بسم اللہ الرحمن الرحیم
اولیائے کرام کی شان
اولیائے کرام کی شان
بعض لوگ توحید و سنت کے علمبرداروں اور خالص قرآن و حدیث کے پیروکاروں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ "اولیائے کرام"کی تعظیم نہیں کرتے ،انہیں مانتے نہیں اور یہ کہ ان کی گستاخی کرتے ہیں۔میں نے ان الزامات کو سامنے رکھتے ہوئے تحقیق کی ہے اور یہ تحقیق اللہ کی کتاب "قرآن" سے کی ہے۔اللہ کی کتاب نے اٹھاسی (88) مقامات پر "ولی" "اولیاء" اور "ولایت" کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔اس طرح اولیائے کرام کے لیے بارہ (12) مقامات پر اللہ کی کتاب نے (لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ )کے جملہ کو استعمال فرمایا ہے۔ہم وہ پوری پوری آیات کہ جن کا اختتام مذکورہ بالا جملے پر ہوتا ہے ،وہ درج کر کے واضح کریں گے وہ کون سے "اولیائے کرام" ہیں ،کون سی صفات کے حامل ہیں کہ جن کے لیے بارہ مقامات پر اس جملے کو استعمال کیا گیا ہےاو یہ کہ ان کو ماننے کا مطلب کیا ہے؟انہیں کیا مانا جائے اور کیا نہ مانا جائے ،ان کی عزت کیا ہے اور توہین کس طرح سے ہوتی ہے؟اوریہ کہ عزت کرنے والے کون ہوتے ہیں اور توہین کرنے والے کون۔۔۔؟؟
ان ساری باتوں کا جواب ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب سے لیتے ہیں کہ جس لاریب کتاب "قرآن حکیم"نے سو (100)دفعہ مختلف پیرائے میں اولیائے کرام کا تذکرہ کیا ہے۔
قارئین کرام!ذرا غور کیجیے کہ اگر آپ نوجوان ہیں تو کئی بار آپ کے ساتھ ایسا ہوا ہو گا کہ کسی بزرگ نےآپ کو بیٹا کہہ دیا۔اب اس "بیٹا" کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس کے حقیقی بیٹے ہیں بلکہ یہ محض شفقت کا انداز ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ آپ کے باپ کی عمر کا ہے اور آپ بزرگ کی اولاد کے مقام پر ہیں۔اس کے برعکس اگر کوئی نوجوان ازراہ شرارت آپ کو "بیٹا" کہے تو آپ اسے گالی سمجھیں گے اور اپنی والدہ کی توہین خیال کریں گے ،چنانچہ لڑائی یقینی ہے۔پہلے واقعے پر آپ خوشی ومسرت محسوس کریں گے جبکہ دوسرے موقعے پر آپ غیظ و غضب میں مبتلا ہو جائیں گے ،حالانکہ واقعہ ایک ہی ہے،ظاہری بول ایک ہی ہے لیکن کرداروں کے فرق نے جملے کے مفہوم میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر دیا۔یہی معاملہ"ولی" کا ہے۔ولی کا معنی دوست ہے،اب ایسا دوست کہ جو مشکل وقت میں کام آتا ہے ،نفع و نقصان کا مالک ہے، بندے کی دستگیری کرنے والا اور نگرانی کرنے والا ہےتو ایسا "ولی" صرف اللہ ہے ،اس کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نےفرمایا:
وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴿107﴾
ترجمہ: اور تمہارے لیے الله کے سوا نہ کوئی دوست ہے نہ مددگار (سورۃ البقرۃ،آیت 107)
قارئین کرام! یقینا مذکورہ معنوں میں اللہ کے علاوہ کوئی ولی نہیں ہے کیونکہ اللہ نے اس بات کو بالکل واضح کر دیا ہے۔دیکھیے حضرت موسی علیہ السلام اپنے اللہ سے کس طرح مخاطب ہو رہے ہیں:
أَنتَ وَلِيُّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ ٱلْغَٰفِرِينَ ﴿155﴾
أَنتَ وَلِيُّنَا فَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَا ۖ وَأَنتَ خَيْرُ ٱلْغَٰفِرِينَ ﴿155﴾
