محترم ساتھیو:۔السلام علیکم:۔
اللہ عرش پر ہے مسلمانوں کے اس عقیدے میں تبدیلی تقریبا تین سو ہجری میں معرض وجود میں آئی ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے اور اس کے موجد جمھیہ،معتزلہ ، اور صوفیاء ہیں جن سے یہ عقیدہ عام مسلمان کے ذہن میں راسخ ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس بار اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے تاکہ یہ بات مسلمانوں پر واضح ہوجائےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمم اللہ ، آئمہ محدثین سلف صالحین سب اس عقیدے پر متفق ہیں کہ اللہ عرش پر استوا ہے اور اس عقیدے کو ہم قرآن حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے ثابت کریں گے ۔ توفیق باللہ
اللہ عرش پر ہے مسلمانوں کے اس عقیدے میں تبدیلی تقریبا تین سو ہجری میں معرض وجود میں آئی ہے کہ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے اور اس کے موجد جمھیہ،معتزلہ ، اور صوفیاء ہیں جن سے یہ عقیدہ عام مسلمان کے ذہن میں راسخ ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس بار اسی موضوع کا انتخاب کیا ہے تاکہ یہ بات مسلمانوں پر واضح ہوجائےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحمم اللہ ، آئمہ محدثین سلف صالحین سب اس عقیدے پر متفق ہیں کہ اللہ عرش پر استوا ہے اور اس عقیدے کو ہم قرآن حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین سے ثابت کریں گے ۔ توفیق باللہ
آیات قرآنی
{الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى}طه: 5
" الرحمن عرش پر استواء ہے"
اس کے علاوہ سورہ اعراف ،ھود ،سجدہ میں بھی اس بات کا تذکرہ موجود ہے۔
{الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى}طه: 5
" الرحمن عرش پر استواء ہے"
اس کے علاوہ سورہ اعراف ،ھود ،سجدہ میں بھی اس بات کا تذکرہ موجود ہے۔
احادیث النبوی صلی اللہ علیہ وسلم
إن الله تعالى كتب كتابا قبل أن يخلق الخلق : إن رحمتي سبقت غضبي فهو مكتوب عنده فوق العرش " . (صحیح بخاری کتاب التوحید باب بل ھو قرآن مجید فی لوح محفوظ رقم 7553)
مخلوق کے پیدا ہونے سے قبل اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے اور یہ اللہ کے پاس عرش کے اوپر موجود ہے ۔
فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ إِلَی السَّمَائِ وَيَنْکُبُهَا إِلَی النَّاسِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ(صحیح مسلم کتاب الحج باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جلد 2 رقم 147)
نبی اکرم ﷺنے اپنی انگلی آسمان کی جانب اٹھائی اور پھر اسے لوگوں کی جانب کیا اور فرمایا اے اللہ گواہ رہنا،اے اللہ گواہ رہنا اور تین بار یہی فرمایا۔
فَقَالَ لَهَا أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ(صحیح مسلم کتاب المساجد جلد 1 باب بَابُ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاۃ رقم537)
نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے اس عورت نے جواب دیا آسمان میں پھر اس سے پوچھا میں کون ہوں اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں نبی ﷺنے اس کے مالک سے کہا اس کو آزاد کر دو یہ مومنہ ہے ۔
عن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء"
نبی اکرمﷺ نے فرمایا :زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 925 ،سنن ابوداود جلد4 باب کتاب الادب باب فی الرحمہ رقم 4941)
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها، فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطاً عليها، حتى يرضى عنها".
