اسلام علیکم
تصوف کی دُنیا میں عرس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہر برس، ایک مقام پر جو عموماً کسی بزرگ کا آستانہ ہوتا ہے، وہاں پر معتقدین جمع ہوتے ہیں اور چند ایام وہاں گزارتے ہیں۔ موجودہ زمانے کا المیہ یہ ہے کہ جیسے آجکل کے مسلمانوں نے روزہ، نماز، حج و قرآن وغیرہ کی اصل غایت بدل دی ہے اور محض رسمی صورت رہ گئی ہے ویسے ہی عرس کا موضوع بھی بدل گیا ہے۔ عرس کا اصلی موضوع یہ تھا کہ نورانی حقیقت کو حاصل کیا جائے۔ اس کی بجائے عموماً اکثر عرس خرافات کا نمونہ بن گئے ہیں۔ ناچ گانے اور دوسری خرافات ان عرائس کا ضروری حصہ ہوگئی ہیں اور عرس کا اصلی مدعا مفقود ہوگیا ہےکوشش کی جائے گی۔تاریخ کی روشنی میں عرس کے مقصد اور اہمیت کو واضح کیا جاسکے۔ انشاء اللہ
*لفظ عرس مادہ ہے جس سے دوسرے الفاظ مثل عروس، عروسہ، عرائس وغیرہ ہیں۔ عرس کی اصلیت یہ ہے کہ طوفان نوح کے وقت جب مکہ معظمہ یعنی بیت اللہ شریف کی جگہ بیت المعمور آباد تھا، بہت سے فرشتے بحکم الٰہی بیت المعمور کے پاس جمع ہوگئے اور پھر اس کو چوتھے فلک پر لے گئے اور بیت اللہ شریف کی جگہ ایک ٹیلہ مرتفع رہ گیا۔ بعدہُ ہر سال حج مبارک کے ایام میں فرشتے اس جگہ پر جمع ہوجاتے تھے۔ اسی اجتماع کی صورتِ جامعہ کو عرس کہا جاتا ہے اور موجودہ عرس کی اصلیت وہاں سے ہے ۔ حضرت ابراہیم نے سالانہ عرس شریف قائم فرمایا یعنی حج کا انتظام کیا۔ اس سنت کو حضور پاک نے جاری رکھا اور بزرگان عظام نے بھی اس سنت کو جاری رکھا۔ اب جیسے چار رکعت نماز باجماعت ہو رہی ہو اور ایک شخص اگر آخری رکعت میں بھی شمولیت کرے تو اس کی ساری نماز باجماعت ہوجاتی ہے ایسے ہی حقیقی عرسوں میں شمولیت اصل میں اصلی عرس ابراہیمی کی شمولیت ہے۔ اسی لئے مدعا یہ ہے کہ وہی کیفیت حالیہ پیدا ہو جو ابراہیم علیہ السلام پر طاری ہوئی تھی۔
عرس میں چند چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے
1۔ اجتماع مسجد میں نہ ہو
2۔ واعظ متقی اور پرہیزگار ہوں
3۔ اشعار خلاف شرع نہ ہوں
4۔ عورتیں مردوں سے الگ رہیں
5۔ لوگوں کو اطاعت الی اللہ اور اطاعت الی الرسول کی طرف بلایا جائے
*6 نیت تعلیم و تبلیغ میں صرف خوشنودی اللہ تعالٰی ہو*
7۔ وعظ سُننے کے لئے تمام لوگ باوضو متوجہ ہو کر بیٹھیں اور بغور سُنیں
اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہر فعل کا انحصار اس کے ارادہ ، نیت اور خیال پر ہے۔ اگر وہ خیال صحیح ہے تو وہ عمل بھی صحیح ہے جیسے ایک آدمی قتل کرتا ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے مگر ایک قتل ایسا بھی ہے کہ اگر نہ کرے تو کافر ہوجاتا ہے اور اس کے سارے اعمال ساقط ہوجاتے ہیں (جہاد بالسیف میں قتل)۔ تو معلوم ہوا کہ اگرچہ ظاہری صورت یکساں ہے مگر خیال کے فرق کی وجہ سے عمل میں بھی فرق ہوگیا۔ اسی طرح عرس شریف کا معاملہ ہے۔ اگر عرس شریف اس خیال سے منعقد کیا جائے کہ لوگ جمع کئے جائیں تاکہ آمدنی کی صورت ہوجائے، اپنا نام و نمود ہو اور تعلیم دین کا انتظام نہ کیا جائے بلکہ کھیل تماشے کا انتظام ہو اور اس میں شمولیت کرنے والے بھی صحیح تعلیم حاصل کرنے کے لئے نہ آئیں تو ایسا عرس حرام ہے اور اس میں شمولیت ناجائز ہے۔
*اسی طرح اگر عرس شریف میں اس خیال سے آیا جائے کہ چلو میلہ دیکھیں گے، تماشا ہوگا، لطف اندوز ہوں گے تو ایسی حاضری بھی فضول ہے۔ اگر عرس شریف اس لئے منعقد کیا جائے کہ اپنے تعلق والوں کو دینِ الٰہی کی تعلیم دی جائے اور بزرگان کے یہ ایام خصوصی انوار کے ایام ہوتے ہیں اور حاضر ہونے والے بھی اسی تعلیم کے حاصل کرنے کے لئے آئیں تو ایسا عرس فرض بلکہ فرض الفرائض ہے اور اس میں شمولیت موجب صد برکات
