Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اولاد کے حقوق

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اولاد کے حقوق



    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اولاد کے حقوق

    اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں۔اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سب سے اہم ان کی اچھی اور صالح تربیت کرنا ہے تاکہ وہ معاشرے کے بہترین فرد بن سکیں۔
    اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قُوٓا۟ أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًۭا وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلْحِجَارَةُ

    ترجمہ: مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (سورۃ التحریم،آیت 6)



    نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    کلکم راع وکلکم مسوول عن رعیتہ،والرجل راع فی اھلہ ومسوول عن رعیتہ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

    "تم میں سے ہر کوئی نگران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہو گی۔



    اولاد والدین کے لیے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اولاد کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔اگر انہوں نے اولاد کی تربیت اسلامی انداز سے کی ہو گی تو وہ والدین کے لیے دنہا و آخرت میں باعث راحت ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
    وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ أَلَتْنَٰهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍۢ ۚ كُلُّ ٱمْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌۭ ﴿21﴾

    ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان میں ان کی پیروی کی ہم ان کے ساتھ ان کی اولاد کو بھی (جنت) میں ملا دیں گے اور ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے (سورۃ الطور،آیت 21)



    نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
    إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة إلا من صدقة جارية أو علم ينتفع به أو ولد صالح يدعو له (صحیح مسلم)

    "جب بندہ مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں۔صدقہ جاریہ،ایسا علم کہ لوگ اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھائیں یا صالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔"



    یہ اولاد کی تربیت کا ثمر ہے۔جب ان کی صالح تربیت کی جائے تو وہ والدین کے لیے ان کی زندگی میں بھی فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی۔
    بہت سے والدین اولاد کے حق کو معمولی سمجھتے ہیں ،وہ اپنی اولاد کو ضائع کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بارے میں ان سے باز پرس ہو گی۔وہ اپنی اولاد کے مشاغل اور ان کی سرگرمیوں سے غافل ہوتے ہیں۔انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کیا کر ہی ہے۔
    وہ کہاں جاتے ہیں اور کب واپس گھر آتے ہیں۔(نہ) وہ انہیں نیکی کی طرف روجہ دلاتے ہیں نہ بری خصلتوں سے منع کرتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت اور اس کو بڑھانے میں سخت حریص ہوتے ہیں کہ ہر اس بات کے لیے مستعد رہتے ہیں جو اُن کے مال میں اجافے کا باعث بنے،حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کو وہ بڑھا رہے ہیں وہ دوسروں کا ہے۔رہا اولاد کا مسئلہ تو یہ ان کی نظروں میں کچھ نہیں ہوتا ،حالانکہ ان کی محافظت دنیا و آخرت دونوں لھاظ سے ان کے لیے بہتر اورمفید تھی،نیز جیسے والدپر بچے کے خوردنوش اور پوشاک کی ذمہ داری ہے،ایسے ہی اپنے بچے کے دل کو علم و ایمان کی غذا مہیا کرنا اور تقوی کا لباس پہنانا بھی واجب ہے اور یہ بات پہلی بات سے کہیں بہتر ہے۔
    اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کیا جائے جس میں اسراف ہو نہ بخل کیونکہ اولاد پر خرچ کرنا باپ کی لازمی ذمہ داری ہےاور اس میں اللہ کی نعمت کا شکر بھی ہے۔
    اولاد کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اولاد کو ہبہ اور عطیہ دینے میں کسی ایک دوسرے پر فضیلت نہ دے کہ کسی کو کچھ دے دے اور دوسرے کو محروم رکھے کیونکہ یہ ظلم ہے اور اللہ ظالموں کو پسندنہیں کرتا،نیز اس سے خاندانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔
    صحیحین ،یعنی بخاری و مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ووالد بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا اور نبی کریم ﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ (ﷺ) نے دریافت فرمایا: :کیا تو نے ہر بیٹے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟"بشیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: نہیں ! آپ ﷺ نے فرمایا: "تو پھر اس غلام کو واپس لے لے ۔" اور ایک روایت میں ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا:
    اتقوا الله واعدلوا بين اولادكم (صحیح بخاری)

    "اللہ سے ڈرو ،اور اپنی اولاد کےدرمیان انصاف کرو۔"



    ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
    فلا تشهدنى اذا فانی لا اشھد علی جور (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

    "تب مجھے گواہ مت بناؤ ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔"



    حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اولاد میں سے کسی ایک کو دوسروں پر فضیلت دینے کا نام "جور" رکھا اور "جور" کے معنی ظلم کے ہیں جو حرام ہیں۔
    لیکن اگر کسی بیٹے کو ایسی چیز دے جس کی اس کو تو ضرورت ہو لیکن دوسرے بچوں کو ضرورت نہ ہوتو پھر اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تخصیص یا فضیلت کی بنا پر نہیں بلکہ حاجت کی بنا پر ہے،لہذا یہ نفقہ ہی کی صورت ہے اور جب والد وہ تمام باتیں جو اس پر واجب ہیں پوری کر دے،جیسے تربیت اور نفقہ وغیرہ تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اولاد اس سے نیکی کرے اور اس کے حقوق کا خیال رکھے۔

    اسلام میں بنیادی حقوق از شیخ محمد بن صالح العثیمین




Working...
X