الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين
أما بعد فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمان الرحيم
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چند اعتراضات کے جوابات
اعتراض:عیدیں تو اسلام میں صرف دو ہی ہیں ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی، یہ تیسری عید یعنی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہاں سے آگئی؟
جواب: لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں، پھر مجازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے۔
آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں؟
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے، فرمایا کون سی آیت ؟
اس نے آیت ''الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ''[المائدۃ:03] پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔
(صحيح بخاري، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه)
آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔
ترمذی شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔(سنن الترمذي، کتاب تفسيرآن، باب ومن سورة المائدة)
یوں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں، 52جمعہ اور 1یوم عرفہ،تو ان 53عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عیدمنانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی
: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا،
اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے"۔[سورۃ البقرۃ:91]
معلوم ہوا کہ نزول نعمت کے دن عید اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے۔
اعتراض: اس دن عید الفطر والاضحی کی طرح نماز کیوں نہیں پڑھتے؟
جواب: ہم اسے شرعی عید نہیں سمجھتے بلکہ عرفی عید کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ خوشی کے موقع کو عرفِ عام میں عید سے تعبیر کرتے ہیں جیسے آپ نے ابھی سنا کہ دین کی تکمیل کے دن کو حضرت سیدنا عمر اور حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عید کہا، یونہی حضرت عیسی روح اللہ علیہ السلام نے نزول نعمت کے دن کو عید فرمایا۔ مزید یہ کہ جب اللہ کا فضل ورحمت حاصل ہو اس دن خوشی منانے کا حکم خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن عظیم میں دیا:
"قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون،
تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پہ چاہیے کہ خوشی کریں کہ وہ ان کے سب دَھن دولت سے بہتر ہے"[سورۃ یونس:58]
اللہ اکبر!رحمت خداوندی پر خوشی منانے کا حکم خودقرآن حکیم دے رہا ہے اور کیا کوئی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے؟ دیکھئے قرآن مقدس صاف صاف لفظوں میں اعلان کر رہا ہے:"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، یعنی ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"۔[سورۃ الانبیاء:107]
ان سب باتوں کے باوجود کیا پھر بھی ہم سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن عید نہ منائیں؟ آخر کیوں؟
اعتراض: یہ تو عیسائیوں کی نقل ہے، جیسے وہ کرسمس مناتے ہیں ویسے ہی آپ لوگ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، اور حدیث پاک میں ہے:"مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ"، جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہے۔(سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة)
جواب::پہلی بات یہ کہ عید میلاد کو کرسمس ڈے سے مشابہت دینا ہی درست نہیں کیونکہ مشابہت تو اس وقت ہوتی جبکہ ہم بھی کرسمس ڈے مناتے، دوم یہ کہ ہر مشابہت ناجائز بھی نہیں ہوا کرتی، آئیے یہاں میں آپ کو ایسی مثال پیش کرتا ہوں جس میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہودیوں کو ایک فعل کرتے دیکھا اور فرمایا کہ ہمیں زیادہ حق حاصل ہے کہ ہم یہ کام کریں تو ناصرف خود وہ کام کیا بلکہ اسے کرنے کا بھی حکم دیا:
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے پایا، تو فرمایا:"یہ روزہ کیسا؟"عرض کی:یہ بڑا عظیم دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو ان کے دشمن (فرعون)سے نجات دی، تو موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکرانہ روزہ رکھا(تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں)، ارشاد فرمایا: موسی ٰ علیہ السلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حق دار ہیں، تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم بھی دیا۔(
صحيح بخاري، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء)
اب کیا کہیں گے؟ کیا نبی کریم ﷺنے یہودیوں کی مشابہت اختیار کی (معاذ اللہ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں جس سے قرآن وحدیث میں منع نہ کیا گیا ہو، اب قرآن و حدیث میں کہیں آپ عید میلاد کی ممانعت دیکھا دیں تو ہم اسے فوراً ترک کر دیں گے۔
اعتراض:عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کی دلیل کیا ہے جبکہ مروَّجہ طریقہ کار کے مطابق یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور نہ ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے یہ ثابت ہے؟