رسول اللہ ﷺنے فرمایا جب مرد اپنی عورت کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ انکار کردے تو وہ اللہ جو آسمان کے اوپر ہے
غصہ میں رہتا ہے جب تک وہ اس عورت سے راضی نہ ہو جائے ۔( رواه مسلم3.کتاب النکاح جلد 2 باب تحریم امتناعھا من رقم1436
مخلوق کے پیدا ہونے سے قبل اللہ نے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے کہ میرے غضب پر میری رحمت غالب ہے اور یہ اللہ کے پاس عرش کے اوپر موجود ہے ۔
فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ إِلَی السَّمَائِ وَيَنْکُبُهَا إِلَی النَّاسِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ(صحیح مسلم کتاب الحج باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم جلد 2 رقم 147)
نبی اکرم ﷺنے اپنی انگلی آسمان کی جانب اٹھائی اور پھر اسے لوگوں کی جانب کیا اور فرمایا اے اللہ گواہ رہنا،اے اللہ گواہ رہنا اور تین بار یہی فرمایا۔
فَقَالَ لَهَا أَيْنَ اللَّهُ قَالَتْ فِي السَّمَائِ قَالَ مَنْ أَنَا قَالَتْ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ قَالَ أَعْتِقْهَا فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ(صحیح مسلم کتاب المساجد جلد 1 باب بَابُ تَحْرِيمِ الْكَلَامِ فِي الصَّلَاۃ رقم537)
نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے اس عورت نے جواب دیا آسمان میں پھر اس سے پوچھا میں کون ہوں اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں نبی ﷺنے اس کے مالک سے کہا اس کو آزاد کر دو یہ مومنہ ہے ۔
عن عبد الله بن عمرو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "ارحموا من في الأرض يرحمكم من في السماء"
نبی اکرمﷺ نے فرمایا :زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 925 ،سنن ابوداود جلد4 باب کتاب الادب باب فی الرحمہ رقم 4941)
عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشها، فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطاً عليها، حتى يرضى عنها".
رسول اللہ ﷺنے فرمایا جب مرد اپنی عورت کو اپنے بچھونے پر بلائے اور وہ انکار کردے تو وہ اللہ جو آسمان کے اوپر ہے
غصہ میں رہتا ہے جب تک وہ اس عورت سے راضی نہ ہو جائے ۔( رواه مسلم3.کتاب النکاح جلد 2 باب تحریم امتناعھا من رقم1436
اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
قول أبي بكر الصديق رضي الله عنه لما مات النبي صلى الله عليه وسلم: "من كان يعبد محمدًا فإنه قد مات، ومن كان يعبد الذي في السماء فإنه حي لا يموت".
جب نبی اکرمﷺ کا وصال ہوا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمایا جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا ہے وہ یہ جان لے کہ ان کا وصال ہو گیا ہے اور جو اس کی عبادت کرتا ہے جو آسمان میں ہے تو وہ جان لے کہ وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا۔
عبد الرحمن بن عوف رضي الله أنه لما أخذ البيعة لعثمان رضي الله عنه وبايعه الناس، رفع رأسه إلى سقف المسجد وقال: "اللهم اشهد".
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو انہوں نے اپنا سر مسجد کی چھت کی جانب اٹھایا اور فرمایا اے اللہ تو گواہ رہنا۔
وعن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: " والله فوق العرش، ولا يخفى عليه شيء من أعمالكم".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ عرش کے اوپر ہے اور اس سے تمہارا کوئی بھی عمل پوشیدہ نہیں ہے۔
عن ابن عباس: ، إن الله كان على عرشه(ابن عباس فرماتے ہیں اللہ اپنے عرش پر ہے۔)
ما رواه يونس عن الزهري عن ابن المسيب عن كعب الأحبارقال:"قال الله في التوراة: أنا الله فوق عبادي، وعرشي فوق خلقي، وأنا على عرشي،
کعب الاحبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تورات میں فرماتا ہے میں اپنے بندوں سے ارفع ہوں اور میرا عرش میری مخلوق سے اوپر ہے اور میں اپنے عرش پر ہوں۔
(نوٹ درج بالا تمام اقوال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امام ذہبی کی کتب العرش سے ماخذ ہیں)
" الْإِمَامُ أَحْمَد " قَالَ: أنا شريح بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ: سَمِعْت عَبْدَ اللَّهِ بْنَ نَافِعٍ الصَّائِغَ قَالَ: سَمِعْت مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ يَقُولُ: اللَّهُ فِي السَّمَاءِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ؛ لَا يَخْلُو مِنْ عِلْمِهِ مَكَانٌ۔
