Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم

    الحمد للہ رب العالمین و الصلا ة والسلام علی ٰ رسول اللہ و علی ٰ اھلبیتہ الطیبین الطاھرین و لعنة اللہ علی ٰ اعدائھم اجمعین اما بعد۔۔۔
    وہابیوں کے مظالم اور ویرانی قبور اولیا ء و صالحین کے بارے میں اگر قلم فرسائی کی جائے تو ہزاروں صفحات پر مشتمل کتاب بھی کافی نہیں ہو سکتی ۔
    لیکن یہ مختصر سا مقالہ جو کہ صرف چند صفحات پر مشتمل ہے اس اعتبار سے قابل اہمیت ہے کہ اس مقالے کے اکثر مستناد اہل سنت کے اقوال اور انکی کتابیں ہیں ۔

    اگر تاریخ وھابیت پر نظر ڈالی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس مذہب کی بنیا د ہی خون ریزی، قتل و غارت گری اور مقدس مقامات کی توہین پر رکھی گئی ہے ۔
    مثال کے طور پر سعودی حکومت جو آج بھی مظہر وھابیت ہے اس حکومت کی بنیاد رکھنے والا محمد آل سعود جس نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر ١٢٠٥ ہجری سے لیکر ١٢٢٠ ہجری تک شریف غالب کے خلاف (جو کہ عربستان کا بادشاہ تھا )جنگ و خونریزی میں گزارے اور محمد آل سعود کے بعد اسکے بیٹے عبد العزیز نے شریف غالب کے خلاف جنگ جاری رکھی عبد العزیز جو کہ مذہب وہابیت کا مروج تھا اس نے دو مرتبہ نجف و کربلا پر حملہ کر کے وہا ں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی اور ہزاروں بے گناہ افراد کا خون بہایا اور متعدد مرتبہ مکہ پر حملہ کیا لیکن شریف غالب کے مقابلہ میں شکست سے دچار ہوا لیکن ایک شدید لڑائی میں شریف غالب کو شکست دے کر مکہ کا محاصرہ کر کے تمام ان لوگوں کو جو اسکے مخالفین میں شمار کئے جاتے تھے انکا قتل عام کر کے اپنی حکومت کی بنیاد مستحکم کرلی لیکن مدینہ اور طائف پر مسلط ہونے کے بعد جب جدہ پہونچا تو حکومت عثمانی جو کہ شریف غالب کی حمایت کرتی تھی نے جدہ پر مسلط ہونے نہیں دیا ، لیکن کچھ ہی دنوں بعد مکاری اور حیلہ گری کے ذریعہ شریف غالب کو گرفتار کر کے مصر تبعید کیا اور پھر قتل کر کے شریف غالب کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔
    ان جنگوں میں وہابیت کی حمایت کرنے والے انگریز تھے اور انگریزوں کی قدرت کا سہار الیکر وہابیوں نے اپنی قدرت کا سکہ جمایا اور اس کامیابی کے بعد تمام وہ آثار جو تاریخ اسلام کے لئے اور مسلمانوں کے لئے مقدس جگہیں تھیں انھیں منہدم کر دیا گیا ۔
    کسی بھی مسلمان کی قبر کو منہد م کرنا اس بات کی علامت ہے کہ صاحب قبر کی بے حرمتی کی گئی ہے اور اسلام ہر قسم کی بے حرمتی کو نا جائز جانتا ہے اور تمام مذاہب اسلامی اس بات کے اوپر متفق ہیں کہ قبروں کے اوپر بیٹھنا یا قبروں کے اوپر چلنا وغیرہ صاحب قبر کی بے حرمتی ہے اب مجھے نہیں معلوم ابن تیمیہ اور محمد ابن عبد الوہاب اور انکی پیروی کرنے والے کس مذہب کی بنیاد پر قبروں کو ویران کرنے کو صاحب قبر کی بے حرمتی نہیں سمجھتے ۔
    مکہ جیسی مقدس سر زمین جس میں خانہ خدا ، قبلہ مسلمین اور اس کے قرب و جوار میں چار سو سے زیادہ انبیاء کی قبریں پائی جاتی ہیں ۔
    صرف کعبہ کے اندر تین سو انبیا ء کی قبریں تھیں اور رکن یمانی و رکن حجر اسود کے درمیا ن تقریباّ ستّر پیغمبروں کی قبریں موجود تھیں اور اسی طرح زمزم اور مقام ابراہیم کے درمیان حضرت ہود ۔حضرت صالح و حضرت شعیب کی قبریں تھیں ۔
    لیکن جس زمانہ سے وہابیوں کے نجس قدم اس سر زمین مقدس پر پہونچے تمام ان قبروں کو جو سطح زمین سے اونچی تھیں انکو ویران ، اور اطراف مکہ کی تمام بارگاہوں اور زیارت گاہوں کو نیست و نابود کر کے اس مقدس سر زمین کے تقدس کو اس طرح پایمال کیا کہ تاریخ میں جس کی مثال نہیں ملتی ۔
    آ ٹھ محرم ١٢١٨ ہجری تاریخ مکہ کا وہ تاریک دن ہے جس میں وہابیوں نے مکہ پر قبضہ کرکے عوام الناس سے بیعت لی اور اسی دن یہ دستور دیا گیا کہ عصر کی نماز کے بعد لوگ رکن اور مقام کے درمیان لوگ جمع ہوں تاکہ حقیقی دین اسلام کو بیان کیا جائے ، دستور کے مطابق لوگ عصر کے وقت جمع ہوئے اس وقت وہابیوں کی طرف سے منتخب کردہ مفتی زمزم کے کنویں کی بلندی پر جاتا ہے اور اپنی گفتگو کا آغاز یوں کرتا ہے کہ شراب حرام ہے زنا حرام ہے اور اسی طرح کے دیگر مسائل کہ عوام جسکو پہلے سے جانتی تھی انھیں بیان کرنے کے بعد کہتا ہے کل (یعنی نو محرّم ١٢١٨کو ) تمام وہ بارگاہیں جنکو تم لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا ہے اور تمام وہ قبےّ اور گنبدیں جو قبروں کے اوپر بنائے گئے ہیں یہ سب کے سب ہماری نظر میں ایک بت سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے لہٰذا ان سب کو کل تمھیں لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے منہدم اور ویران کرنا ہے تاکہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا معبود باقی نہ رہے ۔
    یا بقول صاحب تاریخ مکہ قبروں کی ویرانی کا دستور اسی دن ایک دوسری نشست میں دیا گیا*
    نو محرّم ١٢١٨ ھجری کے سورج کے طلوع ہوتے ہی کیا دیکھا گیا کہ وہابیوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد اپنے ہاتھوں میں بیلچہ اور تخریب کا سامان لئے ہوئے قبروں اور قبروں پر بنے ہوے گنبدوں کو ویران کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ قبروں کے پتھر رہ گئے نہ قبروں کے نشان یہاں تک کہ پیغمبر (ص) اور خدیجہ کبری ٰ اور حضرت علی کے گھروں کو بھی منہدم کر دیا ۔