ترجمہ: تو ہی ہمارا کارساز ہے سو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے (سورۃ الاعراف،آیت 155)
اسی طرح حضرت یوسف علیہ السلام اپنے اللہ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
فَاطِرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ أَنتَ وَلِىِّۦ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِى مُسْلِمًۭا وَأَلْحِقْنِى بِٱلصَّٰلِحِينَ ﴿101﴾
فَاطِرَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ أَنتَ وَلِىِّۦ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِى مُسْلِمًۭا وَأَلْحِقْنِى بِٱلصَّٰلِحِينَ ﴿101﴾
ترجمہ: اے آسمانو ں اور زمین کے بنانے والے! دنیا اور آخرت میں تو ہی میرا کارساز ہے تو مجھے اسلام پر موت دے اور مجھے نیک بختوں میں شامل کر دے (سورۃ یوسف،آیت 101)
جناب والا!اب اللہ کے آخری رسول ﷺ کا انداز بھی ملاحظہ کیجیے ،آپ (ﷺ) مشرکین مکہ کو توحید کی دعوت دیتے رہتے ،ان کے خودساختہ معبودوں کی بے بسی ثابت کرتے ہوئے انہیں آگاہ فرماتے:
إِنَّ وَلِۦىَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْكِتَٰبَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى ٱلصَّٰلِحِينَ ﴿196﴾
إِنَّ وَلِۦىَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْكِتَٰبَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى ٱلصَّٰلِحِينَ ﴿196﴾
ترجمہ: بےشک میرا حمایتی الله ہے جس نے کتاب نازل فرمائی اور وہ نیکو کاروں کی حمایت کرتا ہے (سورۃ الاعراف،آیت 196)
قارئین کرام! آگاہ رہیے!جن معنوں میں صرف اللہ ہی ولی ہے اور اس کے سوا کوئی دوسرا ولی نہیں ہے ،ان معنوں اور مفہوم میں دوسرا کوئی شخص کسی بندے کو "ولی" بنا دے تو یہ اللہ کے ساتھ شرک ہو گا۔مثال کے طور پر مشکل وقت میں صرف اللہ تعالیٰ کو ہی پُکارنا چاہیے ،لیکن اگر کوئی شخص کسی بزرگ بندے کو آواز دیتا ہے کہ وہ میری کشتی کو پار لگائے ،وہ قبر میں پڑا روحانی قوت سے اسے ساحل پر اتارےتو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو چیلنج کے انداز میں سمجھاتے ہیں:
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿194﴾
ترجمہ: بے شک جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں پھر انہیں پکار کر دیکھو پھر چاہے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہو (سورۃ الاعراف،آیت 194)
قارئین کرام !وہ بندے کہ جنہیں بزرگ،پیر اور ولی مان کر لوگ پکارتے ہیں تو جب ان پکارنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے بندو! ان ولیوں کی عبادت مت کرو،اولیائے کرام کو معبود نہ بناؤ تو وہ جھٹ کہہ اٹھتے ہیں :
وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ
إِنَّ ٱلَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَٱدْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا۟ لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ ﴿194﴾
ترجمہ: بے شک جنہیں تم الله کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں پھر انہیں پکار کر دیکھو پھر چاہے کہ وہ تمہاری پکار کو قبول کریں اگر تم سچے ہو (سورۃ الاعراف،آیت 194)
قارئین کرام !وہ بندے کہ جنہیں بزرگ،پیر اور ولی مان کر لوگ پکارتے ہیں تو جب ان پکارنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے بندو! ان ولیوں کی عبادت مت کرو،اولیائے کرام کو معبود نہ بناؤ تو وہ جھٹ کہہ اٹھتے ہیں :
وَٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦ أَوْلِيَآءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَآ إِلَى ٱللَّهِ زُلْفَىٰٓ
ترجمہ: جنہوں نے اس کے سوا اور کارساز بنا لیے ہیں ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ وہ ہمیں الله سے قریب کر دیں بے (سورۃ الزمر،آیت 3)
یعنی اولیائے کرام اللہ تعالیی اور ہمارے درمیان واسطہ ہیں ،وہ ہمیں اللہ کے قریب کر دیتے ہیں اور چونکہ وہ خود اللہ کے بہت قریب ہیں اس لیے وہ ہماری مدد بھی فرتے ہیں،اس لیے کہ اللہ ان کی بات کو ر د نہیں کرتااور چونکہ ہم ان کے مرید ہیں اور مردی ہونے کے ناطے وہ ہمارے احوال سے آگاہ بھی ہیں اس لیے ہماری فریاد ان کے آگے ہے اور ان کی اللہ کے سامنے ۔تو ان عقائد پر اللہ تعالیٰ ضرب شدید لگاتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
وَمَا كَانَ لَهُم مِّنْ أَوْلِيَآءَ يَنصُرُونَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۗ
وَمَا كَانَ لَهُم مِّنْ أَوْلِيَآءَ يَنصُرُونَهُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ ۗ
ترجمہ: اور ان کا الله کے سوا کوئی بھی حمایتی نہ ہوگا کہ ان کو بچائے (سورۃ الشوری،آیت 46)
یعنی اسباب کے بغیر مدد کو پہنچنے والا توصرف اللہ ہی ہے ،بندوں میں ایسا کوئی ولی نہیں جو یہ مدد کر سکے مگر جو بھی ولیوں کی پناہ میں آنا چاہتے ہیں ،ولیوں کو سب کچھ سمجھتے ہیں تو پھر دیکھ لیں کہ قرآن کے الفاظ میں ان ولیوں کا ڈیرہ،ان کی پناہ گاہ،ان کا حصار اور قلعہ کس نوعیت کا ہے اور وہ کتنے پانی میں ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ ٱلْعَنكَبُوتِ ٱتَّخَذَتْ بَيْتًۭا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ ٱلْبُيُوتِ لَبَيْتُ ٱلْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿41﴾
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَثَلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ ٱلْعَنكَبُوتِ ٱتَّخَذَتْ بَيْتًۭا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ ٱلْبُيُوتِ لَبَيْتُ ٱلْعَنكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا۟ يَعْلَمُونَ ﴿41﴾
ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جنہوں نے الله کے سوا حمایت بنا رکھے ہیں مکڑی کی سی مثال ہے جس نے گھر بنایا اور بے شک سب گھروں سے کمزور گھر مکڑی کا ہے کاش وہ جانتے (سورۃ العنکبوت،آیت 41)
غور فرمائیے! مکڑی کے جالے کی کیا حیثیت ہے ؟کچھ بھی تو نہیں، یہ تو ایک ایسا کمزور گھر ہے کہ جو نہ آندھی اور طوفان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور نہ بارش سے بچاؤ کا کام دے سکتا ہے ،یعنی اس گھر میں کوئی تحفظ نہیں۔اس طرح وہ آستانے اور دربار کہ جہاں لوگ اپنی مشکلات کے لیے جاتے ہیں تو وہ آستانے دربار اور خانقاہیں ایسے لوگوں کا کچھ بھی تحفظ نہیں کر سکتیں جو مشکلات میں پھنس کر یہاں پناہ لینے آتے ہیں تو اس فرمان الہی کی روشنی میں غور و فکر کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھلا عنکبوت( مکڑی) اپنے اس جال میں پھانس کر کن کو لے جاتی ہے؟
