اِس مہینہ کی فضیلت کے بارے میں محدثین نے جو احادیث روایت کی ہیں اُن میں ہمیں ایک فضلیت تو یہ ملتی ہے کہ اِس مہینے میں زیادہ سے زیادہ روزے رکھے جائیں ، جیسا کہ اِیمان والوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ((( لم یَکُن النبی صلی اللہ علیہ وسلم یَصُومُ شَہْرًا اَکثَرَ من شَعبَانَ فاِنہ کان یَصُومُ شَعبَانَ کُلَّہُ وکان یقول خُذُوا من العَمَلِ ما تُطِیقُونَ فاِن اللَّہَ لَا یَمَلُّ حتی تَمَلُّوا وَاَحَبُّ الصَّلَاۃِ اِلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما دُووِمَ علیہ وَاِن قَلَّت وکان اِذا صلی صَلَاۃً دَاوَمَ علیہا ::: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کِسی بھی اور مہینے سے زیادہ شعبان میں روزے رکھا کرتے تھے ، اور کہا کرتے تھے اُتنا (نیک) کام کرو جتنے(کو ہمیشہ کرنے) کی طاقت رکھتے ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو (تمہارے کاموں )سے اُس وقت تک نہیں بھرتا جب تک تم لوگ نہ بھر جاو (یعنی ( تمہارے دِل وہ کام کرنے سے نہ بھر جائیں) ،،،،،، ))) صحیح البخاری /کتاب الصیام /باب ٥١ صوم شعبان،
اِس ایک عِلاوہ ماہِ شعبان کی دوسری فضیلت بھی ملتی ہے جِس کا ذِکر اِنشاء اللہ ابھی آگے آئے گا ،
اِس دوسری حدیث میں شعبان کی درمیانی رات کے بارے میں ایک خبر بیان کی گئی ہے مگراِس میں وہ کُچھ یقیناً نہیں ہے جو بھائی لوگوں نے بنا لیا ہے اور جِس پر وہ عمل کئیے جا رہے ہیں ، بھیڑ چال چونکہ ہماری عادت ہو چکی ، لہذا یہ دیکھنے کی زحمت کیوں کی جائے کہ ریوڑ کہاں جا رہا ہے ، بس گردن ڈالے چلے جا رہے ہیں کہ جہاں باقی جائیں گے ہم بھی وہیں جا ئیں گئے اور پھر اِس عادت کو پُختہ کرنے میں شیطان کی محنت بھی کافی شامل ہے ، جو ہمیں اِس خوشی فہمی میں رکھتا ہے کہ ''' اِتنے بڑے بڑے عُلماء بھلا کیسے غلط کہہ سکتے ہیں، اور یہ اِتنے لوگ جو کُچھ کہہ اور کر رہے ہیں یہ سب غلط ہونا تو بہت ہی مُشکل ہے ، وغیرہ وغیرہ ''' اور اِسی طرح کے دیگر وسوسوں کے ذریعے وہ ہمیں حق سے دور رکھتا ہے ، اور یہ بھلائے رکھتا ہے کہ غلطی سے محفوظ ، اور معصوم صِرف اور صِرف انبیاء اور رسول علیہم السلام ہوتے تھے اور ہر قِسم کے کمی ،غلطی ، نُقص اور عیوب سے پاک صِرف اور صِرف اللہ کی ذات ہے ،
اکثریت کِسی بھی معاملے کی درستگی یا نا درستگی کی پرکھ کی کسوٹی نہیں خاص طور پر دِینی معاملات میں وہاں حق صِرف اور صِرف اللہ کی وحی ہے وہ قران میں سے ہو یا اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زُبان پر جاری کروائی ہو ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ((( قُلِ اللّہُ یَہدِی لِلحَقِّ اَفَمَن یَہدِی اِلَی الحَقِّ اَحَقُّ اَن یُتَّبَعَ اَمَّن لاَّ یَہِدِّی اِلاَّ اَن یُہدَی فَمَا لَکُم کَیف َ تَحکُمُونَo وَمَا یَتَّبِعُ اَکْثَرُہُم اِلاَّ ظَنّاً اَِنَّ الظَّنَّ لاَ یُغنِی مِنَ الْحَقِّ شَیااً اِنَّ اللّہَ عَلَیمٌ بِمَا یَفعَلُون ::: (اے رسول )کہیے اللہ ہی حق کی طرف ہدایت دینے والا ہے ، تو وہ جو حق کی طرف ہدایت دیتا ہے وہ اِس بات کا حق دار ہے کہ اُس کی تابع فرمانی کی جائے یا وہ جو ( اللہ سے ) ہدایت پائے بغیر خود کِسی کو ہدایت نہیں دے سکتا ، تو تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ، (کہ اللہ کی ہدایت کے علاوہ اور اور فلسفوں اور رائے کو بنیاد بنا کر ) کیسے عجیب فیصلے کرتے ہوo اور اُن (اِنسانوں) کی اکثریت ظن ( خیالوں) کی پیروی کرتی ہے ، (جبکہ ) بے شک خیالات حق سے غنی نہیں کر سکتے ، جو کچھ یہ کرتے ہیں بے شک اللہ (وہ سب ) بہت اچھی طرح جانتا ہے ))) سورت یونس / آیت ٣٥، ٣٦
