بسم الله الرحمن الرحيم
اس حدیث کے متعلق پھیلائے جانے والا شبہ کہ:
(لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه)
"لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔"
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم
(لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه)
"لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔"
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم
السلام عليکم ورحمة الله وبرکاته!
ہمارے فاضل مشائخ ! اللہ آپکو جزائے خیر عطافرمائے۔جوشخص اس حدیث سے حدودنہ قائم کرنے پر استدلال کرے کہ:
(لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه)
"لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں ۔"
(یعنی منافقین کو قتل نہ کرنے پر آپ نے کہاتھا) آپ اس کا کس طرح رد کریں گے خاص طورپر ارتداد کی حد کو قائم نہ کرنا اس چیز کو پورا کرنے کے لئے جسے وہ مسلمانوں کی مصلحتوں (مفادات) کا نام دیتے ہیں۔
مجھے اس بات کا علم ہے کہ آپ کے پاس بہت سارے سوالات آتے ہیں لیکن میری آپ سے جلد سے جلد جواب دینے کی درخواست ہے اسکی وجہ اس شبہ کا ازالہ کرناہے کہ جو ہمارے اندر عام ہے۔
جزاکم الله کل الخير
سائل: ابوعلی افریقی
جواب منجانب: منبر کی شرعی کمیٹی
مرتد کوقتل کرنے کے بارے میں جو ثابت شدہ شرعی حکم ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہےکہ:
"من بدل دينه فاقتلوه "
"جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کردو۔"
اس حکم کا نہ کوئی ناسخ (منسوخ کرنے والا) ہے اور نہ کسی اوردلیل سے اسکی تخصیص ہوتی ہے۔
البتہ اس خدشہ کی بناء پر مرتدین کوقتل نہ کرنا کہ کہیں یہ نہ کہا جائے کہ "محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں"۔ تواہل علم نے اس امر کو منسوخ اورمخصوص قرار دیاہے۔ اس مسئلے پر انکے (اہل علم کے) مندرجہ ذیل اقوال ہیں:
ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ ا للہ فرماتے ہیں:
"وكان النبي صلى الله عليه و سلم في أول الأمر يصبر على أذى المشركين ويعفو ويصفح ثم أمر بقتال المشركين فاستمر صفحه وعفوه عمن يظهر الإسلام ولو كان باطنه على خلاف ذلك لمصلحة الاستئلاف وعدم التنفير عنه ولذلك قال لا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه فلما حصل الفتح ودخل المشركون في الإسلام وقل أهل الكفر وذلوا أمر بمجاهرة المنافقين وحملهم على حكم مر".
"ابتداء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی دی ہوئی اذیتوں پر صبر کرتے اور عفوودرگزر سے کام لیتے تھے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین سے جنگ کرنے کاحکم دیا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے اپنا عفوودرگزر برقرار رکھا کہ جوبظاہر اسلام کا دعویدار تھا اگرچہ اسکا باطن اس کے خلاف اوراسکے برعکس ہو۔ایسا الفت پیداکرنے اور اسلام سے متنفر نہ کرنے کی مصلحت کی بناء پرتھا اس لئے آپ نے کہا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔چنانچہ جب فتح حاصل ہوگئی اورمشرکین اسلام میں داخل ہوگئے ۔ اہل کفر قلیل وذلیل ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے تعلق ختم کرنے کا حکم دیااورآپ نے ان کے بارے میں تلخی اختیار کرلی۔ (فتح الباری: ابن حجر 8/336)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حکم کے منسوخ ہونے کی جانب اشارہ کیاہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:
"إنما لم يقتلهم لئلا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه فإن الناس ينظرون إلى ظاهر الأمر فيرون واحدا من أصحابه قد قتل فيظن الظان أنه يقتل بعض أصحابه على غرض أو حقد أو نحو ذلك فينفر الناس عن الدخول في الإسلام و إذا كان من شريعته أن يتألف الناس على الإسلام بالأموال العظيمة ليقوم دين الله و تعلو كلمته فلأن يتألفهم بالعفو أولى و أحرى، فلما أنزل الله تعالى براءة و نهاه عن الصلاة على المنافقين و القيام على قبورهم و أمره أن يجاهد الكفار و المنافقين و يغلظ عليهم نسخ جميع ما كان المنافقون يعاملون به من العفو كما نسخ ما كان الكفار يعاملون به من الكف عمن سالم و لم يبق إلا إقامة الحدود و إعلاء كلمة الله في حق كل إنسان".
" نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (منافقین کو) اس وجہ سے قتل نہیں کیا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔ پس لوگ ظاہری معاملہ دیکھتے ہیں ۔لہذا وہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھیوں میں کوئی قتل کردیاگیا تو گمان کرنے والا یہ گمان کرتاکہ آپ اپنے بعض ساتھیوں کو کسی غرض یا بغض وغیرہ کی بناء پر قتل کررہے ہیں تولوگ اسلام میں داخل ہونے سے متنفر ہوجاتے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں ہے کہ زیادہ اموال کے ذریعے لوگوں میں الفت پیداکی جائے تاکہ اللہ کا دین قائم ہوجائے اور اس کا کلمہ بلند ہوجائے ۔پس اسی لئے درگزر کے ذریعے ان میں الفت پیداکرنا زیادہ اولیٰ اور زیادہ بہترتھا ۔پھر جب اللہ تعالی نے سورہ براءہ اتاری ، بیزاری کا حکم اورلاتعلق ہوجانے کا حکم دیا، منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے، انکی قبروں پر کھڑے ہونے سے منع فرمادیا ۔اللہ تعالی نے آپ ﷺکو حکم دیا کہ آپ کفارومنافقین کےخلاف جہاد کریں اورانکے ساتھ سختی سے پیش آئیں تومنافقین کے ساتھ درگزر کرنے والا معاملہ اورکفار کے ساتھ جو معاملہ تھا کہ مصالحت کرنے والے سے ہاتھ روک لیا جائے سب کاسب منسوخ ہوگیا۔اس کے بعدحدود قائم کرنے اور ہر انسان کے حق میں اللہ تعالی کےکلمہ کی سربلندی کے سواکوئی راہ باقی نہ بچی۔" (الصارم المسلول1/241)
امام نووی رحمہ اللہ نے ذکرکیاہےکہ یہ حکم فقط اسلام کے ابتدائی حالات کے ساتھ خاص تھا چنانچہ آپ فرماتےہیں کہ:
"قالوا وإنما تركه النبي صلى الله عليه و سلم لأنه كان في أول الاسلام يتألف الناس ويدفع بالتي هي أحسن ويصبر على أذى المنافقين ومن في قلبه مرض ويقول يسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا ويقول لا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه وقد قال الله تعالى ولا تزال تطلع على خائنة منهم الا قليلا منهم فاعف عنهم واصفح إن الله يحب المحسنين".
" (اہل علم نے) کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل کرنا اس لیے ترک کیا کیونکہ اسلام کی ابتداء میں آپﷺ لوگوں کے دل میں الفت پیداکرتے اوراحسن طریقے سے جواب دیتے تھے۔منافقین اور جن لوگوں کے دل میں (نفاق کا) مرض تھا ان کی اذیتوں پر صبر کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ آسانی پیداکروتنگی پیدانہ کرو اورخوشخبری سناؤ متنفر نہ کرو۔ آپﷺ فرماتے کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:" اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں (پس جب یہ اِس حال کو پہنچ چکے ہیں تو جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو، اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں۔"
ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکرکیاہے کہ یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ:
"كان فى ترك قتلهم فى حياة النبى صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ مصلحة تتضمن تأليفَ القلوب على رسول الله صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، وجمع كلمة الناس عليه، وكان فى قتلهم تنفيرٌ، والإسلام بعدُ فى غُربة، ورسولُ الله صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ أحرصُ شىْءٍ على تأليف الناسِ، وأتركُ شىْء لما يُنَفِّرُهم عن الدخول فى طاعته، وهذا أمر كان يختصُّ بحال حياته صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، وكذلك تركُ قتل مَن طعن عليه فى حكمه بقوله فى قصة الزُّبير وخصمه: أنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ. وفى قسمه بقوله: إنَّ هذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللهِ. وقول الآخر له: إنك لم تعدِل، فإنَّ هذا محضُ حقه، له أن يستوفِيَه، وله أن يترُكَه، وليس للأُمة بعده تركُ استيفاء حقِّه، بل يتعينُ عليهم استيفاؤه، ولا بُدَّ".
" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان (منافقین وغیرہ) کو قتل نہ کرنا اس مصلحت کے تحت تھا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دلوں میں الفت پیداکرنے اور آپ کی شریعت پر لوگوں کو متحد کرنے پر مشتمل ہے۔ اس وقت ان کے قتل کرنے میں (لوگوں کے دلوں میں اسلام کےلئے) نفرت پیداکرنا اوراجنبیت کی حالت میں اسلام سے دور کرنا تھا جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں الفت پیداکرنے کے سب سے زیادہ حریص تھے اورجو چیز آپ کی اطاعت کرنے سے متنفر کرے سب سے زیادہ اس کو ترک کرنے والے تھے۔ یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کوقتل نہ کیا جس نے آپ کے حکم کی وجہ سےآپ پر طعن کیا۔ جس شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سےجھگڑے کے دوران آپ سے یہ کہا کہ یہ آپ کا چچا ذات بھائی ہے۔ اسی طرح آپ (کےسامان وغیرہ) کی تقسیم کے دوران جس شخص نے کہا اس تقسیم سےاللہ کی رضا مقصودنہیں ہے اوردوسرے نےیہ کہاتھا کہ آپ نے عدل وانصاف نہیں کیا۔ پس یہ تومحض آپ ہی کا حق تھا آپ چاہیں اس کا پورابدلہ لے لیں اور آپ چاہیں تواسے چھوڑدیں۔
لہذا یہ حکم خاص اورمنسوخ ہے۔ اس کے ذریعے سے شریعت کے ثابت شدہ احکام کو معطل کرنا جائز نہیں ۔
امت کو یہ لائق نہیں کہ وہ آپ کے حق کا بدلہ نہ لے بلکہ اس امت پر تو آپ کا بدلہ لینا فرض عین ہے اورضروری ہے۔"
(زادالمعاد فی ھدی خیرالعباد3/568)
والله أعلم
جواب منجانب: شیخ ابوالمنذر الشنقیطی
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد
البتہ اس خدشہ کی بناء پر مرتدین کوقتل نہ کرنا کہ کہیں یہ نہ کہا جائے کہ "محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں"۔ تواہل علم نے اس امر کو منسوخ اورمخصوص قرار دیاہے۔ اس مسئلے پر انکے (اہل علم کے) مندرجہ ذیل اقوال ہیں:
ابن حجر رحمہ اللہ رحمہ ا للہ فرماتے ہیں:
"وكان النبي صلى الله عليه و سلم في أول الأمر يصبر على أذى المشركين ويعفو ويصفح ثم أمر بقتال المشركين فاستمر صفحه وعفوه عمن يظهر الإسلام ولو كان باطنه على خلاف ذلك لمصلحة الاستئلاف وعدم التنفير عنه ولذلك قال لا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه فلما حصل الفتح ودخل المشركون في الإسلام وقل أهل الكفر وذلوا أمر بمجاهرة المنافقين وحملهم على حكم مر".