فتاوی ابن تیمیہ جلد 5 ص18 ) اللہ آسمان میں ہے اور اس کا علم ہر جگہ موجود ہے اور اس کے علم سے کوئی بھی جگہ خالی نہیں ہے۔
اقوال تابعین
عبد الله بن المبارك1 كيف نعرف ربنا؟ قال: في السماء السابعة على عرشه"(العرش للذہبی جلد 2 ص239اقوال تابعین)
عبداللہ بن مبارک سے کسی نے پوچھا ہمارا رب کہاں ہے آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے عرش پر ہے جو سات آسمانوں کے اوپر ہے
وقد رواه محمد بن جرير الطبري في تفسيره لهذه الآية عن مجاهد وغيره، وقال: "ليس في فرق المسلمين من ينكر هذا، لا من يقر أن الله فوق العرش ولا من ينكره"
تفسیر طبری نے مجاہد رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اس بات کا انکار نہیں کیا ہے کہ اللہ عرش پر ہے۔
(العرش للذہبی جلد2 ص285 باب اقوال تابعین)
عبداللہ بن مبارک سے کسی نے پوچھا ہمارا رب کہاں ہے آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے عرش پر ہے جو سات آسمانوں کے اوپر ہے
وقد رواه محمد بن جرير الطبري في تفسيره لهذه الآية عن مجاهد وغيره، وقال: "ليس في فرق المسلمين من ينكر هذا، لا من يقر أن الله فوق العرش ولا من ينكره"
تفسیر طبری نے مجاہد رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے کسی ایک نے بھی اس بات کا انکار نہیں کیا ہے کہ اللہ عرش پر ہے۔
(العرش للذہبی جلد2 ص285 باب اقوال تابعین)
اقوال آئمہ محدثین و مفسرین
ابُو إِسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيُّ فِي كِتَابِهِ " الْفَارُوقِ "، بِسَنَدِهِ إِلَى
أَبِي مُطِيعٍ الْبَلْخِيِّ: أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا حَنِيفَةَ عَمَّنْ قَالَ: لَا أَعْرِفُ رَبِّي فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ فَقَالَ: قَدْ كَفَرَ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه: 5] وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ، قُلْتُ: فَإِنْ قَالَ: إِنَّهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَا أَدْرِي آلْعَرْشُ فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: هُوَ كَافِرٌ، لِأَنَّهُ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ، فَمَنْ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ فَقَدْ كَفَرَ.
(شرح عقیدہ الطحاویہ باب اثبات العلو جلد 2 ص387)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال ہوا جو یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا اس نے کفر کیا کیونکہ اللہ فرماتا ہے " الرحمن علی العرش استوی" اور اس کا عرش سات آسمان کے اوپر ہے ، پھر پوچھا گیا کوئی یہ کہے کہ بے شک اللہ عرش پر ہے مگر نہیں معلوم عرش کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا وہ بھی کافر ہو گیا کیونکہ اس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اور جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اس نے کفر کیا۔
َسمعت القَاضِي الإِمَام تَاجُ الدِّينِ عَبْدُ الْخَالِقِ بْنُ علوان قَالَ سَمِعت الإِمَام أَبَا مُحَمَّد عبد الله أَحْمد الْمَقْدِسِي مؤلف الْمقنع رحم الله ثراه وَجعل الْجنَّة مثواه يَقُول بَلغنِي عَن أبي حنيفَة رَحمَه الله أَنه قَالَ من أنكر أَن الله عزوجل فِي السَّمَاء فقد كفر
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اس نے کفر کیا۔
(جلد 1 ص 136العلو للعلي الغفارمولف امام ذہبی رحمہ اللہ )
ہم نے امام ابو حنیفہ کا قول اس وجہ سے بھی نقل کیا ہے کہ امام صاحب کا اس بات پر پوری طرح اعتقاد تھا کہ اللہ عرش پر ہے اور آج ان کے پیروکاروں کو ان کے عقائد کا علم ہی نہیں
ہے ۔
قال الشَّافِعِي رحمه الله: ثم معنى قوله في الكتاب: (مَن فِى السمَآءِ) مَنْ فوق السماء على العرش، كما قال: (الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى) الآية، وكل ما علا فهو سماء والعرش أعلا السماوات، فهو على العرش سبحانه وتعالى كما أخبر بلا كيف(تفسیر الشافعی سورہ طھ5)
قرآن مجید میں جو موجود ہے (جوآسمان میں) اور آسمان سے اوپر عرش ہے جیسا اللہ نے فرمایا( رحمن عرش پر استوا ہے) اور ہر چیز کے اوپر آسمان ہے اور عرش آسمانوں سے اوپر ہے اور وہ (اللہ) بغیر کیفیت عرش پر ہے ۔
