بسم اللہ الرحمن الرحیم
کرکٹ کا خمار شرائط کے آئینے میں
ازقلم : فضیلۃ الشیخ/ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
عصر حاضر میں کھیل کود معاشرے کا ایک اہم جزء ہے ، جسے اب صرف کھیل ہونے کی حیثیت حاصل نہیں ہے بلکہ اسے ایک مستقل فن کی حیثیت دے دی گئی ہے ، ہر اخبار ، ریڈیو اسٹیشن اور ٹی وی چینل کے پروگراموں میں کھیل کود کو ایک بڑاحصہ دیا جاتا ہے ، بہت سے لوگوں کے یومیہ پروگراموں میں کھیل کود کا ایک ضروری حصہ شامل ہوتا ہے ، بلکہ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ایک گروپ ایسا ہے کہ کھیل میں اس کی زندگی کا مقصد ہے خواہ کھیل کھیلنے کی صورت میں ہو یا کھیل دیکھنے کی صورت میں ہو ، مسلمان بچے بچیوں کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو کھلاڑیوں ہی کو اپنا آئیڈیل بنائے ہوئے ہے اور انہیں ہی اپنے اسوہ زندگی سمجھے ہوئے ہیں ، دوستی و دشمنی کا معیار بھی کھیل و کھلاڑی ہیں ، خصوصی طور پر طلباء و طالبات کا طبقہ تو اس میں بری طرح ملوث ہے اور فی الواقع یہ یہودی شازش ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے پروٹوکول میں لکھا ہے ۔
لیکن سوال یہ ہےکہ کھیل و کھلاڑیوں کے اہتمام کی یہ صورتیں اسلام سے کہاں تک میل کھاتی ہیں ، اسلام میں کھیل کی کیا حیثیت ہے ؟ اس کے جواز کے ضابطے اور قواعد کیا ہیں ؟ کس قسم کا کھیل اسلام میں جائز ہے اور کون کون سے کھیل ناجائز ہیں ؟ یہ وہ نکتہ ہے جس پر ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے ، کیونکہ انسانی زندگی کا اصل مقصد عبادت ہے ، اللہ تعالٰی نے اسے زمین پر خلیفہ کی حیثیت بھیجا اور رکھا ہے ، اسے اس زمین کی اصلاح کا حکم دیا اور اس کے لئے قاعدے اور ضابطے بھی رکھے ہیں ، اس دنیا میں اپنے فرامین کے نفاذ کا انسان کو ذمہ دار بنایا ہے ، ارشاد باری تعالٰی ہے : " پھر ان کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں جانشین بنایا تاکہ دیکھیں تم کیسے عمل کرتے ہو " [ یونس ] ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے : " اور زمین میں حالات کی درستی کے بعد ان میں بگاڑ پیدا نہ کرو اور اللہ تعالٰی کو خوف و امید سے پکارو " [الأعراف:56] ۔
زمین پر فساد و بگاڑ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالٰی کی بندگی چھوڑ کر اپنے نفس یا دوسروں کی اطاعت شروع کردے اور تعالٰی کی بتلائی ہوئی راہ ہدایت کو چھوڑ کر ایسے اصول و قوانین کو اپنائے جو کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشا د فرمایا : "دنیا شیرین ہے [ جو زبان کو اچھی لگتی ہے ] اور سر سبز و شاداب ہے [ جو نظر کو بھاتی ہے ] اور اللہ تعالٰی تمہیں اس میں جانشین بنا کر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو ؟ لہذا دنیا کے قریب سے ڈرو اور عورتوں کے فتنے سے بچتے رہو " { صحیح مسلم :2742 ، الرقاق ، مسند احمد :3/22 ، بروایت ابو سعید الخدری }
لہذا ہروہ کام جو دنیا میں فساد [ اور سب سے فساد شرک اور اللہ تعالٰی کی نافرمانی ہے ] کا باعث اور عبادت الہٰی میں حائل ہو وہ اللہ تعالٰی کے نزدیک مبغوض اور ناپسندیدہ ہے ، ارشاد باری تعالٰی ہے : " اللہ تعالٰی فساد بگاڑ پیدا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : " مقابلہ جائز نہیں ہے مگر صرف تین چیزوں میں ، اونٹ دوڑ ، گھوڑ دوڑ ، اور تیر اندازی"{ سنن ابوداود :2574 ، سنن الترمذی :1700، بروایت ابو ہریرہ }۔
