بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ ﷺ کے حقوق
رسول اللہ ﷺ کے حقوق
مخلوق کے حقوق میں نبی اکرمﷺ کا حق سب سے زیادہ اہم ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِدًۭا وَمُبَشِّرًۭا وَنَذِيرًۭا ﴿8﴾ لِّتُؤْمِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ
ترجمہ: "(اے نبی!) بلاشبہ ہم نے آپ کو گواہی دینے والا اور بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ (لوگو!)تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور دل و جان سے رسول کی مدد اور اس کی تعظیم و توقیر کرو۔"(سورۃ الفتح،آیت 8-9)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين (صحیح بخاری)
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کی اولاد،والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔"
نبی کریم ﷺ کے حقوق یہ ہیں کہ آپ (ﷺ) کی عزت افزائی،آپ (ﷺ) کا احترام اور آپ (ﷺ) کی تعظیم کی جائے۔تعظیم ایسی ہونی چاہیے جس میں مبالغہ ہو نہ تقصیر۔آپ (ﷺ) کی عزت افزائی اور تعظیم تقاضا کرتی ہے کہ آپ (ﷺ) کی مکمل اطاعت کی جائے جس طرح آپ(ﷺ) کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کرتے تھے۔اس اطاعت کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے:
"قریش نے جب عروہ بن مسعود ثقفی کو صلح حدیبیہ کے وقت نبی اکرم ﷺ سے صلح کی بات چیت کرنے بھیجا تو (واپس جا کر) اس نے کہا:میں شاہ ایران،شاہ روم اور شاہ حبشہ کے دربار میں بھی گیا ہوں ،مگر میں نے کسی بادشاہ کے ساتھیوں کو اس کی ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسے محمدﷺ کے اصحاب اس کی تعظیم کرتے ہیں ۔جب وہ انہیں حکم دیتے ہیں تو جلد از جلد بجا لاتے ہیں ۔جب وہ وضو کرتے ہیں تو اُن کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اور جب وہ بات کرتے ہیں تو خاموش ہو جاتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے اُن کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔"
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نبی ﷺ سے اس قدر والہانہ عقیدت کا اظہار اس لیے کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کی فطرت میں مکارم اخلاق،نرم مزاجی اور فراخ دلی جیسے اوصاف ودیعت کر رکھے تھے۔اگر آپ (ﷺ) سخت طبیعت والے ہوتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ (ﷺ) کے ہم نشین نہ بنتے۔
نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی تصدیق کی جائے۔جس بات کا آپ (ﷺ) نے حکم دیا ہو وہ بجا لایا جائے اور جس امر کی ممانعت یا سرزنش کی ہو،اس سے پرہیز کیا جائے۔اور اس بات پر ایمان ہو کہ آپ (ﷺ) کی راہ ہدایت تمام راہوں سے بہتر ،آپ (ﷺ) کی شریعت سب شریعتوں سے اکمل ہے۔آپ (ﷺ) کی شریعت پر کسی بھی قانون کو مقدم نہ کیا جائے،خواہ اس کا ماخذ کچھ بھی ہو۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًۭا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًۭا ﴿56﴾
ترجمہ: تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (سورۃ النساء،آیت 65)
اور فرمایا:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿31﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ آل عمران،آیت31)
نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ (ﷺ) کی شریعت اور ہدایت کا ہر حال میں دفاع کیا جائے۔اگر حالات اسلحہ کا تقاضا کرتے ہوں اور انسان اس کی قدرت رکھتا ہو تو قوت کے ساتھ دفاع کرے۔جب دشمن دلائل و شبہات سے حملہ آور ہو تو علم سے اس کا دفاع کرے۔اس کے دلائل و شبہات اور تخریبی بیانات کا ازالہ کرے۔
کسی مومن کے لیے ہرگز ممکن نہیں کہ وہ کسی کو نبی کریم ﷺ کی شریعت یا آپ (ﷺ) کی ذات کریم پر حملہ کرتے سنے اور خاموش رہے جبکہ وہ اس کے دفاع کی طاقت رکھتا ہو۔