الإمام أحمد رحمه الله تعالى: "لا يوصف الله إلا بما وصف به نفسه أو وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم لا نتجاوز القرآن والسنة" وبناءاً على هذه القاعدة كان مذهب السلف في صفة الاستواء أنهم يثبتون استواء الله على عرشه استواءاً يليق بجلاله وعظمته، ويناسب كبريائه،.(امام ذہبی کتاب العرش مذہب السلف فی استواء ص188)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ نے جو وصف اپنا خود بیان کیا ہے یا جو نبی اکرمﷺ نے بیان کیا اور ہم قرآن اور سنت سے تجاوز نہیں کرتے اورصفت استوا کا قانون سلف سے منقول ہے کہ اللہ اپنے جلال عظمت اورشان کبریائی کے ساتھ عرش پر استوا ہے ۔
عَن عبد الرَّحْمَن بن مهْدي عَن مَالك أَن الله تَعَالَى مستو على عَرْشه الْمجِيد كَمَا أخبر وَأَن علمه فِي كل مَكَان وَلَا يخلوا شَيْء من علمه
امام مالک فرماتے ہیں: اللہ عرش پر مستوی ہے جیسا ہمیں (قرآن اورسنت ) سے معلوم ہوا اور اس کا علم ہر جگہ موجود ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔
جلد1 ص 108 باب استواہ جل شانہ العقيدة رواية أبي بكر الخلال
أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
وَقَالَ أَبُو عُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ أَيْضًا: أَجْمَعَ عُلَمَاءُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ الَّذِينَ حُمِلَ عَنْهُمْ التَّأْوِيلَ قَالُوا فِي تَأْوِيلِ قَوْلِهِ: {مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ} هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ
فتاوی امام ابن تیمیہ جلد 5 ص193
ابن عبدالبر فرماتے ہیں:علماء تابعین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس آیت پر اجماع ہے (جب تم تین سرگوشی کرتے ہو تو چوتھا وہ(اللہ )ہوتا ہے) کی تاویل یہی ہے کہ اللہ عرش پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
اَبِي عِيسَى التِّرْمِذِيِّ قَالَ: هُوَ عَلَى الْعَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابِهِ؛ وَعِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِي أَنَّهُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ تَفْسِيرِ قَوْلِهِ: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} فَقَالَ: تَفْسِيرُهُ كَمَا يُقْرَأُ هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ؛(ایضا ص 50)
امام ترمذی فرماتے ہیں: وہ(اللہ) عرش پر ہے جیسا یہ وصف اس کی کتاب میں موجود ہے اور اس کا علم قدرت اور اس کی بادشاہی ہے ہر جگہ موجود ہے۔اور ابو زرعہ فرماتے ہیں اس آیت کی تفسیر (رحمن عرش پر استوا ہے) کہ اللہ عرش پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
وَقَدْ كَانَ السَّلَفُ الْأَوَّلُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ لَا يَقُولُونَ بِنَفْيِ الْجِهَةِ وَلَا يَنْطِقُونَ بِذَلِكَ، بَلْ نَطَقُوا هُمْ وَالْكَافَّةُ بِإِثْبَاتِهَا لِلَّهِ تَعَالَى كَمَا نَطَقَ كِتَابُهُ وَأَخْبَرَتْ رُسُلُهُ. وَلَمْ يُنْكِرْ أَحَدٌ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِ أَنَّهُ اسْتَوَى عَلَى عَرْشِهِ حَقِيقَةً. تفسیر قرطبی سورہ اعراف آیت 54
امام قرطبی فرماتے ہیں: یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی جھت کی نفی نہیں کی ہے اورنہ اس پر کہتے تھے بلکہ وہ اس کے اثبات میں بیان کرتے تھے جیسا قرآن میں ہے اورسنت نے اس کی خبر دی ہے اور سلف اور صالحین میں سے کسی ایک نے بھی اس کا انکار نہیں کیا کہ اللہ حقییقی طور پر عرش پر ہے۔
اَبُو إِسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيُّ فِي كِتَابِهِ " الْفَارُوقِ "، بِسَنَدِهِ إِلَى
أَبِي مُطِيعٍ الْبَلْخِيِّ: أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا حَنِيفَةَ عَمَّنْ قَالَ: لَا أَعْرِفُ رَبِّي فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ فَقَالَ: قَدْ كَفَرَ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه: 5] وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ، قُلْتُ: فَإِنْ قَالَ: إِنَّهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَا أَدْرِي آلْعَرْشُ فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: هُوَ كَافِرٌ، لِأَنَّهُ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ، فَمَنْ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ فَقَدْ كَفَرَ