اور فرمایا ((( اِنَّ اللّہَ لَذُو فَضلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَـکِنَّ اَکثَرَہُم لاَ یَشکُرُون ::: بے شک اللہ انسانوں پر مہربانی کرنے والا ہے لیکن اُنکی اکثریت شکر نہیں کرتی ( یعنی اللہ کی تابع فرمانی کرنے کی بجائے اللہ کی نافرمانی کرتی ہے ) ))) سورت یونس آیت ٦٠ ، تو اکثریت کا کِسی قول و فعل پر عمل پیرا ہونا کِسی بھی مسلمان کے لیے اُس قول یا فعل کو اپنانے کی دلیل نہیں ہوتی ، اکثریت کو درستگی کی دلیل اُس جمہوریت میں مانا جاتا ہے جِس میں سر گنے جاتے ہیں سروں کے اندر کیا ہے وہ نہیں دیکھا جاتا ، آئیے ذرا ماہِ شعبان میں چلی جانے والی بھیڑ چال سے باہر نکل کر تھوڑی دیر کے لئیے دیکھیں تو سہی کہ کون کِس کی ہانک پر کہاں چلا ہی جا رہا ہے ؟
کِسی نے اِن سے کہا ، شعبان کی پندرہویں رات میں حساب کِتاب دیکھے جاتے ہیں ، مُردوں کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں ، زندگی اور موت کے فیصلے کئیے جاتے ہیں ، جِس نے آنے والے سال میں مرنا ہونا ہے اُسکا پتہ زندگی کے درخت سے جھاڑ دِیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ اور شاید اِسی عقیدے کی بنا پر ''' پتہ صاف کرنا ''' محاورۃً اِستعمال کیا جاتا ہے ، بہر حال ، جِس حدیث کو بُنیاد بنا کر یہ قصے گھڑ لئیے گئے اور طرح طرح کی عِبادات اور ذِکر اذکار بنا لیے گئے ،
آئیے سُنیے کہ وہ حدیث کیا ہے ، معاذ ابنِ جبل رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( یطَّلعُ اللَّہ ُ تبارکَ و تعالیٰ اِلیٰ خلقِہِ لیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ فَیَغفِرُ لِجمیع ِ خلقِہِ ، اِلاَّ لِمُشرِکٍ او مشاحن ::: اللہ تبارک و تعالیٰ شعبان کی درمیانی رات میں اپنی مخلوق (کے اعمال )کی خبر لیتا ہے اور اپنی ساری مخلوق کی مغفرت کر دیتا ہے ، سوائے شرک کرنے والے اور بغض و عناد رکھنے والے کے ( اِنکی مغفرت نہیں ہوتی ))) صحیح الجامع الصغیر حدیث١٨١٩ ، سلسلہ احادیث الصحیحہ/حدیث١١٤٤ ،
اور اِس کی دوسری روایت اِن الفاظ میں ہے ((( اِذا کَان لَیلۃِ النِّصفِ مِن شعبانِ اَطلَعُ اللَّہ ُ اِلَی خَلقِہِ فَیَغفِرُ لِلمُؤمِنِینَ وَ یَملیَ لِلکَافِرِینَ وَ یَدعُ اَئہلِ الحِقدِ بِحِقدِہِم حَتَی یَدعُوہُ ::: جب شعبان کی درمیانی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق (کے اعمال )کی اطلاع لیتا ہے اور اِیمان والوں کی مغفرت کر دیتا ہے اور کافروں کو مزید ڈِھیل دیتا ہے اورآپس میں بغض (غصہ ) رکھنا والے ( مسلمانوں ) کو مہلت دیتا ہے کہ وہ اپنا غُصہ چھوڑ دیں )))حدیث حسن ہے ، صحیح الجامع الصغیر و زیادتہُ/ حدیث ٧٧١(771 )
اِن منقولہ بالا دو حدیثوں کو پڑھ کر ان شاء اللہ ہر قاری سمجھ سکتا ہے کہ اِن میں کوئی ایسی خبر نہیں جِس کو بُنیاد بنا کر ہم وہ کُچھ کریں جو کرتے ہیں
