آل تقلید عقائد میں ابوحنیفہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے آل دیوبند کی زبانی ؟
سوال: آل کی ویب سائٹ کے فتوی میں ایک سوال کے جواب میں (ائمہ تقلید نے ) کہا ہے کہ ہم مسائل میں امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں اور عقائد میں امام ابو منصور ما تریدی اور ابو الحسن اشعری کی تقلید کرتے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ امام ابوحنیفہ کے عقائد کیا تھے؟ اورآپ عقائد میں ان کی تقلید کیوں نہیں کرتے جب کہ کہا جاتا ہے کہ تقلید صرف ایک کی کی جائے ۔ میں خود حنفی ہوں پر ایک عام شخص ہوں۔ برائے مہربانی ان اشکالات کو دور فرمادیجئے۔؟
جواب :فتوی: 654=608/ب
ہرفن کا ایک امام ہوا کرتا ہے، ہرفن میں ایک ہی شخص امام نہیں ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم حنفی مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمة (کثر اللہ جمعہم) کا اتباع کرتے ہیں اور عقائد امیں ابومنصور ماتریدی اور ابوالحسن اشعری علیہم الرحمة کا اتباع کرتے ہیں (جس طرح کہ ایک جماعت ابن تیمیہ کا اتباع کرتی ہے) اور قراء ت میں ائمہ سبعہ میں امام عاصم کوفی کا اتباع کرتے ہیں جیسا کہ عام دنیا مانتی ہے، اور ان کے مسلک کے مطابق قرآن شریف پڑھتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
Fatwa ID:11947 - Darul Iftaتعاقبپہلی بات یہ کہ اس سے معلوم ہوا کہ جو ماہر ہو اس کی بات ماننی چاہئے ،کوئی آدمی کس فن میں ماہر ہے اس کا اندازہ اس کی کتب اور اس کے تلامذہ اور محدثین کی اس کے کتعلق آرائ سے ہوتا ہے،جب ہم امام ابوحنیفہ صاحب کو تحقیقی نظر سےئ دیکھتے ہیں تو ان کے متعلق سمجھ لگتا ہے کہ وہ فقہ میں کس مرتبہ پر تھے تفصیل کے لئے دیکھےاور خود آل دیوبند کے اس فتوی میں بات کہ وہ فقہ میں ماہر تھے کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتئے گی
فقہ حنفی کی بنیاد کیسی احادیث پر؟ امام ابن ابی العز الحنفی کی زبانی حصہ دوم11 فقہ حنفی میں موضوع روایات اور اس کے اسباب ؟112 ھدایہ میں غیر ثابت مسائل علامہ ابن العز حنفی کی زبانی قسط213 ھدایہ میں غیر ثابت مسائل علامہ ابن العز حنفی کی زبانی :116 فقہ حنفی کی بنیاد کیسی احادیث پر؟ امام ابن ابی العز الحنفی کی زبانی14 نماز کن کلمات سے شروع کی جائے ؟115 مناقب ابی حنیفہ اور کتاب :الخیرات الحساننشر الصحيفة في الصحيح من أقوال أئمة الجرح والتعديل في أبي حنيفةدوسری بات :جس کا عقیدہ ہی کمزہر ہو اس کی فقہ کیسے درست ہو سکتی ہے ؟اصل چیز عقیدہ ہے تم نے عقیدہ امام کا چھوڑا یہ کہہ کر کہ وہ اس میں ماہر نہیں تھے ؟یہ امام صاحب کی گستاخی نہیں تم ان کے مقلد ہو ؟کیا امام صاحب نے فقہ اکبر نہیں لکی بقول تمہارےکیا طحاوی حنفی نے عقیدہ طحاویہ نہیں لکھی اور اس کی شرح ابن ابی العز الحنفی نے نہیں لکھی آخر تم ان کتب کو اپنا عقیدہ کیوں تسلیم نہیں کرتے ؟؟تتیسری بات :ابن تیمیہ کے اہل مقلد نہیں ہیں یہ بس جھو ٹ ہے ،ہم ہر اس آڈمی کی بات مانتے ہیں جو قرآن و حدیث کے مطابق ہو خواہ وہ کوئی بھی کہے ؟چوتھی بات :عقائد میں ماتری اور اشعری کے عقائد پر ہیں ان عقائد کی حقیقت جاننے کے لئے کہ یہ کس قدر گندے عقیدے کے حامل تھے
جواب :فتوی: 654=608/ب
ہرفن کا ایک امام ہوا کرتا ہے، ہرفن میں ایک ہی شخص امام نہیں ہوا کرتا ہے، چنانچہ ہم حنفی مسائل فقہیہ میں امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمة (کثر اللہ جمعہم) کا اتباع کرتے ہیں اور عقائد امیں ابومنصور ماتریدی اور ابوالحسن اشعری علیہم الرحمة کا اتباع کرتے ہیں (جس طرح کہ ایک جماعت ابن تیمیہ کا اتباع کرتی ہے) اور قراء ت میں ائمہ سبعہ میں امام عاصم کوفی کا اتباع کرتے ہیں جیسا کہ عام دنیا مانتی ہے، اور ان کے مسلک کے مطابق قرآن شریف پڑھتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
Fatwa ID:11947 - Darul Iftaتعاقبپہلی بات یہ کہ اس سے معلوم ہوا کہ جو ماہر ہو اس کی بات ماننی چاہئے ،کوئی آدمی کس فن میں ماہر ہے اس کا اندازہ اس کی کتب اور اس کے تلامذہ اور محدثین کی اس کے کتعلق آرائ سے ہوتا ہے،جب ہم امام ابوحنیفہ صاحب کو تحقیقی نظر سےئ دیکھتے ہیں تو ان کے متعلق سمجھ لگتا ہے کہ وہ فقہ میں کس مرتبہ پر تھے تفصیل کے لئے دیکھےاور خود آل دیوبند کے اس فتوی میں بات کہ وہ فقہ میں ماہر تھے کی حقیقت کھل کر سامنے آ جاتئے گی
فقہ حنفی کی بنیاد کیسی احادیث پر؟ امام ابن ابی العز الحنفی کی زبانی حصہ دوم11 فقہ حنفی میں موضوع روایات اور اس کے اسباب ؟112 ھدایہ میں غیر ثابت مسائل علامہ ابن العز حنفی کی زبانی قسط213 ھدایہ میں غیر ثابت مسائل علامہ ابن العز حنفی کی زبانی :116 فقہ حنفی کی بنیاد کیسی احادیث پر؟ امام ابن ابی العز الحنفی کی زبانی14 نماز کن کلمات سے شروع کی جائے ؟115 مناقب ابی حنیفہ اور کتاب :الخیرات الحساننشر الصحيفة في الصحيح من أقوال أئمة الجرح والتعديل في أبي حنيفةدوسری بات :جس کا عقیدہ ہی کمزہر ہو اس کی فقہ کیسے درست ہو سکتی ہے ؟اصل چیز عقیدہ ہے تم نے عقیدہ امام کا چھوڑا یہ کہہ کر کہ وہ اس میں ماہر نہیں تھے ؟یہ امام صاحب کی گستاخی نہیں تم ان کے مقلد ہو ؟کیا امام صاحب نے فقہ اکبر نہیں لکی بقول تمہارےکیا طحاوی حنفی نے عقیدہ طحاویہ نہیں لکھی اور اس کی شرح ابن ابی العز الحنفی نے نہیں لکھی آخر تم ان کتب کو اپنا عقیدہ کیوں تسلیم نہیں کرتے ؟؟تتیسری بات :ابن تیمیہ کے اہل مقلد نہیں ہیں یہ بس جھو ٹ ہے ،ہم ہر اس آڈمی کی بات مانتے ہیں جو قرآن و حدیث کے مطابق ہو خواہ وہ کوئی بھی کہے ؟چوتھی بات :عقائد میں ماتری اور اشعری کے عقائد پر ہیں ان عقائد کی حقیقت جاننے کے لئے کہ یہ کس قدر گندے عقیدے کے حامل تھے
ور محترم سلمان ملک لکھتے ہیںابو منصور ماتوريدی کا عقيدہ کفريہ ا ور شرکيہ ہے وہ يہ کہتا تھا کہ اللہ ہر چيز کے اندر ہے فاعل بھی اللہ ہے اور مفعول بھی اللہ ، اور وہ يہ بھی کہتا تھا کہ زانی اور زانيہ بھی اللہ ہے نعوزباللہ ، اس شخص کے اس کفريہ عقيدہ کی وجہ سے شيخ عبدالقادر جيلانی نے اپنی کتاب غنيہ الطالبين ميں احناف کو مرجيہ کہا ہے