    صاحب تاریخ جبرتی لکھتے ہیں کہ وہابیوں نے زمزم کے اوپر بنائے گئے گنبد اور ان تمام گنبدوں کو جو کعبہ کے اطراف میں دکھائی دیتے تھے ، اسی طرح تمام وہ عمارتیں جو کعبہ سے بلند تھیں ایک ایک کو خاک میں ملا کر رکھ دیا (٩)۔
    وہابیوں نے مکہ میں تمام ان جگہوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر نابود کر ڈالا جہاں پر مومنین یا صالحین کی قبریں پائی جاتی تھیں ، اور جس وقت قبروں کے ساتھ یہ بے حرمتی کی جاتی تھی عالم یہ ہوتا تھا کہ ایک طرف ڈھول بجانے والوں کی قطاریں ہوتی تھیں اور دوسری جانب تالیاں بجانے والے اور اشعار پڑھنے والے ہوتے اور بے حرمتی کی انتہا یہ ہوتی تھی کہ قبروں کی ویرانی کے بعد ان پر پیشا ب کیا جاتاتھا ۔
    مکہ کی تمام قبروں کو تین روز کے عرصہ میں نیست و نابود کر دیا گیااور اہل مکہ وہابیوں کے خوف سے اپنے بزرگوں کی قبروں کے ساتھ ہونے والی بے حرمتی کو دیکھتے رہے ۔
    ١٣٤٣ ہجری میں جس وقت وہابیوں نے طائف اور مکہ پر اپنی حکومت کا اعلان کیا سب سے پہلے جس وقیحانہ فعل کا آغاز کیا وہ ابن عباس کے مقبرے پر بنائے گئے گنبد کی نابودی تھی ، اور یہی وہ سال تھا جس میں وہابیوں نے جنا ب عبد المطلب ، جناب ابو طالب اور جناب خدیجہ سلام اللہ علیھا کی قبروں کو ویران کیا اور پیغمبر اقدس(ص) و فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے بیت اقدس کو ایک بے حرمتی کے ساتھ نابود کردیا اور جس وقت سر زمین جدہ پر وہابیوں نے قدم رکھا جناب حوّا اور دیگر مومنین کی قبروں کو خاک میں ملا دیا ، خلاصہ یہ کہ وہابیوں نے مکہ ، جدہ اور طائف میں پائی جانے والی تمام قبروں کو اپنے دور حکومت میں نابود کر ڈالا ۔
    اور جس وقت وہابیوں کے منحوس قدم مدینہ جیسی مقدس سر زمین پر پہونچے تو وہاں بھی ایسے ایسے دلخراش اعمال انجام دئے کہ جس کو بیان کرتے ہوئے انسان کا بدن لرز جاتا ہے ۔
    انّیس جمادی الاولیٰ ١٣٤٤ ہجری کو شہر مدینہ وہابیوں کے قبضہ میں آچکا تھا اور پھر کیا تھا حکومت کے آدمی پہلی فرصت میں شہدائے احد کا مقبرہ اورجناب حمزہ سیدالشیدا کی قبر جو کہ شہر مدینہ کے باہر واقع تھی اسے اس طرح منہدم کیا کہ اگر کوئی جناب حمزہ کی زیارت کرنا چاہے تو اسے صرف خاک کے ایک تپّے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ سکتا ۔
    اور جس وقت شہر مدینہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے پیغمبر (ص) کے مرقد مطّہر کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور کچھ ہی دنوں بعد ( یعنی شوال ١٣٤٤ھجری ) قبرستان بقیع کی تمام قبروں کو اس طرح خاک میں ملایا گیا کہ ان قبروں کے نشان تک باقی نہ رہے یہاں تک کہ قبرستان بقیع کے اطراف کی دیواروں کو بھی باقی نہیں چھوڑا ۔
    قبرستان بقیع جس میں ائمہ کی قبروں کے علاوہ جن دیگر قبور کی توہین کی گئی اس میں پیغمبر(ص) کے بیٹے جناب ابراہیم اور حضرت ابوالفضل العباس کی مادرگرامی جناب ام البنین اور پیغمبر اکرم (ص) کے پدر بزرگوار جناب عبد اللہ اور جناب امام جعفر صادق کے فرزند جناب اسما عیل اور بہت سے صحابہ اور تابعین کی قبریں شامل ہیں ۔
    حضرت امام حسن مجتبی اور حضرت امام زین العابدین اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق کی قبروں سے وہ آہنی ضریح ( جسے ایران کے شہر اصفہان میں تیار کر کے مدینہ بھیجی گئی تھی ) لوٹ لی گئی ۔
    اور پیغمبر اکرم (ص) کے چچا جناب عباس اور حضرت علی کی مادر گرامی جناب فاطمہ بنت اسد کی قبروں کو بھی جو کہ ( ائمہ بقیع کی قبروں سے متصل تھیں ) منہدم کر دیا گیا ۔
    وہابیوں کی ان گستاخیوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ وہابیوں نے پیغمبر اکرم (ص) کی قبر مطہر کو ویران کرنے سے کیوں گریز اختیار کیا ؟اور کیا ویرا ن نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کا احترام کرتے تھے ؟
    دوسرے سوال کا جواب واضح ہیکہ ہرگز وہابیوں کی نظرمیں قبر پیغمبر اسلام (ص) کا احترام نہیں تھا ، بلکہ اگر و ہابیوں کا بس چلتا تو سب سے پہلے پیغمبر (ص) کی قبر کو ویران کرتے اس لئے کہ وہابیوں کے عقاید کے مطابق ہر وہ جگہ جسکا لوگ زیادہ احترام کرتے ہوں اس جگہ کا انہدام ضروری ہے بنا بر این پیغمبر (ص) کی قبر چونکہ خاص و عام کے لئے زیارت گاہ تھی اور ہے ، وہابیوں کے لئے بدرجہ اولیٰ اسکا مٹانا واجب تھا اور اگر عوام الناس کا خوف نہ ہوتا اور اپنی نابودی کا خطرہ در پیش نہ ہوتا تو یقینا سب سے پہلے قبر پیغمبر (ص)ہی ویران کی جاتی ، اور یہیں سے میرے پہلے سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ وہابیوں نے عوام کے خوف سے قبر پیغمبر (ص) کے انہدام سے گریز کیا ہے ۔
    لیکن بقول وہابیوں کے کہ قبر پیغمبر (ص) کو اس لئے ویران نہیں کیا گیا ہے کہ ہم پیغمبر (ص) کا احترام کرتے ہیں تو یہ احترام اس وقت کہاںچلا گیا تھا جب پیغمبر(ص)اور فاطمہ زہرا (س) کے بیت اقدس کو ویران کیا گیا ، اور یہ احترام اس وقت کہاں تھا جب پیغمبر (ص) کے پدر بزرگوار جناب عبدا للہ اور پیغمبر(ص) کی مادر گرامی جناب آمنہ کے مرقد کو ویران کیا گیا اور اسی طرح جب پیغمبر(ص) کے عزیزوں کی قبریں ویران کی جارہی تھیں کیوں احترام کو مد نظر نہیں رکھا گیا ۔