بات تو تھی بھیڑ چال کی،اسی چال میں چلتے چلتے ہم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تو کُچھ کو دیئے جلاتے ہوئے پایا اور خود بھی یہ کام شروع کر دیا ، کُچھ نے اِس دیے بازی اور آتش پرستی کو ہندو چال اور مجوسی چال سے مُسلم چال میں ڈھالنے کےلئیے شبِ برأت بنا لیا ، کچھ حساب کتاب کی بات بنائی گئی ، کُچھ نماز اور ذِکر اذکار شامل کر لیئے گئے ، جب کہ اِن سب چیزوں کے لیئے ہمارے پاس اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی ثابت شدہ سچی قابلِ اعتماد خبر نہیں، مگر کیا کریں ذوق اور عادت میں شامل ہو چکا ہے کہ ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ناکافی سمجھا جائے ، اور اُن کی تعلیمات خلاف ورزی کی جائے لیکن جِن کی پیروی کی جاتی ہے اُنکی بات کو ہر صورت مانا جائے اور اُسے درست ثابت کرنے کے لیے قران و سُنّت کی کوئی بھی تاویل کی جائے ،
خود کو بدلتے نہیں قراں کو بدل دیتے ہیں ::: مرشد کے نہیں رسول کے فرماں کو بدل دیتے ہیں
سُنّت اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کی خِلاف ورزی بھی کی جائے اور اُن کی اتباع کا دعویٰ اور اُن سے نسبت بھی برقرار رکھی جائے ، ہندوؤں کی طرح گھروں کو روحوں کے اِستقبال کے لیے دھویا جائے اور چراغاں کے نام پریہودیوں اور مجوسیوں کی طرح آگ سے سجایا جائے ، عیسائیوں کی طرح پٹاخے چلائے یا بجائے جائیں اور آتش بازی کی جائے رات بھر جاگ جاگ کر خود ساختہ عِبادات اور ذکر اذکار کیئے جائیں ، پھر بھی ہم درست ہمارا دعویٰ سچا ہماری نسبت ٹھیک،،، اور جو اِن کاموں سے روکے اور قران اور صحیح ثابت شدہ سُنّت کی دعوت دے وہ گستاخ ، اور فرقہ واریت پھیلانے والا ، سبحان اللَّہ و الیہ أشکو ،
آگ کو بلا ضرورت استعمال کرنا اور جلائے رکھنا آگ پرست ایرانی مجوسیوں کا باطل مذھب تھا ، کہ وہ ہر وقت گھروں میں آگ جلائے رکھتے تھے اور اپنے خوشی و غم کے اظہار کے لیے خاص طور پر بڑی چھوٹی آگ جلاتے تھے ، یہودی بھی اپنے مذہبی بلاوے کے لیے آگ جلاتے تھے اِسی لیے جب صحابہ نماز کے بلاوے کے بارے میں مشورہ کر رہے تھے تو آگ جلانے کی سوچ کو یہودیوں کی عادت ہونے کی وجہ سے ترک کِیا اور ناقوس (ناقوس، کِسی جانور کا بڑا سے سینگ جِسے کھو کھلا کر کے اُس میں پھونک مار کر زور دار آواز پیدا کی جاتی ہے یا اُسی قِسم کی کوئی اور چیز خواہ دھات سے بنی ہو یا کِسی اور مواد سے ، ناقوس کہلاتی ہے ، ناقوس) استعمال کرنے کی سوچ کو عیسائیوں کی عادت ہونے کی وجہ سے ترک کیا ، تو اُس وقت عُمر رضی اللہ عنہُ نے اذان دینے کا مشورہ دِیا اور اُن کے مشورہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قُبُول فرما کر بلال رضی اللہ عنہُ کو حُکم دِیا کہ اذان کہیں ، اور اذان کے فقرے دو دو دفعہ کہیں ، اور اقامت کے ایک دفعہ ، صحیح البخاری / کتاب الاذان / پہلے باب کی احادیث ، اور صحیح مسلم / کتاب الصلاۃ / پہلے باب کی پہلی حدیث ،
ہندو بھی اپنی کچھ خاص عبادات میں دئیے اور موم بتیاں وغیرہ جلاتے تھے اور ہیں ، مسلمانوں میں کِسی ضرورتِ زندگی کو پورا کرنے کے عِلاوہ آگ کا استعمال کبھی مروج نہیں رہا ، اور ہمارے ہاں اِس رات میں عِبادت کے طور پر ثواب و اجر کی نیت سے آگ جلائی جاتی ہے ، اِنّا للِّہِ و اِنّا اِلیہِ راجِعُونَ ۔