جواب: عید میلاد النبیصلی اللہ علیہ وسلم منانا یقیناً ثواب ہےاور اس کے جواز کے لیےاتنا کافی ہے کہ قرآن و حدیث میں کہیں اس کام سے منع نہیں کیا گیا، اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جو چیز منع نہ کی گئی اور وہ قرآن وحدیث کے مخالف بھی نہ ہو تو وہ جائز ہوا کرتی ہے، اور یہ مسلّمہ قاعدہ ہے:"اَلأصلُ فِي الأشْيَاءِ إبَاحَة"،یعنی چیزوںمیں اصل اباحت ہے، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے، چنانچہ بزار نے حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی کتاب میں حلال فرمایا وہ حلال ہے اور جسے حرام فرمایا وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا تو وہ معاف ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی عافیت کو قبول کرو، بے شک اللہ عزوجل کی یہ شان نہیں کہ وہ کوئی چیز بھولے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:"وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا، یعنی تمہارا رب بھولنے والا نہیں" [مریم:64] (بزار نے کہا: اس کی اسناد صالح ہیں اور حاکم نے اس کی تصحیح فرمائی) (مسند البزار، مسند أبي الدرداء رضي الله تعالی عنه)
دار قطنی نے حضرت سیدنا ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض کو لازم کیا، تم لوگ ان کو ضائع نہ کرو اور کچھ حدود مقرر فرمائیں تو ان حدوں سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزیں حرام فرمائیں تو ان سے باز رہو اور کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت (یعنی خاموشی) فرمایا، تم پر رحمت کرتے ہوئے بغیر نسیان (یعنی بھولنے) کے، تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔
(سنن الدرقطني، کتاب الرضاع)
اعتراض: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا بدعت ہے، اورحدیث پاک میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے؟
جواب: بدعت دو طرح کی ہے، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:"جو کوئي اسلام ميں اچھا طريقه جاري کرے اسے اس کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گےاور ان کے ثواب میں سے کچھ کم نہ ہوگا ، یونہی جو کوئی اسلام میں برا طریقہ جاری کرے اسے اپنے عمل کا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
(صحيح مسلم ، كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ دین میں کوئی نیا اچھا کام شروع کرنا باعث ثواب جاریہ ہے، اور ایسا کام بدعت حسنہ کہلاتا ہے، اور اگر کوئی ایسا نیا کام جاری کیا جو قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو وہ برا ہے اور بدعت سیئہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ اس کا انکار کریں اور يه کہیں كه ہر بدعت بري ہے تو صرف اس بات کا جواب دے دیجئے کہ حضرت سيدنا عمر رضی اللہ تعاليٰ عنہ نے باجماعت تراویح کے بارے میں فرمایا: نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ، یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔(صحيح بخاري، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان)
کیا باجماعت تراویح (جسے حضرت سيدنا عمر رضي الله تعاليٰ عنہ بدعت فرما رہے ہیں)گمراہی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے؟
اعتراض: صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں منائی؟ کیا آپ ان سے زیادہ عاشق رسول ہیں؟ یا کیا یہ آیات و اَحادیث انہیں معلوم نہ تھیں؟
جواب:اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ اولاً: توقرآن و حدیث میں کسی کام کے حرام یا ناجائز ہونے کی یہ دلیل بیان نہیں کی گئی کہ اگر وہ کام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہیں کیا تو وہ ناجائز ہے۔ ثانیاً: آپ کا یہ اعتراض تو خود صحابہ کرام و سلف صالحین پر وارد ہو تا ہے، کیوں کچھ کام وہ ہیں جو نبی کریم ﷺنے تو نہیں کیے مگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے وہ کام کیے، یوں آپ کے اُصول کے مطابق ان پر یہ اعتراض ہو گا کہ کیا اس کام کی اہمیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکو معلوم نہ تھی، کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ان سے زیادہ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے تھے؟ ایسے بہت سے افعال ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ترک فرمایا لیکن صحابہ کرام علیہم الرضوان نے وہ کام سسرانجام دیئے، اس کی مشہور ترین مثال صحابہ کرام علیہم الرضوان کا قرآن پاک کو ایک مُصحَف میں جمع کرنا ہے، کیا صحابہ کرام پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا؟ اور کیا وہ اس کام کی اہمیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جانتے تھے؟ ہرگز نہیں، تو اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،یا صحابہ کرام علیہم الرضوان کا کسی کام کو نہ کرنا اس کام کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں۔
اعتراض:12 ربيع الاول تو نبي كريم صلی اللہ علیہ وسلمكي وفات كا دن هے تو اس دن عید منانا کیسا؟
