سورۃ البقرہ ۔٢٧٨ تا ٢٨٣
اللہ کے نام سے جو بہت مہربان رحم کرنے والا ہے۔
٢٧٨۔ اے ایمان والو ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو جو کچھ باقی رہ گیا ہے سود اگر تم کو یقین ہے اللہ کے فرمانے کا ۔
٢٧٩۔ پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے ، اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے ہے اصل مال تمہارا ، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ۔
٢٨٠۔ اور اگر ہے تنگ دست تو مہلت دینی چاہئیے کشایش ہونے تک ، اور بخش دو تو بہت بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم کو سمجھ ہو ۔
٢٨١۔ اور ڈرتے رہو اس دن سے کہ جس دن لوٹائے جاؤ گے اللہ کی طرف ، پھر پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہو گا ۔
٢٨٢۔ اے ایمان والو جب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقرر تک تو اس کو لکھ لیا کرو ، اور چاہئے کہ لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے ، اور انکار نہ کرے لکھنے والا اس سے کہ لکھ دیوے جیسا سکھایا اس کو اللہ نے سو اس کو چاہئیے کہ لکھ دے اور بتلاتا جاوے وہ شخص کہ جس پر قرض ہے اور ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور کم نہ کرے اس میں سے کچھ ، پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے عقل ہے یا ضعیف ہے یا آپ نہیں بتلا سکتا تو بتلاوے کارگزار اس کا انصاف سے ، اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے ، پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلاوے اس کو وہ دوسری ، اور انکار نہ کریں گواہ جس وقت بلائے جاویں ، اور کاہلی نہ کرو اس کے لکھنے سے چھوٹا ہو معاملہ یا بڑا اس کی معیاد تک ، اس میں پورا انصاف ہے اللہ کے نزدیک اور بہت درست رکھنے والا ہے گواہی کو اور نزدیک ہے کہ شبہ میں نہ پڑو مگر یہ کہ سودا ہو ہاتھوں ہاتھ لیتے دیتے ہو اس کو آپس میں تو نہیں تم پر کچھ گناہ اگر اس کو نہ لکھو ، اور گواہ کر لیا کرو جب تم سودا کرو اور نقصان نہ کرے لکھنے والا اور نہ گواہ ، اور اگر ایسا کرو تو یہ گناہ کی بات ہے تمہارے اندر اور ڈرتے رہو اللہ سے ، اور اللہ تم کو سکھلاتا ہے ، اور اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے ۔
٢٨٣۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور نہ پاؤ کوئی لکھنے والا تو گرو ہاتھ میں رکھنی چاہئے ، پھر اگر اعتبار کرے ایک دوسرے کا تو چاہئے کہ پورا ادا کرے وہ شخص کہ جس پر اعتبار کیا اپنی امانت کو اور ڈرتا رہے اللہ سے جو رب ہے اس کا ، اور مت چھپاؤ گواہی کو ، اور جو شخص اس کو چھپاوے تو بے شک گنہگار ہے دل اس کا ، اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے ۔
٢٧٩۔ پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ سے اور اس کے رسول سے ، اور اگر توبہ کرتے ہو تو تمہارے واسطے ہے اصل مال تمہارا ، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ کوئی تم پر ۔
٢٨٠۔ اور اگر ہے تنگ دست تو مہلت دینی چاہئیے کشایش ہونے تک ، اور بخش دو تو بہت بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم کو سمجھ ہو ۔
