Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
Collapse
X
-
Re: Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
اس حدیث کو اگر غور سے پڑھا جائے یا کسی عربی دان سے اس کا ترجمہ کرایا جائے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ وہ آواز فرشتوں کی ہوگی جو اس سے سوال پوچنے آئیں گے۔ ورنہ ایسا ہو کہ دفنانے والوں کی آواز ہوگی تو ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا جو ڈوب کر، بم بلاسٹ، جلا کر، اور جس کو ایسے ہی مٹی ڈال کر دبا دیا جائے تو وہ کیسے اٹھ کر بیٹھے گا اور جو جل گئے ان کے کان میں کیسے ہتھوڑا مارا جائے گا وغیرہ تو یہ سارا معاملہ برزخی ہے جو اس دنیاوی قبر میں نہیں ہوسکتا یہ برزخی قبر میں ہی ممکن ہے، ورنہ ایک حدیث ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے کے پاس سے گذرے اور لوگ اس پر رو رہے تھے تو آپ نے فرمایا یہ یہاں اس پر رو رہے ہیں اور اس کو قبر میں عزاب ہو رہا ہے تو اس حدیث سے بھی یہ پتہ چل گیا کہ عذاب تو مرتے ہی شروع ہوجاتا ہے جب کہ اس یہودیہ کو دفنایا بھی نہیں گیا تھا، امید ہے کہ بات سمجھ میں آگئی ہوگیLearn Adsene & SEO in urdu
Comment
-
Re: Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
اس حدیث کو اگر غور سے پڑھا جائے یا کسی عربی دان سے اس کا ترجمہ کرایا جائے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ وہ آواز فرشتوں کی ہوگی جو اس سے سوال پوچنے آئیں گے۔ ورنہ ایسا ہو کہ دفنانے والوں کی آواز ہوگی تو ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا جو ڈوب کر، بم بلاسٹ، جلا کر، اور جس کو ایسے ہی مٹی ڈال کر دبا دیا جائے تو وہ کیسے اٹھ کر بیٹھے گا اور جو جل گئے ان کے کان میں کیسے ہتھوڑا مارا جائے گا وغیرہ تو یہ سارا معاملہ برزخی ہے جو اس دنیاوی قبر میں نہیں ہوسکتا یہ برزخی قبر میں ہی ممکن ہے، ورنہ ایک حدیث ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے کے پاس سے گذرے اور لوگ اس پر رو رہے تھے تو آپ نے فرمایا یہ یہاں اس پر رو رہے ہیں اور اس کو قبر میں عزاب ہو رہا ہے تو اس حدیث سے بھی یہ پتہ چل گیا کہ عذاب تو مرتے ہی شروع ہوجاتا ہے جب کہ اس یہودیہ کو دفنایا بھی نہیں گیا تھا، امید ہے کہ بات سمجھ میں آگئی ہوگیLearn Adsene & SEO in urdu
Comment
-
Re: Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
uper saaf saaf likha hai keh murda usey dafnanaey walon ki awaaz sunta hai, aur murda insanon kay jooton ki awaz sunta hai. baqi baat rahi un logon ki jo doob kar, bomb blast ya jal kar martay hain to yaad rakhiey keh allah azwajal har cheez par qadir hai, chahey koi shaks kaissey bhi marey khawa wo musalman ho ya no ho, usay allah dobara zinda karta hai marney kay baad aur us say sawal jawab hotey hain. jab insaan qabar main jata hai to 2 farishtay atey hain aur usey betha kar 3 sawal kartey hain aur phir usay janant aur jhahanam dikhataey hain. aur phir us insaan par allah azwajal ki rehmat ya us ka azaab hota hai.
jee han agar koi kafir marta hai to yaqeenan usay martey hi azaab shuru ho jata hai lekin jab usay qabar mein litaya jata hai to yaqeenan us say bhi Sawal jawab hotey hain chahey wo kafir hi kyon na ho.
umeed hai keh aapbhi samjh gaey hon gay!
Comment
-
Re: Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
Assalaam-O-Alaikum
JAZAK ALLAH KHAIR... main nay bhi confirm kia hay yeh Sahih Muslim ki hadith number 6862 hay jis ka English main translation yeh hay
"Anas b. Malik reported Allah's Apostle (may peace be upon him) having said: When the servant is placed in his grave and his companions retrace their steps arid he hears the noise of the footsteps, then two angels come to him and make him sit and say to him: What you have to say about this person (the Holy Prophet)? If he is d believer, lie would say: I bear testimony to the fact that he is a servant of Allali and His Messenger. Then it would be said to him: Look to your seat in the Hell- Fire, for Allah has substituted (the seat of yours) with a seat in Paradise. Allah's Messenger (may peace be upon him) said: He would be shown both the seats. Qatada said: It was mentioned to us that his grave (the grave of a believer) expands to seventy cubits and is full with verdure until the Day when they would be resurrected. "
Sahih Muslim saha-e-satta main shaamil hay aur iss ki hadith kam hi dhaef hoti hain.. Walla Hu Alam bi Sawab.