    منابع و مآخذ
    اسم کتاب------------- مولف
    کشف الارتیاب ( ترجمہ فارسی ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ سید محسن امین
    معالم المدرستین ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علامہ سید مرتضی ٰ عسکری
    تحلیلی نو بر عقاید وہابیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد حسین ابراہیمی
    النھایة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابن اثیر
    وھابیان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی اصغر فقیہی
    تا ریخ مکة المکرمة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قطب الدین حنفی
    فرقہ وہابی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علی دوانی
    کشف الشبھات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد عبد الوھاب



    Click image for larger version

Name:	etehad.jpg
Views:	1
Size:	35.9 KB
ID:	2487685

    Last edited by Jamil Akhter; 7 March 2012, 08:54.
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم



    Uploaded with ImageShack.us





    Uploaded with ImageShack.us

    Comment


    • #3
      Re: قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم

      :jazak::SubhanAllhaa:


      Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

      Comment


      • #4
        Re: قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم


        امت مسلمہ کے شرک کے متعلق احادیثہ نبویہ ۖ


        بسم اللہ الرحمن الرحیم


        ثوبان رض سے ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا

        {لا تقوم الساعۃ حتی تلحق قبائل من امتی بالمشرکین و حتی تعبد قبائل من امتی الاوثان}
        " اتنی دیر تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائيں اور یہاں تک کہ میری امت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے-"
        ابو داؤد، کتاب فتن:4252- مسند احمد: 5/278- 284- ابن ماجہ:2/1304 (3952)- مسند طیالسی (991)/ 133-

        نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی، نبی صلى اللہ عليہ وسلم کی امت میں سے آج کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو بت پرستی کے شرک میں مبتلا ہیں

