بدعت ِعید میلاد سے متعلقہ شبہات کا ازالہ اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ
عیدمیلاد کے بدعت ہونے میں کوئی شک تو باقی نہیں رہ جاتا مگر اس کے باوجود بعض علما اسے کسی نہ کسی طرح شرعی لبادہ پہنانا چاہتے ہیں خواہ اس کے لئے انہیں قرآنی آیات میں کھینچا تانی کرنا پڑے یاکفار (ابولہب وغیرہ) کے عمل سے استدلال کرنا پڑے مگر حق بہرحال حق ہے جوباطل کی ملمع سازیوں کے باوجود آخر کار نکھر ہی آتا ہے۔ اس لئے آئندہ سطور میں بدعت ِمیلاد کو جائز قرار دینے والوں کے دلائل کاجائزہ پیش کیا جاتا ہے :
قرآنی دلائل
1۔ (یٰأیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَبِّکُمْ وَشِفَائٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَھُدًی وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا) ''اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جونصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں، ان کے لئے شفا ہے اور وہ رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لئے۔ (اے نبیؐ!) آپ کہہ دیجئے کہ بس لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے۔'' (یونس:۵۷،۵۸) اس آیت سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ نصیحت، شفا، ہدایت اور رحمت وغیرہ حضورؐ کی پیدائش اور تشریف آوری ہی پر موقوف ہے۔ اس لئے سب سے بڑی رحمت و نعمت تو خود حضورؐ کی ذاتِ گرامی ٹھہری، لہٰذا آپؐ کی تشریف آوری پر خوشی منانا چاہئے اور فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا میں بھی خوشی منانے کا حکم ہے۔
جواب: 1۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن مجید آنحضرتؐ پر نازل ہوا اور آپؐ ہی حکم خداوندی سے اس کی قولی و عملی تفسیر و تشریح فرمایا کرتے تھے۔ آپؐ کی رسالت وبعثت کے بعد ۲۳ مرتبہ یہ دن آیا مگر آپؐ نے ایک مرتبہ بھی اس کی قولی و عملی تفسیر فرماتے ہوئے عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرامؒ، تابعین عظام اور تبع تابعین، مفسرین و محدثین وغیرہ کو اس آیت میں عید میلاد نظر آئی مگر داد ہے ان نکتہ دانوں کے لئے جنہیں چودہ سو سال بعد خیال آیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیدمیلاد النبیؐ منانے کا حکم دیا ہے اور ان پاکباز ہستیوں کو یہ نکتہ رسی نہ سوجھی کہ جنہیں نزولِ قرآن کے وقت براہِ راست یہ حکم دیا گیا۔
2۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں ولادتِ نبوی ﷺ یا عید میلاد کا کوئی ذکر و اشارہ تک بھی نہیں بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نزولِ قرآن کی نعمت پر خوش ہوجاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کے لئے اسے نازل کیا ہے۔
3۔ علاوہ ازیں خوشی کا تعلق انسان کی طبیعت اورقلبی کیفیت سے ہوتا ہے نہ کہ وقت اور دن کے ساتھ۔ اس لئے اگر نزولِ قرآن یا صاحب ِقرآن (آنحضرتؐ) پر خوش و خرم ہونے کا حکم ہے تو یہ خوشی قلبی طور پر ہر وقت موجود رہنی چاہئے، نہ کہ صرف ۱۲ ربیع الاول کو اس خوشی کا اظہار کرکے پورا سال عدمِ خوشی میں گزار دیا جائے۔ اگر آپ کہیں کہ خوشی تو سارا سال رہتی ہے تو پھر آپ سے از راہِ ادب مطالبہ ہے کہ یا تو سارا سال بھی اسی طرح بھنگڑے ڈال کر اور جلوس نکال کر خوشی کا اظہار کیا کریں یا پھر باقی سال کی طرح۱۲؍ ربیع الاول کو بھی سادگی سے گزارا کریں۔
2۔ (وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ) (الضحیٰ :۱۱) ''اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔''
اس آیت سے بھی یہ کشید کیا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُمت ِمسلمہ کے لئے سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذا اس نعمت ِعظمیٰ کا اظہار بھی بڑے پرشوکت جشن و جلوس سے کرنا چاہئے۔
جواب:1۔ اس آیت میں اگرچہ انعاماتِ خداوندی کے اظہار کا ذکر ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا کسی نعمت کے اظہار کے لئے اسلام نے جلوس نکالنے کا حکم دیا ہے؟ مثلاً آپ کے گھر میں بیٹا پیدا ہو تو تحدیث ِنعمت کے طور پر آپ شہر بھر میں جلوس نکالیں گے؟ اگر آپ ہاں بھی کہہ دیں تواللہ کی نعمتیں شمار سے باہر ہیں، آخر کس کس نعمت پر جلوس نکالیں گے