Thank you for posting.
Fi Amaan ALLAHsigpic
Comment
-
Re: Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
Originally posted by sainompk View Postاس حدیث کو اگر غور سے پڑھا جائے یا کسی عربی دان سے اس کا ترجمہ کرایا جائے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ وہ آواز فرشتوں کی ہوگی جو اس سے سوال پوچنے آئیں گے۔ ورنہ ایسا ہو کہ دفنانے والوں کی آواز ہوگی تو ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا جو ڈوب کر، بم بلاسٹ، جلا کر، اور جس کو ایسے ہی مٹی ڈال کر دبا دیا جائے تو وہ کیسے اٹھ کر بیٹھے گا اور جو جل گئے ان کے کان میں کیسے ہتھوڑا مارا جائے گا وغیرہ تو یہ سارا معاملہ برزخی ہے جو اس دنیاوی قبر میں نہیں ہوسکتا یہ برزخی قبر میں ہی ممکن ہے، ورنہ ایک حدیث ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے کے پاس سے گذرے اور لوگ اس پر رو رہے تھے تو آپ نے فرمایا یہ یہاں اس پر رو رہے ہیں اور اس کو قبر میں عزاب ہو رہا ہے تو اس حدیث سے بھی یہ پتہ چل گیا کہ عذاب تو مرتے ہی شروع ہوجاتا ہے جب کہ اس یہودیہ کو دفنایا بھی نہیں گیا تھا، امید ہے کہ بات سمجھ میں آگئی ہوگیآپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
بھائی نے عنوان قائم کیا تھا کہ مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے تو آپ نے جھٹ سے فتوٰی لگا دیا کہ اس حدیث کو اول غور سے پڑھا جائے یا پھر کسی عربی دان سے اس کا ترجمہ کرایا جائے تو فلاں فلاں بات عیاں ہوجائے گی ؟
لیجیئے ہم نے پڑھ لی حدیث غور سے اور ترجمہ بھی ایک اہلحدیث ویب سائٹ سے نیچے پیش کیئے دیتے ہیں تو بھلا بتلائیے کیا فرق پڑا اس مؤقف میں ؟؟؟؟؟
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بیان میں کہ مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
یہاں سے یہ نکلا کہ قبرستان میں جوتے پہن کر جانا جائز ہے۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ باب اس لیے قائم کیا کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں اور شوروغل اور زمین پر زور زور سے چلنے سے پرہیز کریں جیسے زندہ سوتے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔حدیث نمبر : 1338
حدثنا عياش، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا سعيد، قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله. فيقال انظر إلى مقعدك من النار، أبدلك الله به مقعدا من الجنة ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم فيراهما جميعا ـ وأما الكافر ـ أو المنافق ـ فيقول لا أدري، كنت أقول ما يقول الناس. فيقال لا دريت ولا تليت. ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين أذنيه، فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين
نے بیان کیا۔ ( دوسری سند )لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص
لیجیئے اوپر مکمل حدیث صحیح بخاری سے بمع ترجمہ نقل کردی گئی اب بھلا بتلایئے کے پوری حدیث ایک مستند عالم دین کے ترجمے کے ساتھ نقل کرکے اور اس پر غور کرنے کے بعد بھی سگ عطار بھائی کے موقف میں کیا نقص واقع ہوا حالانکہ امام بخاری نے بھی وہی مردے کا لوگوں کے جوتوں کی*آواز سننے کا باب باندھا ہے
مگر بالفرض آپ کا مؤقف بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی سماع موتٰی تو بحرحال ثابت ہی ہورہا ہے چاہے وہ آوز جو مردہ سنتا ہے وہ فرشتوں کے جوتوں کی ہو یا لوگوں کے جوتوں کی (ویسے یہ پہلی بار سنا ہے کہ فرستے بھی جوتے پہنتے ہیں ) چلیں جی آپ عربی گرامر کے حساب سے اس حدیث کے ترجمے پر غور کرلیتے ہیں ۔ ۔ ۔
العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فأقعداه فيقولان
ترجمہ :-
آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں ۔ ۔
اوپر حدیث کے عربی متن جو الفاط ہیں وہ ہیں قرع نعالھم ۔ ۔ اور عربی کا ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ نعالھم جمع کا صیغہ ہے اور عربی میں جمع کا اطلاق کم سے کم تین افراد پر ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہ* آواز جو مردہ سنتا ہے وہ تین یا اس سے زائد افراد کے جوتوں کی ہے اگر مردہ بقول آپکے فرشتون کے جوتون کی*آواز سنتا تو پھر جمع کی بجائے تثنیہ کا صیغہ ہونا چاہیے تھا اور الفاط یہ ہونے چاہیے تھے کہ ۔ ۔ قرع نعالھما کیونکہ آگے حدیث کے الفاط میں اس بات کی صراحت ہے کہ آنے والے فرشتے دوں ہوں گے جیسے کہ ۔ ۔ أتاه ملكان ۔ ۔ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے یہاں ملکان تثنیہ کا صیغہ ہے جو کہ دو افراد پر بولا جاتا ہے اب اگر مردہ فرشتوں کے جوتون کی آواز سنتا تو اسی مناسبت سے صغیہ قرع نعالھما ہونا چاہیے تھا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کم از کم فرشتوں کی تعداد تثنیہ کے صغیہ کی بجائے جمع کے صیغے کے ساتھ ان الفاظ میں ہونی چاہیے تھی کی اتاہ ملکین ۔ ۔ ۔