جواب:اول تو یہ کہ 12 ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات ہونے کے بارے میں جملہ روایات ضعیف ہیں اور پھر علم تقویم کی رو سے بھی 12 ربیع الاول کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ممکن نہیں،کیونکہ اَحادیث صحیحہ سے دو باتیں ثابت ہیں:
1: 10هجري میں حجۃ الوَداع میں یوم عرفہ یعنی 9ذوالحجہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
2: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلمکا وصال سوموار کے روز ماہ ربیع الاول میں ہوا۔
اب 9ذوالحجہ10هجري اور ماہ ربیع الاول کے درمیان محرم اور صفر دو ہی مہینے آتے ہیں، لہذا ذوالحجہ، محرم اور صفر تینوں مہینوں کو جس طرح بھی شمار کریں، یعنی چاہیں تو تینوں ماہ تیس دن کے، دو ماہ تیس دن کے، ایک ماہ اُنتیس دن کاایک ماہ تیس دن کا ، دو ماہ انتیس کےیا پھر تینوں ماہ انتیس دن کے، کسی بھی صورت میں 12ربیع الاول سوموار کے دن نہیں بن سکتی۔ بلکہ 12ربیع الاول 11ہجری میں بالترتیب اتوار، ہفتہ، جمعہ یا جمعرات میں سے کسی ایک دن بنے گی، لہذا شارح بخاری حافظ ابن حَجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 12ربیع الاول يوم وفات والي روايت كو عقل و نقل کے خلاف قرار دیا ہےاور 2ربیع الاول والی روایت کو ترجیح دی ہے۔
جب 12ربیع الاول کے دن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت نہیں تو اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ 12ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کا یوم وصال ہے تو بھی اس دن عید میلاد منانے میں کوئی امر مانع نہیں،کیونکہ حدیث پاک میں ہے : "ہمیں شوہر کے سوا کسی وفات پانے والے پر تین دن کے بعد سوگ (غم)منانے سے منع کیا گیا"۔(صحيح البخاري، کتاب الحيض، باب الطيب للمرأة عند غسلها من المحيض)
اس حديث پاک سے ثابت ہوا کہ وفات کے بعد سوگ منانا شرعاً صرف تین دن تک جائز ہے، لہذا ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے دن سوگ منانا شرعاً ناجائز ہے جبکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے دن خوشی منانے کی شرعاً کوئی حد نہیں، ہر سال جائز ہے۔
مزيد يه كه حدیث پاک میں جمعہ کی فضیلت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بیان ہوا کہ اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن آپ کی وفات ہوئی،(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب في فضل الجمعة) ليكن شريعت ميں جمعہ کے دن سوگ منانے کا حکم نہیں بلکہ جمعہ کو يوم عید قرار ديا گیا، جیسا حدیث نبوی میں ہے:"إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، یعنی بے شک یہ جمعہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے یوم عید بنایاہے"۔(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب ما جاء في الزينة يوم الجمعة)
اب بتائیے کہ جس دن آدم علیہ السلام فوت ہوئے کیا اس دن کو عید کہنا درست ہے؟ اور اس دن خوشی منانی چاہیےیا غم کرنا چاہیے؟ اور کیا بیوہ کے علاوہ کسی کو تین دن سے زیادہ سوگ جائز ہے ؟
مزید یہ کہ اَنبیاء کرام علیہم السلام ہم جیسے نہیں بلکہ ان کا تووصال بھی امت کے لیے باعث رحمت ہوتا ہےجیسا کہ اَحادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل جس امت پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے نبی کو ان کی ہلاکت سے پہلے وصال عطا فرماتا ہے اور اسے امت کے لیے شفیع بناتا ہے، اور جب کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہےتو انہیں ان کے نبی کے سامنے عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی آنکھوں کو ان کی ہلاکت کے سبب قرار بخشتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اس کا کہنا نہ مانا"۔(صحيح مسلم، کتاب الفضائل، باب إذا أراد الله رحمة أمة۔۔۔)
ایک دوسری حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری ظاہری حیات تمہارے لیے سراپا خیر ہے تمہیں کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے حکم آجاتا ہے اور میرا وصال بھی تمہارے لیے سراپا خیر ہے (کیونکہ)تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جاتے رہیں گے، جب اچھے کام دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا اور جب بُرے اعمال دیکھوں گا تو تمہارے لیے اللہ سے مغفرت وبخشش مانگوں گا"۔
(مسند البزّار، مسند عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنه)
تو اگر 12 ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال مان بھی لیں تب بھی اس دن خوشی ماننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و ظاہری وفات دونوں ہمارے لیےباعث خیر فرمایا گیا۔
هذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب وما علينا إلا البلاغ
لا تنسوا في صالح دعائكم
أما بعد فأعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمان الرحيم
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چند اعتراضات کے جوابات
اعتراض:عیدیں تو اسلام میں صرف دو ہی ہیں ایک عید الفطر اور دوسری عید الاضحی، یہ تیسری عید یعنی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہاں سے آگئی؟