وَلَا يُلْتَفَتُ إِلَى مَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ مِمَّنْ يَنْتَسِبُ إِلَى مَذْهَبِ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَدِ انْتَسَبَ إِلَيْهِ طَوَائِفُ مُعْتَزِلَةٌ وَغَيْرُهُمْ، مُخَالِفُونَ لَهُ فِي كَثِيرٍ مِنَ اعْتِقَادَاتِهِ.(شرح عقیدہ الطحاویہ باب اثبات العلو جلد 2 ص387)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال ہوا جو یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا اس نے کفر کیا کیونکہ اللہ فرماتا ہے " الرحمن علی العرش استوی" اور اس کا عرش سات آسمان کے اوپر ہے ، پھر پوچھا گیا کوئی یہ کہے کہ بے شک اللہ عرش پر ہے مگر نہیں معلوم عرش کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا وہ بھی کافر ہو گیا کیونکہ اس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اور جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اس نے کفر کیا۔
اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی جس نے اس (عقیدہ) کا انکار کیا جو ابو حنیفہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور ان کی نسبت معتزلہ کی جانب کرتا ہوں اور وہ بہت سے عقائد میں امام ابو حنیفہ کے مخالف ہیں۔
الْأَوْزَاعِيِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْش فَقَالَ هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ(فتح الباری باب العرش علی الماء کتاب التوحید)
وإن مذهب السلف الصالح من الصحابة والتابعين وغيرهم من أهل العلم رضوان الله عليهم أجمعين أنهم يقولون: إن الله استوى على عرشه بلا تكييف ولا تمثيل ولا تحريف ولا تعطيل، فهو سبحانه مستو على عرشه استواء يليق بجلاله وعظمته، واستواؤه حقيقة لا مجاز كما يزعم الجهمية وأتباعهم الذين ينكرون العرش وأن يكون الله فوقه، وأما كيفية ذلك الاستواء فهي مجهولة لدينا والسؤال عن كيفية ذلك الاستواء بدعة، لأن الله سبحانه لم يطلعنا على كيفية ذاته فكيف يكون لنا أن نعرف كيفية استوائه، وهو سبحانه وتعالى يقول: {وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء} .(العرش للذہبی باب خصائص العرش جلد 1 ص325)
سلف صالحین میں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمم اللہ اورتمام اہل علم جو فرماتے ہیں : اللہ بلا کیفیت بلا تمثیل بلا تحریف اللہ عرش پر مستوی ہے اپنے جلال عظمت کے ساتھ اور وہ حقیقی طور پر مستوی ہے نہ کہ مجازی جیسا کہ جھمیہ اور ان کی پیروی کرنے والوں نے سمجھا ہے اور وہ اللہ کے عرش پر ہونے کا انکارکرتے ہیں اور اس استوا کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور اللہ نے ہم کو اس کیفیت کے بارے میں نہیں بتایا تو ہم کس طرح جان سکتے ہیں کیونکہ اللہ فرماتا ہے (اور کوئی اس کے علم سے کچھ نہیں جان سکتا مگر جتنا وہ چاہے)
میرے بھائیوں قرآن و سنت اور اجماع امت پر چلو کیونکہ وہی عمل قابل قبول ہو گا جو ان کے مطابق ہوگا اور عقیدہ بھی وہی نجات کا باعث ہوگا جو ان کے مطابق ہوگا اور یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین مفسرین محدثین سلف و صالحین کا اجماع ہے کہ اللہ عرش پر موجود ہے اور اگر ہمیں دنیا اور آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہونا ہے تو ان کے مطابق عقائد رکھنے ہیں اللہ ہمیں بدعقدہ لوگوں سے بچائے جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔آمین
أَبِي مُطِيعٍ الْبَلْخِيِّ: أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا حَنِيفَةَ عَمَّنْ قَالَ: لَا أَعْرِفُ رَبِّي فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ فَقَالَ: قَدْ كَفَرَ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه: 5] وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ، قُلْتُ: فَإِنْ قَالَ: إِنَّهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَا أَدْرِي آلْعَرْشُ فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: هُوَ كَافِرٌ، لِأَنَّهُ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ، فَمَنْ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ فَقَدْ كَفَرَ.