٢٨١۔ اور ڈرتے رہو اس دن سے کہ جس دن لوٹائے جاؤ گے اللہ کی طرف ، پھر پورا دیا جائے گا ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ ہو گا ۔
٢٨٢۔ اے ایمان والو جب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقرر تک تو اس کو لکھ لیا کرو ، اور چاہئے کہ لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے ، اور انکار نہ کرے لکھنے والا اس سے کہ لکھ دیوے جیسا سکھایا اس کو اللہ نے سو اس کو چاہئیے کہ لکھ دے اور بتلاتا جاوے وہ شخص کہ جس پر قرض ہے اور ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور کم نہ کرے اس میں سے کچھ ، پھر اگر وہ شخص کہ جس پر قرض ہے بے عقل ہے یا ضعیف ہے یا آپ نہیں بتلا سکتا تو بتلاوے کارگزار اس کا انصاف سے ، اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے ، پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلاوے اس کو وہ دوسری ، اور انکار نہ کریں گواہ جس وقت بلائے جاویں ، اور کاہلی نہ کرو اس کے لکھنے سے چھوٹا ہو معاملہ یا بڑا اس کی معیاد تک ، اس میں پورا انصاف ہے اللہ کے نزدیک اور بہت درست رکھنے والا ہے گواہی کو اور نزدیک ہے کہ شبہ میں نہ پڑو مگر یہ کہ سودا ہو ہاتھوں ہاتھ لیتے دیتے ہو اس کو آپس میں تو نہیں تم پر کچھ گناہ اگر اس کو نہ لکھو ، اور گواہ کر لیا کرو جب تم سودا کرو اور نقصان نہ کرے لکھنے والا اور نہ گواہ ، اور اگر ایسا کرو تو یہ گناہ کی بات ہے تمہارے اندر اور ڈرتے رہو اللہ سے ، اور اللہ تم کو سکھلاتا ہے ، اور اللہ ہر ایک چیز کو جانتا ہے ۔
٢٨٣۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور نہ پاؤ کوئی لکھنے والا تو گرو ہاتھ میں رکھنی چاہئے ، پھر اگر اعتبار کرے ایک دوسرے کا تو چاہئے کہ پورا ادا کرے وہ شخص کہ جس پر اعتبار کیا اپنی امانت کو اور ڈرتا رہے اللہ سے جو رب ہے اس کا ، اور مت چھپاؤ گواہی کو ، اور جو شخص اس کو چھپاوے تو بے شک گنہگار ہے دل اس کا ، اور اللہ تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے ۔
مختصر تفسیر ۔
یعنی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے سو لے چکے لیکن ممانعت کے بعد جو چڑھا اس کو ہرگز نہ مانگو۔
یعنی پہلے سود جو تم لے چکے ہو اس کو اگر تمہارے اصل مال میں محسوب کریں اور اس میں سے کاٹ لیویں تو تم پر ظلم ہے اور ممانعت کے بعد کا سود چڑھا ہوا اگر تم مانگو تو یہ تمہارا ظلم ہے۔
یعنی جب سود کی ممانعت آگئی اور اس کا لینا دینا موقوف ہو گیا تو اب تم مدیون مفلس سے تقاضا کرنے لگو یہ ہر گز نہ چاہیے بلکہ مفلس کو مہلت دو اور توفیق ہو تو بخش دو۔
یعنی قیامت کو تمام اعمال کی جزاء اور سزا ملے گی تو اب ہر کوئی اپنا فکر کرلے اچھے کام کرے یا بُرے سود لے یا خیرات کرے۔