آپ کو مندجہ بالا اقتباس سے دو باتوں کا حوالہ درکار ہے،
پہلی یہ کہ " ابو منصور ماتوريدی کا عقيدہ کفريہ ا ور شرکيہ ہے وہ يہ کہتا تھا کہ اللہ ہر چيز کے اندر ہے فاعل بھی اللہ ہے اور مفعول بھی اللہ ، اور وہ يہ بھی کہتا تھا کہ زانی اور زانيہ بھی اللہ ہے نعوزباللہ"
پہلے اسی پر گفتگو ہو جائے۔ میں اس پر اپنی دلیل پیش کرتا ہوں۔
رشید احمد کنگوہی ماتریدی فرماتے ہیں:
مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ"ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے۔"
ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور مین بہت سی رنڈیان مرید تھین ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیان اپنے میان صاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئین مگر ایک زنڈی نہین آئی میان صاحب بولے کہ فلانی کیون نہین آئی رنڈیوں نے جواب دیا " میان صاحب ہم نے اس کو بہتیرا کہا کہ چل میان صاحب کی زیارت کو اُس نےکہا مین بہت گناہگار ہون اور بہت روسیاہ ہون میان صاحب کو کیا منہ دکھاؤن مین زیارت کے قابل نہین" میان صاحب نے کہا نہین جی تم اُسے ہمارے پاس ضرور لانا چنانچہ رنڈیان اُسے لیکر آئین جب وہ سامنے آئی تو میان صاحب نے پوچھا " بی تم کیون نہ آئی تھین؟" اُس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی شرماتی ہون۔ میان صاحب بولے " بی تم شرماتی کیون ہو کرنے والا کون اور کروانے والا کون وہ تو وہی ہے" رنڈی یہ سُنکر آگ ہو گئی اور خفا ہو کر کہا لا حول ولا قوۃ اگرچہ روسیاہ و کنہگار ہون مگر ایسے ہیر کے مُنہ پر پیشاب بھی نہین کرتی" میان صاحب توشرمندہ ہو کر سرنگون رہ گئے اور وہ اُٹہکر چلدی۔
تذکرۃ الرشید از مولانا محمد عاشق الہی ماتریدی ( مطبوعہ ادارہ اسلامیات جلد 2 صفحہ242 )
رشید احمد گنگوہی ماتریدی، بانی ثانی دارلعلوم دیوبند و فرقہ دیوبندیہ اس کو توحید بیان کر رہے ہیں، اور رشید احمد گنگوہی اپنے اور دیوبندیوں علماء کا عقیدہ میں ابو منصور ماتریدی کا پیروکار بتلاتے ہیں۔ لہذا مذکورہ بالا عقیدہ ابو منصور ماتریدی کا ثابت ہوا۔ اگر ایسا نہیں تو
رشید احمد گنگوہی اور دیوبندی علماء اپنے اس قول میں جھوٹے ثابت ہوتے ہیں کہ وہ عقیدہ میں ابو منصور ماتریدی کے پیروکار ہیں۔
آپ کو مندجہ بالا اقتباس سے دو باتوں کا حوالہ درکار ہے،
پہلی یہ کہ " ابو منصور ماتوريدی کا عقيدہ کفريہ ا ور شرکيہ ہے وہ يہ کہتا تھا کہ اللہ ہر چيز کے اندر ہے فاعل بھی اللہ ہے اور مفعول بھی اللہ ، اور وہ يہ بھی کہتا تھا کہ زانی اور زانيہ بھی اللہ ہے نعوزباللہ"
پہلے اسی پر گفتگو ہو جائے۔ میں اس پر اپنی دلیل پیش کرتا ہوں۔
رشید احمد کنگوہی ماتریدی فرماتے ہیں:
مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ"ضامن علی جلال آبادی تو توحید ہی میں غرق تھے۔"
ایک بار ارشاد فرمایا کہ ضامن علی جلال آبادی کی سہارنپور مین بہت سی رنڈیان مرید تھین ایکبار یہ سہارنپور میں کسی رنڈی کے مکان پر ٹھیرے ہوئے تھے سب مریدنیان اپنے میان صاحب کی زیارت کیلئے حاضر ہوئین مگر ایک زنڈی نہین آئی میان صاحب بولے کہ فلانی کیون نہین آئی رنڈیوں نے جواب دیا " میان صاحب ہم نے اس کو بہتیرا کہا کہ چل میان صاحب کی زیارت کو اُس نےکہا مین بہت گناہگار ہون اور بہت روسیاہ ہون میان صاحب کو کیا منہ دکھاؤن مین زیارت کے قابل نہین" میان صاحب نے کہا نہین جی تم اُسے ہمارے پاس ضرور لانا چنانچہ رنڈیان اُسے لیکر آئین جب وہ سامنے آئی تو میان صاحب نے پوچھا " بی تم کیون نہ آئی تھین؟" اُس نے کہا حضرت روسیاہی کی وجہ سے زیارت کو آتی شرماتی ہون۔ میان صاحب بولے " بی تم شرماتی کیون ہو کرنے والا کون اور کروانے والا کون وہ تو وہی ہے" رنڈی یہ سُنکر آگ ہو گئی اور خفا ہو کر کہا لا حول ولا قوۃ اگرچہ روسیاہ و کنہگار ہون مگر ایسے ہیر کے مُنہ پر پیشاب بھی نہین کرتی" میان صاحب توشرمندہ ہو کر سرنگون رہ گئے اور وہ اُٹہکر چلدی۔
تذکرۃ الرشید از مولانا محمد عاشق الہی ماتریدی ( مطبوعہ ادارہ اسلامیات جلد 2 صفحہ242 )
رشید احمد گنگوہی ماتریدی، بانی ثانی دارلعلوم دیوبند و فرقہ دیوبندیہ اس کو توحید بیان کر رہے ہیں، اور رشید احمد گنگوہی اپنے اور دیوبندیوں علماء کا عقیدہ میں ابو منصور ماتریدی کا پیروکار بتلاتے ہیں۔ لہذا مذکورہ بالا عقیدہ ابو منصور ماتریدی کا ثابت ہوا۔ اگر ایسا نہیں تو
رشید احمد گنگوہی اور دیوبندی علماء اپنے اس قول میں جھوٹے ثابت ہوتے ہیں کہ وہ عقیدہ میں ابو منصور ماتریدی کے پیروکار ہیں۔
کس کا عقیدہ قرآن و سنۃ کے مطابق ہے اور کس کا کفریہ اور شرکیہ
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقيدہ
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقيدہ احناف کے نزديک صحيح نہيں ہے اسی لیے احناف امام صاحب کا عقیدہ نہیں لیتے ، احناف کا کہنا ہے کہ ہر فن کا ايک امام ہوا کرتا ہے ہر فن ميں ايک ہی انسان ماہر نہیں ہوا کرتا ، احناف کے نز دیک امام صا حب عقيدہ کے ماہر نہيں ہيں اس لیے وہ امام ابو حنیفہ سے عقیدہ نہيں لیتے۔
ہمارا سوال احناف سے يہ ہے کہ کيا ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے پاس عقيدہ کا علم نہيں پہنچ سکا تھا،اور جو تھا وہ احناف کے نزديک قابل حجت نہيں،اور اسلام ميں عقيد ہ ہی اساس ہو تا ہے جس کو آ پ اما م اعظم کا خطاب دے رہے ہيں اگر آپ کے نزديک اس کا عقيدہ ہی ٹھيک نہيں تو باقی چيزيں کيسے ٹھيک ہيں،
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ عقیدہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے ،تو جواب دیا جاتا ہے کہ عقیدہ میں تقلید نہیں ہوتی ، عقیدہ قرآن سے لیا جاتا ہے ، یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کیا امام ابو حنیفہ نے عقیدہ قرآن سے نہیں لیا تھا ، کیا ان کا عقیدہ قرآن کے خلاف تھا ،
پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ہم عقائد میں ماتوریدی ہیں ہم ہوچھتے ہیں کہ آپ کیوں ہیں ماتوریدی ،تو جواب آتا ہے کہ ابو منصور ماتوریدی متکلمین کا امام تھا اس نے عقیدہ کی صحیح تشریح کی تھی اس لیے ہم نے عقائد میں اس کو اپنا امام چن لیا ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابو منصور کا عقیدہ قرآن کے مطابق ہے اس لیے انہوں نے اس کو اپنا عقیدہ میں امام بنایا ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ ان کے نزدیک ویسا نہیں تھا جیسا ابو منصور کا تھا یہ بات بھی سامنے آ گئی ،