(شرح عقیدہ الطحاویہ باب اثبات العلو جلد 2 ص387)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال ہوا جو یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا اس نے کفر کیا کیونکہ اللہ فرماتا ہے " الرحمن علی العرش استوی" اور اس کا عرش سات آسمان کے اوپر ہے ، پھر پوچھا گیا کوئی یہ کہے کہ بے شک اللہ عرش پر ہے مگر نہیں معلوم عرش کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا وہ بھی کافر ہو گیا کیونکہ اس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اور جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اس نے کفر کیا۔
َسمعت القَاضِي الإِمَام تَاجُ الدِّينِ عَبْدُ الْخَالِقِ بْنُ علوان قَالَ سَمِعت الإِمَام أَبَا مُحَمَّد عبد الله أَحْمد الْمَقْدِسِي مؤلف الْمقنع رحم الله ثراه وَجعل الْجنَّة مثواه يَقُول بَلغنِي عَن أبي حنيفَة رَحمَه الله أَنه قَالَ من أنكر أَن الله عزوجل فِي السَّمَاء فقد كفر
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اس نے کفر کیا۔
(جلد 1 ص 136العلو للعلي الغفارمولف امام ذہبی رحمہ اللہ )
ہم نے امام ابو حنیفہ کا قول اس وجہ سے بھی نقل کیا ہے کہ امام صاحب کا اس بات پر پوری طرح اعتقاد تھا کہ اللہ عرش پر ہے اور آج ان کے پیروکاروں کو ان کے عقائد کا علم ہی نہیں
ہے ۔
قال الشَّافِعِي رحمه الله: ثم معنى قوله في الكتاب: (مَن فِى السمَآءِ) مَنْ فوق السماء على العرش، كما قال: (الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى) الآية، وكل ما علا فهو سماء والعرش أعلا السماوات، فهو على العرش سبحانه وتعالى كما أخبر بلا كيف(تفسیر الشافعی سورہ طھ5)
قرآن مجید میں جو موجود ہے (جوآسمان میں) اور آسمان سے اوپر عرش ہے جیسا اللہ نے فرمایا( رحمن عرش پر استوا ہے) اور ہر چیز کے اوپر آسمان ہے اور عرش آسمانوں سے اوپر ہے اور وہ (اللہ) بغیر کیفیت عرش پر ہے ۔
الإمام أحمد رحمه الله تعالى: "لا يوصف الله إلا بما وصف به نفسه أو وصفه به رسوله صلى الله عليه وسلم لا نتجاوز القرآن والسنة" وبناءاً على هذه القاعدة كان مذهب السلف في صفة الاستواء أنهم يثبتون استواء الله على عرشه استواءاً يليق بجلاله وعظمته، ويناسب كبريائه،.(امام ذہبی کتاب العرش مذہب السلف فی استواء ص188)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:اللہ نے جو وصف اپنا خود بیان کیا ہے یا جو نبی اکرمﷺ نے بیان کیا اور ہم قرآن اور سنت سے تجاوز نہیں کرتے اورصفت استوا کا قانون سلف سے منقول ہے کہ اللہ اپنے جلال عظمت اورشان کبریائی کے ساتھ عرش پر استوا ہے ۔
عَن عبد الرَّحْمَن بن مهْدي عَن مَالك أَن الله تَعَالَى مستو على عَرْشه الْمجِيد كَمَا أخبر وَأَن علمه فِي كل مَكَان وَلَا يخلوا شَيْء من علمه
امام مالک فرماتے ہیں: اللہ عرش پر مستوی ہے جیسا ہمیں (قرآن اورسنت ) سے معلوم ہوا اور اس کا علم ہر جگہ موجود ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔
جلد1 ص 108 باب استواہ جل شانہ العقيدة رواية أبي بكر الخلال
أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