"ابتداء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی دی ہوئی اذیتوں پر صبر کرتے اور عفوودرگزر سے کام لیتے تھے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین سے جنگ کرنے کاحکم دیا گیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لئے اپنا عفوودرگزر برقرار رکھا کہ جوبظاہر اسلام کا دعویدار تھا اگرچہ اسکا باطن اس کے خلاف اوراسکے برعکس ہو۔ایسا الفت پیداکرنے اور اسلام سے متنفر نہ کرنے کی مصلحت کی بناء پرتھا اس لئے آپ نے کہا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔چنانچہ جب فتح حاصل ہوگئی اورمشرکین اسلام میں داخل ہوگئے ۔ اہل کفر قلیل وذلیل ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے تعلق ختم کرنے کا حکم دیااورآپ نے ان کے بارے میں تلخی اختیار کرلی۔ (فتح الباری: ابن حجر 8/336)
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حکم کے منسوخ ہونے کی جانب اشارہ کیاہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:
"إنما لم يقتلهم لئلا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه فإن الناس ينظرون إلى ظاهر الأمر فيرون واحدا من أصحابه قد قتل فيظن الظان أنه يقتل بعض أصحابه على غرض أو حقد أو نحو ذلك فينفر الناس عن الدخول في الإسلام و إذا كان من شريعته أن يتألف الناس على الإسلام بالأموال العظيمة ليقوم دين الله و تعلو كلمته فلأن يتألفهم بالعفو أولى و أحرى، فلما أنزل الله تعالى براءة و نهاه عن الصلاة على المنافقين و القيام على قبورهم و أمره أن يجاهد الكفار و المنافقين و يغلظ عليهم نسخ جميع ما كان المنافقون يعاملون به من العفو كما نسخ ما كان الكفار يعاملون به من الكف عمن سالم و لم يبق إلا إقامة الحدود و إعلاء كلمة الله في حق كل إنسان".
" نبی صلی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (منافقین کو) اس وجہ سے قتل نہیں کیا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔ پس لوگ ظاہری معاملہ دیکھتے ہیں ۔لہذا وہ دیکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھیوں میں کوئی قتل کردیاگیا تو گمان کرنے والا یہ گمان کرتاکہ آپ اپنے بعض ساتھیوں کو کسی غرض یا بغض وغیرہ کی بناء پر قتل کررہے ہیں تولوگ اسلام میں داخل ہونے سے متنفر ہوجاتے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں ہے کہ زیادہ اموال کے ذریعے لوگوں میں الفت پیداکی جائے تاکہ اللہ کا دین قائم ہوجائے اور اس کا کلمہ بلند ہوجائے ۔پس اسی لئے درگزر کے ذریعے ان میں الفت پیداکرنا زیادہ اولیٰ اور زیادہ بہترتھا ۔پھر جب اللہ تعالی نے سورہ براءہ اتاری ، بیزاری کا حکم اورلاتعلق ہوجانے کا حکم دیا، منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے، انکی قبروں پر کھڑے ہونے سے منع فرمادیا ۔اللہ تعالی نے آپ ﷺکو حکم دیا کہ آپ کفارومنافقین کےخلاف جہاد کریں اورانکے ساتھ سختی سے پیش آئیں تومنافقین کے ساتھ درگزر کرنے والا معاملہ اورکفار کے ساتھ جو معاملہ تھا کہ مصالحت کرنے والے سے ہاتھ روک لیا جائے سب کاسب منسوخ ہوگیا۔اس کے بعدحدود قائم کرنے اور ہر انسان کے حق میں اللہ تعالی کےکلمہ کی سربلندی کے سواکوئی راہ باقی نہ بچی۔" (الصارم المسلول1/241)
امام نووی رحمہ اللہ نے ذکرکیاہےکہ یہ حکم فقط اسلام کے ابتدائی حالات کے ساتھ خاص تھا چنانچہ آپ فرماتےہیں کہ:
"قالوا وإنما تركه النبي صلى الله عليه و سلم لأنه كان في أول الاسلام يتألف الناس ويدفع بالتي هي أحسن ويصبر على أذى المنافقين ومن في قلبه مرض ويقول يسروا ولا تعسروا وبشروا ولا تنفروا ويقول لا يتحدث الناس أن محمدا يقتل أصحابه وقد قال الله تعالى ولا تزال تطلع على خائنة منهم الا قليلا منهم فاعف عنهم واصفح إن الله يحب المحسنين".
