اسلام علیکم
جو لوگ قبر میں دفن نہیں کئے جاتے بلکہ جلا دئے جاتے ہیں یا پانی میں ڈوب کر مر جاتے یا جانور کھا جاتے ہیں وغیرہ، ان کو بھی عذاب قبر ہوتا ہے، قبر سے مراد وہ گڑھا نہیں جو زمین کھود کر میت کو اس میں دفن کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ مقام ہے جہاں مرنے کے بعد برزخ میں روح کو رکھا جاتا ہے۔ نیکوں کی روح کے مقام کو عالمِ بالا یعنی علیین کہتے ہیں اور بروں کے مقام کو عالمِ پست یعنی سجین کہتے ہیں اور وہ عذاب سانپ بچھو لوہے کی سلاخیں وغیرہ سے جیسی اس عالم کے مناسب ہوں روح کو دیا جاتا ہے اور جسم کے ساتھ روح کا ایک ادنیٰ سا تعلق باقی رہنے کی وجہ سے زمینی گڑھے کو بھی قبر کہہ دیتے ہیں اور بعض اوقات اس قبر میں رکھے ہوئےجسم پر بھی اس عذاب و ثواب کے اثرات مرتب ہو کر اہلِ دنیا کی عبرت کے لئے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
علماء نے مسلمان کے گناہ معاف ہونے کے دس سبب لکھے ہیں :
١. توبہ،
٢. استغفار،
٣. نیک اعمال،
٤. دنیا میں کسی بلا میں گرفتار ہونا،
٥. ضغطہ قبر،
٦. مسلمانوں کی دعا کی برکت،
٧. مسلمانوں کا صدقہ جو اس کی طرف سے دیں،
٨. قیامت کی سختی،
٩. نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت،
١٠. محض رحمت الہیٰ،
جو لوگ قبر کے عذاب اور منکر نکیر کے سوال و جواب سے محفوظ رہیں گے یہ ہیں،
١. غازی یا شہید،
۔٢. جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن مرنے وال،
تناسخ (آواگون) مسلمانوں کے عقیدے کے بلکل خلاف ہے یہ ہندوئوں اور بعض کافر فلسفیوں کا عقیدہ ہے جو غلط ہےانبیاء علیہم السلام اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اپنی قبروں میں اپنے اجسام کے ساتھ زندہ ہیں۔ اور اس زندگی کی کیفیت اللّٰہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ شہدا بھی زندہ ہیں، لیکن انبیاء علیہم السلام کی زندگی سب سے قوی تر ہے، صدیقین و دیگراولیاء اللّٰہ و حفاظ بھی زندہ ہیں۔ اولیاء اللّٰہ اور شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں داخل کر دی جاتی ہیں وہ بہیشت میں پھرتی اور اس کی نہروں کا پانی پیتی ہیں۔ ان کی ارواح کو اجازت ہوتی ہے کہ جہاں چاہیں پھریں، کاملین کی ارواح کبھی کبھی اللّٰہ تعالٰی کی اجازت سے اس جسمانی دنیا میں ظاہر ہو کر تصرف بھی کرتی ہیں اور اپنے دوستوں کی مدد کرتی اور دشمنوں کو سزا دیتی ہیں
جو لوگ قبر میں دفن نہیں کئے جاتے بلکہ جلا دئے جاتے ہیں یا پانی میں ڈوب کر مر جاتے یا جانور کھا جاتے ہیں وغیرہ، ان کو بھی عذاب قبر ہوتا ہے، قبر سے مراد وہ گڑھا نہیں جو زمین کھود کر میت کو اس میں دفن کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ مقام ہے جہاں مرنے کے بعد برزخ میں روح کو رکھا جاتا ہے۔ نیکوں کی روح کے مقام کو عالمِ بالا یعنی علیین کہتے ہیں اور بروں کے مقام کو عالمِ پست یعنی سجین کہتے ہیں اور وہ عذاب سانپ بچھو لوہے کی سلاخیں وغیرہ سے جیسی اس عالم کے مناسب ہوں روح کو دیا جاتا ہے اور جسم کے ساتھ روح کا ایک ادنیٰ سا تعلق باقی رہنے کی وجہ سے زمینی گڑھے کو بھی قبر کہہ دیتے ہیں اور بعض اوقات اس قبر میں رکھے ہوئےجسم پر بھی اس عذاب و ثواب کے اثرات مرتب ہو کر اہلِ دنیا کی عبرت کے لئے ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔
علماء نے مسلمان کے گناہ معاف ہونے کے دس سبب لکھے ہیں :
١. توبہ،
٢. استغفار،
٣. نیک اعمال،
٤. دنیا میں کسی بلا میں گرفتار ہونا،
٥. ضغطہ قبر،
٦. مسلمانوں کی دعا کی برکت،
٧. مسلمانوں کا صدقہ جو اس کی طرف سے دیں،
٨. قیامت کی سختی،
٩. نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی شفاعت،
١٠. محض رحمت الہیٰ،
جو لوگ قبر کے عذاب اور منکر نکیر کے سوال و جواب سے محفوظ رہیں گے یہ ہیں،
١. غازی یا شہید،
۔٢. جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن مرنے وال،
تناسخ (آواگون) مسلمانوں کے عقیدے کے بلکل خلاف ہے یہ ہندوئوں اور بعض کافر فلسفیوں کا عقیدہ ہے جو غلط ہےانبیاء علیہم السلام اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد اپنی قبروں میں اپنے اجسام کے ساتھ زندہ ہیں۔ اور اس زندگی کی کیفیت اللّٰہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ شہدا بھی زندہ ہیں، لیکن انبیاء علیہم السلام کی زندگی سب سے قوی تر ہے، صدیقین و دیگراولیاء اللّٰہ و حفاظ بھی زندہ ہیں۔ اولیاء اللّٰہ اور شہدا کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں داخل کر دی جاتی ہیں وہ بہیشت میں پھرتی اور اس کی نہروں کا پانی پیتی ہیں۔ ان کی ارواح کو اجازت ہوتی ہے کہ جہاں چاہیں پھریں، کاملین کی ارواح کبھی کبھی اللّٰہ تعالٰی کی اجازت سے اس جسمانی دنیا میں ظاہر ہو کر تصرف بھی کرتی ہیں اور اپنے دوستوں کی مدد کرتی اور دشمنوں کو سزا دیتی ہیں
Comment