اس قسم کی متعدد آیات و احادیث کی روشنی میں علماء نے کھیل کو دکے کچھ شرطیں رکھی ہیں ، جن کا لحاظ بہت ضروری ہے ، اگر ان کا لحاظ نہ رکھا گیا تو وہ کھیل غیر شرعی ، مکروہ یا ناجائز ہوگا ۔
اس سلسلے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہر وہ کھیل شریعت میں جس کی طرف ترغیب نہیں ہے ، نہ اس کا کوئی دینی مقصد ہے اور کوئی دنیاوی حاجت بھی نہیں ہے تو وہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہے ، جن بعض کھیلوں کا ذکر حدیث میں وارد ہے وہ یہ ہیں گھڑ سواری ، تیر اندازی ، نشانہ بازی ، تیراکی ، کشتی اور دوڑ وغیرہ ، گویا ہر وہ کام جس کا مقصد جہاد کے لئے تیاری ہو وہ لائق اجر اور جن سے کوئی دینی و دنیاوی مقصد وابستہ ہو وہ مشروع ہے ۔
کسی بھی کھیل کی مشروعیت کے لئے علماءنے جو شرطیں رکھی ہیں ، ان میں سے اہم شرطیں درج ذیل ہیں :
۱- واجبی امور مین رکاوٹ نہ ہو ۔
۲- اس میں جوا اور سٹہ بازی نہ ہو ۔
۳- فضول خرچی نہ پائی جائے ۔
۴- جسمانی و مالی ضرر کا خطرہ غالب نہ ہو ۔
۵- کھیل میں کوئی خلاف شرع چیز شامل نہ ہو ۔
۶- حسب حاجت و ضرورت ہو ۔
۷- اسے صرف کھیل کی حیثیت دی جائے ۔
ان شرطوں میں اگر ایک شرط بھی مفقود ہوگی تو وہ کھیل غیر مشروع ہوگا البتہ کراہت و حرمت کا حکم اس شرط کے مفقود ہونے کی کیفیت پر منحصر ہوگا ۔
اب اگر موجودہ کھیلوں جیسے فٹ بال ، والی بالی کرکٹ اور ہاکی وغیرہ جو بذات خود اگر جواز کا درجہ رکھتے ہیں جب ان کی موجودہ صورت حال اور ان کے ساتھ لوگوں کے تعلقات کو دیکھتے ہیں تو ان کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ، چنانچہ اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو موجود ہ کھیلوں میں پہلی شرط مفقود نظر آتی ہے خواہ و ہ واجبات شرعیہ ہوں یا دنیوی التزامات یہ امر مشاہدہ میں ہے کہ ٹریننگ اور میچ کے دوران ، اگر نماز کا وقت آجائے تو نہ کھیلنے والے اور نہ ہی دیکھنے والے نماز کے لئے جاتے ہیں جب کہ یہ امر ہر شخص جانتا ہے کہ ایک وقت کی نماز کا چھوڑنا یا اس کے اصلی وقت سے ٹالنا بڑا عظیم گناہ ہے بلکہ بہت سے علماء کے نزدیک دین سے ارتداد ہے ، ہمارے یہاں کرکٹ میچ کے موقعہ پر عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہسپتال کا عملہ میچ دیکھنے میں اس قدر مشغول ہوجاتا ہے کہ بر وقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مریض دم توڑ دیتے ہیں ، ون ڈے میچ میں دفتروں کا عملہ یا تو ڈیوٹی پر آتا ہی نہیں یا پھر آفس میں میچ دیکھنے میں اس قدر مشغول رہتا ہے کہ لوگوں کے معاملات کی پرواہ نہیں رہتی ، طلبہ اور مدرسین کا حال مذکورہ لوگوں سے کچھ بہتر نہیں ہے بلکہ وہ بھی تعلیم و تعلّم کی ذمہ داری چھوڑ کر میچ دیکھنے میں مشغول ہوجاتے ہیں عام لوگوں کی تو بات کیا ملک کے وزیر اعظم اور صدر جمہوریہ اپنی تمام ذمہ داریاں چھوڑ کر نہ صرف یہ کہ میچ دیکھتے ہیں بلکہ اس کے لئے دوسرے ملکوں کا سفر بھی کرتے ہیں ، اگر دوسری شرط پر نظر رکھتے ہیں تو کھیلنے والوں اور کھیل کا مشاہدہ کرنے والوں کا یکساں نظر آتا ہے ، علماء نے لکھا ہے کہ ان مقابلوں میں جو مال ملتا ہے اس کا لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ، مقابلہ جائز نہیں ہے سوائے اونٹ دوڑ، گھوڑادوڑ اور تیر اندازی کے { سنن اربعہ } فتوی رقم :16342 ، جلد :15، فضیلۃ الشیخ سعد الشقری نے بھی اس کو راجح قرار دیا ہے ، المسابقات :202 } ۔
کھیل دیکھنے والے بھی اس موقعہ پر جس قدر جوا بازی کرتے اور سٹہ کھیلتے ہیں کسی اور موقعہ پر نہیں کھیلتے جیسا کہ ہر شخص کے مشاہدے میں ہے ۔