اب ابو منصور ماتوریدی کا عقیدہ کہاں دیکھا جائے ، چلیں علماء دیوبند سے پوچھتے ہیں ، علماء دیوبند نے اپنے عقیدہ کو بیان کیا المھند علی المفند میں ۔ کیا یہی عقیدہ امام ابو منصور ماتوریدی کا ہے جو عقیدہ علماء دیوبند میں لکھا ہو ہے ،
اس کتاب کا لکھنے والا مولانا خلیل احمد سہارن پوری ، اور علماء دیوبند اور بشمول علماء بریلوی کا ان صوفیاء کے بارے میں کیا نظریہ ہے جن کو شیخ اکبر کہا گیا ہے جن میں حسین بن منصور حلاج ،ابن عربی ،ابن فارض وغیرہ ،جن کے عقائد کفریہ اور شرکیہ ہیں جو معزملہ ،قدریہ جہمیہ مرجیہ تھے خلق قرآن کا دعوی کس نے کیا،
جو عقیدہ منصور بن حلاج اور ابن عربی کا تھا اس کی جھلک المھند علی المفند میں بھی نری آتی ہے اور علماء دیوبند کے ہاں یہ ثقہ بند کتاب ہے عقیدہ کے طور پے ، اور علماء دیوبند کا یہ بھی فتوی ہے کہ ان کے نزدیک ابو منصور ماتوریدی امام المتکلمین تھے اس لیے وہ ان کے عقیدہ کے امام ٹھہرے ،
اب سوال یہ بھی اٹا ا ہے جب کفریہ شرکیہ عقائد رکھنے والوں کا عقیدہ المھند علی المفند میں موجود ہے تو کیا یہ امام ابو منصور ماتوریدی کا بھی ہے ، جب علماء دیوبند کے ہاں کفریہ شرکیہ عقائد والے شیخ اکبر ہیں بجائے ان کے عقائد کا رد کرنے کے ان کو مقدم سمجاد گیا ،اور ان کے عقائد کا دفاع کیا گیا ، اس کو کیا سمجھیں،
اب ہم یہ دیکھیں گے کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ ایسے عقیدہ والوں کو کیا کہتے ہیں ، اس کےئم آپ کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ دیکھنا ہوگا ، مشہور کتب جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی طرف منسوب ہیں اس کی طرف رجوع کرتے ہیں
فقہ الاکبر اور اس کی شروحات ، شرح عقیدہ الطحاویہ وغیرہ
چلیں مان لیتے ہیں ان کتابوں میں جو عقیدہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا بیان ہوا ہے کیا وہ قرآن و سنۃ کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اور پھر اس عقیدہ کو ملاتے ہیں المھند علی المفند کے ساتھ ،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقيدہ ہے کہ اللہ عرش پے استواء ہے اور جو يہ کہتا ہے کہ مجھے نہيں پتا اللہ کہا ں ہے وہ کفر کرتا ھے ، ٭ عقيدہ طحاويہ صفحہ 301
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے کہا ، کسی کیلئے درست نہیں کہ وہ اللہ سے دعا کرے مگر اسی کے واسطے سے ،اور جس دعا کی اجازت ہے اور جس دعا کا حکم ہے وہ وہی ہے جو اللہ تعالی کے اس قول سے مستفاد ہے ٭ سورة الاٴعرَاف آیت 180 ٭ اور اللہ کے سب نام اچھے ہی ہیں۔ تو اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں الحاد اختیار کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے ،
الدر المختار مع حاشیہ رد المختار 6/ 396 ، 397
عقیدہ شرح الطحاویہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے صفحہ نمبر 234 پے
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے کہا ، مکروہ ہے کہ دعا کرنے والا یوں کہے کہ میں بحق فلاں ، یا بحق انبیاء ورسل تیرے ، یا بحق بیت حرام و مشعر حرام تجھ سے سوال کرتا ہوں
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے ابو یوسف رحمہ اللہ سے کہا ، تم اصول دین یعنی کلام کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرنے سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ لوگ تمہاری تقلید کریں گے اور اسی میں پھنس جائیں گے ۔ مناقب ابی حنیفہ للمکی صفحہ 373
حماد بن ابی حنیفہ کہتے ہیں میرے والد نے کہا اے حماد ! علم کلام چھوڑ دو ، حماد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کھبی خلط ملط کرنے والا نہیں پایا تھا ، اور نہ ان میں سے پایا تھا جو کسی بات کا حکم دیتے ہوں ،پھر اس سے منع کرتے ہوں ، اس لئے میں نے ان سے کہا ابا جان ! کیا آپ مجھے اس کا حکم نہیں دیتے تھے امام صاحب نے کہا ہاں بیٹے ! کیوں نہیں لیکن آج تم کو اس سے منع کرتا ہوں میں نے کہا ، کیوں ؟ انہوں نے کہا ، اے بیٹے یہ لوگ جو علم کلام کے ابواب میں اختلاف کئے بیٹھے ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو یہ اک ہی قول اور دین پے تھے ،یہاں تک کہ شیطان نے ان کے درمیان کچوکا مارا ، اور ان میں عداوت و اختلاف ڈال دیا ،اور وہ اک دوسرے سے الگ ہو گئے ،
مناقب ابی حنیفہ للمکی صفحہ 183 تا 184
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ۔ اللہ عمرو بن عبید پر لعنت کرے ،کیونکہ علم کلام میں جو چیزیں مفید نہیں اس کی بابت گفتگو کا دروازہ اسی شخص نے کھولا ہے ،
زم الکلا م الکردی صفحہ 28
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ میں علم کلام پے نظر رکھتا تھا یہاں تک کہ اس درجے کو پہنچ گیا کہ اس فن میں میری انگلیوں سے اشار ے کئے جانے لگے کہتے ہیں ہم حماد بن ابی سلیمان کے حلقے میں بیٹھا کرتے تھے ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اور کہا اک آدمی ہے اسکی ایک بیوی ہے جو لونڈی ہے اور وہ اسے سنت کے مطابق طلاق دینا چاہتا ہے کتنی طلاق دے ،مجھے سمجھ نہ آیا کہ میں کیا کہوں ، میں نے اس عورت کو کہا کہ حماد سے پوچھو ، اور مجھے بتانا حماد نے کیا جواب دیا ، وہ حماد کے پاس گئی اور پوچھا ،حماد نے کہا اسے حیض اور جماع سے پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے پھر اسے چھوڑ رکھے یہاں تک کہ اسے دو حیض آ جائیں ، پھر جب وہ غسل کر لے تو نکاح کرنے والے کے لئے حلال ہوگئی ۔ اس نے واپس آکر مجھے بتایا ،میں نے کہا مجھے علم کلام کی کوئی ضرورت نہیں ، میں نے اپنا جوتا لیا اور حماد کے پاس آ بیٹھا ۔
تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ373
امام صاحب کا عقیدہ بھی معلوم ہوا ، امام سے متکلمین زندیق ثابت ہوۓ ،
اب علماء دیوبند کے عقائد دیکھیں گے اور ان کے بزرگوں کے بھی