2۔ آنحضرتؐ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ِعظمیٰ ہیں مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام نے اس نعمت ِعظمیٰ کی کس طرح قدر کی؟ کیا وہ آنحضرتؐ کا عید میلاد مناکر اور جلوس نکال کر آنحضرتؐ کی قدرومنزلت کا خیال کیا کرتے تھے یا آپؐ کے اقوال و فرمودات پر عمل پیرا ہوکر اس نعمت کا اظہار کیا کرتے تھے؟ جس طرح صحابہ کرام کیا کرتے تھے، من و عن اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔اگر وہ جلوس نکالا کرتے تھے تو ہمیں بھی ان کی اقتدا کرنی چاہئے اگر ان سے آنحضرتؐ کی زندگی یا بعد از وفات ایک مرتبہ بھی جشن و جلوس منانا ثابت نہیں تو پھر کم از کم ہمیں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہئے۔
3۔ یہ آیت آنحضرتؐ پرنازل ہوئی مگر آپؐ نے زندگی بھر ایک مرتبہ بھی عید ِمیلاد نہیں منائی، پھر ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم اسے کارِ ثواب قرار دے کر دین میں اضافہ ، اپنے عملوں کو برباد اور اللہ کے رسولؐ کی مخالفت کریں۔
3۔ (وَذَکِّرْھُمْ بِاَیَّامِ اللّٰہِ) (ابراہیم:۵) ''اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد دلاؤ۔''
4۔ (وَالسَّلاَمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا) (مریم:۳۳) ''اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ کھڑا کیا جاؤں گا، سلام ہی سلام ہے۔''
5۔ (وَرَفَعْنَاَ لَکَ ذِکْرَکَ) (الانشراح:۴) ''اور ہم نے آپؐ کا ذکر بلند کردیا''
جواب:ان تینوں آیات سے بھی عید ِمیلاد ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ آیات میں کہیں جشن عیدمیلاد کا ذکر نہیں۔ اگر اس کا کوئی اشارہ بھی ہوتا تو وہ صحابہ کرام سے آخر کیسے مخفی رہ سکتا تھا؟!
آیت نمبر3 میں حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم کو گذشتہ قوموں کے واقعات سے باخبر کریں کہ کس طرح ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے انہیں ہلاکت و عذاب سے دوچار کیا گیا اور اطاعت گزاروں کو کامیابی سے نوازا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ ؒ نے اپنی اصول تفسیرکی کتاب 'الفوز الکبیر' میں قرآنِ مجید کے پانچ علوم میں سے ایک کا نام 'علم التذکیر بایام اللہ' رکھا جس میں گذشتہ اقوام کے عروج وزوال، انعام و اکرام یا ہلاکت و عذاب پر بحث کی جاتی ہے۔ اگر بالفرض اس آیت سے گذشتہ نبیوں کا میلاد منانا مراد ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے گذشتہ نبیوں کا میلاد کیوں نہ منایا؟ اور آنحضرتؐ نے حضرت موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ وغیرہ کا میلاد کیوں نہ منایا؟
آیت نمبر4 میں حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر ہے اور انہوں نے کبھی میلا دنہ منایا نہ ان کے حواریوں نے ایسا کیا البتہ ان کے آسمان پراٹھائے جانے کے عرصہ دراز بعد تقریباً ۳۳۶میں پہلی مرتبہ رومیوں نے اس بدعت کو دین عیسوی میں ایجاد کیا۔ روم کے عیسائی علما نے باہم مشورہ سے طے کیا کہ مقامی بت پرستوں کے مقابلہ میں مسیحیوں کی شناخت کے لئے بھی کوئی تہوار ہونا چاہئے۔ رومی بت پرست ۶؍ جنوری کو اپنے ایک دیوتا کے احترام میں تہوار مناتے تھے لہٰذا عیسائیوں نے بھی کرسمس کے لئے یہی تاریخ منتخب کی مگر بعد میں عیسائیوں نے ۲۵ دسمبر کو کرسمس منانے پر اتفاق کرلیا کیونکہ اس تاریخ کو سب سے بڑے دیوتا (یعنی سورج) کا تہوار منایا جاتا تھا ۔ پھر دین عیسوی کی اس بدعت کو جب اللہ کے رسولؐ نے ہرگز اختیار نہیں کیا تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر میلا دالنبیؐ منائیں۔
علاوہ ازیں اگر یوم ولادت سے عید میلاد منانے کا جواز ہے تو پھر اس آیت میں موجود یَوْمَ أَمُوْتُ سے 'یومِ سوگ ' بھی منانا چاہئے۔ اگر 'یوم سوگ' نہیں تو پھر جشن ولادت ہی کیوں؟
آیت نمبر5 میں اللہ کے رسولؐ کی عظمت و رفعت کا ذکر ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہے، بدعت ِمیلاد کے مرہون منت قرار نہیں دیا۔ لیکن اگر اللہ کے رسولؐ کی رفعت و عظمت جشن میلاد ہی سے ممکن ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ جب تک یہ بدعت ایجاد نہیں ہوئی تھی تب تک حضورؐ کی رفعت کیسے قائم رہی؟
اختلاف صرف اظہارِ خوشی کے طریقے پر ہے!
