Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

مجوسیت اور رومن کیتھولک

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مجوسیت اور رومن کیتھولک

    قومیں فنا ہو جاتی ہیں مگر نئی نسلوں کے طرز معاشرت پر، صنعت و حرفت پر،
    سوچ کے انداز اور ادب و فن کے کردار پر ان کا اثر باقی رہتا ہے۔۔۔زبانیں مردہ ہو جاتی ہیں
    لیکن ان کے الفاظ و محاورے ، علاماتاوراستعارات نئی زبانوں میں داخل ہو کر ان کا جز بن جاتے ہیں
    پرانے عقائد کی خدائی ختم ہو جاتی ہے لیکن نئے مذہب کی ہر آستین اور عمامہ و دستار کے
    پر پیچ میں پرانے بت پوشیدہ رہ جاتے ہیں،،تہذیبیں مٹ جاتی ہیں لیکن ان کے نقش و نگار سے
    نئی تہذیب کے ایوان جگمگاتے ہیں۔۔۔۔۔




    کسی کو شاید یاد نہیں رہا کہ ایسٹر کا تیوہار درحقیقت بعل اور اُزریس کے تیوہاروں کی نقل ہے
    شاید کسی نے یہ یاد کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی توریت زبور انجیل وغیرہ میں تخلیق
    آدم کی جو داستانیں بیان کی گئیں وہ بابل کنعان اور مصر کی قدیم دیو مالا داستانوں سے ماخوز ہیں




    ابتدائی دور کی عیسائیت کا مطالعہ ہمیں بتاتا کہ جناب عیسیٰ کی تبلیغ کا دائرہ
    کار نہایت ہی محدود تھا کیونکہ ان کو عین شباب میں سولی پر گاڑ دیا گیا تھا
    ان کی زندگی پر عجیب و غریب روایات کا دھندلکا چھایا ہوا ہے
    تاہم اتنا یقینی ہے کہ وہ ایک غریب یہودی گھرانے کے فرد تھے اور انہوں
    نے تبلیغ کا کام چھوٹی عمر سے شروع کر دیا تھا۔ان کی دعوات بنی اسرائیل
    کی ہی اصلاح تک محدود تھی لیکن یہودیوں نے انہیں مسیحا ماننے سے انکار کر دیا






    اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا



    یہ کرشمہ تاریخ عالم کے عجوبات میں سے ہے کہ جناب عیسی ٰ کی اتنی محدود سی
    تعلیمات بعد میں ایک ہمہ گیر کلیسا ( رومن کیتھولک ) کی صورت کیسے اختیار کر گئی
    اہل تحقیق کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ

    نے رکھی تھی جسے بعد میں پولس یا پال کہا گیا جو یونانی و رومی دیومالا کے علاوہ
    اشراقی فلسفے کا بھی عالم تھا۔۔ابتدائے عمر میں وہ جناب عیسی کا سخت مخالف تھا
    لیکن بقول خود ایک دن راستہ چلتے ہوئے اس نے مکاشفے میں جناب عیسی کو دیکھا اور
    اسی دن ان کا حلقہ بگوش ہو گیا اور ان کی تعلیمات کا عزم کر لیا جب وہ یہودیوں کی طرف
    گہا انہوں نےا س کی مخلافت کی تو اس نے غیر اقوام میں جانے کا رادہ کیا اور یہودوں سے
    کہا


