شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ مُتَّبِعًا لِأَبِي حَنِيفَةَ أَوْ مَالِكٍ أَوْ الشَّافِعِيِّ أَوْ أَحْمَد: وَرَأَى فِي بَعْضِ الْمَسَائِلِ أَنَّ مَذْهَبَ غَيْرِهِ أَقْوَى فَاتَّبَعَهُ كَانَ قَدْ أَحْسَنَ فِي ذَلِكَ وَلَمْ يَقْدَحْ ذَلِكَ فِي دِينِهِ. وَلَا عَدَالَتِهِ بِلَا نِزَاعٍ؛ بَلْ هَذَا أَوْلَى بِالْحَقِّ وَأَحَبُّ إلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ يَتَعَصَّبُ لِوَاحِدِ مُعَيَّنٍ غَيْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَنْ يَتَعَصَّبُ لِمَالِكِ أَوْ الشَّافِعِيِّ أَوْ أَحْمَد أَوْ أَبِي حَنِيفَةَ وَيَرَى أَنَّ قَوْلَ هَذَا الْمُعَيَّنِ هُوَ الصَّوَابُ الَّذِي يَنْبَغِي اتِّبَاعُهُ دُونَ قَوْلِ الْإِمَامِ الَّذِي خَالَفَهُ. فَمَنْ فَعَلَ هَذَا كَانَ جَاهِلًا ضَالًّا؛ بَلْ قَدْ يَكُونُ كَافِرًا؛ فَإِنَّهُ مَتَى اعْتَقَدَ أَنَّهُ يَجِبُ عَلَى النَّاسِ اتِّبَاعُ وَاحِدٍ بِعَيْنِهِ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَئِمَّةِ دُونَ الْإِمَامِ الْآخَرِ فَإِنَّهُ يَجِبُ أَنْ يُسْتَتَابَ فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ.[مجموع الفتاوى 22/ 249]
اوراگر کوئی شخص امام ابوحنیفہ یا امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد رحمہم اللہ کا متبع ہو : اوربعض مسائل میں دیکھے کہ دوسرے کا مذہب زیادہ قوی ہے اوراس کی اتباع کرلے تو اس کا یہ کام بہتر ہوگا اوراس سے اس کے دین یا عدالت میں بالاتفاق کوئی عیب نہیں لگے گا، بلکہ یہ شخص زیادہ حق پر اور اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہوگا اس شخص کی بنسبت جواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی معین( امام) کے لئے تعصب رکھے۔
مثلا کوئی امام مالک یا امام شافعی یا امام احمد یا امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ کا متعصب ہو اور یہ سمجھے کہ اس معین امام کا قول ہی درست ہے اوراسی کی اتباع کرنی چاہئے نہ کہ اس کے مخالف کسی دوسرے امام کی ، "تو جو شخص بھی ایسا کرے وہ جاہل اور گمراہ ہے بلکہ بعض صورتوں میں وہ کافر ہو جاتا ہے" چنانچہ جب وہ یہ اعتقادر کھے کہ لوگوں پر ان ائمہ (اربعہ) میں سے کسی ایک معین امام ہی کی اتباع کرنی ہے اوردوسرے کسی امام کی نہیں، تو ایسی صورت میں واجب ہوگا کہ اس شخص سے توبہ کرائی جائے، پھر اگر توبہ کرلے توٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا(کیونکہ ایسی صورت میں وہ کافر ہوجائے گا)
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں:
بَلْ غَايَةُ مَا يُقَالُ: إنَّهُ يَسُوغُ أَوْ يَنْبَغِي أَوْ يَجِبُ عَلَى الْعَامِّيِّ أَنْ يُقَلِّدَ وَاحِدًا لَا بِعَيْنِهِ مِنْ غَيْرِ تَعْيِينِ زَيْدٍ وَلَا عَمْرٍو. وَأَمَّا أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: إنَّهُ يَجِبُ عَلَى الْعَامَّةِ تَقْلِيدُ فُلَانٍ أَوْ فُلَانٍ فَهَذَا لَا يَقُولُهُ مُسْلِمٌ [مجموع الفتاوى 22/ 249]
زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ عام آدمی کے لئے جائز ہے یا مناسب ہے یا واجب ہے کہ بغیر زید، عمرو کی تعین کے کسی بھی شخص کی تقلید (یعنی تقلید غیر شخصی) کرے، رہا کسی کا یہ کہنا کہ کہ عام آدمی پر واجب ہے کہ فلان یا فلاں ہی کی تقلید(یعنی تقلید شخصی) کرے تو یہ بات کوئی مسلمان نہیں کہہ سکتا۔
Comment