جواب: لغت میں عید ایسی چیز کو کہتے ہیں جو بار بار لوٹ کر آئے، اور کیونکہ یہ دونوں مذہبی تہوار ہر سال آتے ہیں اس لیے ان کو عید کہتے ہیں، پھر مجازاً اسے خوشی کے موقع کے لیے بھی استعمال کرنے لگے۔
آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ کیا خوشی کے ان دو اَیام کے علاوہ کسی دوسرے دن کو عید کہنا جائز ہے یا نہیں؟
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو ضرور عید مناتے، فرمایا کون سی آیت ؟
اس نے آیت ''الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ''[المائدۃ:03] پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقامِ نُزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا۔
(صحيح بخاري، کتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه)
آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔
ترمذی شریف میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ۲ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔(سنن الترمذي، کتاب تفسيرآن، باب ومن سورة المائدة)
یوں عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ سال میں 53 عیدیں ہوئیں، 52جمعہ اور 1یوم عرفہ،تو ان 53عیدوں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جس دن نعمت حاصل ہو اس دن عیدمنانا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے، قرآن حکیم میں ہے : حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عرض کی
: اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا،
اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے (کھانوں کا) ایک دستر خوان نازل کر جو ہمارے پہلے اور پچھلے (سب کیلئے) عید بن جائے"۔[سورۃ البقرۃ:91]
معلوم ہوا کہ نزول نعمت کے دن عید اور جشن منانے کی اصل قرآن مجید میں موجود ہے، اسی قرآنی اُصول کے تحت اللہ کریم کی سب سے بڑی نعمت اور رحمت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن عید منانا شرعاً جائز و مستحسن ہے۔
اعتراض: اس دن عید الفطر والاضحی کی طرح نماز کیوں نہیں پڑھتے؟
جواب: ہم اسے شرعی عید نہیں سمجھتے بلکہ عرفی عید کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ خوشی کے موقع کو عرفِ عام میں عید سے تعبیر کرتے ہیں جیسے آپ نے ابھی سنا کہ دین کی تکمیل کے دن کو حضرت سیدنا عمر اور حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عید کہا، یونہی حضرت عیسی روح اللہ علیہ السلام نے نزول نعمت کے دن کو عید فرمایا۔ مزید یہ کہ جب اللہ کا فضل ورحمت حاصل ہو اس دن خوشی منانے کا حکم خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن عظیم میں دیا:
"قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُون،
تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پہ چاہیے کہ خوشی کریں کہ وہ ان کے سب دَھن دولت سے بہتر ہے"[سورۃ یونس:58]
اللہ اکبر!رحمت خداوندی پر خوشی منانے کا حکم خودقرآن حکیم دے رہا ہے اور کیا کوئی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بڑھ کر بھی کوئی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے؟ دیکھئے قرآن مقدس صاف صاف لفظوں میں اعلان کر رہا ہے:"وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، یعنی ہم نے آپ کو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجا"۔[سورۃ الانبیاء:107]
ان سب باتوں کے باوجود کیا پھر بھی ہم سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن عید نہ منائیں؟ آخر کیوں؟
اعتراض: یہ تو عیسائیوں کی نقل ہے، جیسے وہ کرسمس مناتے ہیں ویسے ہی آپ لوگ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، اور حدیث پاک میں ہے:"مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ"، جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہیں میں سے ہے۔(سنن أبي داود، کتاب اللباس، باب في لبس الشهرة)
جواب::پہلی بات یہ کہ عید میلاد کو کرسمس ڈے سے مشابہت دینا ہی درست نہیں کیونکہ مشابہت تو اس وقت ہوتی جبکہ ہم بھی کرسمس ڈے مناتے، دوم یہ کہ ہر مشابہت ناجائز بھی نہیں ہوا کرتی، آئیے یہاں میں آپ کو ایسی مثال پیش کرتا ہوں جس میں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہودیوں کو ایک فعل کرتے دیکھا اور فرمایا کہ ہمیں زیادہ حق حاصل ہے کہ ہم یہ کام کریں تو ناصرف خود وہ کام کیا بلکہ اسے کرنے کا بھی حکم دیا:
حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے پایا، تو فرمایا:"یہ روزہ کیسا؟"عرض کی:یہ بڑا عظیم دن ہے، اس دن اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو ان کے دشمن (فرعون)سے نجات دی، تو موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکرانہ روزہ رکھا(تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں)، ارشاد فرمایا: موسی ٰ علیہ السلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حق دار ہیں، تو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم بھی دیا۔(
صحيح بخاري، کتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء)
اب کیا کہیں گے؟ کیا نبی کریم ﷺنے یہودیوں کی مشابہت اختیار کی (معاذ اللہ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسا کام کرنے میں کوئی حرج نہیں جس سے قرآن وحدیث میں منع نہ کیا گیا ہو، اب قرآن و حدیث میں کہیں آپ عید میلاد کی ممانعت دیکھا دیں تو ہم اسے فوراً ترک کر دیں گے۔