        اولا: قبر کی عبادت کرنا ہی بت پرستی ہے

        نبی پاک صلى اللہ عليہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے

        { اللہم لا تجعل قبری و ثنا لعن اللہ قوما اتخذو قبور انبیاءھم مساجد}
        " اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا (کہ اس کی عبادت کی جائے) اللہ تعالی کی لعنت برسے ایسی قوم پر جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مسجدیں بنائيں"
        مسند حمیدی:1025- مسند احمد: 2/246- عبدالرزاق:8/464

        فقہ حنفیہ کی معتبر کتاب ردالمختار میں مرقوم ہے

        { اصل عبادۃ الاصنام اتخاذ قبور الصالحین مساجد}
        " بتوں کی عبادت کی اصل وجہ نیک لوگوں کی قبروں پر مسجد بنانا ہے "
        (اکمل البیان:45)

        اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں پر مسجدیں بنانا، وہاں عبادت کرنا، قبروں پر سجدہ ریزی وغیرہ کا مفھوم قبروں کو بت بنانا ہے لہذا جس بھی قبر پر عبادت سر انجام دی جاتی ہیں وہ بت ہین، ان کی پرستش کرنا لعنت کا مستحق ٹھرنا ہے

        ثانیا: ملک پاکستان میں کتنی ہی ایسی قبریں ہیں جن کی عبادت کی جاتی ہے

        اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے اور اب بھی کیا جاسکتا ہے بلکہ میں نے خود دیکھا ہے کہ صبح سویرے لوگ ویگنون پر جب علی ہجویری کے دربار کے پاس سے گذرتے ہیں تو ویگن میں بیٹھے بیٹھے علی ہجویری کو سلام کرتے ہیں اور معافیاں مانگتے ہیں، قبر پرستی کے ساتھ ساتھ وہاں پر لکڑی وغیرہ کے بت بناکر ان کی بھی پرستش کی جاتی ہے- مدیر مجلہ الدعوۃ جناب امیر حمزہ صاحب سلطان باہو کے مزار کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں کہ " میں ایک کمرے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اجازت پا کر جو اندر گیا تو وہان قبریں ہی قبریں تھی، جنہیں میں نے گنا تو وہ تقریبا 19 تھیں، ان قبروں میں سے بعض پر لکڑی کے بت رکھے ہوئے تھے- یہ بت بھی خواتین کے تھے ایک بت کی ہیت یوں تھی کہ عورت نے بچہ اٹھایا ہوا ہے"
        (آسمانی جنت اور درباری جہنم، ص:119)

        مزید لکھتے ہیں کہ

        " ایک عورت تھی، اس نے لکڑی کا کھلونا پکڑا اسے وہ اپنے جسم پر پھیرنے کے بعد اپنے بچوں کے جسم پر بھی پھیرنے لگی"
        (آسمانی جنت اور درباری جہنم، ص: 120)

        اگر مزید تسلی مطلوب ہو تو لاھور میں گھوڑے شاھ کے دربار کا مشاہدہ کرلیں، جہاں پر گھوڑوں کے بت رکھے ہوئے ہیں اور خواتین بالخصوص ان گھوڑوں کی پوجا کرتی دکھائی دیں گی

        معلوم ہوا کہ سرور کائنات، خاتم الرسل، محد رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کی پیشین گوئی حرف بحرف ہوری ہورہی ہے، کلمہ پڑھنے والے آپ ۖ کے امتی قبر پرستی اور بت پرستی کے قعر مذلت میں بری طرح گرے پڑے ہیں
        صحابہ کرام رض شرک سے انتہائی نفرت کرتے تھے حتی کہ اگر کہیں شرک کا شبہ تک پیدا ہورہا ہوتا تو اسے دفن کردیتے- سیدنا عمر رض کو جب معلوم ہوا کہ بعیت رضوان والے درخت کی لوگ پوجا پاٹ کرنے لگے ہیں اور اسے متبرک سمجھ کر اس کی عبادت کرنے لگے ہیں تو انہوں نے اسے اکھڑوادیا تھا

        { عن نافع ان عمر رضی اللہ عنہ بلغہ ان قوما یاتون الشجرۃ فیصلون عندھا فتوعدھم ثم امر بقطعھا فقطعت}
        " نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر رض کو یہ بات پہنچی کہ کچھ لوگ (بیت رضوان والے) درخت کے پاس آکر نمازيں ادا کرتے ہیں تو انہوں نے ان کو ڈرایا دھمکایا پھر اسے کاٹنے کا حکم دیا، پس اسے کاٹ دیا گیا"
        فتح بلباری: 7/448- طبقات ابن سعد: 2/100- البدع والنھی عنھا لمحمد بن وضاع- 42،43- ابن ابی شیبہ: 2/375، مطبوعہ حیدرآباد دکن- حافظ ابن حجر رح نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے

        معلوم ہوا کہ آپ ۖ کی پیشین گوئی سچی ثابت ہوئی، آپ صلى اللہ عليہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والوں نے اس درخت کو متبرک جان لیا- جہاں آپۖ نے 1400 صحابہ کرام رض سے بعیت لی تھی وہاں آکر لوگوں نے نمازيں ادا کرنا شروع کردیں- خلیفتہ المسلمین عمر بن الخطاب رض نے ان لوگوں کو ڈانٹا بھی اور اسے کٹوا بھی دیا