شعبان کی فضیلت میں بیان کی جانے والی غیر ثابت احادیث
(١) جھوٹ کی ایک لمبی کہانی بنا کر حدیث کے طور پر پھیلائی گئی اُسکا آغاز اِسطرح ہے '''""" یا علی من صلی لیلۃ النصف من شعبان مئۃ رکعۃ بالف قل ہو اللہ احد قضی اللہ لہ کل حاجۃ طلبہا تلک اللیلۃ وساق جزافات کثیرۃ واعطی سبعین الف حوراء لکل حوراء سبعون الف غلام وسبعون الف ولدان ،،،،،، ::: اے علی جس نے شعبان کی درمیانی رات میں سو رکعت نماز ، ہزار دفعہ قل ھو اللہ احد کے ساتھ پڑہی تو وہ اللہ سے جس ضرورت کا بھی سوال کرے گا اللہ وہ دے گا ، اور اللہ بہت سے انعامات دے گا اور ستر ہزار حوریں دی جائیں گی اور ستر ہزار درمیانی عمر کے بچے اور ستر ہزار چھوٹی عمر کے بچے ،،،،،،،،، '''""" ،
اِمام ابن القیم نے ''' المنار المنیف فی صحیح و الضعیف ''' میں اِس حدیث کے بارے لکھا ''' حیرت ہے کہ کوئی سُنّت کے عِلم کی خوشبو پاتا ہو اور پھر بھی اِس قِسم کی فضول باتوں سے دھوکہ کھائے ، یہ نماز اِسلام میں چار سو سال کے بعد بیت المقدس کے علاقے میںبنائی گئی اور پھر اِسکے بارے میں بہت سی احادیث بنائی گئیں '''
(٢) '"""'' من صلی لیلۃ النصف من شعبان ثنتی عشرۃ رکعۃ یقرا فی کل رکعۃ ثلاثین مرۃ قل ہو اللہ احد شفع فی عشرۃ من اہل بیتہ قد استوجبوا النار ::: جِس نے شعبان کی درمیانی رات میں بارہ رکعت نماز پڑہی اور ہر رکعت میں تیس دفعہ قل ھو اللہ احد پڑہی تو وہ اپنے گھر والوں میں سے ایسے دس کی شفاعت کر سکے گا جِن پر جہنم میں جانا واجب ہو چکا ہو گا'''
سابقہ حوالہ /جلد ١ /صفحہ ٩٨ (ناشر کے فرق سے صفحات کے نمبر مختلف ہو سکتے ہیں)
(٣) '""""'' خمس لیال لا ترد فیہن الدعوۃ اول لیلۃ من رجب ولیلۃ النصف من شعبان ولیلۃ الجمعۃ ولیلۃ الفطر ولیلۃ النحر ::: پانچ راتیں (ایسی) ہیں جن میں دُعا رد نہیں کی جاتی (قُبُول کی جاتی ہے ) رجب کی پہلی رات اور شعبان کی درمیانی رات ، اور جمعہ کی رات اور عید ِفطر کی رات ''"""' :::حدیث مَن گِھڑت جھوٹی ہے ، اِس کی سند میں ابو سعید بندار بن عمر بن محمد بن الرویانی نامی راوی ہے جسے محدثین نے جھوٹا اور حدیثیں گَھڑنے والا قرار دِیا ہے ،
( ایک تنبیہہ ::: خیال رہے کہ اسلامی قمری نظام میں رات دِن سے پہلے آتی ہے جبکہ عیسوی نظامِ تاریخ میں دِن رات سے پہلے آتے ہیں ، عیدِ فِطر کی رات وہ رات جو عید کے دِن سے پہلے ہے ، جِسے عام طور پر چاند رات کہا جاتا ہے اور جو اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے اور شکر کی ادائیگی کی تیاری کرنے کی بجائے نافرمانی کرتے ہوئے اور مزید نافرمانی کی تیاری کرتے ہوئے گذاری جاتی ہے ، اِس موضوع پر رمضان کے مضامین کے آخر میں بات ہو چکی ، اسی طرح جمعہ کی رات وہ رات جو جمعرات کے دِن اور جمعہ کے دِن کے درمیان ہوتی ہے اور اسی طرح ساری راتیں دِنوں سے پہلے شمار کی جاتی ہیں اور اسی لیے ہماری اسلامی قمری تاریخ سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے نہ کہ آدھی رات گذرنے پر ،