اور جہاں تک موجودہ کھیلوں خصوصاً میچوں میں غیر شرعی امور کے ارتکاب کا تعلق ہے تو شاید ہی کوئی ایسا میچ ہو جو موسیقی کے بغیر شروع ہوتا ہو بلکہ یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ میچ کے دوران گانے اور باجے کی وہ دھوم رہتی ہے کہ دور دور تک اس کی آواز پہنچتی ہے حتی کہ بعض ٹیموں کی تائید کرنے والے تو اپنے ساتھ عریاں اور نیم عریاں ناچنے اور گانے والیوں کو بھی لے کر آتے ہیں ، اور یہ خبر تو سب سے سنی ہوگی کہ موجوہ میچ کے موقعہ پر ایک لڑکی نے یہاں تک کہا کہ اگر میری ٹیم جیت گئی تو میں اس جگہ ننگی ہوکر ناچوں گی ۔۔۔۔ معاذ اللہ
اور جہاں تک جسمانی ضررر کا تعلق ہے تو اس کا امکان باکسنگ اور فری اسٹائل کشتیوں میں ہی تو زیادہ ہوتا ہے لیکن مالی ضرر تو ہر کھیل اور میچ میں ہوتا بلکہ ہمارے ملکوں میں جس قدر خرچ کرکٹ ، فٹبال اور ہاکی وغیرہ پر ہوتا ہے اگر اس مبلغ کو ملک کے فقیروں پر تقسیم کردیا جائے تو کوئی فقیر نہ رہ جائے ، وہ روپیہ ملک کے ناخواندہ لوگوں کی تعلیم پر صرف کردیا جائے خاص کر دینی تعلیم پر تو ملک میں کوئی جاہل باقی نہ رہے ، اگر یہی پیسہ دین ِحق کی تبلیغ پر صرف کردیا جائے تو ملک سے غیر اسلامی تنظیموں کا خاتمہ ہوجائے ، اور یہ امر بھی مشاہدے میں ہے کہ آج کھیل صرف کھیل نہیں رہ گیا ہے بلکہ امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی تعداد خاص کر جوان لڑکے و لڑکیوں کی زندگی کا ایک حصہ بلکہ زندگی کا مقصدِ اولین بن گیا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ بیٹ بلا اور گیند کو ان کے نزدیک وہ اہمیت حاصل ہے جو قرآن مجید اور دینی کتابوں کو حاصل نہیں ہے ، میچ دیکھنا ان کے نزدیک اس قدر اہم ہے کہ اس کے لئے دینی دروس کی مجلسیں اور نماز باجماعت بھی چھوڑ دیتے ہیں ، بلکہ قارئین کو تعجب ہوگا کہ ایک محترمہ نفلی روزے صرف اس لئے رکھ رہی ہیں تاکہ ان کی ٹیم کامیاب ہو جب کہ دنیا کے گوشے گوشے میں مسلمان طاغوتوں اور ظالموں کی چکی میں پس رہے ہیں ان کی فکر ان محترمہ کو نہیں ہے ، سچ ہے :
آ تجھ کو یہ بتلاوں تقدیرِ اُمم کیا ہے شمشیر و سنان اول طاووس و رباب آخر
اور تعجب کی انتہا اس وقت نہیں رہتی جب یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ اہل علم اور دین کی دعوت میں مشغول لوگوں کی دلچسپی ان کھیلوں سے اس قدر ہوتی ہے کہ اس کے لئے جماعت چھوڑ دیتے اور اگر مسجد میں جاتے بھی ہیں تو نماز میں ان کی توجہ قراءت و دعا کی طرف ہونے کے بجائے چوکا چھکا اور وکٹ کی طرف رہتی ہے اور جماعت ختم ہوتے ہی اپنے موبائل سے یہ خوشخبری سناتے ہیں کہ ہماری ٹیم جیت گئی ۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
بلکہ آج یہی کھیل باہمی تعلقات بنانے و بگاڑنے میں بہت رول ادا کررہا ہے ، دو بھائیوں میں اختلاف ، میاں بیوی کے درمیان ناچاقی بلکہ طلاق ، فرقہ وارانہ فسادات حتیٰ کہ دو ملکوں میں لڑائی کے واقعات بھی بعض میچوں کی وجہ سے پیش آئے ہیں ، تعجب پر تعجب یہ ہے کہ ایک اسلامک یونیورسٹی کے طلباء جو ایک ہی مسلک سے منسلک ہوتے ہیں ، کتاب وسنت پر عمل کے دعویدار ہوتے ہیں اور اپنا رشتہ سلف امت سے جوڑتے ہیں لیکن جب دو ملکوں میں کریکٹ میچ کی بات آتی ہے تو باہم ناراض اور ایک دوسرے کے مدِ مقابل نظر آتے ہیں ، ذرا دیکھیں کہ کہاں رہا معاملات و معادات کا عقیدہ ؟
لہذا ہر صاحبِ غیرت مسلمان سے التماس ہے کہ اس خطرناکی کو محسوس کرے اور حق و ناحق میں تفریق کرنے کی کوشش کرے ۔
و ما علینا الا البلاغ ۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وسلم تسلیما کثیرا ۔
Comment