یہاں اس شبہ کا اِزالہ بھی ہوجانا چاہئے کہ میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں آنحضرتؐ کی تشریف آوری اور رسالت پر شاید خوشی ہی نہیں ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ جسے اللہ کے رسولؐ سے محبت ہی نہیں یا آپ ؐ کی رسالت و بعثت پر خوشی ہی نہیں، وہ فی الواقع مسلمان ہی نہیں۔ البتہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس خوشی کے اظہار کا شرعی طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ اگر کہا جائے کہ جشن، جلوس، میلاد اور ہر من مانا طریقہ ہی جائز و مشروع ہے تو پھر پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر صحابہ کرام کی آنحضرتؐ سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے، اس لئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے کبھی جشن میلاد نہیں منایا جبکہ آپؐ کے فرمان پر وہ جان دینے سے بھی نہیں گھبرایا کرتے تھے!
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خوشی اور غمی کی حدود و قیود متعین کردی ہیں جن سے تجاوز ہرگز مستحسن نہیں۔ اس لئے شیعہ حضرات کا شہداے کربلا کے رنج و غم پر نوحہ و ماتم کرنا، تعزیے نکالنا، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنا جس طرح دینی تعلیمات کے منافی اور رنج و غم کی حدود سے اِضافی ہے اسی طرح بعض سنّیوں کا ۱۲؍ربیع الاول کو یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا، بھنگڑے ڈالنا، قوالیاں کرنا، رات کو بلا ضرورت قمقمے جلانا، چراغاں کرنا اور بے جا اِسراف کرنا بھی دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے نزدیک جشن میلاد 'برحق' ہے تو پھر اسے چاہئے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر شیعہ کے نوحہ و ماتم کو بھی برحق کہہ دے !
احادیث کے دلائل
1۔ صحیح بخاری کے حوالے سے عید میلاد کے جواز کے لئے یہ روایت پیش کی جاتی ہے کہ ''قال عروۃ وثویبۃ مولاۃ لأبي لھب وکان أبولھب اعتقھا فأرضعت النبی ا فلما مات أبولھب اریہ بعض أھلہ بشر حیبۃ قال لہ ماذا لقیت؟ قال أبولھب لم الق بعدکم غیرانی سقیت فی ھذہ بعتاقتی ثویبۃ'' (کتاب النکاح: باب وأمھاتکم اللآتی أرضعنکم)
''عروہ راوی کا بیان ہے کہ ثویبہ ابولہب کی لونڈی تھی اور ابولہب نے اسے آزاد کردیا تھا۔ اس لونڈی نے نبی اکرمﷺ کو (بچپن میں) دودھ پلایا تھا۔ جب ابولہب فوت ہوا تو اس کے کسی عزیز نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بری حالت میں ہے تو اس سے پوچھا کہ کیسے گزر رہی ہے؟ ابو لہب نے کہا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد کبھی آرام نہیں ہوا، البتہ مجھے یہاں (انگوٹھے اور انگشت ِشہادت کے درمیان گڑھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) سے پانی پلا دیا جاتا ہے اور یہ بھی اس و جہ سے کہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزادی بخشی تھی۔''
جواب:1۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مذکورہ روایت صحیح بخاری کی مسند روایتوں میں شامل نہیں بلکہ ان معلقات میں سے ہے جنہیں امام بخاری بغیر سند کے اَبواب کے شروع میں بیان کردیتے ہیں اور یہ روایت بھی عروہ تابعی سے مرسل مروی ہے اور محدثین کے نزدیک مرسل تابعی حجت نہیں۔