جناب والا جنہیں یہ شکار کرتی ہے وہ ہیں مکھی اور مچھر ،اب مکھیوں اور مچھروں کا ٹھکانہ کہاں ہیں ؟یہ بھی سوچو! جہاں تک مکھی کا تعلق ہے وہ تو غلاظت اور فضلے پر بیٹھتی ہے اور جو مچھر ہے وہ گندی نالیوں ،جوہڑوں اور متعفن و بدبودار تالابوں میں پرورش پاتا ہے۔چنانچہ متعف و بدبودار جگہ پر بیٹھنے والوں کو عنکبوت صاحب اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے اور جو ایک بار پھنس گیا وہ وہیں تھوڑی دیر بعد ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور جو کوئی زندہ رہا ،اس کی قسمت اچھی ہوئی اور کہیں سے اسے مدد مل گئی تو خلاصی ہو جائے گی وگرنہ یہی مرنا ہو گا ۔
تو جناب والا !ہم بھی عنکبوت کے جال پر قرآن کی ضرب لگا رہے ہیں ،قرآن جو کتاب حق ہے ،اس کی ضرب کیسی ہے؟اللہ تعالیٰ تذکرہ فرماتے ہیں:
بَلْ نَقْذِفُ بِٱلْحَقِّ عَلَى ٱلْبَٰطِلِ فَيَدْمَغُهُۥ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌۭ ۚ وَلَكُمُ ٱلْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ﴿81﴾
جناب والا جنہیں یہ شکار کرتی ہے وہ ہیں مکھی اور مچھر ،اب مکھیوں اور مچھروں کا ٹھکانہ کہاں ہیں ؟یہ بھی سوچو! جہاں تک مکھی کا تعلق ہے وہ تو غلاظت اور فضلے پر بیٹھتی ہے اور جو مچھر ہے وہ گندی نالیوں ،جوہڑوں اور متعفن و بدبودار تالابوں میں پرورش پاتا ہے۔چنانچہ متعف و بدبودار جگہ پر بیٹھنے والوں کو عنکبوت صاحب اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے اور جو ایک بار پھنس گیا وہ وہیں تھوڑی دیر بعد ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور جو کوئی زندہ رہا ،اس کی قسمت اچھی ہوئی اور کہیں سے اسے مدد مل گئی تو خلاصی ہو جائے گی وگرنہ یہی مرنا ہو گا ۔
تو جناب والا !ہم بھی عنکبوت کے جال پر قرآن کی ضرب لگا رہے ہیں ،قرآن جو کتاب حق ہے ،اس کی ضرب کیسی ہے؟اللہ تعالیٰ تذکرہ فرماتے ہیں:
بَلْ نَقْذِفُ بِٱلْحَقِّ عَلَى ٱلْبَٰطِلِ فَيَدْمَغُهُۥ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌۭ ۚ وَلَكُمُ ٱلْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ ﴿81﴾
ترجمہ: بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں پھر وہ باطل کا سر توڑ دیتا ہے پھر وہ مٹنے والا ہوتا ہے او رتم پر افسوس ہے ان باتوں سے جو تم بناتے ہو (سورۃ الانبیاء،آیت 18)
قارئین کرام! اس "ضرب شدید" کا فائدہ یہ ہو گا کہ مکھیوں اور مچھروں کے ساتھ اگر کوئی تتلی راستہ بھول کر یا انجانے میں عنکبوت کے جال میں جا پھنسی ہے تو اسے رہائی دلا کر دوبارہ گلاب کے پھول پر بٹھا دیا جائے ،موسم خزاں سے نکال کر موسم بہار میں لایا جائے ،صوفیوں کے سلسلوں اور سلاسل سے نکال کر کتاب و سنت کی طرف لایا جائے،اسے اندھیرے سے نکال کر روشنی میں لے آیا جائے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَٰتِ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ﴿257﴾
ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَٰتِ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ ﴿257﴾
ترجمہ: الله ایمان والوں کا مددگار ہے اور انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور جو لوگ کافر ہیں ان کے دوست شیطان ہیں انہیں روشنی سے اندھیروں کی طرف نکالتے ہیں یہی لوگ دوزخ میں رہنے والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے (سورۃ البقرۃ،آیت 257)