وَقَالَ أَبُو عُمَرَ بْنُ عَبْدِ الْبَرِّ أَيْضًا: أَجْمَعَ عُلَمَاءُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ الَّذِينَ حُمِلَ عَنْهُمْ التَّأْوِيلَ قَالُوا فِي تَأْوِيلِ قَوْلِهِ: {مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ} هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ
فتاوی امام ابن تیمیہ جلد 5 ص193
ابن عبدالبر فرماتے ہیں:علماء تابعین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس آیت پر اجماع ہے (جب تم تین سرگوشی کرتے ہو تو چوتھا وہ(اللہ )ہوتا ہے) کی تاویل یہی ہے کہ اللہ عرش پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
اَبِي عِيسَى التِّرْمِذِيِّ قَالَ: هُوَ عَلَى الْعَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابِهِ؛ وَعِلْمُهُ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ. وَرُوِيَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ الرَّازِي أَنَّهُ لَمَّا سُئِلَ عَنْ تَفْسِيرِ قَوْلِهِ: {الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى} فَقَالَ: تَفْسِيرُهُ كَمَا يُقْرَأُ هُوَ عَلَى الْعَرْشِ وَعِلْمُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ؛(ایضا ص 50)
امام ترمذی فرماتے ہیں: وہ(اللہ) عرش پر ہے جیسا یہ وصف اس کی کتاب میں موجود ہے اور اس کا علم قدرت اور اس کی بادشاہی ہے ہر جگہ موجود ہے۔اور ابو زرعہ فرماتے ہیں اس آیت کی تفسیر (رحمن عرش پر استوا ہے) کہ اللہ عرش پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔
وَقَدْ كَانَ السَّلَفُ الْأَوَّلُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ لَا يَقُولُونَ بِنَفْيِ الْجِهَةِ وَلَا يَنْطِقُونَ بِذَلِكَ، بَلْ نَطَقُوا هُمْ وَالْكَافَّةُ بِإِثْبَاتِهَا لِلَّهِ تَعَالَى كَمَا نَطَقَ كِتَابُهُ وَأَخْبَرَتْ رُسُلُهُ. وَلَمْ يُنْكِرْ أَحَدٌ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِ أَنَّهُ اسْتَوَى عَلَى عَرْشِهِ حَقِيقَةً. تفسیر قرطبی سورہ اعراف آیت 54
امام قرطبی فرماتے ہیں: یقینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی جھت کی نفی نہیں کی ہے اورنہ اس پر کہتے تھے بلکہ وہ اس کے اثبات میں بیان کرتے تھے جیسا قرآن میں ہے اورسنت نے اس کی خبر دی ہے اور سلف اور صالحین میں سے کسی ایک نے بھی اس کا انکار نہیں کیا کہ اللہ حقییقی طور پر عرش پر ہے۔
اَبُو إِسْمَاعِيلَ الْأَنْصَارِيُّ فِي كِتَابِهِ " الْفَارُوقِ "، بِسَنَدِهِ إِلَى
أَبِي مُطِيعٍ الْبَلْخِيِّ: أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا حَنِيفَةَ عَمَّنْ قَالَ: لَا أَعْرِفُ رَبِّي فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ فَقَالَ: قَدْ كَفَرَ، لِأَنَّ اللَّهَ يَقُولُ: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى [طه: 5] وَعَرْشُهُ فَوْقَ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ، قُلْتُ: فَإِنْ قَالَ: إِنَّهُ عَلَى الْعَرْشِ، وَلَكِنْ يَقُولُ: لَا أَدْرِي آلْعَرْشُ فِي السَّمَاءِ أَمْ فِي الْأَرْضِ؟ قَالَ: هُوَ كَافِرٌ، لِأَنَّهُ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ، فَمَنْ أَنْكَرَ أَنَّهُ فِي السَّمَاءِ فَقَدْ كَفَرَ