باقی جس بھونڈے طریقے سے آپ نے عذاب قبر جو کہ برحق ہے کا انکار کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کے لیے الگ سے ایک تھریڈ لگا لیجیئے تو میں جناب کی خدمت میں عرض کردوں کا یہاں قبر سے مراد کونسی قبر ہے وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔
ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
-
Re: Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
Originally posted by aabi2cool View Postآپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
بھائی نے عنوان قائم کیا تھا کہ مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے تو آپ نے جھٹ سے فتوٰی لگا دیا کہ اس حدیث کو اول غور سے پڑھا جائے یا پھر کسی عربی دان سے اس کا ترجمہ کرایا جائے تو فلاں فلاں بات عیاں ہوجائے گی ؟
لیجیئے ہم نے پڑھ لی حدیث غور سے اور ترجمہ بھی ایک اہلحدیث ویب سائٹ سے نیچے پیش کیئے دیتے ہیں تو بھلا بتلائیے کیا فرق پڑا اس مؤقف میں ؟؟؟؟؟
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بیان میں کہ مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
یہاں سے یہ نکلا کہ قبرستان میں جوتے پہن کر جانا جائز ہے۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ باب اس لیے قائم کیا کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں اور شوروغل اور زمین پر زور زور سے چلنے سے پرہیز کریں جیسے زندہ سوتے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔حدیث نمبر : 1338
حدثنا عياش، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا سعيد، قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله. فيقال انظر إلى مقعدك من النار، أبدلك الله به مقعدا من الجنة ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم فيراهما جميعا ـ وأما الكافر ـ أو المنافق ـ فيقول لا أدري، كنت أقول ما يقول الناس. فيقال لا دريت ولا تليت. ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين أذنيه، فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ
نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن زریع نے‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافریا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تونے کچھ سمجھا اور نہ ( اچھے لوگوں کی ) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
لیجیئے اوپر مکمل حدیث صحیح بخاری سے بمع ترجمہ نقل کردی گئی اب بھلا بتلایئے کے پوری حدیث ایک مستند عالم دین کے ترجمے کے ساتھ نقل کرکے اور اس پر غور کرنے کے بعد بھی سگ عطار بھائی کے موقف میں کیا نقص واقع ہوا حالانکہ امام بخاری نے بھی وہی مردے کا لوگوں کے جوتوں کی*آواز سننے کا باب باندھا ہے
مگر بالفرض آپ کا مؤقف بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی سماع موتٰی تو بحرحال ثابت ہی ہورہا ہے چاہے وہ آوز جو مردہ سنتا ہے وہ فرشتوں کے جوتوں کی ہو یا لوگوں کے جوتوں کی (ویسے یہ پہلی بار سنا ہے کہ فرستے بھی جوتے پہنتے ہیں ) چلیں جی آپ عربی گرامر کے حساب سے اس حدیث کے ترجمے پر غور کرلیتے ہیں ۔ ۔ ۔
العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فأقعداه فيقولان
ترجمہ :-
آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں ۔ ۔
اوپر حدیث کے عربی متن جو الفاط ہیں وہ ہیں قرع نعالھم ۔ ۔ اور عربی کا ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ نعالھم جمع کا صیغہ ہے اور عربی میں جمع کا اطلاق کم سے کم تین افراد پر ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہ* آواز جو مردہ سنتا ہے وہ تین یا اس سے زائد افراد کے جوتوں کی ہے اگر مردہ بقول آپکے فرشتون کے جوتون کی*آواز سنتا تو پھر جمع کی بجائے تثنیہ کا صیغہ ہونا چاہیے تھا اور الفاط یہ ہونے چاہیے تھے کہ ۔ ۔ قرع نعالھما کیونکہ آگے حدیث کے الفاط میں اس بات کی صراحت ہے کہ آنے والے فرشتے دوں ہوں گے جیسے کہ ۔ ۔ أتاه ملكان ۔ ۔ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے یہاں ملکان تثنیہ کا صیغہ ہے جو کہ دو افراد پر بولا جاتا ہے اب اگر مردہ فرشتوں کے جوتون کی آواز سنتا تو اسی مناسبت سے صغیہ قرع نعالھما ہونا چاہیے تھا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کم از کم فرشتوں کی تعداد تثنیہ کے صغیہ کی بجائے جمع کے صیغے کے ساتھ ان الفاظ میں ہونی چاہیے تھی کی اتاہ ملکین ۔ ۔ ۔