        علامہ احمد الرومی الحنفی رح اپنی کتاب مجالس الابرار میں فرماتے ہیں

        " قبروں کے لیے شمع، تیل وغیرہ نذر ماننا جائز نہیں، اس لیے کہ یہ معصیت و نافرمانی کی نذر ہے جو پوری کرنا جائز نہیں بلکہ اس پر قسم کے کفارے جیسا کفارہ لازم آئے گا اور ان قبروں پر اس جیسی اشیاء کا وقف کرنا بھی جائز نہیں، ایسا وقف یقینا نا درست ہے، اس کا اثبات اور نفوذ حلال نہیں- امام ابوبکر طرطوشی رح نے فرمایا: " دیکھو (اللہ تمہارے اوپر رحم کرے) جہاں کہیں بھی تم ایسا درخت پاؤ ج ولوگوں (کی حاجت) کا مقصود ہو اور وہ اس کی تعظیم کرتے ہوں اور اس سے تندرستی و شفاء کی امید رکھتے ہوں، ان میں کیل ٹھونکتے اور کپڑے لٹکاتے ہوں تو وہ ذات انواط ہے اسے کاٹ دو"
        (مجلس الابرار ص 20 مطبوعہ الریاض)

        لہذا ایسے مقامات جہاں پر دوختوں کی پوجا پاٹ ہوتی ہے انہیں ختم کردینا چاہیے تاکہ شرک کا خاتمہ ہو ایسے قبے اور پختہ مزارات کو گرانا واجب ہے-

        ابو ہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا

        { لا تقوم السّاعۃ حتّی تضطرب الیات نساء دوس علی ذی الخلصہ و ذوالخلصہ: طاعیۃ دوس الّتی کانو یعبدونھا فی الجاھلیّۃ}
        " اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ دوس قبیلہ کی عورتوں کے سرین ذی الخلصہ پر حرکت کریں گے، ذوالخلصہ دوس قبیلہ کا بت تھا جس کی وہ جاہلیت میں عبادت کرتے تھے"
        ( بخاری، کتاب الفتن، باب تغیر الزماں حتی تعبد الاوثان: 7226- کتاب السنۃ لابن ابی عاصم: (77،78) 1/38- مسند احمد: 2/271- صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی تعبد دوس الخصلۃ: 2906)

        سرین ہلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس بت کا طواف اور اس کی بندگی کریں گی، معلوم ہوا کہ بت پرستی امت مسلمہ میں قیامت سے پہلے داخل ہوجائے گی اور بت پرستی کو تو ادنی سا مسلمان بھی شرکسمجھتا ہے، لہذا امت مسلمہ میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے اور ہیں جو اس شرک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے مشرک ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس بیماری میں عورتیں زیادہ حصہ لیتی ہیں اور قبروں پر سجدہ ریز ہونے کے ساتھ نذریں، نیازین، اور چڑھاوے چڑھاتی ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ دور حاضر میں کتنے ہی ایسے آستانے اور استھان ہیں کہ لوگ ان کے گرد چکر کاٹتے اور طواف کرتے ہیں اور اسے عبادت سمجھتے ہیں

        جیسا کہ عوام الناس میں سے ایک شاعر کہتا ہے


        دوستی رب دی لوڑ ناہیں
        قلعے والے دا پلڑا چھوڑ ناہیں
        قلعے والے دے گرد طواف کرلے
        مکے جاونے دی کوئی لوڑ ناہیں
        ایہہ قصور نگاہ دا نادانوں
        رب ہور ناہیں پیر ہور ناہیں
        فضل رب دا جے مطلوب ہووے
        قلعے والے ولوں مکھ موڑ ناہیں
        (سی حرفی رموز معرفت ص:3)


        اسی طرح ص:16 میں لکھا ہے


        تو ہیں نور خدا قلعے والیا
        نائب مصطفی قلعے والیا
        سانوں کعبے دے جانے دی لوڑ نہیں
        کعبہ روضہ تیرا قلعے والیا

        یعنی نادان شاعر اپنے پیرغلام مرتضی قلعہ شریف ضلع شیخوپورہ والے کی مدح میں کہتا ہے کہ خدا کا نور ہے اور نبی ۖ کا نائب ہے بلکہ رب اور پیر ایک ہی ہیں، اس لیے ہمیں کعبے جاکر طواف و زیارت کی ضرورت نہیں کیونکہ پیر کا آستانہ و روضہ بذات خود کعبہ ہے
        العیاذ باللہ! اس لیے ہم یہاں ہی طواف کریں گے

        اسی طرح خواجہ غلام فرید چشتی چاچڑاں شریف والے کے دیوان ص:207 میں لکھا ہے

        چاچڑ وانگ مدینہ جاتم تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
        رنگ بنا بے رنگی آیا کیتم روپ تجلی
        ظاہر دے وچ مرشد ہادی باطن دے وچ اللہ
        نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ
        (حج فقیر برآستانہ پیر،ص:45)


        مندرجہ بالا حوالہ بات سے معلوم ہوا کہ عصر حاضر کے کلمہ گو بھی اسی طرح قبروں کے کرھ طواف و چکر کاٹتے ہیں جس طرح زمانہ جاہلیت کے لوگ بتوں کی عبادت کرتے تھے بلکہ آپ ۖ کی پیشین گوئی کے مطابق لوگوں نے بت پرستی شروع کردی ہے اور عورتیں اس فاسد عقیدے پر بالخصوص عمل پیرا ہیں

        صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے

        { عن عائشہ رض قالت سمعت رسول اللہ ۖ یقول: لا یذھب الّیل والنّھار حتّی تعبد الّات و العزّی}
        " عائشہ رض نے کہا میں نے رسول اللہ ۖ کو کہتے ہوئے سنا کہ اتنی دین تک رات اور دن ختم نہیں ہوں کے یہاں تک کہ لات و عزی کی پرستش کی جائے گی"(صحیح مسلم، کتاب الفتن: 2097)


        اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت سے قبل پھر لات و عزی کی عبادت ہونے لگے گی، لوگ اسلام کی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر لات و عزی کی عبادت کرنے لگ جائيں گے اور لات و عزی کی عبادت صریح شرک ہے

        ابوذر رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا

        { اتانی جبریل علیہ السلام فبشّرنی انہ من مات من امتک لا یشرک باللہ دخل الجنۃ قلت وان زنا و ان سرق؟ قال وان زنا وان سرق}
        " میرے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے، انہوں نے مجھے اس بات کی بشارت دی کہ آپ ۖ کی امت میں سے جو آدمی اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چيز کو شریک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہوا- میں نے کہا اگر اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو تب بھی جنت میں داخل ہوگ؟ آپ ۖ نے فرمایا: اگر اس نے ونا اور چوری بھی کی ہو"
        ( صحیح مسلم، کتاب الایمان:153)

        یعنی وہ اپنے گناھ کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہوجائے گا لیکن اس امت میں سے شرک کرنے والا ہمیشہ کے لی ےجہنم میں جلتا رہے گا، اس بات کی وضاحت مسلم شریف کے باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار سے بھی ہوجاتی ہے

        ابو ہریرہ رض سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا

        { لکلّ نبّی دعوۃ مستحابۃ فتعجّل کلّ نبّی دعوۃ وانّی اختاب دعوتی شفاعۃ لامّتی یوم القیامۃ نائلۃ ان شاءاللہ من مات من امّتی لایشرک باللہ شیئا}
        " ہر نبی کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے- ہر نبی نے اپنی دعا میں جلدی کی اور میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کے لی ےقیامت والے دن کے لیے چھپا رکھی ہے اور میری دعا ان شاءاللہ میری امت میں سے ہر اس آدمی کو پہنچے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کر شریک نہیں ٹھراتا تھا"(صحیح مسلم، الایمان:338- شرح السنہ، کتاب الدعوۃ: (1237) 5/6- مسند ابی عوانہ:90)


        معاویہ بن حیدہ رض نے کہا، رسول اللہ ۖ نے فرمایا

        { لا تقبل اللہ من مشرک اشرک بعد ماک اسلم عملا حتّی یفارق المشرکین الی المسلمین}
        "اللہ تعالی کسی ایسے مشرک کا کوئی معل قبول نہیں کرتا جس نے اسلام لانے کے بعد شرک کیا حتی کہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں میں آجائے"
        (ابن ماجہ؛ کتاب الحدود، باب المرتد عن دینۃ:2536- مسند احمد: 4/ 447)

        عبداللہ بن مسعود رض فرماتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی

        " وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کا لبادہ نہیں پہنایا، انہیں لوگوں کے لیے امن ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں"
        (الانعام:82)

        تو صحابہ کریم رض نے کہا ہم میں سے کس نے ظلم نہیں کیا؟ تو اللہ نے اس ظلم کی توضیح کرتے ہوئے یہ آیت نازل کردی

        { انّ الشّرک لظلم عظیم}
        (لقمان:13)
        " بے شک شرک ظلم عظیم ہے"

        ( صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ظلم دون ظلم:32)


        معلوم ہوا کہ ایمان لانے کے بعد بھی آدمی شرک کرسکتا ہے اور شرک کرنے کی وجہ سے اسے مشرک کہا جاسکتا ہے-

        ایک اشکال

        ہمارے کچھ مسلمان حضرات یہ اعتراض وارد کرتے ہیں کہ مسلمان قیامت تک شرک کر ہی نہیں سکتا اور نا سمجھی کی بناء پر یہ لکھ دیا ہے کہ


        " حضور ۖ کا ارشاد ہے کہ میری امت کے رگ و ریشہ میں توحید اس درجہ سرایت کرچکی ہے کہ مجھے ان کے دوبارہ شرک کی طرف لوٹ جانے کا مطلق اند؛شہ نہیں"
        فرقہ پرستی ص:72۔

        نیز کچھ ایسے ہی لوگ بخاری میں مروی عقبہ بن عامر رض کی بیان کرہ حدیث کا یہ حصہ کہ نبی پاک ۖ نے فرمایا

        { واللہ ما اخاف علیکم ان تشرکوابعدی ولکن اخاف علیکم ان تنافسو فیھا}
        " اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس بات سے نہیںڈدرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم ایک دوسرے کے مقابلے پر دنیا میں رغبت کرو گے"
        ( صحیح بخاری، کتاب الجنائز:1344)