اعتراض:عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے کی دلیل کیا ہے جبکہ مروَّجہ طریقہ کار کے مطابق یہ کام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور نہ ہی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے یہ ثابت ہے؟
جواب: عید میلاد النبیصلی اللہ علیہ وسلم منانا یقیناً ثواب ہےاور اس کے جواز کے لیےاتنا کافی ہے کہ قرآن و حدیث میں کہیں اس کام سے منع نہیں کیا گیا، اور احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ جو چیز منع نہ کی گئی اور وہ قرآن وحدیث کے مخالف بھی نہ ہو تو وہ جائز ہوا کرتی ہے، اور یہ مسلّمہ قاعدہ ہے:"اَلأصلُ فِي الأشْيَاءِ إبَاحَة"،یعنی چیزوںمیں اصل اباحت ہے، جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے، چنانچہ بزار نے حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے جسے اپنی کتاب میں حلال فرمایا وہ حلال ہے اور جسے حرام فرمایا وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں سکوت فرمایا تو وہ معاف ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی عافیت کو قبول کرو، بے شک اللہ عزوجل کی یہ شان نہیں کہ وہ کوئی چیز بھولے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:"وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا، یعنی تمہارا رب بھولنے والا نہیں" [مریم:64] (بزار نے کہا: اس کی اسناد صالح ہیں اور حاکم نے اس کی تصحیح فرمائی) (مسند البزار، مسند أبي الدرداء رضي الله تعالی عنه)
دار قطنی نے حضرت سیدنا ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ رسول کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض کو لازم کیا، تم لوگ ان کو ضائع نہ کرو اور کچھ حدود مقرر فرمائیں تو ان حدوں سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزیں حرام فرمائیں تو ان سے باز رہو اور کچھ چیزوں کے بارے میں سکوت (یعنی خاموشی) فرمایا، تم پر رحمت کرتے ہوئے بغیر نسیان (یعنی بھولنے) کے، تو ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔
(سنن الدرقطني، کتاب الرضاع)
اعتراض: عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانا بدعت ہے، اورحدیث پاک میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے؟
جواب: بدعت دو طرح کی ہے، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:"جو کوئي اسلام ميں اچھا طريقه جاري کرے اسے اس کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گےاور ان کے ثواب میں سے کچھ کم نہ ہوگا ، یونہی جو کوئی اسلام میں برا طریقہ جاری کرے اسے اپنے عمل کا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
(صحيح مسلم ، كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ دین میں کوئی نیا اچھا کام شروع کرنا باعث ثواب جاریہ ہے، اور ایسا کام بدعت حسنہ کہلاتا ہے، اور اگر کوئی ایسا نیا کام جاری کیا جو قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو وہ برا ہے اور بدعت سیئہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ اس کا انکار کریں اور يه کہیں كه ہر بدعت بري ہے تو صرف اس بات کا جواب دے دیجئے کہ حضرت سيدنا عمر رضی اللہ تعاليٰ عنہ نے باجماعت تراویح کے بارے میں فرمایا: نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ، یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔(صحيح بخاري، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان)
کیا باجماعت تراویح (جسے حضرت سيدنا عمر رضي الله تعاليٰ عنہ بدعت فرما رہے ہیں)گمراہی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے؟
اعتراض: صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں منائی؟ کیا آپ ان سے زیادہ عاشق رسول ہیں؟ یا کیا یہ آیات و اَحادیث انہیں معلوم نہ تھیں؟
جواب:اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ اولاً: توقرآن و حدیث میں کسی کام کے حرام یا ناجائز ہونے کی یہ دلیل بیان نہیں کی گئی کہ اگر وہ کام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نہیں کیا تو وہ ناجائز ہے۔ ثانیاً: آپ کا یہ اعتراض تو خود صحابہ کرام و سلف صالحین پر وارد ہو تا ہے، کیوں کچھ کام وہ ہیں جو نبی کریم ﷺنے تو نہیں کیے مگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے وہ کام کیے، یوں آپ کے اُصول کے مطابق ان پر یہ اعتراض ہو گا کہ کیا اس کام کی اہمیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکو معلوم نہ تھی، کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ان سے زیادہ نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے تھے؟ ایسے بہت سے افعال ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ترک فرمایا لیکن صحابہ کرام علیہم الرضوان نے وہ کام سسرانجام دیئے، اس کی مشہور ترین مثال صحابہ کرام علیہم الرضوان کا قرآن پاک کو ایک مُصحَف میں جمع کرنا ہے، کیا صحابہ کرام پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا؟ اور کیا وہ اس کام کی اہمیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جانتے تھے؟ ہرگز نہیں، تو اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،یا صحابہ کرام علیہم الرضوان کا کسی کام کو نہ کرنا اس کام کے ناجائز ہونے کی دلیل نہیں۔
