میلاد النبی منانے کا جواز؟
ابو زید
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
برادرن اسلام
السلام علیکم
میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کے سلسلے میں امّت میں ایک عرصے سے محاذ آرائی چلی آرہی ہے۔اس سلسلے میں اس کے حمایتی اور مخالف دونوں فریق کے پا س اپنے اپنے دلائل موجود ہیں جو کہ ان کی دانست میں کافی ٹھوس بھی ہیں۔ بلکہ دلائل سے بڑھ کر بات فتوو ؤں اور مناظروں تک پہونچ چکی ہے۔ جو طبقہ اس کی حمایت میں اپنا ذہن بنا چکا ہے وہ اپنے دلائل دے کر مطمئن ہو جاتا ہے اورجو اس کی مخالفت میں اپنا ذہن بنا چکا ہے اس کا اپنا ذہن ہے اور ہر ایک کے پاس اپنے اپنے دلائل بھی۔ ہر ایک اس معاملے میں اپنے اپنے علماء کی رائے بھی دے رہا ہے جو ان کی اپنی دانست میں قابل بھروسہ ہیں۔ اس صورت حال میں قرآن اور حدیث سے دلائل بھی کوئی خاص معنی نہیں رکھتے کیونکہ ہر ایک کی اپنی قرآن کی تشریح بھی ہے۔ایک فریق اس کے بدعت ہونے پر دلائل فراہم کر رہا ہے تو دوسرا فریق بدعت حسنہ کا علم بلند کئے ہوئے ہے۔ چونکہ یہ معاملہ اسلامی جذبے سے بھی متعلق ہے اس لئے قرآن و حدیث کے دلائل بھی اکثر بے اثر رہ جاتے ہیں۔ یہ صورت ایک نئے اور غیر جانبدار ذہن کو الجھا کر رکھ دیتی ہی۔ فتوو ؤں کی کثرت بعض اوقات مسئلے کے حل بجائے اس کو مزید الجھا دینے کا باعث ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں انسانی ذہن کو اپیل کرنے کی کچھ منطقی باتیں عرض کرنی ہے کہ قرآن حدیث سے بکثرت دلائل فراہم کئے جاچکے ہیں اور کئی فتوے بھی دونوں طرف سے دئے جاچکے ہیں۔یہاں پر ہمارا مقصد کچھ نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صرف غوروفکرکی دعوت دینا ہے اس معاملے میں بہرحال ہر ایک کو اپنی راہ کا انتخاب خود کرنا ہے۔
1۔ محبت ایک عظیم انسانی جذبہ ہے جس کو انسانی فطرت کی اندر ودیعت کر دیا گیا ہے۔ ایک طرف انسان کے اندر یہ جذبہ ڈالا گیا ہے تو دوسری طرف اس جذبے کی تسکین کے لئے مواقع بھی فراہم کئے گئے ہیں۔ انسانی محبت کی تسکین رب العالمین سے مکمل وابستگی اور فدا ہونے کے جذبے سے ہی ہوسکتی ہے۔ اللہ کی محبت اپنے آپ میں ایک اہم ترین موضوع ہے جس کی تفصیل کے لئے یہاں گنجائش نہیں۔ اس محبت کے باوجود البتہ انسانی فطرت کچھ اور بھی طلب کرتی ہے۔ رب العالمین کی ذات اگرچیکہ انسان کی محبت کا مرکز ہے اور ہونا ہی چاہیئے لیکن رب العالمین کی ذات اور انسانی فطرت میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ تمام عیبوں سے پاک، تمام کمزوریوں سے بالاتر اور کسی بھی مخلوق سے حد درجہ عظیم اور ارفع ہے، انسان اور اللہ کے بیج میں عظمت اور کبریائی کے پردے بہرحال حائل رہتے ہیں۔ جبکہ انسان میں ایک محبت کا مخصوص گوشہ اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ کوئی اور ہو جو اس کی محبت کا مرکز ہوجو زمین پر اسی کی طرح چلتا ہوجس طرح وہ چلتا ہے، جس کے بیوی اور بچے بھی ہوں، جو انسانوں کی طرح دکھی اور غمزدہ ہوتا ہواور وہ معبود کے بجائے عبودیت اور شہادت حق کا ایک کامل نمونہ ہو۔ اسی بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہمارے لئے ہدایت کا ذریعہ بھی ہیں تو دوسری طرف اپنے مخصوص معنوں میں محبت اور اطاعت کا مرکز بھی۔