فصوص الحکم ، ابن عربی کی تصنیف کردہ کتاب ہے جو ابن عربی کے باطل عقائد اور کفر و شرک کا مجموعہ ہے۔
ابن عربی رقمطراز ہے :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے فصوص الحکم کتاب دی اور کہا : اسے لے کر لوگوں کے پاس نکلو ، وہ مستفید ہوں گے ۔
ابن عربی کہتا ہے :
ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تھا اور میرے خواب کی تعبیر مکمل ہو گئی ۔ اس کے بعد ابن عربی یوں خطاب کرتا ہے :
فمن اللہ ، فاسمعوا :: والی اللہ فارجعوا
بحوالہ : فصوص الحکم ، ص : 40 ، شرح بالی ، مطبوعہ 1309ھ ۔
اہلِ تصوف کا ایک اور پیشوا ابن عجیبہ فاطمی لکھتا ہے :
علمِ تصوف کے موسس و بانی خود نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے تصوف کا علم بذریعہ الہام عطا کیا۔ جبریل علیہ السلام پہلے علمِ شریعت لے کر نازل ہوئے ، جب یہ علم مکمل ہو گیا تو دوسری بار علمِ حقیقت لے کر نازل ہوئے ۔ ان دونوں علوم سے الگ الگ قسم کے لوگ بہرہ ور ہوئے ۔ جس نے سب سے پہلے اس علم کا اظہار کیا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔ آپ سے یہ علم حضرت حسن بصری نے حاصل کیا۔
بحوالہ : ایقاظ الھمم فی شرح الحکم ، ابن عجیبہ ، جلد 1 ، ص 5 ، مطبوعہ : 1913ھ ۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو علم چھپانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے :
من کتم علماََ یعلمہ ایاہ الجم یوم القیامہ بلجام من نار
جو علم کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔
(ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ)
ابن فارض خود کو ذاتِ الٰہی کہتے ہوئے نہیں شرماتا ۔
آگے بڑھ کر اپنے عظیم صفات و کمالات میں یہ بھی اضافہ کرتا ہے کہ جتنے بھی پیغمبر وجود میں آئے وہ سب ابن فارض کی ذات تھی ۔
اسی طرح نوعِ انسانی کے بابائے اول حضرت آدم (علیہ السلام) اور جن جن فرشتوں نے ان (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا وہ سب کے سب ابن فارض ہی کی ذات تھی ۔
وفی شھدت الساجدین لمظھری :: فحققت انی کنت آدم سجدتی
(ترجمہ : میں نے سجدہ کرنے والوں کو دیکھا کہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، تو یہ ثابت ہو گیا کہ میں ہی آدم تھا جس کو سجدہ کیا گیا )
اس شعر کی تشریح ، صوفیت کا ایک اور پیشوا قاشانی یوں کرتا ہے :
یعنی میں نے دیکھا کہ ملائکہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، لہذا مجھے معلوم ہو گیا کہ آدم کے سامنے فرشتوں نے جو سجدے کیے تھے ، وہ سجدے دراصل مجھے ہی کیے گئے تھے ۔ ملائکہ میرے سامنے سجدے کرتے ہیں اور وہ میری صفات میں سے ایک صفت رکھتے ہیں لہذا ہر سجدہ کرنے والا میری ہی صفت سے ہم آہنگ ہے جو میری ہی ذات کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔
بحوالہ : کشف الوجوہ الغر ، شرح الدیوان کا حاشیہ ، جلد 2 ، ص 89 ، مطبوعہ 1310ھ ۔
مذہبِ تصوف کا ایک نامور پیشوا تلسمانی لکھتا ہے :
ہمارے دین میں ماں اور بہن سے رشتہ جائز ہے اور جو لوگ اس کو حرام قرار دیتے ہیں وہ محجوب اور بےعقل ہیں ۔
بحوالہ : مجموعہ الرسائل و المسائل ، ابن تیمیہ ۔ ج 1 ، ص 177 ۔
ابن عربی ( محمد بن علی بن محمد الخاتمی الطائی الاندلسی ، متوفی : 638ھ ) کائنات کی ہر موجود اور غیر موجود شئے کو اللہ تعالیٰ کی ذات قرار دیتا ہے۔
سبحان من اظھر الاشیاء وھو عینھا بحوالہ : الفتوحات المکیہ ، ابن عربی ۔ ج 2 ، ص 204 ۔
اور وہ (ابن عربی) اللہ تعالیٰ کی تعریف یوں کرتا ہے :
پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیاء کوظاہر کیا اور وہی ان اشیاء کا ظاہر و باطن ہے ۔
بحوالہ : فصوص الحکم ، شرح قاشانی ، ص 382 ۔
تصوف کا ایک اور عظیم پیشوا جیلی لکھتا ہے :
حق تعالیٰ شانہ کی ذات جس چیز میں بھی ظاہر ہو جائے اس کی عبادت و پرستش واجب ہے ۔اور اس کی ذات کائنات کے ہر ذرہ میں ظاہر ہے ۔
بحوالہ : الانسان الکامل ، جیلی ۔ ج 2 ، ص 83 ۔
مذہبِ تصوف کا شیخ اکبر ، ابن عربی ۔۔۔ کتاب فصوص الحکم میں لکھتا ہے۔
جب کوئی مرد عورت سے محبت کرتا ہے ، جسمانی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ یعنی محبت کی آخری حد جو محبت کا آخری ہدف ہوتا ہے ۔ مرد و عورت کے جسمانی ملاپ سے بڑھ کر کوئی اور عنصری ملاپ کی صورت نہیں ہوتی ، اس لیے شہوت عورت کے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے ۔ اسی لیے جنسی ملاپ کے بعد غسل کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ غسل سے طہارت بھی پورے جسم کو عام ہوجاتی ہے جس طرح حصولِ شہوت کے وقت مرد اس کے اندر مکمل طور پر فنا ہو گیا تھا ۔ لہذا حق (اللہ تعالیٰ) اپنے بندہ پر بڑا غیور ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ لذت حاصل کرے ۔ اسی لیے غسل کا حکم دے کر اسے پاک کر دیا ۔ تاکہ اس کو یہ پتا چلے کہ اس نے اس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ جو کیا ہے ، دراصل اس عورت کی شکل میں اللہ ہی تھا ۔
جب کوئی شخص مرد عورت کے اندر حق کا مشاہدہ کرتا ہے عورت میں ایک جذباتی اور انفعالی صورت میں رب کا مشاہدہ کرتا ہے اور جب اپنے اندر رب کا مشاہدہ کرتا ہے تو فاعل کی شکل میں کرتا ہے ۔ اور انفعالی صورت میں مشاہدہ نہیں کرتا ۔ اسی لیے عورت جب جنسی ملاپ کرتی ہے تو اللہ بدرجہ اتم اس کے اندر ظاہر ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی حالت فاعل اور منفعل دونوں کی ہوتی ہے ۔
لہذا مرد اس وقت اپنے رب کو اس عورت کی شکل میں زیادہ اچھی طرح جلوہ گر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں سے محبت کی ۔ اسی لیے عورتوں کے اندر اللہ کا مشاہدہ زیادہ اچھی طرح پاتا ہے ۔ اور حق کا مشاہدہ تو مادہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ حق (اللہ تعالیٰ) کا مشاہدہ عورتوں کے اندر زیادہ سے زیادہ اور مکمل طور پر انجام پاتا ہے ، خاص طور پر اس وقت جب وہ جنسی ملاپ کر رہی ہو۔
بحوالہ : فصوص الحکم ، ابن عربی ۔ ج 1 ، ص 317 ۔
حسین بن منصور حلاج (م:309ھ) اس عقیدہ کے علمبردارِ اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے !!
منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔
منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔
اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں :
عَقَدَ الخلائقُ في العقائدا
وانا اعتقدت جميع ما اعتقدو
الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔
كفرت بدين اللہ والكفر واجب
لديّ وعند المسلمين قبيح
میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لیے واجب ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ برا ہے۔
ديوان الحلاج:ص(34)
حسین بن منصور سمجھانے کے باوجود بھی جب اپنے اس عقیدہ پر مصر رہا تو بالآخر اسے خلیفہ بغداد "المقتدر باللہ" نے 24۔ذی قعدہ 309ھ (914 سن عیسوی) کو بغداد میں قتل کرا دیا اور اس "الحق " کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔
حلاج کے متعلق ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ" میں ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ :
مشہور بزرگ شیخ ابوعمرو بن عثمان مکی ، حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟
حلاج نے جواب دیا : قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔
یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان مکی نے بد دعا کی اور انہی کی بد دعا کا نتیجہ تھا کہ حلاج قتل کر دیا گیا۔
اتنے شدید جرم کے باوجود صوفیاء کی اکثریت نے حلاج کے حق پر ہونے اور حلاج کو سزا دینے والوں کے باطل پر ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ذیل میں ان صوفیاء کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت علی ہجویری
انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔
بحوالہ:کشف المحجوب ، ص:300
مولانا روم
گفت فرعونے اناالحق گشت پست
گفت منصورے اناالحق گشت مست
لعنتہ اللہ ایں انارا درقفا
رحمتہ اللہ ایں انارا درقفا
اردو ترجمہ : عبدالرحمٰن کیلانی
فرعون نے "انا الحق" کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے "انا الحق" کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔
بحوالہ :مثنوی روم
خواجہ نظام الدین اولیاء ، دہلی
خواجہ نظام الدین اولیاء (م:725ھ) حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا :
ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔
بحوالہ :فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471
احمد رضا خان فاضل بریلوی
فاضل بریلوی صاحب سے سوال کیا گیا :
حضرت منصور و تبریز و سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب :
" ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ' انی انا اللہ' میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ، کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔"
بحوالہ :احکام شریعت ، ص:93
حضرت بایزید بسطامی (ابویزید طیفور بن عیسی بسطامی) کے بارے میں حضرت خواجہ جنید بغدادی فرماتے ہیں:
ابو یزید منا بمنزلہ جبرئیل فی الملایکہ
ابویزید ہم میں ایسے ہیں جیسے فرشتوں میں جبرائیل
حضرت بایزید بسطامی خود فرماتے ہیں
سبحانی واعظم شانی
میں پاک ذات ہوں میری شان بہت بڑی (اعظم) ہے
حضرت علی ہجویری فرماتے ہیں کہ یہ کہنا ان کی گفتار کا نشانہ ہے اور درحقیقت یہ کہنے والا حق تعالی ہی پردہ عبد میں ہے۔
(کلام المرغوب ترجمہ کشف المحجوب صفحہ 443)
خواجہ بایزید نے فرمایا کہ مین مدتون خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہاجب مجکو قرب و حضوری عطا کی گئی اسوقت خانہ کعبہ نے میرے گرد طواف کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواجہ بایزید بسطامی سے لوگون نے پوچھا کہ آپ نے طریقت مین اپنا سلوک کہاں تک پہنچایا ہے فرمایاکہ مین نے یہان تک اپنا سلوک پہنچایا ہے کہ جب مین اپنی دو انگلیون کے درمیان نظر کرتا ہون تو تمام دنیا و مافیہا کو اسمین دیکھتا ہون۔
ترجمہ دلیل العارفین صفحہ 99-100 ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی مربہ خواجہ بختیار کاکی)
ایک دفعہ شیخ علی مکی رحمہ اللہ علیہ نے خواب مین دیکھا کہ عرش اٹھائے لئے چلا جا رہا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو جی مین خیال کیا کہ مین یہ خواب کسکے سامنے بیان کرون جو تعبیر پاوﺅن۔ پھر جی مین کہا کہ بایزید بسطامی سے چل کے دریافت کر۔ اسی فکر مین جب گھر سے باہر نکلا دیکھا تو بسطام مین ایک شور برپا تھا اور خلق رو رہی تھی مین حیران ہو کر کھڑا ہو گیا پوچھا کیا حال ہے کہا خواجہ بایزید علیہ الرحمہ نے انتقال کیا۔ شیخ علی نے سنتے ہی ایک نعرہ مارا اور زمین پر گر پڑے۔ پھر نعرہ مارتے ہوئے بایزید کے جنازہ کے پاس تک پہونچے مگر خلق کے اژدحام سے وہانتک پہونچ نہین سکتے تھے مگر شیخ علی ہزار حیلہ و دشواری سے جنازہ تک آئے اور کندھا دیا۔ بایزید نے آواز دی کہ اے علی جو تو نے خواب دیکھا تھا اسکی یہی تعبیر ہے یہی جنازہ بایزید عرش خدا ہے کہ جو تو سر پر لیے جا رہا ہے۔
(ترجمہ راحت القلوب صفحہ 215 ملفوظات خوجہ فرید الدین گنج شکر مرتبہ نظام الدین اولیا)۔
بایزید کا اپنے جنازے کو عرش الہی سے تشبیہ دینا قابل غور ہے۔ مرنے کے بعد بولنا بھی توجہ کا متقاضی ہے۔ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ مردہ لوگ نہ سنتے ہیں نہ جواب دیتے ہیں۔ تصوف عین اسلام ہے کیا واقعی؟
ONLINE URDU FATWA SERVICE JAMIA BINORIA KARACHI
یہ فتوی جامعہ بنوریہ کراچی والوں کا ہے
اس فتوی میں کہا گیا ہے کہ اھل سنت کے نزدیک نبی اور ولی اور شہداء کے طفیل دعا مانگنا جائز ہے دیوبند کے عقائد کی مشھور کتاب المھند علی المفند کے صفحہ نمبر 31 اور سوال نمبر تیسرا اور چوتھا ، اس میں بھی یہ موجود ہے کہ وفات کے بعد انبیاء صلحاء اور اولیاء اور شہداء کا توصل جائز ہے-
حضرت مولانا مفتی سید عبدالشکور ترمذی صاحب اپنی کتاب عقائد اہل السنۃ والجماعۃ یعنی خلاصہ عقائد علماء دیوبند کے صحفہ 179 پے رقم طراز ہیں ، ہم نے عقائد مںا تو امام تسلیم کیا ہے حضرت مولانا قاسم نانوتوی کو اور فروع میں امام تسلیم کیا ہے مولانا رشید احمد گنگوہی کو ، ان دونوں بزرگوں کی اتباع کا نام دیوبندیت ہے ، اور اس کتاب میں جو عقائد بیان کیے گئے ہیں وہ المھند علی المفند سے لیے گے ہیں اس کتاب کے ملاحظہ سے معلوم ہوگا کہ علماء دیوبند کے یہی عقائد تھے جو کتاب میں بیان کیے ہیں
میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ بھی بیان کر دیا ہے اور گمراہ لوگوں کا بھی
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقيدہ
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقيدہ احناف کے نزديک صحيح نہيں ہے اسی لیے احناف امام صاحب کا عقیدہ نہیں لیتے ، احناف کا کہنا ہے کہ ہر فن کا ايک امام ہوا کرتا ہے ہر فن ميں ايک ہی انسان ماہر نہیں ہوا کرتا ، احناف کے نز دیک امام صا حب عقيدہ کے ماہر نہيں ہيں اس لیے وہ امام ابو حنیفہ سے عقیدہ نہيں لیتے۔
ہمارا سوال احناف سے يہ ہے کہ کيا ان کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے پاس عقيدہ کا علم نہيں پہنچ سکا تھا،اور جو تھا وہ احناف کے نزديک قابل حجت نہيں،اور اسلام ميں عقيد ہ ہی اساس ہو تا ہے جس کو آ پ اما م اعظم کا خطاب دے رہے ہيں اگر آپ کے نزديک اس کا عقيدہ ہی ٹھيک نہيں تو باقی چيزيں کيسے ٹھيک ہيں،
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ لوگ عقیدہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے ،تو جواب دیا جاتا ہے کہ عقیدہ میں تقلید نہیں ہوتی ، عقیدہ قرآن سے لیا جاتا ہے ، یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کیا امام ابو حنیفہ نے عقیدہ قرآن سے نہیں لیا تھا ، کیا ان کا عقیدہ قرآن کے خلاف تھا ،
پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ہم عقائد میں ماتوریدی ہیں ہم ہوچھتے ہیں کہ آپ کیوں ہیں ماتوریدی ،تو جواب آتا ہے کہ ابو منصور ماتوریدی متکلمین کا امام تھا اس نے عقیدہ کی صحیح تشریح کی تھی اس لیے ہم نے عقائد میں اس کو اپنا امام چن لیا ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابو منصور کا عقیدہ قرآن کے مطابق ہے اس لیے انہوں نے اس کو اپنا عقیدہ میں امام بنایا ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ ان کے نزدیک ویسا نہیں تھا جیسا ابو منصور کا تھا یہ بات بھی سامنے آ گئی ،
اب ابو منصور ماتوریدی کا عقیدہ کہاں دیکھا جائے ، چلیں علماء دیوبند سے پوچھتے ہیں ، علماء دیوبند نے اپنے عقیدہ کو بیان کیا المھند علی المفند میں ۔ کیا یہی عقیدہ امام ابو منصور ماتوریدی کا ہے جو عقیدہ علماء دیوبند میں لکھا ہو ہے ،
اس کتاب کا لکھنے والا مولانا خلیل احمد سہارن پوری ، اور علماء دیوبند اور بشمول علماء بریلوی کا ان صوفیاء کے بارے میں کیا نظریہ ہے جن کو شیخ اکبر کہا گیا ہے جن میں حسین بن منصور حلاج ،ابن عربی ،ابن فارض وغیرہ ،جن کے عقائد کفریہ اور شرکیہ ہیں جو معزملہ ،قدریہ جہمیہ مرجیہ تھے خلق قرآن کا دعوی کس نے کیا،
جو عقیدہ منصور بن حلاج اور ابن عربی کا تھا اس کی جھلک المھند علی المفند میں بھی نری آتی ہے اور علماء دیوبند کے ہاں یہ ثقہ بند کتاب ہے عقیدہ کے طور پے ، اور علماء دیوبند کا یہ بھی فتوی ہے کہ ان کے نزدیک ابو منصور ماتوریدی امام المتکلمین تھے اس لیے وہ ان کے عقیدہ کے امام ٹھہرے ،
اب سوال یہ بھی اٹا ا ہے جب کفریہ شرکیہ عقائد رکھنے والوں کا عقیدہ المھند علی المفند میں موجود ہے تو کیا یہ امام ابو منصور ماتوریدی کا بھی ہے ، جب علماء دیوبند کے ہاں کفریہ شرکیہ عقائد والے شیخ اکبر ہیں بجائے ان کے عقائد کا رد کرنے کے ان کو مقدم سمجاد گیا ،اور ان کے عقائد کا دفاع کیا گیا ، اس کو کیا سمجھیں،
اب ہم یہ دیکھیں گے کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ ایسے عقیدہ والوں کو کیا کہتے ہیں ، اس کےئم آپ کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ دیکھنا ہوگا ، مشہور کتب جو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کی طرف منسوب ہیں اس کی طرف رجوع کرتے ہیں
فقہ الاکبر اور اس کی شروحات ، شرح عقیدہ الطحاویہ وغیرہ
چلیں مان لیتے ہیں ان کتابوں میں جو عقیدہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا بیان ہوا ہے کیا وہ قرآن و سنۃ کے مطابق ہے یا نہیں ۔ اور پھر اس عقیدہ کو ملاتے ہیں المھند علی المفند کے ساتھ ،
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقيدہ ہے کہ اللہ عرش پے استواء ہے اور جو يہ کہتا ہے کہ مجھے نہيں پتا اللہ کہا ں ہے وہ کفر کرتا ھے ، ٭ عقيدہ طحاويہ صفحہ 301
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے کہا ، کسی کیلئے درست نہیں کہ وہ اللہ سے دعا کرے مگر اسی کے واسطے سے ،اور جس دعا کی اجازت ہے اور جس دعا کا حکم ہے وہ وہی ہے جو اللہ تعالی کے اس قول سے مستفاد ہے ٭ سورة الاٴعرَاف آیت 180 ٭ اور اللہ کے سب نام اچھے ہی ہیں۔ تو اس کو اس کے ناموں سے پکارا کرو اور جو لوگ اس کے ناموں میں الحاد اختیار کرتے ہیں ان کو چھوڑ دو۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عنقریب اس کی سزا پائیں گے ،
الدر المختار مع حاشیہ رد المختار 6/ 396 ، 397
عقیدہ شرح الطحاویہ میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ بیان کیا گیا ہے صفحہ نمبر 234 پے
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے کہا ، مکروہ ہے کہ دعا کرنے والا یوں کہے کہ میں بحق فلاں ، یا بحق انبیاء ورسل تیرے ، یا بحق بیت حرام و مشعر حرام تجھ سے سوال کرتا ہوں
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے ابو یوسف رحمہ اللہ سے کہا ، تم اصول دین یعنی کلام کے بارے میں عام لوگوں سے گفتگو کرنے سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ لوگ تمہاری تقلید کریں گے اور اسی میں پھنس جائیں گے ۔ مناقب ابی حنیفہ للمکی صفحہ 373
حماد بن ابی حنیفہ کہتے ہیں میرے والد نے کہا اے حماد ! علم کلام چھوڑ دو ، حماد کہتے ہیں میں نے اپنے باپ کو کھبی خلط ملط کرنے والا نہیں پایا تھا ، اور نہ ان میں سے پایا تھا جو کسی بات کا حکم دیتے ہوں ،پھر اس سے منع کرتے ہوں ، اس لئے میں نے ان سے کہا ابا جان ! کیا آپ مجھے اس کا حکم نہیں دیتے تھے امام صاحب نے کہا ہاں بیٹے ! کیوں نہیں لیکن آج تم کو اس سے منع کرتا ہوں میں نے کہا ، کیوں ؟ انہوں نے کہا ، اے بیٹے یہ لوگ جو علم کلام کے ابواب میں اختلاف کئے بیٹھے ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو یہ اک ہی قول اور دین پے تھے ،یہاں تک کہ شیطان نے ان کے درمیان کچوکا مارا ، اور ان میں عداوت و اختلاف ڈال دیا ،اور وہ اک دوسرے سے الگ ہو گئے ،
مناقب ابی حنیفہ للمکی صفحہ 183 تا 184
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ۔ اللہ عمرو بن عبید پر لعنت کرے ،کیونکہ علم کلام میں جو چیزیں مفید نہیں اس کی بابت گفتگو کا دروازہ اسی شخص نے کھولا ہے ،
زم الکلا م الکردی صفحہ 28