اعتراض:12 ربيع الاول تو نبي كريم صلی اللہ علیہ وسلمكي وفات كا دن هے تو اس دن عید منانا کیسا؟
جواب:اول تو یہ کہ 12 ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات ہونے کے بارے میں جملہ روایات ضعیف ہیں اور پھر علم تقویم کی رو سے بھی 12 ربیع الاول کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وفات ممکن نہیں،کیونکہ اَحادیث صحیحہ سے دو باتیں ثابت ہیں:
1: 10هجري میں حجۃ الوَداع میں یوم عرفہ یعنی 9ذوالحجہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
2: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلمکا وصال سوموار کے روز ماہ ربیع الاول میں ہوا۔
اب 9ذوالحجہ10هجري اور ماہ ربیع الاول کے درمیان محرم اور صفر دو ہی مہینے آتے ہیں، لہذا ذوالحجہ، محرم اور صفر تینوں مہینوں کو جس طرح بھی شمار کریں، یعنی چاہیں تو تینوں ماہ تیس دن کے، دو ماہ تیس دن کے، ایک ماہ اُنتیس دن کاایک ماہ تیس دن کا ، دو ماہ انتیس کےیا پھر تینوں ماہ انتیس دن کے، کسی بھی صورت میں 12ربیع الاول سوموار کے دن نہیں بن سکتی۔ بلکہ 12ربیع الاول 11ہجری میں بالترتیب اتوار، ہفتہ، جمعہ یا جمعرات میں سے کسی ایک دن بنے گی، لہذا شارح بخاری حافظ ابن حَجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 12ربیع الاول يوم وفات والي روايت كو عقل و نقل کے خلاف قرار دیا ہےاور 2ربیع الاول والی روایت کو ترجیح دی ہے۔
جب 12ربیع الاول کے دن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ثابت نہیں تو اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ 12ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کا یوم وصال ہے تو بھی اس دن عید میلاد منانے میں کوئی امر مانع نہیں،کیونکہ حدیث پاک میں ہے : "ہمیں شوہر کے سوا کسی وفات پانے والے پر تین دن کے بعد سوگ (غم)منانے سے منع کیا گیا"۔(صحيح البخاري، کتاب الحيض، باب الطيب للمرأة عند غسلها من المحيض)
اس حديث پاک سے ثابت ہوا کہ وفات کے بعد سوگ منانا شرعاً صرف تین دن تک جائز ہے، لہذا ہر سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے دن سوگ منانا شرعاً ناجائز ہے جبکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے دن خوشی منانے کی شرعاً کوئی حد نہیں، ہر سال جائز ہے۔
مزيد يه كه حدیث پاک میں جمعہ کی فضیلت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بیان ہوا کہ اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن آپ کی وفات ہوئی،(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب في فضل الجمعة) ليكن شريعت ميں جمعہ کے دن سوگ منانے کا حکم نہیں بلکہ جمعہ کو يوم عید قرار ديا گیا، جیسا حدیث نبوی میں ہے:"إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، یعنی بے شک یہ جمعہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے یوم عید بنایاہے"۔(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب ما جاء في الزينة يوم الجمعة)
اب بتائیے کہ جس دن آدم علیہ السلام فوت ہوئے کیا اس دن کو عید کہنا درست ہے؟ اور اس دن خوشی منانی چاہیےیا غم کرنا چاہیے؟ اور کیا بیوہ کے علاوہ کسی کو تین دن سے زیادہ سوگ جائز ہے ؟
مزید یہ کہ اَنبیاء کرام علیہم السلام ہم جیسے نہیں بلکہ ان کا تووصال بھی امت کے لیے باعث رحمت ہوتا ہےجیسا کہ اَحادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ عزوجل جس امت پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے نبی کو ان کی ہلاکت سے پہلے وصال عطا فرماتا ہے اور اسے امت کے لیے شفیع بناتا ہے، اور جب کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہےتو انہیں ان کے نبی کے سامنے عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی آنکھوں کو ان کی ہلاکت کے سبب قرار بخشتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اس کا کہنا نہ مانا"۔(صحيح مسلم، کتاب الفضائل، باب إذا أراد الله رحمة أمة۔۔۔)
ایک دوسری حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری ظاہری حیات تمہارے لیے سراپا خیر ہے تمہیں کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے حکم آجاتا ہے اور میرا وصال بھی تمہارے لیے سراپا خیر ہے (کیونکہ)تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جاتے رہیں گے، جب اچھے کام دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا اور جب بُرے اعمال دیکھوں گا تو تمہارے لیے اللہ سے مغفرت وبخشش مانگوں گا"۔
(مسند البزّار، مسند عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنه)
تو اگر 12 ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم وصال مان بھی لیں تب بھی اس دن خوشی ماننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حدیث پاک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات و ظاہری وفات دونوں ہمارے لیےباعث خیر فرمایا گیا۔
هذا ما ظهر لي والله أعلم بالصواب وما علينا إلا البلاغ
لا تنسوا في صالح دعائكم
اسلام علیکم !