2۔ انسانی فطرت اپنے معاملات میں توازن برقرار رکھنے کے لئے کسی نہ کسی بیرونی ہدایت کی محتاج رہتی ہے اور اسی غرض سے اللہ تعالی نے نبیوں کے سلسلے کو جاری فرمایا۔ اللہ اور رسول کی محبتوں میں خلط ملط انسانوں کا ہمیشہ سے ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔ سابقہ امت خصوصی طورپر اس کا شکار ہوئی۔ اس کا شکار ہوکر ایک بڑا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس انسانی فطرت کی تسکین کے لئے یہ محبت کا تحفہ انسانوں کو دیا گیا ہے انسان اسی تسکین سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ انسان نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ انہوں نے انسانیت تک اللہ کا پیغام پہونچانے کے لئے قربانیاں دی ہیں ،انہوں نے ہماری فکر میں کڑھ کڑھ کر اور ماتھا زمین پر رگڑ کر اللہ سے دعائیں کی، انہوں نے اس امت کے نمو، حفاظت اور تربیت کے لئے اخری درجے کی تکلیفیں برداشت کی ۔ حتی کہ اس دنیا سے جاتے ہوئے بھی اس امت کی فکر کے ساتھ رخصت ہوئے۔ لیکن جب اس محبت میں مبالغہ پیدا ہوجاتا ہے تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت ہی ختم ہوجاتی ہے، پھر اس میں الوہیت کی صفات پیدا کی جاتی جس کے نتیجے میں نہ ان کی قربانیاں کوئی معنی رکھتی ہے نہ انکی دعائیں، عبودیت اور آہ وزاری۔ یعنی جس بشریت کی وجہ سے ہماری محبتوں کا ایک خاص اور انتہائی اہم گوشہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہے ،عشق رسول کے نام پر اسی بشریت کی خاصیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کردیا جاتا ہے۔ پھر جب انسانی محبت کی تشنگی ختم نہیں ہوتی تو انسان اپنے لئے کئی اور مراکز محبت پیدا کرلیتا ہے۔ نتیجتاً اس کی تشنگی کی کوئی حد ہوتی ہے اور نہ اسکی محبت کے مراکز کی اور محبت ہے کہ پھربھی سیراب ہونے سے رہ جاتی ہے۔ یہ آج کا ایک حقیقی واقعہ ہے کہ میلاد النبی سے گاڑی چل کر میلاد مسیح تک پہونچی پھر اس سے آگے بڑھ کی خود اپنی میلاد تک پہونچ چکی ہے اور محبت کی یہ سرگردانی پتہ نہیں اور کون کونسی میلادوں تک ان کو پہونچائے گی۔خود اندازہ لگائے کہ یہ عشق رسول ہے یا خودپسندی۔
3۔ پہلے ہمارے ذہن میں یہ رہے کہ تہورا، عید یا festival کی انسانی عمرانیات(sociology) میں کیا حقیقت ہے۔ جہاں تک انسانی تاریخ کے بارے میں اب تک ہمیں معلوم ہوا ہے عید یا تہورا منانا انسانی اجتماعیت کا ایک اہم واقعہ ہے۔ عید منانا ایسی چیز ہے جس سے اس کے تہذیبی خدوخال واضح ہوتے ہیں۔ کسی پرانی معلوم تہذیب کا مطالعہ ان کے تہوارں کے مطالعے کے بغیر نامکمل رہ جائے گا۔ علاوہ ازیں یہ تہوار یا عید منانا نہ صرف تاریخ کی ایک اہم حقیقت ہے بلکہ یہ ایک انسانی اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لئے ایک اہم ضرورت بھی۔ یہ اگر نہ ہو تو حالات اور گردش زمانہ انسانی اجتماعیت کا شیرازہ بکھیر دیں۔
4۔ اسی انسانی فطرت کے مد نظر دنیا کے ہر مذہب نے مذہب کے اجتماعی پہلو کو ابھارنے کے لئے ان کو کچھ تہوار دئے ہیں کہ اس کے بغیر مذاہب کی طویل المدت بقاءتقریباً نا ممکن ہوجاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسلام میں بھی دو سالانہ اور ایک ہفتہ وار عید مشروع ہوئی۔ لیکن چونکہ اسلام ایک دائمی اور مکمل دین ہے اس لئے اسلام میں عید صرف "منائی" نہیں جاتی بلکہ یہ ایک عظیم اجتماعی عبادت ہے اور اس کو دوسری عبادتوں کے ساتھ اس طرح سے جوڑ دیا گیا ہے کہ عید ہمارے لئے ایک اہم عبادت اور امت کی عالمی اجتماعیت کا ایک عظیم مظہر بن جاتی ہے۔چنانچہ عید الفطر کو رمضان کے ساتھ جو کہ دراصل صبر اور تقویٰ کا مہینہ ہے کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح عید الاضحیٰ کو حج جیسے عظیم عبادت جس میں روحانی تقرب کے حصول کے ساتھ ساتھ جسمانی مشقت بھی بھرپور طریقے سے اٹھانی پڑتی ہے کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ مزید برآں یہ دونوں عبادات روزہ اور حج مسلمانوں کی عالمی شناخت کے مظاہر بھی ہیں۔