پہلے صدقہ خیرات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان فرمائے اس کے بعد ربوا اور اسکی حرمت اور برائی مذکور ہوئی اب اس معاملہ کا ذکر ہے جس میں قرض ہواور آیندہ کسی مدت کا وعدہ ہو اسکی نسبت یہ معلوم ہوا کہ ایسا معاملہ جائز ہے مگر چونکہ یہ معاملہ آیندہ مدت کے لئے ہوا ہے بھول چوک خلاف ونزاع کا احتمال ہے اس لئے یہ ضرور ہے کہ اس کا تعین اور اہتمام ایسا کیا جائے کہ آیندہ کوئی قضیہ اور خلاف نہ ہو۔ اس کی صورت یہی ہے کہ ایک کاغذ لکھو جس میں مدت کا تقرر ہو اور دونوں معاملہ والوں کا نام اور معاملہ کی تفصیل سب باتیں صاف صاف کھول کر لکھی جاویں کاتب کو چاہیئے بلا انکار جس طرح شرع کا حکم ہے اسکے موافق انصاف میں کوتاہی نہ کرے اور چاہیئے کہ مدیون اپنے ہاتھ سے لکھے یا کاتب کو اپنی زبان سے بتلائے اور دوسرے کے حق میں ذرا نقصان نہ ڈالے۔
یعنی جو دیندار اور مدیون ہے وہ اگر بے عقل بھولا یا سست اور ضعیف ہے مثلاََ بچہ ہے یا بہت بوڑھا ہے کہ معاملہ کے سمجھنے کی سمجھ ہی نہیں ہے یا معاملہ کو کاتب کو بتلا نہیں سکتا تو ایسی صورتوں میں مدیون کے مختار اور وارث اور کارگذار کو چاہیئے کہ معاملہ کو انصاف سے بلا کم وکاست لکھوا دے۔
اور تم کو چاہیے کہ اس معاملہ پر کم سے کم دو گواہ مردوں میں سے یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں اور گواہ قابل پسند یعنی لایق اعتبار اور اعتماد ہوں۔
یعنی گواہ کو جس وقت گواہ بنانے کے لئے یا ادائے شہادت کے لئے بلائیں تو اس کو کنارہ یا انکار نہ چاہیئے اور کاہلی اور سستی نہ کرو اُس کے لکھنے لکھانے میں معاملہ چھوٹا ہو یابڑا کہ انصاف پورا اسمیں ہے اور گواہی پر بھی کامل اعتماد اسی لکھ لینے میں ہے اور بھول چوک اور کسی کے حق ضائع ہونے سے اطمینان بھی اس میں ہے۔
یعنی اگر سوداگری کا معاملہ دست بدست ہو جنس کے بدلے جنس یا نقد کی طرح معاملہ ہو مگر ادھار کا قصہ نہ ہو تو اب نہ لکھنے میں گناہ نہیں مگر گواہ بنا لینا اس وقت بھی چاہیے کہ اس معاملہ کے متعلق کوئی نزاع آیندہ پیش آئے تو کام آئے اور لکھنے والا اور گواہ نقصان نہ کرے یعنی مدعی اور مدعٰی علیہ میں سے کسی کا بھی نقصان نہ کرے بلکہ جو حق واجبی ہو وہ ہی ادا کریں۔
یعنی اگر سفر میں قرض اور ادھار کا معاملہ کرو اور دستاویز کے لئے کوئی کاتب نہ ملے تو قرض کے عوض کوئی چیز مدیون کو رہن رکھ دینی چاہیئے۔
سفر میں رہن کی حاجت بہ نسبت حضرزیادہ ہو گی کیونکہ حضر میں کتابت و شہادت سے بھی بسہولت صاحب دَین کا اطمینان ممکن ہے اس لئے سفر میں رہن کا حکم ہوا اور نہ حَضر میں اور کاتب کی موجودگی میں بھی رہن درست ہے جیسا کہ حدیث میں موجود ہے اور اگر صاحبِ دَین کو مدیون پر اعتماد اور اس کا اعتبار ہو اور اس لئے رہن کا طالب نہ ہو تو مدیون کو لازم ہے کہ صاحبِ دَین کا حق تمام و کامل ادا کردے اور خدا سے ڈرتا رہے صاحبِ حق کے حق میں امانت سے معاملہ کرے۔
یعنی ممانعت سے پہلے جو سود لے چکے سو لے چکے لیکن ممانعت کے بعد جو چڑھا اس کو ہرگز نہ مانگو۔
یعنی پہلے سود جو تم لے چکے ہو اس کو اگر تمہارے اصل مال میں محسوب کریں اور اس میں سے کاٹ لیویں تو تم پر ظلم ہے اور ممانعت کے بعد کا سود چڑھا ہوا اگر تم مانگو تو یہ تمہارا ظلم ہے۔
یعنی جب سود کی ممانعت آگئی اور اس کا لینا دینا موقوف ہو گیا تو اب تم مدیون مفلس سے تقاضا کرنے لگو یہ ہر گز نہ چاہیے بلکہ مفلس کو مہلت دو اور توفیق ہو تو بخش دو۔
