Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

! اصطلاحات شریعہ !

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ! اصطلاحات شریعہ !

    اسلام علیکم معزز قارئین کرام کچھ عرصہ قبل ہم نے ایک مخصوص مسئلہ پر کلام کرتے ہوئے چند فقہی اصطلاحات کی تعریف (علماء امت کے حوالہ سے) نقل کی تھی ان تعریفات کی افادیت کے پیش نظر ہم اسے معزز قارئین کے لیے بھی پیش کرتے ہیں ۔ ۔ ۔۔


    فرض

    فرض کا لغوی معنی مقرر کرنا اور لازم کرنا ہے یہ لفظ انھی معنوں میں قرآن پاک میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم ۔ ۔ سورہ الاحزاب
    ترجمہ بیشک ہم جانتے ہیں کہ جوکچھ ہم نے مقرر (لازم ) کیا اُن پر ازواج کے لیے ۔

    فرض کی اصطلاحی تعریف :
    فرض وہ ہوتا ہے جو کہ دلیل قطعی سے ثابت ہو یعنی قرآن و حدیث کی ایسی واضح نص یعنی دلیل کہ جس میں کسی قسم کے کوئی شبہ کی گنجائش نہ ہو اور فرائض شریعت میں مقرر ہیں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی جیسے نماز پنجگانہ، روزہ زکواۃ ،حج وغیرہ کیونکہ شریعت ان افعال کو کرنے کا لازمی مطابہ کرتی ہے اس لیے بھی انکو فرض کہا جاتا ہے ۔


    فرض کا حکم :
    فرض میں چونکہ فعل کے بجا لانے کا لازمی مطالبہ ہوتا ہے اس لیے انکے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر گناہ ہوتا ہے اور اسکی فرضیت کے انکار سے کفر لازم ہوتا ہے یعنی کوئی اگر نماز کی فرضیت ہی کا انکار کربیٹھے تو وہ بالاجماع کافر ہے ۔ ۔ ۔


    واجب کی لغوی تعریف :
    لغوی اعتبار سے واجب کے تین معنٰی ہیں لزوم ، ثبوت ، سقوط
    اصطلاحی تعریف :
    یہ فرض کا قائم مقام ہوتا ہے اور یہ ایسا حکم کہ جس کے کرنے کاشریعت نے لازمی مطالبہ کیا ہو مگر وہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے قطعی نہ ہو بلکہ بلکہ ظنی الدلیل ہو یعنی قرآن و سنت کی کسی ایسی نص سے ثابت ہو کہ جس میں شبہ پایا جائے یعنی اس کا مفھوم تو اپنے تعین میں فرض کی طرح واضح ہو لیکن اسکا ثبوت اپنے اثبات میں قطعی نہ ہو بلکہ کسی شبہ کا شکار ہوجیسے درج زیل حدیث ۔ ۔ ۔
    ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرض زکواۃ الفطر من رمضان علی الناس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    ترجمہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر رمضان میں صدقہ فطر کو فرض یعنی واجب کیا
    اس حدیث میں اگرچہ فرض کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ فرضیت پر دلالت کرتا ہے مگر چونکہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور اخبار احاد اپنے ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہیں لہذا ان میں فرض کی شرط یعنی قطعیت یعنی قطعی الثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان سے ثابت ہونے والا کوئی بھی حکم فرض کا درجہ نہیں (کیونکہ فرض اپنے ثبوت اور مدلول پر اپنی دلالت دونوں میں قطعی ہوتا ہے جبکہ واجب اپنے مدلول پر دلالت میں تو قطعی ہوتا ہے مگر ثبوت میں ظنی ہوتا ہے) پاسکتا بلکہ وہ وجوب کے درجہ میں آجائے گا ۔


    واجب کا حکم :
    واجب کا حکم فرض ہی کی طرح ہے یعنی اس کا بجا لانا ضروری ہے مگر اس کے وجوب کا انکار کرنے والا فرض کے انکار کرنے والےکی طرح کافر نہیں ہوگا بلکہ گمراہ کہلائے گا ۔


    مستحب کی تعریف
    مستحب یہ استحباب مصدر سے باب استفعال ہے اور اس کا مادہ حب ہے یعنی پسندیدہ ۔ ۔ ۔
    اصطلاحی تعریف
    :یہ ایسا فعل ہوتا ہے کہ شریعت میں جس کے کرنے والے کی تعریف کی جائے اور نہ کرنے والے کو ملامت نہ کیا جائے ۔ یعنی شریعت کا کسی ایسے کام کو طلب کرنا کہ جس کے ترک پر کچھ بھی لازم نہ آئے یعنی مذمت بھی نہ ہو ۔

    مستحب کا حکم :
    جس پر عمل کرنا اس پر نہ عمل کرنے سے بہتر ہو اور عمل کے ترک پر کوئی باز پرس نہ ہو۔
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2
    سوال
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ
    عابد بھائی جزاک اللہ

