حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
Collapse
X
-
Re: حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
عمروبن جموح کے لڑکے مناۃ کے اپنے باپ کے غیر معمولی تعلق خاطر کواچھی طرح جانتے تھے۔ ان کو یہ بات بھی خوب معلوم تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ان کے لیے ایک جزو لازم بن چکا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کو اس بات کااندازہ بھی ہوگیا تھا کہ ان کے دل میں اس کی عقیدت ونیامندی کی بنیاد متزلزل ہورہی ہے۔ اب یہ ان کاکام ہے کہ اس کی عقیدت کو ان کے دل سے پورے طور پر نکال دیں۔ ان کو ایمان کی طرف لانے کی یہی ایک شکل تھی۔
عمروبن جموح کے لڑکے رات کی تاریکی میں اپنےدوست معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مناۃ کےپاس پہنچے اور اس کو اس کی جگہ سے اٹھا کر بنوسلمہ کے اس گڑھے پر لے گئے جس میں وہ کوڑا کرکٹ اور گندگی ڈالتے تھے۔ لڑکے اس کو گڑھے میں پھینک گھر لوٹ آئے اور اس کاروائی کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ صبح کو جب عمرو بن جموح اپنے بت کے پاس اظہار عقیدت کے لیے پہنچے تو اسے اپنی جگہ سے غائب پایا۔ یہ دیکھ کر انہوں نے گھر والوں سے کہا"کہ تم لوگوں کا برا ہو۔ آج رات میرے معبود کے ساتھ کس نے زیادتی کی ہے؟ لیکن کسی نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ گھر کے اندر اور باہر اس کو تلاش کرتے پھرے۔وہ شدت غضب میں گھر والوں کو دھمکی دیتے رہے اور آخرکافی تلاش کے بعد وہ ان کو گڑھے میں منہ کے بل اوندھا پڑاہوا مل گیا۔ انہوں نے اسے وہاں سے نکالا اسے دھو کر صاف کیا اور خوشبو لگا کر دوبارہ اس کی جگہ پر رکھتے ہوئے بولے۔
"خدا کی قسم اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تمہارے ساتھ کس نے یہ حرکت کی ہے تو میں اسے سخت سزا دوں گا"
دوسری رات بھی لڑکوں نے مناۃ کے ساتھ وہی حرکت کی جو پچھلے رات کر چکے تھے۔ صبح کو جب بڑےمیاں نے اسے تلاش کیا تو اسی گڑھے میں گندگی میں ملوث پایا۔ آج بھی انہوں نے اس کو وہاں سے باہر نکلا کر دھویا اور خوشبو لگا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا۔
لڑکے ہر رات اس کے ساتھ یہی سلوک کرتے رہے یہاں تک کہ جب عمرو بن جموح ان کی اس حرکت سے بالکل تنگ آگئے تو رات سونے سے پہلے اس کے پاس گئے اور اپنی تلوار اس کی گردن میں لٹکاتے ہوئے بولے۔
"اے مناۃ!خدا کی قسم مجھے نہیں معلوم کہ تیرے ساتھ یہ حرکت کون کرتا ہے اگر تیرے اندر ذرا بھی خیر ہوتو اپنا دفاع کر۔یہ تلوار تیرے پاس ہے"۔ یہ کہہ کر وہ اپنی خواب گاہ میں چلے گئے اور جب لڑکوں کو اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ بڑےمیاں گہری نیند سو چکے ہیں تو وہ جھٹ بُت کے پاس پہنچے۔ انہوں نے اس کی گردن میں پڑ ی ہوئی تلوار نکال لی اور اس کو گھر سے باہر لے گئے۔اب کی بار انہوں نے ایک مردہ کتے کو اس کے ساتھ باندھ دیا۔اور دونوں کو بنوسلمہ کے اسی گڑھے میں پھینک دیا جس میں گندگی اور غلاظت بھری ہوئی تھی۔ صبح کو جب بڑےمیاں سوکر اٹھے اور بت کواپنی جگہ موجود نہں پایا تو اس کی تلاش میں نکلے اور حسب معمول اس کو اسی گڑھے میں اس حال میں منہ کے بل پڑا ہوا پایا کہ اس کے ساتھ ایک مردہ کتا بندھا ہوا تھا اور تلوار اس سے چھین لی گئی تھی۔ اب کی بار انہوں نے اس کو گڑھے سے نہیں نکالا بلکہ جہاں لڑکوں نے اسے پھینکا تھا وہیں چھوڑ دیا اور بولے
"خدا کی قسم اگر تو واقعی معبود ہوتا تو کتے کے ساتھ بندھا ہوا گڑھے میں نہ پڑا ہوتا"
پھر اس کے بعد انہیں خدا کے دین میں داخل ہوتے دیر نہ لگی۔
جب حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ نے حلاوت ایمان کا مزہ چکھ لیاتو اپنی عمر کے اس ایک ایک لمحہ پریشانی اور ندامت کا اظہار کرنے لگے جو شرک کی حالت میں گزرا تھا۔ ایمان لانے کے بعد وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ نئے دین کی طرف متوجہ ہوگئے اور اپنے نفس، اپنے مال اور اپنی اولاد کو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے وقف کردیا۔