تصوف کی دُنیا میں عرس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ ہر برس، ایک مقام پر جو عموماً کسی بزرگ کا آستانہ ہوتا ہے، وہاں پر معتقدین جمع ہوتے ہیں اور چند ایام وہاں گزارتے ہیں۔ موجودہ زمانے کا المیہ یہ ہے کہ جیسے آجکل کے مسلمانوں نے روزہ، نماز، حج و قرآن وغیرہ کی اصل غایت بدل دی ہے اور محض رسمی صورت رہ گئی ہے ویسے ہی عرس کا موضوع بھی بدل گیا ہے۔ عرس کا اصلی موضوع یہ تھا کہ نورانی حقیقت کو حاصل کیا جائے۔ اس کی بجائے عموماً اکثر عرس خرافات کا نمونہ بن گئے ہیں۔ ناچ گانے اور دوسری خرافات ان عرائس کا ضروری حصہ ہوگئی ہیں اور عرس کا اصلی مدعا مفقود ہوگیا ہےکوشش کی جائے گی۔تاریخ کی روشنی میں عرس کے مقصد اور اہمیت کو واضح کیا جاسکے۔ انشاء اللہ
*لفظ عرس مادہ ہے جس سے دوسرے الفاظ مثل عروس، عروسہ، عرائس وغیرہ ہیں۔ عرس کی اصلیت یہ ہے کہ طوفان نوح کے وقت جب مکہ معظمہ یعنی بیت اللہ شریف کی جگہ بیت المعمور آباد تھا، بہت سے فرشتے بحکم الٰہی بیت المعمور کے پاس جمع ہوگئے اور پھر اس کو چوتھے فلک پر لے گئے اور بیت اللہ شریف کی جگہ ایک ٹیلہ مرتفع رہ گیا۔ بعدہُ ہر سال حج مبارک کے ایام میں فرشتے اس جگہ پر جمع ہوجاتے تھے۔ اسی اجتماع کی صورتِ جامعہ کو عرس کہا جاتا ہے اور موجودہ عرس کی اصلیت وہاں سے ہے ۔ حضرت ابراہیم نے سالانہ عرس شریف قائم فرمایا یعنی حج کا انتظام کیا۔ اس سنت کو حضور پاک نے جاری رکھا اور بزرگان عظام نے بھی اس سنت کو جاری رکھا۔ اب جیسے چار رکعت نماز باجماعت ہو رہی ہو اور ایک شخص اگر آخری رکعت میں بھی شمولیت کرے تو اس کی ساری نماز باجماعت ہوجاتی ہے ایسے ہی حقیقی عرسوں میں شمولیت اصل میں اصلی عرس ابراہیمی کی شمولیت ہے۔ اسی لئے مدعا یہ ہے کہ وہی کیفیت حالیہ پیدا ہو جو ابراہیم علیہ السلام پر طاری ہوئی تھی۔
عرس میں چند چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے
1۔ اجتماع مسجد میں نہ ہو
2۔ واعظ متقی اور پرہیزگار ہوں
3۔ اشعار خلاف شرع نہ ہوں
4۔ عورتیں مردوں سے الگ رہیں
5۔ لوگوں کو اطاعت الی اللہ اور اطاعت الی الرسول کی طرف بلایا جائے
*6 نیت تعلیم و تبلیغ میں صرف خوشنودی اللہ تعالٰی ہو*
7۔ وعظ سُننے کے لئے تمام لوگ باوضو متوجہ ہو کر بیٹھیں اور بغور سُنیں
اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ہر فعل کا انحصار اس کے ارادہ ، نیت اور خیال پر ہے۔ اگر وہ خیال صحیح ہے تو وہ عمل بھی صحیح ہے جیسے ایک آدمی قتل کرتا ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے مگر ایک قتل ایسا بھی ہے کہ اگر نہ کرے تو کافر ہوجاتا ہے اور اس کے سارے اعمال ساقط ہوجاتے ہیں (جہاد بالسیف میں قتل)۔ تو معلوم ہوا کہ اگرچہ ظاہری صورت یکساں ہے مگر خیال کے فرق کی وجہ سے عمل میں بھی فرق ہوگیا۔ اسی طرح عرس شریف کا معاملہ ہے۔ اگر عرس شریف اس خیال سے منعقد کیا جائے کہ لوگ جمع کئے جائیں تاکہ آمدنی کی صورت ہوجائے، اپنا نام و نمود ہو اور تعلیم دین کا انتظام نہ کیا جائے بلکہ کھیل تماشے کا انتظام ہو اور اس میں شمولیت کرنے والے بھی صحیح تعلیم حاصل کرنے کے لئے نہ آئیں تو ایسا عرس حرام ہے اور اس میں شمولیت ناجائز ہے۔
*اسی طرح اگر عرس شریف میں اس خیال سے آیا جائے کہ چلو میلہ دیکھیں گے، تماشا ہوگا، لطف اندوز ہوں گے تو ایسی حاضری بھی فضول ہے۔ اگر عرس شریف اس لئے منعقد کیا جائے کہ اپنے تعلق والوں کو دینِ الٰہی کی تعلیم دی جائے اور بزرگان کے یہ ایام خصوصی انوار کے ایام ہوتے ہیں اور حاضر ہونے والے بھی اسی تعلیم کے حاصل کرنے کے لئے آئیں تو ایسا عرس فرض بلکہ فرض الفرائض ہے اور اس میں شمولیت موجب صد برکات
Comment