    تھوڑی سی مزید اگر تشریح ہو جائے تو میرے لئے مفید ہو گا

    واجب کو ہم سنت کہہ سکتے ہیں؟
    اگر ہاں تو پھر سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ کی تقسیم کو کسیے سمجھا جائے
    یا غیر مؤکدہ کو مستحب کے زمرے میں سمجھا جائے؟

    اس حوالے سے اگر کچھ عنایت فرما د یں تو نوازش ہو گی

    طالب دعا

    آپ کے حکم کے مطابق تھوڑی سی وضاحت مزید کیئے دیتا ہوں ۔ ۔ آپ کے سوال کی اگر فلسفیانہ تشریح کروں تو ہر وہ فعل جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا چاہے شرع میں اسکا تعین فرض یا وجوب کا ہی کیوں نہ ہو وہ ایک طرح کی سنت ہی کہلائے گا کہ اس عمل پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اسے سنت بنانے پر دلالت کرتا ہے مگر حاکم شرعی کے نزدیک مذکورہ فعل کی طلب اسکے فرض واجب یا مستحب ہونے کی حیثیت کو واضح کرتی ہے ہم یہاں چونکہ فقہی اعتبار سے اصطلاحات شریعہ کو بیان کررہے ہیں لہزا سنت کی فقہی تعریف کو بیان کردیتا ہوں
    سنت کی فقہی تعریف
    دین میں سنت اس طریقہ جاریہ کو کہتے ہیں جو کہ فرض یا واجب نہ ہو اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل سے ثابت ہو ۔

    سنت کا حکم :- شارع کا اپنے مکلفین کو سنت کے کرنے کا ایسا مطالبہ کرنا کہ جس میں فرض یا واجب والی سختی نہ پائی جائے مگر چونکہ سنت کو زندہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے اس کا ترک باعث عتاب ضرور ہے لہزا اسکو کرنے پر ثواب اور ترک پر ملامت ہے ۔
    پھر اسکی مختلف جہات و اقسام ہیں کہ جنکی تفصیل درج زیل ہے ۔ ۔

    فقہی اعتبار سے سنت کی اقسام :-
    بنیادی طور پر سنت دو طرح سے تقسیم ہوتی ہے
    باعتبار تاکید
    باعتبار تکلیف

    پھر باعتبار تاکید سنت کی مزید دو اقسام ہیں

    سنت مؤکدہ
    سنت غیر مؤکدہ

    سنت مؤکدہ کی تعریف ، حکم اور مثال :-
    جسکو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( فرضیت یا وجوب سے بچنے کے لیے ) ایک دو مرتبہ کے ترک کے سوا ہمیشہ بطور عبادت اپنایا ہو اور اسکی اقامت تکمیل دین کی خاطر ہو اور ترک باعث اساءت و کراہت ہو ۔ حکم اس کا یہ ہے کہ اس کو ترک کرنا باعث ملامت ہے کیونکہ یہ طلب فعل میں بالکل وجوب کی مانند ہے مگر حکما اس سے جدا ہے لہزا کہہ سکتے ہیں کہ واجب کی قائم مقام ہے ۔ لہزا اذان و اقامت اور نماز باجماعت وغیرہ اسکی مثالیں ہیں ۔

    سنت غیر مؤکدہ تعریف حکم اور مثال :-اس سے مراد وہ امور ہیں کہ جنکو کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور کبھی چھوڑ دیا حکم اس کا یہ ہے کہ اس کا کرنا باعث ثواب اور چھوڑنا کسی بھی عتاب کا باعث نہیں اور مثال اسکی عصر اور عشاء سے قبل کی چار سنتیں ہیں ۔ ۔ ۔

    تکلیف کے اعتبار سے سنت کی تقسیم
    تکلیف کے اعتبار سے بھی سنت کی دو قسمیں ہیں
    سنت عین
    سنت کفایہ

    سنت عین تعریف اورمثال :-ایسی سنت کی جس کی بجا آوری تمام مکلفین کے لیے بطور سنت مسنون ہو مثلا نماز تراویح کہ ہر ایک کے اپنے عمل سے ہی یہ سنت بجا آور ہوگی کسی دوسرے کے کرنے سے ادا نہ ہوگی ۔

    سنت کفایہ :- جسکی بجا آوری کا مطالبہ شارع ہر کسی سے نہ کرے بلکہ چند مکلفین کی ادائگی ہی سب کی طرف سے کفایت کرجائے جیسے رمضان میں محلے کی مسجد میں چند احباب کا اعتکاف بیٹھ جانا سارے محلے کی طرف سے کفایت کرجائے گا ۔ ۔

    امید کرتا ہوں آپکی تشنگی دور ہوگئی ہوگی وگرنہ ان معاملات میں کافی تفصیل اور بھی ہے ۔ ۔ ۔والسلام
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment

    Working...
    X