5۔ جب کوئی مذہبی تہوار منایا جاتا ہے تو یہ نہ صرف معاشرتی اقدار بلکہ مذہبی شناخت کی بھی علامت ہوتا ہے۔ کسی بھی مذہب کا مطالعہ اس کے تہواروں کے بغیرممکن ہی نہیں ہے۔ تہوار دین و مذہب کا بالکل بنیادی حصہ، اس کی شناخت اور علامت ہوتے ہیں۔ انفرادی اعتبارسے جس طرح عبادات اور طریقہء عبادت کسی مذہب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح تہوار اور عید معاشرتی طور پر اس مذہب کی شناخت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثواب کی نیت سے، دینی اہمیت کے پیش نظر، تقرب الی اللہ کے لئے یا کسی مذہبی واقعے یا شخصیت کی یادگار کی بنا پر کوئی دن منارہا ہو تو وہ بہرحال اس کی عید ہے بھلے وہ اس کے لئے کوئی اور نام تجویز کرے۔
6۔ انسانی فطرت چونکہ پابندی کو خوشی سے قبول نہیں کرتی اس لئے انسانوں کوکسی چیز کا پابند رکھناہمیشہ سے انسانی اجتماعیت کا ایک مشکل ترین کام رہا ہے اور اس کے لئے منظم اور مستقل عمل بلکہ جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا دین ایک مکمل اور دائمی دین ہے۔ اس دین کو اپنی اصلیت اور حدوں پر قائم رکھنے کے لئے حد درجہ چوکسی اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمارا دین تووہ ہے جو ایک طرف روزے کی حالت میں غروب افتاب سے ایک منٹ پہلے کھانے کی رعایت نہیں دیتا تو دوسری طرف غروب افتاب کے بعد میں ایک منٹ بھوکا رکھنے کا بھی روادار نہیں۔ اسی طرح نماز کے بعد امام کے لئے حکم ہے کہ جیسے ہی نماز ختم ہو قبلے کی طرف سے رخ پھیر دے۔ یہ سب حدبندیاں اس لئے کی گئی ہیں تا کہ یہ امت متعین طور پر سمجھ سکے کہ روزے سے ہونا کب مشروع ہے اور کب مشروع نہیں اور ایک شخص حالت نماز میں کب ہے اور کب وہ حالت نماز سے نکل چکا ہے۔ حدوں کی پابندی کا اس قدرلحاظ اس دین کے علاوہ بھلا کہیں اور بھی ہے؟ ذرا غور کیجئے جو دین اپنی سرحدوں کی حفاظت کے معاملے میں اس قدر حساس اور بے لچک واقع ہوا ہے وہ ایک پوری کی پوری عید کا اضافہ اتنی آسانی سے قبول کرسکتا ہے؟ اور اگر کر بھی لے تو کیا وہ دین وہی رہے گا یا کوئی اور دین بن جائے گا۔ یقیناً یہ دین قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے لیکن یہ ہر ایک کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ اس کا اپنا عمل اور استعداد دین کی حفاظت کرنے میں لگے یا دین کے حدود کی تعین میں الجھنیں پیدا کرنے میں۔
قارئین اب آپ ہی بتائیے کہ اس سب کے باوحود، اتنی حد بندیوں اور احتیاطوں کے باوجود اگر کوئی گروہ کچھ متأخرین علماءکی رائے پر عمل کرنے پر اسی طرح مصرہو تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔ ان بے چارے علماءکو کیا پتہ تھا کہ ان کی چھوٹی سی بے احتیاطی کا یہ انجام ہوگا؟حقیقت یہ ہے کہ میلاد النبی منانے کے سلسلے میں جتنے بھی دلائل دئے جاتے ہیں وہ اس طرح کے دلائل ہیں جن کو امت کی تاریخ میں کبھی دلیل سمجھا ہی نہیں گیا۔ یہ عید دلائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک شوق اور جذبے کی بنیاد پر شروع کی گئی ہے اور پھربقدر ضرورت دلائل بھی پیدا گئے۔ کیا حقیقت سمجھنے والوں کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ نہ نبی ، نہ صحابہ ، نہ تابعین اور نہ تبع تابعین کسی نے بھی مواقع کے باوجود اس چیز کو عشق رسول کا تقاضا نہیں جانا۔ کیا امت مسلمہ کا اصول نہیں ہے کہ پہلی تین نسلوں میں جو دین کی تشریح ہوچکی اس کی حیثیت معیاری ہے؟ تو اب کیا ان کے دلوں کے اندر عشق رسول کا پودا اتنا تناور ہو چکا ہے کہ صحابہ اور خلفاءراشدین رضی اللہ تعالی عنہم کی رسول سے محبت بھی مات کھانے لگی ہے۔ کیا امت کا اجتماعی ضمیر اس چیز کو سچ مچ عشق رسول سمجھ سکتا ہے۔ اچھی طرح یاد رکھیں کہ حد سے زیادہ گورا رنگ خوبصورتی نہیں بلکہ ایک بیماری ہے جسے برص کہتے ہیں۔
Comment