر التوحید والجہاد ویب سائٹ


    پی ڈی ایف،یونی کوڈ
    http://www.mediafire.com/?yyfuqpuz7r23x31
Working...
X