اعتراض : جشن ولادت*کے نام پر جو ٹؤپی ڈرامے ھماری عوام کرتی ھے اُن کے بارے میں* علماء لب کشائ کیوں*نھیں* کرتے۔۔۔۔۔کھیں*اُن کی روزی روٹی بند ھونے کا حطرہ تو نھیں؟
ازالہ اعتراض : عوام یعنی عامۃ الناس کوعرف میں عوام کالانعام کہا جاتا ہے اور وجہ اسکی یہی ہوتی ہے کہ عوام میں سے ہر ہر عامی کا علم سےبھی مس ہو یہ ضروری نہیں لہذا یہی وجہ ہے کہ عوام کالانعام کے عمل کو کبھی بھی بطور دلیل میدن استدلا ل میں پیش نہیں کیا جاتا۔ جہاں تک بات ہے علمائے کرام کی تو وہ سہ طرفہ پہلو سے ان مسائل پر کلام کرتے رہتے ہیں یعنی عوام کی اصلاح پرائیویٹلی بھی اور تقریرا بھی اور تحریرا بھی لہذا علمائے کرام پر آپکا یہ اعتراض کے وہ خرافات پر تنبیہ نہیں فرماتے بے جا ہے ۔
یاد رہے کہ اللہ پاک نے تمام افراد کو مطلقا ایک سی ذہنیت عطا نہیں فرمائی بلکہ لوگوں کی عقول میں تفاوت رکھا ہے یہی وجہ ہے بعض مرتبہ انفرادی طور پر کسی بھی نفس کی اصلاح قریبا ناممکن ہوجاتی ہے چہ جائیکہ جمہور کی شکل میں عوام کالانعام کسی ایک جگہ ایک مسئلہ پر جمع ہوں اور ان سب کو ایک ہی طریق سے گائڈ کیا جاسکے لہذا قصہ مختصر یہ کہ اگر عوام میں بعض خرافات در آتی ہیں تو انکا آنا بدیہی ہے لہذا علماء اور دیگر جاننے والوں کا حال یہی ہونا چاہیے کہ انکی ہر وقت اصلاح کرتے رہیں نہ کے انکے عمل کو دیکھ کر نفس مسئلہ ہی سے راہ فرار اختیار کرلیں ۔
ازالہ اعتراض :نفس ولادت پر مومن کو خوشی کا ہونا الحمدللہ اس کے آپ بھی قائل ہیں نیز اسکے بھی کہ نفس خوشی کے اظہار کے الگ الگ طریق ہوسکتے ہیں جہاں تک بات ہے عید میلاد النبی پر جلوس وغیرہ نکالنے کی تو نفس جلوس کی اصل تو سیرت سے ثابت ہے جیسا کہ ہجرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ اور اسپر اہل مدینہ کا عمل سو نفس جلوس پر تو اصلا اعتراض مردود ٹھرا جبکہ آجکل جو مروجہ طریقہ کار ہے اس میں اگرچہ کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے مگر ان اصلاحات کی ضرورت کی پیش نظر اسکی افادیت کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسےیکلخت مردود ٹھرایا جاسکتا ہے ۔
اور جہاں تک بات ہے کسی بھی عمل کی مشروعیت کا بایں معنی لینا کہ اس عمل کا تشبہ بالفعل اور بعینہ زمانہ نبوی میں پایا جائے تو یہ بات بذات خود بداہتا اور اصولا مردود ہے کیونکہ شرعیت میں کسی بھی عمل کی مشروعیت براہ راست اس عمل کی ہئیت یا ترکیب پر منحصر نہیں ہوتی بلکہ شریعت میں کسی بھی عمل کی مشروعیت کا انحصار ہے براہ راست قرآن و سنت کے عموم پر اور پھر اسکے بعد ادلہ اربعہ کے خصوص پر ہوتا ہے ۔
اعتراض : اگر اسدن عید ھے تو روزہ کیسا اگر روزہ ھے تو عید نھیں،۔،۔،۔،
ازالہ اعتراض : میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کو عید لغوی اور عرفی اعتبار سے کہا جاتا شرعی یا اصطلاحی اعتبار سے نہیں شرعی اور اصطلاحی اعتبار سے فقط دو ہی عیدیں ہیں ایک یوم الفطر اور دوسرا یوم الضحٰی اور انکو عیدین کہنے کی ایک بڑی وجہ انکا سالہا سال سے بار بار لوٹ کے آنا بھی ہے جبکہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن بھی چونکہ بار بار لوٹ کے آتا ہے تو عرفا اسے بھی عید سے تعبیر کر دیا جاتا ہے جبکہ اس سے مراد عیداصطلاحی نہیں بلکہ لغوی ہوتی ہے ۔ کیونکہ عید کو عید کہنے کی ایک بڑی وجہ خوشی منانا بھی ہوتا ہے سویہ وہ دن تھا کہ جس دن مومنوں کو سب سے بڑی خوشی ملی سو اسے بھی عید کہہ دیا جاتا ہے پھر بھی اگر کسی کو لفظ عید بر الگے تو وہ اسکی جگہ دوسری کوئی اصطلاح استعمال کرلے کیونکہ
لا مشاحۃ فی الاصطلاح ۔۔۔۔