حضرت عمروبن جموح کے مشرف بہ اسلام ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد احد کا معرکہ پیش آیا۔ انہوں نے اپنے تینوں بیٹوں کودشمنان خدا سے مقابلہ کی تیاریاں کرتے ہوئے دیکھا ، وہ انہیں صبح و شام بپھرے ہوئے شیروں کی طرح آتےجاتے دیکھتے۔ ان کے چہرے دولت شہادت اور رضائے الٰہی کے حصول کے شوق میں جگمگا رہے تھے۔ اس صورتحال نے ان کے اندر بھی جوش و حمیت کوبرانگیختہ کردیا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر قیادت اپنے بیٹوں کے ساتھ جہاد میں شریک ہونے کا تہیہ کرلیا۔ لیکن ان کے لڑکے ان کو اس ارادے سے باز رکھنےپر متفق الرائے ہوگئے۔ کیونکہ وہ ایک سن رسیدہ بوڑھے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے پاوں میں شدید لنگ تھا اورایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں شرکت جہادسے معذور قراردیاتھا۔ ان کے بیٹوں نے ان سے کہا کہ" ابا جان! اللہ تعالیٰ نے آپ کو معذور قراردیا ہے۔ آپ خود کو ایسی بات کا مکلف کیوں قرار دے رہے ہیں جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیاہے" حضرت عمرو بن جموح ان کی اس بات سے سخت ناراض ہوئے اور ان کی شکایت کرنے کے لیے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔
" اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے بیٹے مجھے اس خیر سے باز رکھنا چاہتے ہیں یہ کہتے ہیں کہ میں لنگڑا ہوں اور معذور ہونے کی وجہ سے جہاد میں شریک ہونا میرے لیے ضروری نہیں ہے۔ خدا کی قسم مجھے امید ہے کہ میں اپنی اس ٹانگ سے جنت میں داخل ہوں گا"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ ذوق شوق دیکھا تو ان کے لڑکوں سے فرمایا کہ: ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کو شہادت عطافرمائے"۔ چنانچہ لڑکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق خاموش ہوگئے۔
جب مجاہدین کی روانگی کا وقت آیا تو حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ اپنی اہلیہ سے ملے اور ان سے اس طرح رخصت ہوئے جیسے انہیں لوٹ کر واپس نہیں آنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے قبلہ رو ہوکر اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے اور دعا کی۔
خدایا مجھے شہادت کی دولت نصیب فرما۔ خدایا! مجھے ناکام اور نامراد اور شہادت سے محروم کر کے واپس نہ لوٹا"۔
پھر وہ اس شان سے میدان جہاد کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کے تینوں لڑکے اور ان کے قبیلہ بنو سلمہ کی ایک کثیرتعداد نے انہیں اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا اور جب معرکہ کارزار گرم ہوا اور مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھرڑ کر منتشر ہوگئے تو عجیب منظر دیکھنے مں آیا کہ حضرت عمروبن جموح اپنی تندرست ٹانگ سے کودتے ہوئے مسلمانوں کی اس اگلی جماعت میں شامل ہوگئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے آگے بڑھی تھی اوراس وقت تمنائے شہادت لفظوں کی شکل میں انکے لبوں پر مچل رہی تھی۔ " میں جنت کا مشتاق ہوں، میں جنت کا مشتاق ہوں
اس وقت ان کے ایک صاحبزادے حضرت خلاد عقب سے ان کی حفاظت کر رہے تھے وہ دونوں باپ بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتےہوئے مشرکین سے برابر لڑتے رہے۔ یہاں تک کہ دونوں میدان جنگ میں شہید ہوکر گرپڑے اور دونوں کی شہادت کے درمیان چند لمحات سے زیادہ کاوقفہ حائل نہیں تھا۔
جب جنگ ختم ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد کی تجہیز و تکفین کے لیے کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ " انہیں ان کے خون اور زخموں سمیت ہی دفن کردو میں ان کا گواہ ہوں" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان راہ خدا میں زخمی ہوگا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ زخموں سے اس کا خون جاری ہوگا۔ اس خون کا رنگ زعفرانی اور اس کی خوشبو مشک کی خوشبو کی طرح ہوگی" پھر فرمایا": عمروبن جموح کو عبداللہ کے ساتھ دفن کرنا۔یہ دونوں اس دنیا میں ایک دوسرے کے نہایت گہرے اور مخلص دوست تھے۔
اللہ تعالیٰ حضرت عمرو بن جموح اور ان کے ساتھی شہدا احد سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو نور سے بھردے۔آمینI aM Not a complete Idiot......Some parts are Missing........
-
Re: حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اللہ تعالیٰ حضرت عمرو بن جموح اور ان کے ساتھی شہدا احد سے راضی ہو اور ان کی قبروں کو نور سے بھردے۔آمین
;thmbup:
Comment
Comment