یعنی قیامت کو تمام اعمال کی جزاء اور سزا ملے گی تو اب ہر کوئی اپنا فکر کرلے اچھے کام کرے یا بُرے سود لے یا خیرات کرے۔
پہلے صدقہ خیرات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان فرمائے اس کے بعد ربوا اور اسکی حرمت اور برائی مذکور ہوئی اب اس معاملہ کا ذکر ہے جس میں قرض ہواور آیندہ کسی مدت کا وعدہ ہو اسکی نسبت یہ معلوم ہوا کہ ایسا معاملہ جائز ہے مگر چونکہ یہ معاملہ آیندہ مدت کے لئے ہوا ہے بھول چوک خلاف ونزاع کا احتمال ہے اس لئے یہ ضرور ہے کہ اس کا تعین اور اہتمام ایسا کیا جائے کہ آیندہ کوئی قضیہ اور خلاف نہ ہو۔ اس کی صورت یہی ہے کہ ایک کاغذ لکھو جس میں مدت کا تقرر ہو اور دونوں معاملہ والوں کا نام اور معاملہ کی تفصیل سب باتیں صاف صاف کھول کر لکھی جاویں کاتب کو چاہیئے بلا انکار جس طرح شرع کا حکم ہے اسکے موافق انصاف میں کوتاہی نہ کرے اور چاہیئے کہ مدیون اپنے ہاتھ سے لکھے یا کاتب کو اپنی زبان سے بتلائے اور دوسرے کے حق میں ذرا نقصان نہ ڈالے۔
یعنی جو دیندار اور مدیون ہے وہ اگر بے عقل بھولا یا سست اور ضعیف ہے مثلاََ بچہ ہے یا بہت بوڑھا ہے کہ معاملہ کے سمجھنے کی سمجھ ہی نہیں ہے یا معاملہ کو کاتب کو بتلا نہیں سکتا تو ایسی صورتوں میں مدیون کے مختار اور وارث اور کارگذار کو چاہیئے کہ معاملہ کو انصاف سے بلا کم وکاست لکھوا دے۔
اور تم کو چاہیے کہ اس معاملہ پر کم سے کم دو گواہ مردوں میں سے یا ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنائی جائیں اور گواہ قابل پسند یعنی لایق اعتبار اور اعتماد ہوں۔
یعنی گواہ کو جس وقت گواہ بنانے کے لئے یا ادائے شہادت کے لئے بلائیں تو اس کو کنارہ یا انکار نہ چاہیئے اور کاہلی اور سستی نہ کرو اُس کے لکھنے لکھانے میں معاملہ چھوٹا ہو یابڑا کہ انصاف پورا اسمیں ہے اور گواہی پر بھی کامل اعتماد اسی لکھ لینے میں ہے اور بھول چوک اور کسی کے حق ضائع ہونے سے اطمینان بھی اس میں ہے۔
یعنی اگر سوداگری کا معاملہ دست بدست ہو جنس کے بدلے جنس یا نقد کی طرح معاملہ ہو مگر ادھار کا قصہ نہ ہو تو اب نہ لکھنے میں گناہ نہیں مگر گواہ بنا لینا اس وقت بھی چاہیے کہ اس معاملہ کے متعلق کوئی نزاع آیندہ پیش آئے تو کام آئے اور لکھنے والا اور گواہ نقصان نہ کرے یعنی مدعی اور مدعٰی علیہ میں سے کسی کا بھی نقصان نہ کرے بلکہ جو حق واجبی ہو وہ ہی ادا کریں۔
یعنی اگر سفر میں قرض اور ادھار کا معاملہ کرو اور دستاویز کے لئے کوئی کاتب نہ ملے تو قرض کے عوض کوئی چیز مدیون کو رہن رکھ دینی چاہیئے۔
سفر میں رہن کی حاجت بہ نسبت حضرزیادہ ہو گی کیونکہ حضر میں کتابت و شہادت سے بھی بسہولت صاحب دَین کا اطمینان ممکن ہے اس لئے سفر میں رہن کا حکم ہوا اور نہ حَضر میں اور کاتب کی موجودگی میں بھی رہن درست ہے جیسا کہ حدیث میں موجود ہے اور اگر صاحبِ دَین کو مدیون پر اعتماد اور اس کا اعتبار ہو اور اس لئے رہن کا طالب نہ ہو تو مدیون کو لازم ہے کہ صاحبِ دَین کا حق تمام و کامل ادا کردے اور خدا سے ڈرتا رہے صاحبِ حق کے حق میں امانت سے معاملہ کرے۔
Comment