اعتراض : حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر ،۔میلاد منانے کا طریقہ سمھجا دیا ھے ھمیں بھی یہ ھی طریقہ اپنانا چاھے ۔
ازالہ اعتراض : بلاشبہ بی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ کار بتلایا وہی افضل مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس طریقہ کار کے بطور ہی میلاد منانے کی تحدید نہیں فرمائی بلکہ طریقہ کار کے دائرہ کار کو وسیع رکھتے ہوئے اسے باب اباحت میں رکھا سو آج بطور تعظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو بھی احسن طریقہ کار اپنایا جائے گا وہ یقینا باعث برکت و خیر ہوگا ۔
اعتراض : میرے خیال میں جلوس اہلحدیث اور جشن دیوبند والے اس کو عبادت سمجھ کر نہیں مناتے بلکہ اپنے اکابرین کو خراج تحسین پہنچانے کے لیئے اس طرح کے پروگرام کرتے ہیں جن کو جشن دیوبند وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے
ازالہ اعتراض : آپکی تاویل درست نہیں لہذا ہرگز لائق احتجاج نہیں اول دین اسلام ایک عالمگیر یعنی یونیورسل دین ہے کہ جس میں ابد تا ازل تک کے مسائل کا حل موجود ہے لہذا دین اسلام کی اس پیرائے میں تقسیم کے جیسے یہود و نصارٰی نے کی یعنی دین اور غیر دین اور دین اور دنیا الگ الگ ہرگز قابل التفات نہیں کیونکہ یہ دین نہیں بلکہ اسلام میں پاپائیت پھیلانے کے مترادف ہے کیونکہ اسلام میں تو بندہ مومن اگر اللہ کے حکم کی مطابق اپنے پل پل گزارے تو وہ عبادت میں ہی رہتا ہے لہذا کسی کام کو یہ کہہ کرجواز بخشنا کہ ہم اسے عبادت سمجھ کر نہیں کرتے لہذا یہ جائز ہے یہ درحقیقت خود دین کی تشریع کرنے کہ مترادف ہے جبکہ دین میں کسی بھی فعل کی حلت و حرمت کا مدار اصلا قرآن و سنت اورپھر اس اسکے بعد قائل کی نیت پر ہے اسی لیے فرمایا انما الاعمال بالنیات ۔ اور جہاں تک بات ہے کہ فقہی اصطلاحات میں جو بعض افعال کو خاص لفظ عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے تو وہ اس لیے کہ شارع نے ان افعال پر عبادت کا حکم لگایا ہے لہذا انکو فقہی اور عرفی اصطلاح میں عبادت کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ ان سے خالص قرب الہٰی کا قصد کیا جاتا ہے جیسا نماز روزہ حج وغیرہ جبکہ اسکے مقابلے میں حلال روزی کمانا اور اپنے ہاتھ سے کما کر اپنے اہل و عیال کو لقمہ حلال کھلانا بھی عین عبادت ہے مگر اس میں براہ راست قرب الہٰہی کا قصد نہیں پایا جاتا بلکہ اس سے اصلا مقصود کفالت خاندان ہے سو عرف میں انکو دنیاوی امور سے تعبیر کردیا جاتا ہے جبکہ حقیقتا یہ افعال بھی عبادت ہی ہیں۔
اعتراض : میلاد کی محافل میں جو کھانا کھلایا جاتا ہے وہ مھاجوں اور فقیروں کو نہیں کھلایا جاتا سو یہ درست نہیں ۔
ازالہ اعتراض : معترض کا دین اسلام کی ہمہ گیریت اور جامعیت پر مطالعہ کم ہے سو یہی وجہ ہے کہ یہ عامیانہ اعتراض کیا کیونکہ معترض کے ذہن میں یہی ہے کہ ثواب فقط اس کھانا کھلانے میں ہے جو کہ فقراء اورمساکین کو کھلایا جائے جبکہ یہ درست نہیں ۔
ہاں یہ درست ہے کہ فقراء کو کھانا کھلانا باعث ثواب ہے جبکہ یہ درست نہیں کہ صرف فقراء کو کھلانے میں ہی ثواب محدود ہے جبکہ دین کا ادنٰی سا بھی طالب علم یہ جانتا ہے کہ دین اسلام میں ایک دوسرے کو کھانا کھلانے کی بڑی فضیلت آئی ہے خصوصا خوشی کے مواقع پر جیسا کہ نکاح پر دعوت ولیمہ اور بچے کی پیدائش پر عقیقہ وغیرہ اور اسکے ساتھ ساتھ بخاری و مسلم میں ایسی کئی روایات ہیں کہ جن میں بہترین اسلام اور مسلم کی یہ تعبیر بیان کی گئی ہے جو کھانا کھلائے اور خیر خواہی چاہے وغیرہ سو میلاد النبی پر دعوت طعام ہر خاص و عام کے لیے ہے کیونکہ یہ دن سب کے لیے خوشی کا دن ہے ۔
Comment