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ میں علم کلام پے نظر رکھتا تھا یہاں تک کہ اس درجے کو پہنچ گیا کہ اس فن میں میری انگلیوں سے اشار ے کئے جانے لگے کہتے ہیں ہم حماد بن ابی سلیمان کے حلقے میں بیٹھا کرتے تھے ایک دن میرے پاس ایک عورت آئی اور کہا اک آدمی ہے اسکی ایک بیوی ہے جو لونڈی ہے اور وہ اسے سنت کے مطابق طلاق دینا چاہتا ہے کتنی طلاق دے ،مجھے سمجھ نہ آیا کہ میں کیا کہوں ، میں نے اس عورت کو کہا کہ حماد سے پوچھو ، اور مجھے بتانا حماد نے کیا جواب دیا ، وہ حماد کے پاس گئی اور پوچھا ،حماد نے کہا اسے حیض اور جماع سے پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے پھر اسے چھوڑ رکھے یہاں تک کہ اسے دو حیض آ جائیں ، پھر جب وہ غسل کر لے تو نکاح کرنے والے کے لئے حلال ہوگئی ۔ اس نے واپس آکر مجھے بتایا ،میں نے کہا مجھے علم کلام کی کوئی ضرورت نہیں ، میں نے اپنا جوتا لیا اور حماد کے پاس آ بیٹھا ۔
تاریخ بغداد جلد 13 صفحہ373
امام صاحب کا عقیدہ بھی معلوم ہوا ، امام سے متکلمین زندیق ثابت ہوۓ ،
اب علماء دیوبند کے عقائد دیکھیں گے اور ان کے بزرگوں کے بھی
فصوص الحکم ، ابن عربی کی تصنیف کردہ کتاب ہے جو ابن عربی کے باطل عقائد اور کفر و شرک کا مجموعہ ہے۔
ابن عربی رقمطراز ہے :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے فصوص الحکم کتاب دی اور کہا : اسے لے کر لوگوں کے پاس نکلو ، وہ مستفید ہوں گے ۔
ابن عربی کہتا ہے :
ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تھا اور میرے خواب کی تعبیر مکمل ہو گئی ۔ اس کے بعد ابن عربی یوں خطاب کرتا ہے :
فمن اللہ ، فاسمعوا :: والی اللہ فارجعوا
بحوالہ : فصوص الحکم ، ص : 40 ، شرح بالی ، مطبوعہ 1309ھ ۔
اہلِ تصوف کا ایک اور پیشوا ابن عجیبہ فاطمی لکھتا ہے :
علمِ تصوف کے موسس و بانی خود نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے تصوف کا علم بذریعہ الہام عطا کیا۔ جبریل علیہ السلام پہلے علمِ شریعت لے کر نازل ہوئے ، جب یہ علم مکمل ہو گیا تو دوسری بار علمِ حقیقت لے کر نازل ہوئے ۔ ان دونوں علوم سے الگ الگ قسم کے لوگ بہرہ ور ہوئے ۔ جس نے سب سے پہلے اس علم کا اظہار کیا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔ آپ سے یہ علم حضرت حسن بصری نے حاصل کیا۔
بحوالہ : ایقاظ الھمم فی شرح الحکم ، ابن عجیبہ ، جلد 1 ، ص 5 ، مطبوعہ : 1913ھ ۔
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو علم چھپانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے :
من کتم علماََ یعلمہ ایاہ الجم یوم القیامہ بلجام من نار
جو علم کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔
(ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ)
ابن فارض خود کو ذاتِ الٰہی کہتے ہوئے نہیں شرماتا ۔
آگے بڑھ کر اپنے عظیم صفات و کمالات میں یہ بھی اضافہ کرتا ہے کہ جتنے بھی پیغمبر وجود میں آئے وہ سب ابن فارض کی ذات تھی ۔
اسی طرح نوعِ انسانی کے بابائے اول حضرت آدم (علیہ السلام) اور جن جن فرشتوں نے ان (علیہ السلام) کو سجدہ کیا تھا وہ سب کے سب ابن فارض ہی کی ذات تھی ۔
وفی شھدت الساجدین لمظھری :: فحققت انی کنت آدم سجدتی
(ترجمہ : میں نے سجدہ کرنے والوں کو دیکھا کہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، تو یہ ثابت ہو گیا کہ میں ہی آدم تھا جس کو سجدہ کیا گیا )
اس شعر کی تشریح ، صوفیت کا ایک اور پیشوا قاشانی یوں کرتا ہے :
یعنی میں نے دیکھا کہ ملائکہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، لہذا مجھے معلوم ہو گیا کہ آدم کے سامنے فرشتوں نے جو سجدے کیے تھے ، وہ سجدے دراصل مجھے ہی کیے گئے تھے ۔ ملائکہ میرے سامنے سجدے کرتے ہیں اور وہ میری صفات میں سے ایک صفت رکھتے ہیں لہذا ہر سجدہ کرنے والا میری ہی صفت سے ہم آہنگ ہے جو میری ہی ذات کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔
بحوالہ : کشف الوجوہ الغر ، شرح الدیوان کا حاشیہ ، جلد 2 ، ص 89 ، مطبوعہ 1310ھ ۔
مذہبِ تصوف کا ایک نامور پیشوا تلسمانی لکھتا ہے :
ہمارے دین میں ماں اور بہن سے رشتہ جائز ہے اور جو لوگ اس کو حرام قرار دیتے ہیں وہ محجوب اور بےعقل ہیں ۔
بحوالہ : مجموعہ الرسائل و المسائل ، ابن تیمیہ ۔ ج 1 ، ص 177 ۔
ابن عربی ( محمد بن علی بن محمد الخاتمی الطائی الاندلسی ، متوفی : 638ھ ) کائنات کی ہر موجود اور غیر موجود شئے کو اللہ تعالیٰ کی ذات قرار دیتا ہے۔
سبحان من اظھر الاشیاء وھو عینھا بحوالہ : الفتوحات المکیہ ، ابن عربی ۔ ج 2 ، ص 204 ۔
اور وہ (ابن عربی) اللہ تعالیٰ کی تعریف یوں کرتا ہے :
پاک ہے وہ ذات جس نے تمام اشیاء کوظاہر کیا اور وہی ان اشیاء کا ظاہر و باطن ہے ۔
بحوالہ : فصوص الحکم ، شرح قاشانی ، ص 382 ۔
تصوف کا ایک اور عظیم پیشوا جیلی لکھتا ہے :
حق تعالیٰ شانہ کی ذات جس چیز میں بھی ظاہر ہو جائے اس کی عبادت و پرستش واجب ہے ۔اور اس کی ذات کائنات کے ہر ذرہ میں ظاہر ہے ۔
بحوالہ : الانسان الکامل ، جیلی ۔ ج 2 ، ص 83 ۔
مذہبِ تصوف کا شیخ اکبر ، ابن عربی ۔۔۔ کتاب فصوص الحکم میں لکھتا ہے۔
جب کوئی مرد عورت سے محبت کرتا ہے ، جسمانی ملاپ کا مطالبہ کرتا ہے ۔ یعنی محبت کی آخری حد جو محبت کا آخری ہدف ہوتا ہے ۔ مرد و عورت کے جسمانی ملاپ سے بڑھ کر کوئی اور عنصری ملاپ کی صورت نہیں ہوتی ، اس لیے شہوت عورت کے پورے بدن میں پھیل جاتی ہے ۔ اسی لیے جنسی ملاپ کے بعد غسل کا حکم دیا گیا ہے ، چونکہ غسل سے طہارت بھی پورے جسم کو عام ہوجاتی ہے جس طرح حصولِ شہوت کے وقت مرد اس کے اندر مکمل طور پر فنا ہو گیا تھا ۔ لہذا حق (اللہ تعالیٰ) اپنے بندہ پر بڑا غیور ہے کہ وہ اسے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ لذت حاصل کرے ۔ اسی لیے غسل کا حکم دے کر اسے پاک کر دیا ۔ تاکہ اس کو یہ پتا چلے کہ اس نے اس عورت کے ساتھ جنسی ملاپ جو کیا ہے ، دراصل اس عورت کی شکل میں اللہ ہی تھا ۔
جب کوئی شخص مرد عورت کے اندر حق کا مشاہدہ کرتا ہے عورت میں ایک جذباتی اور انفعالی صورت میں رب کا مشاہدہ کرتا ہے اور جب اپنے اندر رب کا مشاہدہ کرتا ہے تو فاعل کی شکل میں کرتا ہے ۔ اور انفعالی صورت میں مشاہدہ نہیں کرتا ۔ اسی لیے عورت جب جنسی ملاپ کرتی ہے تو اللہ بدرجہ اتم اس کے اندر ظاہر ہوتا ہے ، کیونکہ اس کی حالت فاعل اور منفعل دونوں کی ہوتی ہے ۔
لہذا مرد اس وقت اپنے رب کو اس عورت کی شکل میں زیادہ اچھی طرح جلوہ گر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عورتوں سے محبت کی ۔ اسی لیے عورتوں کے اندر اللہ کا مشاہدہ زیادہ اچھی طرح پاتا ہے ۔ اور حق کا مشاہدہ تو مادہ کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ حق (اللہ تعالیٰ) کا مشاہدہ عورتوں کے اندر زیادہ سے زیادہ اور مکمل طور پر انجام پاتا ہے ، خاص طور پر اس وقت جب وہ جنسی ملاپ کر رہی ہو۔
بحوالہ : فصوص الحکم ، ابن عربی ۔ ج 1 ، ص 317 ۔
حسین بن منصور حلاج (م:309ھ) اس عقیدہ کے علمبردارِ اعلیٰ تسلیم کئے جاتے ہیں منصور حلاج کا دعویٰ تھا کہ : خدا اس کے اپنے اندر حلول کر گیا ہے !!
منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔
منصور حلاج اپنے اسی عقیدے کے سبب " انا الحق " کا نعرہ لگاتا تھا۔
اس کے اپنے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں :
عَقَدَ الخلائقُ في العقائدا
وانا اعتقدت جميع ما اعتقدو
الٰہ کے بارے میں لوگوں کے بہت سے عقیدے ہیں اور میں ان سب عقیدوں پر عقیدہ رکھتا ہوں۔
كفرت بدين اللہ والكفر واجب
لديّ وعند المسلمين قبيح
میں اللہ کے دین سے کفر کرتا ہوں اور یہ کفر میرے لیے واجب ہے جبکہ تمام مسلمانوں کے نزدیک یہ برا ہے۔
ديوان الحلاج:ص(34)
حسین بن منصور سمجھانے کے باوجود بھی جب اپنے اس عقیدہ پر مصر رہا تو بالآخر اسے خلیفہ بغداد "المقتدر باللہ" نے 24۔ذی قعدہ 309ھ (914 سن عیسوی) کو بغداد میں قتل کرا دیا اور اس "الحق " کی لاش کو جلا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔
حلاج کے متعلق ابن عربی نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ" میں ایک اور واقعہ نقل کیا ہے کہ :
مشہور بزرگ شیخ ابوعمرو بن عثمان مکی ، حلاج کے سامنے سے گزرے اور پوچھا کہ کیا لکھ رہے ہو؟
حلاج نے جواب دیا : قرآن کا جواب لکھ رہا ہوں۔
یہ سن کر ابوعمرو بن عثمان مکی نے بد دعا کی اور انہی کی بد دعا کا نتیجہ تھا کہ حلاج قتل کر دیا گیا۔
اتنے شدید جرم کے باوجود صوفیاء کی اکثریت نے حلاج کے حق پر ہونے اور حلاج کو سزا دینے والوں کے باطل پر ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ذیل میں ان صوفیاء کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت علی ہجویری
انہیں میں سے مستغرق معنیٰ ابوالغیث حضرت حسین بن منصور حلاج رضی اللہ عنہ ہیں۔ آپ سرمستان بادۂ وحدت اور مشتاقِ جمالِ احدیث گزرے ہیں اور نہایت قوی الحال مشائخ تھے۔
بحوالہ:کشف المحجوب ، ص:300
مولانا روم
گفت فرعونے اناالحق گشت پست
گفت منصورے اناالحق گشت مست
لعنتہ اللہ ایں انارا درقفا
رحمتہ اللہ ایں انارا درقفا
اردو ترجمہ : عبدالرحمٰن کیلانی
فرعون نے "انا الحق" کہا تو ذلیل ہو گیا اور منصور نے "انا الحق" کہا (عشق و محبت میں) تو مست قرار پایا۔ فرعون کی خودی کے لیے تو بعد میں اللہ کی لعنت ہی رہ گئی اور منصور کی خودی کے لیے بعد میں اللہ کی رحمت رہی ہے۔
بحوالہ :مثنوی روم
خواجہ نظام الدین اولیاء ، دہلی
خواجہ نظام الدین اولیاء (م:725ھ) حلاج کی بزرگی کے اس قدر قائل تھے کہ آپ نے فرمایا :
ذکر مشائخ کا ہو رہا تھا۔ بندہ نے عرض کیا کہ سیدی احمد (سید احمد رفاعی) کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا : وہ بزرگ شخص تھے۔ عرب کا قاعدہ ہے کہ جب کسی کو بزرگی سے یاد کرتے ہیں تو اسے سیدی کہتے ہیں۔ وہ شیخ حسین بن منصور حلاج کے زمانے میں تھے۔ جب کہ ان کو جلایا گیا اور ان کی خاک دجلہ میں ڈالی گئی۔ سیدی احمد نے ذرا سی خاک اس میں سے تبرکاً اٹھا کر کھالی تھی۔ یہ ساری برکتیں اسی سبب سے انہیں حاصل تھیں۔
بحوالہ :فوائد الفواد ، ملفوضات نظام الدین اولیاء صاحب ، مرتبہ: خواجہ حسن دہلوی ، ص:471
احمد رضا خان فاضل بریلوی
فاضل بریلوی صاحب سے سوال کیا گیا :
حضرت منصور و تبریز و سرمد نے ایسے الفاظ کہے جن سے خدائی ثابت ہے ، لیکن وہ ولی اللہ گنے جاتے ہیں اور فرعون ، شداد ، ہامان و نمرود نے دعویٰ کیا تھا تو مخلد و النار ہوئے ، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب :
" ان کافروں نے خود کہا اور ملعون ہوئے اور انہوں نے خود نہ کہا۔ اس نے کہا جسے کہنا شایاں ہے اور آواز بھی انہی سے مسموع ہوئی۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخت سے سنا ' انی انا اللہ' میں ہوں رب اللہ سارے جہاں کا ، کیا درخت نے کہا تھا؟ حاشا بلکہ اللہ نے۔ یونہی یہ حضرات اس وقت شجرِ موسیٰ ہوتے ہیں۔"
بحوالہ :احکام شریعت ، ص:93
حضرت بایزید بسطامی (ابویزید طیفور بن عیسی بسطامی) کے بارے میں حضرت خواجہ جنید بغدادی فرماتے ہیں:
ابو یزید منا بمنزلہ جبرئیل فی الملایکہ
ابویزید ہم میں ایسے ہیں جیسے فرشتوں میں جبرائیل
حضرت بایزید بسطامی خود فرماتے ہیں
سبحانی واعظم شانی
میں پاک ذات ہوں میری شان بہت بڑی (اعظم) ہے
حضرت علی ہجویری فرماتے ہیں کہ یہ کہنا ان کی گفتار کا نشانہ ہے اور درحقیقت یہ کہنے والا حق تعالی ہی پردہ عبد میں ہے۔
(کلام المرغوب ترجمہ کشف المحجوب صفحہ 443)
خواجہ بایزید نے فرمایا کہ مین مدتون خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہاجب مجکو قرب و حضوری عطا کی گئی اسوقت خانہ کعبہ نے میرے گرد طواف کیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواجہ بایزید بسطامی سے لوگون نے پوچھا کہ آپ نے طریقت مین اپنا سلوک کہاں تک پہنچایا ہے فرمایاکہ مین نے یہان تک اپنا سلوک پہنچایا ہے کہ جب مین اپنی دو انگلیون کے درمیان نظر کرتا ہون تو تمام دنیا و مافیہا کو اسمین دیکھتا ہون۔
ترجمہ دلیل العارفین صفحہ 99-100 ملفوظات خواجہ معین الدین چشتی مربہ خواجہ بختیار کاکی)
ایک دفعہ شیخ علی مکی رحمہ اللہ علیہ نے خواب مین دیکھا کہ عرش اٹھائے لئے چلا جا رہا ہوں۔ جب صبح ہوئی تو جی مین خیال کیا کہ مین یہ خواب کسکے سامنے بیان کرون جو تعبیر پاوﺅن۔ پھر جی مین کہا کہ بایزید بسطامی سے چل کے دریافت کر۔ اسی فکر مین جب گھر سے باہر نکلا دیکھا تو بسطام مین ایک شور برپا تھا اور خلق رو رہی تھی مین حیران ہو کر کھڑا ہو گیا پوچھا کیا حال ہے کہا خواجہ بایزید علیہ الرحمہ نے انتقال کیا۔ شیخ علی نے سنتے ہی ایک نعرہ مارا اور زمین پر گر پڑے۔ پھر نعرہ مارتے ہوئے بایزید کے جنازہ کے پاس تک پہونچے مگر خلق کے اژدحام سے وہانتک پہونچ نہین سکتے تھے مگر شیخ علی ہزار حیلہ و دشواری سے جنازہ تک آئے اور کندھا دیا۔ بایزید نے آواز دی کہ اے علی جو تو نے خواب دیکھا تھا اسکی یہی تعبیر ہے یہی جنازہ بایزید عرش خدا ہے کہ جو تو سر پر لیے جا رہا ہے۔
(ترجمہ راحت القلوب صفحہ 215 ملفوظات خوجہ فرید الدین گنج شکر مرتبہ نظام الدین اولیا)۔
بایزید کا اپنے جنازے کو عرش الہی سے تشبیہ دینا قابل غور ہے۔ مرنے کے بعد بولنا بھی توجہ کا متقاضی ہے۔ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ مردہ لوگ نہ سنتے ہیں نہ جواب دیتے ہیں۔ تصوف عین اسلام ہے کیا واقعی؟
ONLINE URDU FATWA SERVICE JAMIA BINORIA KARACHI
یہ فتوی جامعہ بنوریہ کراچی والوں کا ہے
اس فتوی میں کہا گیا ہے کہ اھل سنت کے نزدیک نبی اور ولی اور شہداء کے طفیل دعا مانگنا جائز ہے دیوبند کے عقائد کی مشھور کتاب المھند علی المفند کے صفحہ نمبر 31 اور سوال نمبر تیسرا اور چوتھا ، اس میں بھی یہ موجود ہے کہ وفات کے بعد انبیاء صلحاء اور اولیاء اور شہداء کا توصل جائز ہے-
حضرت مولانا مفتی سید عبدالشکور ترمذی صاحب اپنی کتاب عقائد اہل السنۃ والجماعۃ یعنی خلاصہ عقائد علماء دیوبند کے صحفہ 179 پے رقم طراز ہیں ، ہم نے عقائد مںا تو امام تسلیم کیا ہے حضرت مولانا قاسم نانوتوی کو اور فروع میں امام تسلیم کیا ہے مولانا رشید احمد گنگوہی کو ، ان دونوں بزرگوں کی اتباع کا نام دیوبندیت ہے ، اور اس کتاب میں جو عقائد بیان کیے گئے ہیں وہ المھند علی المفند سے لیے گے ہیں اس کتاب کے ملاحظہ سے معلوم ہوگا کہ علماء دیوبند کے یہی عقائد تھے جو کتاب میں بیان کیے ہیں
میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا عقیدہ بھی بیان کر دیا ہے اور گمراہ لوگوں کا بھی
اب آپ فیصلہ کریں کس کا عقیدہ قرآن و سنۃ کے مطابق ہے اور کس کا کفریہ اور شرکیہ
Comment