    بت پرست اقوام میں اپنے مذہب کو پھیلانے کے لیے پولس
    نے ختنہ موقوف کر دیا اور انہیں خوش کرنے کے لیے
    یہودیوں کے سبت ( سنچر ) کے بجائے اتوار ( سورج کا دن)
    کو سبت بنا لیا پولس نے بت پرستوں کی دیو مالائی
    روایات کو بھی اپنے مذہب میں سامل کر لیا جس سے غیر اقوام
    کے لوگ ایمان لانے لگے۔
    سورج پوجا کا مذۃب صائیبت کا مرکزی نقطہ تھا صائیبین
    اپنے سورج دیوتا بعل مردوک کو خداوند جانتے تھے
    ان کی سورج پوجا کے روم و شعائر تمام معاصر اقوام
    میں نفوذ کر گئے ایران میں سورج دیوتا کی پوجا متھرا
    کے نام سے کی جاتی تھی
    یہ دیکھ کر چنداں حیرت نہیں ہوتی کے پولس نے اپنا نیا مذہب
    مقبول بنانے کے لیے جناب عیسی کو سورج دیوتاکے ہی
    روپ میں پیش کیا
    سورج دیوتاوں میں کئی عناصر مشترک تھے جو جناب عیسی
    کیئ ذات سے منسوب کر دئے گئے
    1 تمام سورج دیوتا جناب عیسی کی طرح کرسمس کے دن
    یا اس کے لگ بھگ دن پیدا ہوئے
    سب سورج دیوتا کنواری ماں کے بطن سے پیدا ہوئے
    وہ کسی غار میں یا کسی زیر زمین مقام میں پیدا ہوئے
    ۔بعد میں عیسائیوں نے جناب عیسی کی پئیدائش غار کے بجائے چرنی میں دکھائی
    انہوں نے انسان کی خاطر مصائیب برداشت کئے
    انہیں روشنی بردار، شفیح نجات دہندہ اور بخش گر کے القابات
    دئے گئے
    ان پر تاریکی کی قوت نے غلبہ پا لیا
    وہ زمیں دوز مملکت میں چلے گئے
    وہ مردوں میں سے دوبارہ زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے
    انہوں نے عبادے گاہیں بنائی اور اولیا کے مت کی بنیاد رکھی
    اور اپنے پیرووں کو بپتسمہ دینے کا رواج دیا

    ان کے ہاں مقدس ضیافت کی روایت تھی جس میں خدا کے بدن
    کو تمثیلی انداز میں روٹی کی صورت میں کھاتے تھے اور
    اس کےلہو کو شراب کی صورت میں پیتے تھے تا کہ خدا کی برکت
    ان میں حلول کر جائے

    یہ ساری روایات جو سورج دیوتائوں سے منسوب تھی پولس
    اور ان کے حواریوں نے جناب عیسی سے منسوب کر کے ان کی
    سادہ تعلیمات پر قدیم دیومالائی سورج پوجا اور اس سے
    وابستہ رسوم و شعائر کا پیوند لگا کر اس کا حلیہ ہی
    بگاڑ دیا

    چنانچہ ماڈرنسٹ کی کیمبرج کانفرنس میں صاف کہا گیا کہ
    موجودہ کلیسا کے بانی جناب عیسی نہیں تھے
    ایران میں سورج کی پوجا متھرا مت کے نام سے کی جاتی تھیں پولس نے متھرا مت کی رسم و روایات
    من و عن عیسائیت میں داخل کر لی متھرا یعنی سورج دیوتا کی طرح جناب عیسی کو بھی شفیع اور منجی
    بنا دیا گیا۔۔متھرا کے بھی بارہ حواری تھے اور وہ بنی نوح انسان کی خدمت کرتا ہوا جان بحق ہوا
    اس کی ولادت موت اور احیا کے تہوار بڑے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں یہ بات بھی قابل غور
    ہے کہ شروع شروع میں ضناب عیسیٰ کو یوم ولادت6 جنوری کا منایا جاتا تھا لیکن 353 ب م میں
    پوپ لائیبر یس نے اسے 25 دسمبر سے بدل دیا جو متھرا یعنی سورج دیوتا کا یوم دلادت ہے 25 دسمبر
    یا اس سے آگے پیچھے کی تاریخیں تمام سورج دیوتائوں کی ولادت کی تاریخیں ہیں کیونکہ انہی ایام میں
    سورج اپنے زوال کو پہنچ کر دوبارہ شمال کی جانب اپنا سفر شروع کر دیتا ہے جس کی خوشی میں یوم ولادت
    منایا جاتا ہے ۔۔کلیسائے یونان آج بھی جناب عیسیٰ کا یوم ولادت 7 جنوری کا مناتے ہیں
    کم و بیش تمام قدیم دیو مالائوں میں سورج دیوتا کے مرنے ( غروب) اور دوباری زندہ ہونے ( طلوع) کا قصہ
    صائیبین سے مستعار لییا گیا ہے جو طلوع کے وقت شکرانے اور غروب افتاب کے وقت غم و افسوس کی
    نماز پڑھا کرتے تھے