(٤) '""""'' من احیا اللیالی الخمس وجبت لہ الجنۃ لیلۃ الترویۃ ولیلۃ عرفۃ ولیلۃ النحر ولیلۃ الفطرولیلۃ النصف من شعبان ::: جِس نے پانچ راتیں زندہ کِیں (یعنی عِبادت کرتے ہوئے گُزارِیں ) تو اُس کے لیے جنّت واجب ہو گئی ، ترویہ (یعنی آٹھ ذی الحج) کی رات ، اور عرفہ ( نو ذی الحج) کی رات ، اور نحر (قربانی کے دِن یعنی دس ذی الحج ) کی رات ، اور( عیدِ ) فِطر کی رات ، اور شعبان کی درمیانی رات '''"""" مَن گَھڑت جھوٹی حدیث ، ضعیف الترغیب والترھیب /کتاب العیدین و الاضحیۃ / پہلے باب کی دوسری حدیث۔
(٥) ''""""' ،،،،،،اِن اللہ تعالی ینزل لیلۃ النصف من شعبان اِلی السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب::: اللہ تعالیٰ شعبان کی درمیانی رات میں دُنیا کے آسمان کی طرف اُترتاہے اور بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے زیادہ لوگوں کی بخشش کرتا ہے '""""'' سنن النسائی / کتاب الصوم / باب ٣٩ (39 ) میں امام النسائی نے یہ روایت نقل کرنے کے بعد لکھا کہ ''' میں نے محمد (یعنی امام البخاری ) کو سنا کہ وہ اِس حدیث کو کمزور ( نا قابل حُجت ) قرار دیتے تھے'''
(٦) """"" اِذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا فاِن اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس اِلی سماء الدنیا فیقول الا من مستغفر لی فاغفر لہ الا مسترزق فارزقہ الا مبتلی فاعافیہ الا کذا الا کذا حتی یطلع الفجر ::: جب شعبان کی درمیانی رات ہو تو اُس رات قیام (یعنی نماز پڑھا) کرو ، اور اُس رات کے دِن کو روزہ رکھا کرو کیونکہ اِس رات میں سورج غروب ہوتے ہی ( یعنی رات کے آغاز میں ہی) اللہ تعالیٰ دُنیا کے آسمان پر اُتر آتا ہے اور کہتا ہے ، ہے کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا کہ میں اُس کی بخشش کر دوں ، ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اُسے رزق دوں ، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اُس عافیت دوں ، ہے کوئی ایسا ، ہے کوئی ایسا ،،، یہاں تک فجر کا وقت ہو جاتا ہے '""""''' حدیث سنن ابن ماجہ میں ہے اور اِسکی سند میں ابن ابی سبرہ نامی راوی کو حدیثیں گھڑنے والا کہا گیا ہے (بحولہ التقریب التھذیب اور الزوائد للبوصیری) اس حدیث کے بعض حصے دوسری صحیح روایات میں ملتے ہیں لیکن ہمارے اِس موضوع سے متعلق حصہ مَن گَھڑت ہی ہے ۔
اِن مندرجہ بالا احادیث اور اِن جیسی کچھ اور کی بنیاد پر یا محض سنی سنائی کہانیوں ، قصوں ، خوابوں اور نام نہاد الہامات کی بنیاد پر جو کام اور عقائد جِن کا قُران اور سُنّت میں کوئی صحیح ثبوت نہیں مغفرت کا سبب ہیں یا عذاب کا ؟
آیے مضمون کے آغاز میں نقل کی گئی دو صحیح حدیثوں کی روشنی میں سوچتے ہیں کہ ہم کِن میں ہیں؟
کیا ہم کِسی مُسلمان سے بُغض و عناد تو نہیں رکھتے ؟
کیا ہم کِسی مَن گھڑت ، نئی عِبادت کو ادا کر کے یا کوئی بے بُنیاد عقیدہ اپنا کر کِسی بدعت یا شرک کا شکار تو نہیں ہو رہے ؟
اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو ، کیونکہ اگر ایسا ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان جو آغاز میں نقل کیا گیا، کے مطابق پندرہ شعبان کی رات میں ہمارے لیے خیر کی کوئی اُمید نہیں اور اگر ایسا نہیں تو اِن شاء اللہ ہماری مغفرت کر دی جائے گی ۔ والسلام علیکُم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ
Comment