2۔ پھر یہ مرسل روایت اہل سیر کی روایات کے خلا ف ہے، اس لئے کہ اکثر و بیشتر اہل سیر کے مطابق ابولہب نے اپنی لونڈی کو آنحضرتؐ کی پیدائش کے کافی عرصہ بعدآزاد کیا تھا مگر اس روایت سے اس کو ولادت نبوی ؐکے موقع پر آزاد کرنے کا اشارہ ہے۔ ابن جوزی اس سلسلے میں رقم طراز ہیں کہ '' ثویبہ آنحضرتؐ کے پاس اس وقت بھی آیا کرتی تھی جب آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کرلی تھی۔ اور ان دنوں بھی یہ ابو لہب کی لونڈی تھی مگر اس کے بعد ابولہب نے اسے آزا دکردیا۔'' (الوفاباحوال المصطفیٰ : ص۱۰۷؍ ج۱)
حافظ ابن حجرؒ نے بھی یہ بات ذکر کی ہے۔ (فتح الباری:۹؍۱۴۵ اور الاصابہ:۴؍۲۵۰) اسی طرح ابن سعدؒ نے طبقات (۱؍۱۰۸) میں اور ابن عبدالبرؒ نے الاستیعاب (۱؍۱۲) میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔
3۔مذکورہ روایات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابولہب نے ثویبہ کو آنحضرتؐ کی ولادت پر آزا دنہیں کیا لیکن اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ اس نے ولادت ہی پر اسے آزاد کیا تھا تو پھر ابولہب کا یہ عمل اس وقت کا ہے کہ جب اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا کہ میرا بھتیجا نبی بنے گا بلکہ آنحضرتؐ کی پیدائش پراس نے بحیثیت ِچچا اپنی لونڈی آزاد کرکے مسرت کا اظہار کیا اور بچے کی پیدائش پرایسا اظہارِ مسرت بلا استثنائِ مسلم و غیر مسلم ہر شخص فطری طور پر کیا ہی کرتا ہے۔ چنانچہ ابولہب نے بھی اس فطری مسرت کا اظہار کیا مگر جب آپؐ نے رسالت کا اعلان کیا تو یہی ابولہب آپؐ کی مخالفت میں پیش پیش تھا اور اسی ابولہب کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورئہ لہب نازل فرمائی کہ (تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ مَا أَغْنٰی عَنْہٗ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَھَبٍ) (سورئہ لہب:۱تا۳)
''ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔ نہ تو اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی۔ وہ عنقریب بھڑکنے والی آگ میں داخل ہوگا۔''
4۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ محض ایک خواب ہے اور شریعت نے نبی ورسول کے علاوہ کسی کے خواب کو حجت و برہان قرا رنہیں دیا۔
5۔ نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر فرمائے۔ اس سے بعض لوگ یہ نکتہ رسی کرتے ہیں کہ حضورؐ کی عمر چونکہ ۶۳ سال تھی، اس لئے ہر سال کی خوشی میں آپؐ نے ایک ایک اونٹ ذبح فرمایا۔ اس لئے ہمیں بھی آنحضرتؐ کے یومِ ولادت کی ہر سال خوشی منانا چاہئے۔
جواب: 1۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ اللہ کے رسولؐ نے ۶۳ اونٹ اپنے دست مبارک سے قربان کئے مگر یہ کہاں سے نکل آیا کہ انہیں عیدمیلاد کی خوشی میں قربان کیا گیا تھا؟
2۔ اگر بالفرض یہ عید میلاد کی خوشی میں ذبح کئے گئے تھے تو پھر عیدمیلاد ربیع الاوّل کی بجائے ذوالحجہ کو منانی چاہئے کیونکہ یہ واقعہ نو ذوالحجہ کا ہے!