یاد رہے! ہر گناہ اندھیرا اور تاریکی ہے جسے ظلم کہا جاتا ہے ،گناہ میں مبتلا ہونے والا ظالم ہے مگر جو شرک کا ظلم ہے اسے اللہ نے "ظلم عظیم" یعنی سب سے بڑا اندھیرا کہا ہے اور شرک کا اندھیرا مچانے والے ظالم ہیں،ان ظالموں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ ان ظالموں کی طرف معمولی سا بھی مائل نہیں ہونا۔فرمایا:
وَلَا تَرْكَنُوٓا۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿113﴾
وَلَا تَرْكَنُوٓا۟ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ﴿113﴾
ترجمہ: اوران کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی آگ چھوئے گی اور الله کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے (سورۃ ھود،آیت 113)
قارئین کرام! اب اللہ تعالیٰ کے فرمان کا ایک اور انداز ملاحظہ کیجیے،کُل مخلوقات کا "ولی" اللہ رب العزت۔۔۔۔۔۔۔اپنے نبی کے ذریعے ان لوگوں کے کان کھول رہا ہے جنہوں نے اللہ کے علاوہ ولی بنا رکھے ہیں۔فرمایا:
قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّۭا ۚ
قُلْ أَفَٱتَّخَذْتُم مِّن دُونِهِۦ أَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ نَفْعًۭا وَلَا ضَرًّۭا ۚ
ترجمہ: کہو پھر کیا تم نے الله کے سوا ان چیزوں کو معبود نہیں بنا رکھا جو اپنے نفسوں کے نفع اور نقصان کےبھی مالک نہیں (سورۃ الرعد،آیت 16)
اب آخر میں ایک اور اعلان ملاحظہ کیجیے کہ جسے "آیت عزت" (اعلان عزت) کہا جاتا ہے کہ لوگوں نے جو ولی بنا رکھے ہیں ،وہ ان کے بارے میں یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ یہ اولیائے کرام اللہ کے ایسے محبوب ہیں کہ اللہ ان کے کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور یہ کہ اللہ نے ان ولیوں کو بعض اختیارات اور طاقتیں سونپ رکھی ہیں یا یہ کہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان واسطہ ہیں۔۔۔تو یہ اور اس طرح کی دیگر باتیں اللہ کی عزت اوروقار کے منافی ہیں،اس لیے کہ ان باتوں سے تو اللہ عزوجل کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اور یہ اس کی بڑی توہین اور گستاخی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ سے اعلان کرواتے ہیں:
وَقُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًۭا وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ شَرِيكٌۭ فِى ٱلْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ وَلِىٌّۭ مِّنَ ٱلذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًۢا ﴿111﴾
وَقُلِ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًۭا وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ شَرِيكٌۭ فِى ٱلْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ وَلِىٌّۭ مِّنَ ٱلذُّلِّ ۖ وَكَبِّرْهُ تَكْبِيرًۢا ﴿111﴾
ترجمہ: ور کہو کہ سب تعریف اللہ ہی کو ہے جس نے نہ تو کسی کو بیٹا بنایا ہے اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے اور نہ اس وجہ سے کہ وہ عاجز وناتواں ہے کوئی اس کا مددگار ہے اور اس کو بڑا جان کر اس کی بڑائی کرتے رہو (سورۃ بنی اسرائیل،آیت 111)
