اسلام علیکم معزز قارئین کرام کچھ عرصہ قبل ہم نے ایک مخصوص مسئلہ پر کلام کرتے ہوئے چند فقہی اصطلاحات کی تعریف (علماء امت کے حوالہ سے) نقل کی تھی ان تعریفات کی افادیت کے پیش نظر ہم اسے معزز قارئین کے لیے بھی پیش کرتے ہیں ۔ ۔ ۔۔
فرض کا لغوی معنی مقرر کرنا اور لازم کرنا ہے یہ لفظ انھی معنوں میں قرآن پاک میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم ۔ ۔ سورہ الاحزاب
ترجمہ بیشک ہم جانتے ہیں کہ جوکچھ ہم نے مقرر (لازم ) کیا اُن پر ازواج کے لیے ۔
ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرض زکواۃ الفطر من رمضان علی الناس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ترجمہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر رمضان میں صدقہ فطر کو فرض یعنی واجب کیا
اس حدیث میں اگرچہ فرض کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ فرضیت پر دلالت کرتا ہے مگر چونکہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور اخبار احاد اپنے ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہیں لہذا ان میں فرض کی شرط یعنی قطعیت یعنی قطعی الثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان سے ثابت ہونے والا کوئی بھی حکم فرض کا درجہ نہیں (کیونکہ فرض اپنے ثبوت اور مدلول پر اپنی دلالت دونوں میں قطعی ہوتا ہے جبکہ واجب اپنے مدلول پر دلالت میں تو قطعی ہوتا ہے مگر ثبوت میں ظنی ہوتا ہے) پاسکتا بلکہ وہ وجوب کے درجہ میں آجائے گا ۔
فرض
فرض کا لغوی معنی مقرر کرنا اور لازم کرنا ہے یہ لفظ انھی معنوں میں قرآن پاک میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قد علمنا ما فرضنا علیھم فی ازواجھم ۔ ۔ سورہ الاحزاب
ترجمہ بیشک ہم جانتے ہیں کہ جوکچھ ہم نے مقرر (لازم ) کیا اُن پر ازواج کے لیے ۔
فرض کی اصطلاحی تعریف :
فرض وہ ہوتا ہے جو کہ دلیل قطعی سے ثابت ہو یعنی قرآن و حدیث کی ایسی واضح نص یعنی دلیل کہ جس میں کسی قسم کے کوئی شبہ کی گنجائش نہ ہو اور فرائض شریعت میں مقرر ہیں ان میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوسکتی جیسے نماز پنجگانہ، روزہ زکواۃ ،حج وغیرہ کیونکہ شریعت ان افعال کو کرنے کا لازمی مطابہ کرتی ہے اس لیے بھی انکو فرض کہا جاتا ہے ۔فرض کا حکم :
فرض میں چونکہ فعل کے بجا لانے کا لازمی مطالبہ ہوتا ہے اس لیے انکے کرنے پر ثواب اور نہ کرنے پر گناہ ہوتا ہے اور اسکی فرضیت کے انکار سے کفر لازم ہوتا ہے یعنی کوئی اگر نماز کی فرضیت ہی کا انکار کربیٹھے تو وہ بالاجماع کافر ہے ۔ ۔ ۔ واجب کی لغوی تعریف :
لغوی اعتبار سے واجب کے تین معنٰی ہیں لزوم ، ثبوت ، سقوط اصطلاحی تعریف :
یہ فرض کا قائم مقام ہوتا ہے اور یہ ایسا حکم کہ جس کے کرنے کاشریعت نے لازمی مطالبہ کیا ہو مگر وہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے قطعی نہ ہو بلکہ بلکہ ظنی الدلیل ہو یعنی قرآن و سنت کی کسی ایسی نص سے ثابت ہو کہ جس میں شبہ پایا جائے یعنی اس کا مفھوم تو اپنے تعین میں فرض کی طرح واضح ہو لیکن اسکا ثبوت اپنے اثبات میں قطعی نہ ہو بلکہ کسی شبہ کا شکار ہوجیسے درج زیل حدیث ۔ ۔ ۔ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم فرض زکواۃ الفطر من رمضان علی الناس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ترجمہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر رمضان میں صدقہ فطر کو فرض یعنی واجب کیا
اس حدیث میں اگرچہ فرض کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ فرضیت پر دلالت کرتا ہے مگر چونکہ یہ حدیث خبر واحد ہے اور اخبار احاد اپنے ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہوتی ہیں لہذا ان میں فرض کی شرط یعنی قطعیت یعنی قطعی الثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان سے ثابت ہونے والا کوئی بھی حکم فرض کا درجہ نہیں (کیونکہ فرض اپنے ثبوت اور مدلول پر اپنی دلالت دونوں میں قطعی ہوتا ہے جبکہ واجب اپنے مدلول پر دلالت میں تو قطعی ہوتا ہے مگر ثبوت میں ظنی ہوتا ہے) پاسکتا بلکہ وہ وجوب کے درجہ میں آجائے گا ۔
واجب کا حکم :
واجب کا حکم فرض ہی کی طرح ہے یعنی اس کا بجا لانا ضروری ہے مگر اس کے وجوب کا انکار کرنے والا فرض کے انکار کرنے والےکی طرح کافر نہیں ہوگا بلکہ گمراہ کہلائے گا ۔مستحب کی تعریف
مستحب یہ استحباب مصدر سے باب استفعال ہے اور اس کا مادہ حب ہے یعنی پسندیدہ ۔ ۔ ۔ اصطلاحی تعریف
:یہ ایسا فعل ہوتا ہے کہ شریعت میں جس کے کرنے والے کی تعریف کی جائے اور نہ کرنے والے کو ملامت نہ کیا جائے ۔ یعنی شریعت کا کسی ایسے کام کو طلب کرنا کہ جس کے ترک پر کچھ بھی لازم نہ آئے یعنی مذمت بھی نہ ہو ۔مستحب کا حکم :
جس پر عمل کرنا اس پر نہ عمل کرنے سے بہتر ہو اور عمل کے ترک پر کوئی باز پرس نہ ہو۔
Comment