3۔ حقیقت یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ۱۰۰ اونٹ نحر فرمائے۔ ان میں سے ۶۳ اونٹ تو آپؐ نے اپنے دست ِمبارک سے نحر کئے جبکہ باقی ۳۷ اونٹ حضرت علی نے آپؐ کے حکم سے نحر کئے۔ اس لئے اگر ۶۳ اونٹ آنحضرتؐ کی ۶۳ سالہ زندگی کے ایام ولادت کی خوشی میں ذبح کئے گئے تو باقی ۳۷ اونٹ کس کے یوم ولادت کی خوشی میں تھے؟
6۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرتؐ سوموار کو روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن آپؐ کی پیدائش ہوئی تھی اور اس دن روزہ رکھنا بطورِ شکرانہ تھا، اس لئے میلاد کی خوشی منانا چاہئے۔ کیونکہ شکرانہ خوشی اور نعمت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔
جواب: 1۔ جن روایات میں سوموار کے روزے کا ذکر ہے، انہی میں یہ صراحت بھی ہے کہ آپؐ جمعرات کا بھی روزہ رکھا کرتے تھے۔ اس لئے اگر بالفرض سوموار کا روزہ ولادت کی خوشی میں تھا تو پھر جمعرات کا روزہ کس خوشی میں تھا؟
2۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی میلا دکی خوشی کا روزہ نہ تھا بلکہ بعض صحابہ کے استفسار پر آپؐ نے سوموار اور جمعرات کے روزے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ ''ہفتے کے ان دو دنوں میں بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں اور میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں نے روزہ رکھا ہو۔'' (فتح الباری :۴؍۲۳۶)
3۔ اگر بالفرض آنحضرتؐ سوموار کا روزہ اپنی ولادت کی خوشی میں رکھتے تھے تو پھر چاہئے تو یہ تھا کہ آپؐ سال بھر میں صرف اپنے یومِ تاریخ کا ایک ہی روزہ رکھتے مگر آپؐ تو ہر ہفتے کی سوموار (اور جمعرات) کو روزہ رکھا کرتے تھے... اس سے بھی معلوم ہوا کہ یہاں بھی میلاد کی کوئی گنجائش نہیں۔
4۔ اگر حدیث ِمذکور کی بنا پر خوشی اور میلاد ضروری ہے تو پھر کم از کم میلاد منانے والوں کو اس روز، روزہ رکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے رسولؐ اس روز روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر میلاد منانے والے تو دعوتیں اڑاتے ہیں۔ بقول شخصے حضور روزہ فرماتے ہیں اوریہ عید مناتے ہیں!
7۔ بعض بھولے بسرے یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یوم اقبال، یوم قائداعظم اور یوم سالگرہ منانا درست ہے تو پھر یومِ میلاد کیوں بدعت ہے؟
جواب: یہ اعتراض تب درست ہوسکتا تھا کہ جب یوم اقبال، یومِ قائد اور سالگرہ وغیرہ منانا دینی اعتبار سے مشروع و جائز ہوتا مگر جب یہ چیزیں بذاتِ خود غیر مشروع ہیں تو انہیں بنیاد بنا کر نئی چیز کیسے مشروع (جائز) ہوجائے گی؟ اسلام میں ایام پرستی کا کوئی تصور نہیں۔ اگر ایام پرستی کا اسلام نے لحاظ رکھا ہوتا تو ہر روز کسی نہ کسی نبی، ولی اور عظیم واقعہ کی یاد میں ایک نہیں، سینکڑوں جشن منانا پڑتے اور اُمت مسلمہ کو سال بھر ایام پرستی ہی سے فرصت نہ مل پاتی۔
علاوہ ازیں یوم اقبال اور یوم قائد وغیرہ منانے والے کیا اسلامی شریعت میں ایسا امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اسفعل کو دین و حجت قرا ر دے دیا جائے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اسے بنیاد بنا کر عید ِمیلاد کا جواز کشید کرنا بھی درست نہیں بلکہ یہ تو 'بناء فاسد علیٰ الفاسد' ہے! اسی طرح بچوں کی سالگرہ منانا غیرمسلموں کی نقالی ہے۔ اسلام میں اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ اور ویسے بھی یہ غیر معقول رسم ہے کہ ایک طرف کل عمر سے ایک سال کم ہورہا ہے اور دوسری طرف اس پر خوشی منائی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں غیر مسلموں کی تہذیب و تمدن اور خاص شعار پر مبنی کسی چیز میں نقالی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ''من تشبّہ بقوم فھو منھم...'' (ابوداؤد:۴۰۳۱) ''جس نے کسی (غیر مسلم) قوم کی نقالی کی وہ انہی میں شمار ہوگا۔''
Comment