لوگو! اس آیت پر ،اس اعلان پر ،اس فرمان عزت پر بار بار غور کرو اور سوچو اور جواب دو کہ آخر تم نے اللہ میں کیا کمزوری دیکھی ہے کہ ولیوں کو اللہ اور مخلوق کے درمیان واسطہ مان لیا ہے؟کیا اللہ ان واسطوں وسیلوں کے بغیر اپنی مخلوق سے رابطہ نہیں رکھ سکتا؟یقینا وہ بڑا زبردست اور باریک بین ہے ،قوتوں والا ہے،وہ ایسی کمزوروں سے پاک ہے۔لہذا باز آ جاؤ!اور اللہ کے اعلان عزت کے بعد اللہ کے وقار و عزت کے منافی عقیدہ اور گفتگو سے رُک جاؤ۔
اور یاد رکھو!یہ جو لوگوں نے ولایت ولایت کی رٹ لگا رکھی ہے کہ فلاں ولی کو ولایت مل گئی،فلاں ولی کو فلاں چلہ کرنے سے ولایت مل گئی تو لایت کہ ۔۔۔جس کا معنی۔۔۔اقتدار و اختیار ہے،یہ اقتدار و اختیار اُسے کس نے دیا؟کیا اللہ نے دیا؟کیا اللہ اپنے اختیار ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟کیا وہ غوث،قطب،ابدال اور قیوم کے عہدے بنا کر اپنی بادشاہت ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟اور کیا وہ خود فارغ ہو گیا ہے؟استغفراللہ،نعوذباللہ،ا للہ تعالیٰ کی پناہ ایسے خیالات اور فاسد تصورات سے۔وہ مالک کُل تو فرما رہا ہے:
وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَٰفِلِينَ ﴿17﴾
اور یاد رکھو!یہ جو لوگوں نے ولایت ولایت کی رٹ لگا رکھی ہے کہ فلاں ولی کو ولایت مل گئی،فلاں ولی کو فلاں چلہ کرنے سے ولایت مل گئی تو لایت کہ ۔۔۔جس کا معنی۔۔۔اقتدار و اختیار ہے،یہ اقتدار و اختیار اُسے کس نے دیا؟کیا اللہ نے دیا؟کیا اللہ اپنے اختیار ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟کیا وہ غوث،قطب،ابدال اور قیوم کے عہدے بنا کر اپنی بادشاہت ان بندوں کے سپرد کر رہا ہے؟اور کیا وہ خود فارغ ہو گیا ہے؟استغفراللہ،نعوذباللہ،ا للہ تعالیٰ کی پناہ ایسے خیالات اور فاسد تصورات سے۔وہ مالک کُل تو فرما رہا ہے:
وَمَا كُنَّا عَنِ ٱلْخَلْقِ غَٰفِلِينَ ﴿17﴾
ترجمہ: اور ہم بنانے میں بے خبر نہ تھے (سورۃ المومنون،آیت 17)
اور جب ہم بے خبر نہیں تو کسی کو ولایت بانٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ:
هُنَالِكَ ٱلْوَلَٰيَةُ لِلَّهِ ٱلْحَقِّ ۚ
هُنَالِكَ ٱلْوَلَٰيَةُ لِلَّهِ ٱلْحَقِّ ۚ
ترجمہ: یہاں سب اختیار الله سچے ہی کا ہے (سورۃ الکہف،آیت 44)
قارئین کرام! بھلا کسے معلوم ہے اور کب معلوم ہوا؟جی ! یہ ایک منکر توحید تھا،شرک کرنے والا تھا،اللہ نے اس کے باغ کو تباہ کر دیا تھا۔اس تباہی کے بعد وہ ہاتھ ملتے ہوئے کہنے لگا:
يَٰلَيْتَنِى لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّىٓ أَحَدًۭا ﴿42﴾
يَٰلَيْتَنِى لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّىٓ أَحَدًۭا ﴿42﴾
ترجمہ: اور کہا کاش میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا (سورۃ الکہف،آیت 42)
اور جناب!پھر اللہ تعالیٰ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وَلَمْ تَكُن لَّهُۥ فِئَةٌۭ يَنصُرُونَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ
وَلَمْ تَكُن لَّهُۥ فِئَةٌۭ يَنصُرُونَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ
ترجمہ: اور اس کی کوئی جماعت نہ تھی جو الله کےسوا اس کی مدد کرتے (سورۃ الکہف،آیت43)
جی ہاں ! ثابت شدہ حقیقت یہی ہے کہ ولایت اللہ ہی کے لیے ہے ،کسی دوسرے کے پاس کوئی ولایت نہیں ہے۔
Comment