" (اہل علم نے) کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل کرنا اس لیے ترک کیا کیونکہ اسلام کی ابتداء میں آپﷺ لوگوں کے دل میں الفت پیداکرتے اوراحسن طریقے سے جواب دیتے تھے۔منافقین اور جن لوگوں کے دل میں (نفاق کا) مرض تھا ان کی اذیتوں پر صبر کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے کہ آسانی پیداکروتنگی پیدانہ کرو اورخوشخبری سناؤ متنفر نہ کرو۔ آپﷺ فرماتے کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کو قتل کرتےہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:" اور آئے دن تمہیں ان کی کسی نہ کسی خیانت کا پتہ چلتا رہتا ہے ان میں سے بہت کم لوگ اس عیب سے بچے ہوئے ہیں (پس جب یہ اِس حال کو پہنچ چکے ہیں تو جو شرارتیں بھی یہ کریں وہ ان سے عین متوقع ہیں) لہٰذا انہیں معاف کرو اور ان کی حرکات سے چشم پوشی کرتے رہو، اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو احسان کی روش رکھتے ہیں۔"
ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکرکیاہے کہ یہ مسئلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے تو آپ فرماتے ہیں کہ:
"كان فى ترك قتلهم فى حياة النبى صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ مصلحة تتضمن تأليفَ القلوب على رسول الله صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، وجمع كلمة الناس عليه، وكان فى قتلهم تنفيرٌ، والإسلام بعدُ فى غُربة، ورسولُ الله صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ أحرصُ شىْءٍ على تأليف الناسِ، وأتركُ شىْء لما يُنَفِّرُهم عن الدخول فى طاعته، وهذا أمر كان يختصُّ بحال حياته صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ، وكذلك تركُ قتل مَن طعن عليه فى حكمه بقوله فى قصة الزُّبير وخصمه: أنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ. وفى قسمه بقوله: إنَّ هذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللهِ. وقول الآخر له: إنك لم تعدِل، فإنَّ هذا محضُ حقه، له أن يستوفِيَه، وله أن يترُكَه، وليس للأُمة بعده تركُ استيفاء حقِّه، بل يتعينُ عليهم استيفاؤه، ولا بُدَّ".
" نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان (منافقین وغیرہ) کو قتل نہ کرنا اس مصلحت کے تحت تھا جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دلوں میں الفت پیداکرنے اور آپ کی شریعت پر لوگوں کو متحد کرنے پر مشتمل ہے۔ اس وقت ان کے قتل کرنے میں (لوگوں کے دلوں میں اسلام کےلئے) نفرت پیداکرنا اوراجنبیت کی حالت میں اسلام سے دور کرنا تھا جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں الفت پیداکرنے کے سب سے زیادہ حریص تھے اورجو چیز آپ کی اطاعت کرنے سے متنفر کرے سب سے زیادہ اس کو ترک کرنے والے تھے۔ یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کوقتل نہ کیا جس نے آپ کے حکم کی وجہ سےآپ پر طعن کیا۔ جس شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سےجھگڑے کے دوران آپ سے یہ کہا کہ یہ آپ کا چچا ذات بھائی ہے۔ اسی طرح آپ (کےسامان وغیرہ) کی تقسیم کے دوران جس شخص نے کہا اس تقسیم سےاللہ کی رضا مقصودنہیں ہے اوردوسرے نےیہ کہاتھا کہ آپ نے عدل وانصاف نہیں کیا۔ پس یہ تومحض آپ ہی کا حق تھا آپ چاہیں اس کا پورابدلہ لے لیں اور آپ چاہیں تواسے چھوڑدیں۔
لہذا یہ حکم خاص اورمنسوخ ہے۔ اس کے ذریعے سے شریعت کے ثابت شدہ احکام کو معطل کرنا جائز نہیں ۔
امت کو یہ لائق نہیں کہ وہ آپ کے حق کا بدلہ نہ لے بلکہ اس امت پر تو آپ کا بدلہ لینا فرض عین ہے اورضروری ہے۔"
(زادالمعاد فی ھدی خیرالعباد3/568)
والله أعلم
جواب منجانب: شیخ ابوالمنذر الشنقیطی
عضو شرعی کمیٹی
منبرالتوحید والجہاد