    بعل مردوخ ( سورج دیوتا ) کی زندگی کے بارے میں اشور کی گلی الواح میں جو تفصیل ملی ہیں ان میں
    اور جناب عیسی کے سوانح جو کلیسائے روم نے پیش کیا بے حد مماثلت ہے ملاحظہ ہو
    بعل کو گرفتار کر لیا گیا
    بعل زخمی ہو گیا
    بعل کو پہاڑی پر لے جایا گیا
    بعل کے ساتھ ایک دیوی بھی گئی ( عیسائیوں کی میری میگدلن )
    جناب عیسی کی طرح بعل کا لبادہ بھی اتارا گیا
    میری میگدلن کی طرح ایک عورت نے بعل کے زخم دھوئے
    بعل مر گیا

    بعل جی اٹھا
    بعل کی بڑی ضیافت مارچ میں دی جاتی تھی
    ایسٹر روشنی اور بہار کی دیوی تھی جس کے اعزاز میں ایسٹر کا تہوار منایا جاتا تھا

    عیسائیوں کو متھرا مت سے بڑا خطرہ تھا کیونکہ کیتھولک کلیسا نے ان کے رسوم رواج من و عن عئسائیت
    میں داخل کئے تھے اس لیے انہوں نے متھرا مت سے متعلق بے شمار کتابیں اآگ میں پھینک دیں
    ان کے معبد ہر کہیں پہ مسمار کر دئے گئے ان کے پیرووں کا قتل عام کیا اس طرح متھرا مت کے اثار
    ملیا میٹ کر دئے لیکن رومن کیتھولک کلیسا میں متھرا مت اور بعل پوجا کی رسوم و رویات آج بھی باقی
    ہیں آج بھی کلیسا کا رخ مشرق کی جانب رکھا جاتا ہے تاکہ سورج کی پہلی کرنیں اس کی قربان گاہ پہ پڑیں
    رومن کیتھولک راہب اور راہبائیں سر کے بال منڈوا دیتی تھی تاکہ سروں پر سورج کی تھالی بن جائے
    عشائے ربانی بپتسمہ کرسمس ایسٹر کے اثار آج بھی باقی ہیں

    اسطرح صائیبین کی سورج پوجا کا مت متھرا مت کی صورت میں کلیسائے روم میں نفوذ کر گیا اور آج
    کی یہ سورج پوجا رومن کیتھولک کلیسا کی صورت میں باقی و برقرار ہے



    بابا کھجل سائیں
    :ys:
    Last edited by Dr Fausts; 9 August 2011, 19:48.
    :(

  • #2
    Re: مجوسیت اور رومن کیتھولک

    very informative....buhat umda tareqay say app nay catholics par roshni dali..kya app font colour black nahi use kar sakty ye buhat shining hain:donno:
    and thank you so much
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: مجوسیت اور رومن کیتھولک

      Bohat shukria


      liken green color to itna Shining nahii ma14 aug ki waja sa ajkal
      green col ma posting kar reha warna mara fav col navy blue ha ma
      zaida tar usi color ma posting karta....



      aik dafa phir bohat shukria comments ka



      Khush rehay



      Professor BaytaabTabaani ..... :ys:
      :(

      Comment

      Working...
      X