        پیش کرکے کہتے ہیں کہ امت مسلمہ کبھی شرک نہیں کرسکتی- اسی طرح شداد بن اوس رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا
        {ان اخوف ما اتخوّف علی امّتی الاشراک باللہ امّا انّی لست اقول یعبدون شمسا ولا قمرا ولا مثنا ولکن اعمالا لغیراللہ وشھوۃ خفیّۃ}
        " مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ اشراک باللہ کا خوف ہے بہر کیف میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ سورج، چاند اور بتوں کی عبادت کریں گے بلکہ وہ غیر اللہ کی خاطر اعمال کریں گے اور محض خواہشات کے پیرو ہوں گے، یعنی خالص اللہ کے لیے عمل نہین کریں گے بلکہ دکھاوا کریں گے"
        ( ابن ماجہ، کتاب الزھد الریاء والسمعہ:4205- مسند احمد: 4/124)

        ازالہ

        ان ہر دو احادیث کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر مشرک نہیں ہوگی بلکہ بعض افراد امت مسلمہ سے ایسے ہونگے جو شرک کے مرتکب ہوں گے اور بعض قبائل بت پوجنا شروع کردیں گے جیسا کہ اوپر ابوداؤد، مسند احمد اور ابن ماجہ کے حوالے سے حدیث ثوبان رض سے مستفاد ہوتا ہے
        1/ شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رح رقمطراز ہیں

        {قولہ (ما اخاف علیکم ان تشرکو) ای علی مجموعہ لانّ ذالک قد مقع من البعض اعاذنا اللہ تعالی}
        " نبی پاک ۖ کے اس فرمان (مجھے تمہارے متعلق شرک کا ڈر نہیں) کا مطلب یہ ہے کہ تم مجموعی طور پر شرک نہیں کرو گے اس لیے کہ امت مسلمہ میں سے بعض افراد کی جانب سے شرک کا وقوع ہوا ہے، اللہ تعالی اپنی پناہ میں رکھے"
        ( فتح الباری:3/211)

        2/ علامہ بدر الدین عینی حنفی رح رقمطراز ہیں


        { معناہ علی مجموعکم لانّ ذالک قد وقع من البعض والعیاذ باللہ تعالی}
        ( عمدۃ القاری، شرح صحیح بخاری: 8/157)

        3/ علامہ ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی رح فرماتے ہیں


        { ای ما اخاف علی جمیعکم الاشراک بل علی مجموعکم لانّذالک قد وقع من البعض}
        ( ارشاد الساری لشرح صحیح بخاری:2/440)
        " ان ہر دو عبارات کا مفہوم بھی وہی ہے جو حافظ ابن حجر رح کی عبارت کا ہے "

        ائمہ محدثین رح کی تشریج سے معلوم ہوا کہ امت مسلمہ مجموعی طور پر مشرک نہین ہوگی البتہ بعض افراد و قبائل شرک کریں گے جیسا کہ آج کل بہت سے لوگ اہل قبور سے استغاثہ، فریاد رسی، نذر و نیاز وغیرہ کے شرک میں مبتلا ہیں

        اس فورم پر کچھ دوست ایسے آتے ہیں جو پنجابی زبان نہیں جانتے۔

        پنجابی اشعار

        دوستی رب دی لوڑ ناہیں
        قلعے والے دا پلڑا چھوڑ ناہیں
        قلعے والے دے گرد طواف کرلے
        مکے جاونے دی کوئی لوڑ ناہیں
        ایہہ قصور نگاہ دا نادانوں
        رب ہور ناہیں پیر ہور ناہیں
        فضل رب دا جے مطلوب ہووے
        قلعے والے ولوں مکھ موڑ ناہیں
        (سی حرفی رموز معرفت ص:3)

        اردو ترجمہ

        رب کی دوستی کی ضرورت نہیں
        قلعے والے کا دامن چھوڑ مت
        قلعے والے کے گرد طواف کر لے
        مکے جانے کی (تجھے) کوئی ضرورت نہیں
        یہ قصور نگاہ کا ہے نادانو!
        رب اور نہیں ، پیر اور نہیں
        فضل رب کا گر تجھے مطلوب ہو
        قلعے والے سے رخ پھیر مت


        اسی طرح ص:16 میں لکھا ہے

        پنجابی شعر

        تو ہیں نور خدا قلعے والیا
        نائب مصطفی قلعے والیا
        سانوں کعبے دے جانے دی لوڑ نہیں
        کعبہ روضہ تیرا قلعے والیا

        اردو ترجمہ

        تو ہے نور خدا اے قلعہ والے
        تو ہے نائب مصطفیٰ قلعہ والے
        ہمیں کعبہ جانے کی کوئی ضرورت نہین
        تیری قبر(نام نہاد روضہ) ہی ہمارا کعبہ ہے



        اسی طرح خواجہ غلام فرید چشتی چاچڑاں شریف والے کے دیوان ص:207 میں لکھا ہے

        سرائکی اشعار

        چاچڑ وانگ مدینہ جاتم تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
        رنگ بنا بے رنگی آیا کیتم روپ تجلی
        ظاہر دے وچ مرشد ہادی باطن دے وچ اللہ
        نازک مکھڑا پیر فریدا سانوں ڈسدا ہے وجہ اللہ
        (حج فقیر برآستانہ پیر،ص:45)

        اردو لب لباب
        شاعر صاحب فرما رہے ہیں
        چاچڑاں شریف مجھے مدینہ دکھائی دیتا ہے اور کوٹ مٹھن بیت اللہ
        ۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
        ہمارا پیر ظاہر میں تو مرشد ہے لیکن باطن میں وہ اللہ ہے
        (نعوذباللہ)
        ہمیں اپنے پیر فرید کا نازک چہر ہ اللہ کا چہرہ دکھائی دیتا ہے


        استغفراللہ!

        آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہی پرانا حلول کا عقیدہ جو یہودیوں، عیسائیوں اور ہندووں میں*پایا جاتا تھا آج مسلمانوں نے ہر زبان میں اس پر شعر کہے ہیں



        Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

        Comment


        • #5
          Re: قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم

          مسجدوں اور عیدگاہوں کا قبرستان کے قریب بنانا

          سجدوں اور قبرستانوں کو دیوار کے ذریعے الگ کردیا گیا ہو تو یہ کافی ہے اور جہاں دیوار نہیں ہے وہاں دیوار بنائی جائے تاکہ مسجدیں ، عیدگاہیں اور قبرستان الگ الگ ہوجائیں اور مسجدو عیدگاہ کی دیوار اور قبرستان کی دیوار کے درمیان خالی جگہ رکھنا ممکن ہوتو اس میں اور بھی زیادہ احتیاط ہے۔
          اگر مسجدوں کو قبرستان کے قریب قبروں تعظیم کی وجہ سے بنایا گیا ہو توپھر ان میں نماز پڑھنا جائز نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ان مسجدوں کو گرا دیا جائے کیونکہ اس صورت میں ان کو برقرار رکھنا شرک کا سبب اور اہل قبور کو اللہ تعالی کا شریک بنانے کا ذریعہ ہے اور صحیح حدیث میں ہے
          ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
          لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَاأَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ


          بى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر مبارك مسجد نبوى ميں ہے.
          اس شبہ كا جواب يہ ہے كہ:
          صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو مسجد ميں دفن نہيں كيا تھا، بلكہ انہيں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے حجرہ مبارك ميں دفن كيا گيا، اور جب وليد بن عبد الملك نے پہلى صدى كے آخر ميں مسجد نبوى كى توسيع كى تو حجرہ كو مسجد ميں شامل كر كے ايك برا كام كيا، اور بعض اہل علم نے اسے منع بھى كيا ليكن اس كا اعتقاد تھا كہ توسيع كى بنا پر ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

          چنانچہ كسى بھى مسلمان شخص كو اس كا يہ عمل بطور حجت پيش كر كے قبروں پر مساجد تعمير كرنا جائز نہيں، يا پھر اسے حجت بنا كر مساجد ميں دفن كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ صحيح احاديث كے مخالف ہے؛ اور اس ليے بھى كہ يہ قبر پرستى اور شرك كے وسائل ميں شامل ہوتا ہے

          ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا نے حبشہ ميں ديكھے ہوئے ايك كنيسہ كا ذكر نبى كريم صلى اللہ عليہ و سلم سے كيا جس ميں تصاوير اور مجسمے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
          " يہ وہ لوگ ہيں جب ان ميں كوئى نيك اور صالح شخص فوت ہو جاتا تو اس كى قبر پر مسجد بنا ليتے، اللہ تعالى كے ہاں سب سے برى مخلوق يہى ہيں "


          اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

          " سب سے برے وہ لوگ ہيں جن پر قيامت قائم ہو گى اور وہ زندہ ہونگے، اور وہ لوگ جنہوں نے قبروں كو مسجديں بنا ليا "

          اسے امام احمد نے جيد سند كے ساتھ روايت كيا ہے.


          اور مومن اس پر راضى نہيں ہوتا كہ وہ يہود و نصارى كے طريقہ پر چلے اور نہ ہى وہ اس پر راضى ہے كہ وہ سب سے برى اور شرير ترين مخلوق ميں شامل ہو.


          للہ تعالیٰ سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین


          Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

          Comment


          • #6
            Re: قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم

            سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ دو فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ جو لوگ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں تھے، ان کو شیعان علی کہتے ہیں اور جو لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں تھے، ان کو شیعان امیر معاویہ کہتے ہیں۔

            وہابی وہ لوگ ہیں جو محی الدین عبدالوہاب نجدی کے پیروکار ہیں۔ یہ لوگ خود بخود اہل سنت و الجماعت سے الگ ہوگئے اور غلط عقائد پر ڈٹے رہے۔ ان کو کسی نے نکالا نہیں اور خود کسی لالچ میں آگئے۔

            سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تابع لوگ اہل سنت و الجماعت ہیں اور یہ نام حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: قبور او لیاء الہی اور وہابیت کے مظا لم

              Originally posted by Gambler View Post
              سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں لوگ دو فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ جو لوگ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں تھے، ان کو شیعان علی کہتے ہیں اور جو لوگ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں تھے، ان کو شیعان امیر معاویہ کہتے ہیں۔

              وہابی وہ لوگ ہیں جو محی الدین عبدالوہاب نجدی کے پیروکار ہیں۔ یہ لوگ خود بخود اہل سنت و الجماعت سے الگ ہوگئے اور غلط عقائد پر ڈٹے رہے۔ ان کو کسی نے نکالا نہیں اور خود کسی لالچ میں آگئے۔

              سنت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تابع لوگ اہل سنت و الجماعت ہیں اور یہ نام حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔

              اور احمد رضا کے پیروکار بن گئے اور اہل بدعت ہونے کے باوجود اپنے کو اہل سنت کہتے ہیں یعنی اپنے منہ میاں مٹھو بن گئے .

              Comment

              Working...
              X