وَلَا يُلْتَفَتُ إِلَى مَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ مِمَّنْ يَنْتَسِبُ إِلَى مَذْهَبِ أَبِي حَنِيفَةَ، فَقَدِ انْتَسَبَ إِلَيْهِ طَوَائِفُ مُعْتَزِلَةٌ وَغَيْرُهُمْ، مُخَالِفُونَ لَهُ فِي كَثِيرٍ مِنَ اعْتِقَادَاتِهِ.(شرح عقیدہ الطحاویہ باب اثبات العلو جلد 2 ص387)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سوال ہوا جو یہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا اس نے کفر کیا کیونکہ اللہ فرماتا ہے " الرحمن علی العرش استوی" اور اس کا عرش سات آسمان کے اوپر ہے ، پھر پوچھا گیا کوئی یہ کہے کہ بے شک اللہ عرش پر ہے مگر نہیں معلوم عرش کہاں ہے آسمان میں یا زمین میں ہے آپ نے کہا وہ بھی کافر ہو گیا کیونکہ اس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اور جس نے اللہ کے آسمان میں ہونے کا انکار کیا اس نے کفر کیا۔
اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی گئی جس نے اس (عقیدہ) کا انکار کیا جو ابو حنیفہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور ان کی نسبت معتزلہ کی جانب کرتا ہوں اور وہ بہت سے عقائد میں امام ابو حنیفہ کے مخالف ہیں۔
الْأَوْزَاعِيِّ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْش فَقَالَ هُوَ كَمَا وَصَفَ نَفْسَهُ(فتح الباری باب العرش علی الماء کتاب التوحید)
وإن مذهب السلف الصالح من الصحابة والتابعين وغيرهم من أهل العلم رضوان الله عليهم أجمعين أنهم يقولون: إن الله استوى على عرشه بلا تكييف ولا تمثيل ولا تحريف ولا تعطيل، فهو سبحانه مستو على عرشه استواء يليق بجلاله وعظمته، واستواؤه حقيقة لا مجاز كما يزعم الجهمية وأتباعهم الذين ينكرون العرش وأن يكون الله فوقه، وأما كيفية ذلك الاستواء فهي مجهولة لدينا والسؤال عن كيفية ذلك الاستواء بدعة، لأن الله سبحانه لم يطلعنا على كيفية ذاته فكيف يكون لنا أن نعرف كيفية استوائه، وهو سبحانه وتعالى يقول: {وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاء} .(العرش للذہبی باب خصائص العرش جلد 1 ص325)
سلف صالحین میں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمم اللہ اورتمام اہل علم جو فرماتے ہیں : اللہ بلا کیفیت بلا تمثیل بلا تحریف اللہ عرش پر مستوی ہے اپنے جلال عظمت کے ساتھ اور وہ حقیقی طور پر مستوی ہے نہ کہ مجازی جیسا کہ جھمیہ اور ان کی پیروی کرنے والوں نے سمجھا ہے اور وہ اللہ کے عرش پر ہونے کا انکارکرتے ہیں اور اس استوا کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے اور اللہ نے ہم کو اس کیفیت کے بارے میں نہیں بتایا تو ہم کس طرح جان سکتے ہیں کیونکہ اللہ فرماتا ہے (اور کوئی اس کے علم سے کچھ نہیں جان سکتا مگر جتنا وہ چاہے)
میرے بھائیوں قرآن و سنت اور اجماع امت پر چلو کیونکہ وہی عمل قابل قبول ہو گا جو ان کے مطابق ہوگا اور عقیدہ بھی وہی نجات کا باعث ہوگا جو ان کے مطابق ہوگا اور یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین مفسرین محدثین سلف و صالحین کا اجماع ہے کہ اللہ عرش پر موجود ہے اور اگر ہمیں دنیا اور آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہونا ہے تو ان کے مطابق عقائد رکھنے ہیں اللہ ہمیں بدعقدہ لوگوں سے بچائے جو خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔آمین
Comment