باقی جس بھونڈے طریقے سے آپ نے عذاب قبر جو کہ برحق ہے کا انکار کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کے لیے الگ سے ایک تھریڈ لگا لیجیئے تو میں جناب کی خدمت میں عرض کردوں کا یہاں قبر سے مراد کونسی قبر ہے وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔
Comment
-
Re: Murda Jootion ki Awaaz Sunta hai
Originally posted by aabi2cool View Postآپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
بھائی نے عنوان قائم کیا تھا کہ مردہ جوتوں کی آواز سنتا ہے تو آپ نے جھٹ سے فتوٰی لگا دیا کہ اس حدیث کو اول غور سے پڑھا جائے یا پھر کسی عربی دان سے اس کا ترجمہ کرایا جائے تو فلاں فلاں بات عیاں ہوجائے گی ؟
لیجیئے ہم نے پڑھ لی حدیث غور سے اور ترجمہ بھی ایک اہلحدیث ویب سائٹ سے نیچے پیش کیئے دیتے ہیں تو بھلا بتلائیے کیا فرق پڑا اس مؤقف میں ؟؟؟؟؟
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اس بیان میں کہ مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔
یہاں سے یہ نکلا کہ قبرستان میں جوتے پہن کر جانا جائز ہے۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ باب اس لیے قائم کیا کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں اور شوروغل اور زمین پر زور زور سے چلنے سے پرہیز کریں جیسے زندہ سوتے آدمی کے ساتھ کرتا ہے۔حدیث نمبر : 1338
حدثنا عياش، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا سعيد، قال وقال لي خليفة حدثنا ابن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فأقعداه فيقولان له ما كنت تقول في هذا الرجل محمد صلى الله عليه وسلم فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله. فيقال انظر إلى مقعدك من النار، أبدلك الله به مقعدا من الجنة ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم فيراهما جميعا ـ وأما الكافر ـ أو المنافق ـ فيقول لا أدري، كنت أقول ما يقول الناس. فيقال لا دريت ولا تليت. ثم يضرب بمطرقة من حديد ضربة بين أذنيه، فيصيح صيحة يسمعها من يليه إلا الثقلين".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ
نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن زریع نے‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافریا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تونے کچھ سمجھا اور نہ ( اچھے لوگوں کی ) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
لیجیئے اوپر مکمل حدیث صحیح بخاری سے بمع ترجمہ نقل کردی گئی اب بھلا بتلایئے کے پوری حدیث ایک مستند عالم دین کے ترجمے کے ساتھ نقل کرکے اور اس پر غور کرنے کے بعد بھی سگ عطار بھائی کے موقف میں کیا نقص واقع ہوا حالانکہ امام بخاری نے بھی وہی مردے کا لوگوں کے جوتوں کی*آواز سننے کا باب باندھا ہے
مگر بالفرض آپ کا مؤقف بھی مان لیا جائے تو اس سے بھی سماع موتٰی تو بحرحال ثابت ہی ہورہا ہے چاہے وہ آوز جو مردہ سنتا ہے وہ فرشتوں کے جوتوں کی ہو یا لوگوں کے جوتوں کی (ویسے یہ پہلی بار سنا ہے کہ فرستے بھی جوتے پہنتے ہیں ) چلیں جی آپ عربی گرامر کے حساب سے اس حدیث کے ترجمے پر غور کرلیتے ہیں ۔ ۔ ۔
العبد إذا وضع في قبره، وتولي وذهب أصحابه حتى إنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فأقعداه فيقولان
ترجمہ :-
آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں ۔ ۔
اوپر حدیث کے عربی متن جو الفاط ہیں وہ ہیں قرع نعالھم ۔ ۔ اور عربی کا ایک مبتدی طالب علم بھی جانتا ہے کہ نعالھم جمع کا صیغہ ہے اور عربی میں جمع کا اطلاق کم سے کم تین افراد پر ہوتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہ* آواز جو مردہ سنتا ہے وہ تین یا اس سے زائد افراد کے جوتوں کی ہے اگر مردہ بقول آپکے فرشتون کے جوتون کی*آواز سنتا تو پھر جمع کی بجائے تثنیہ کا صیغہ ہونا چاہیے تھا اور الفاط یہ ہونے چاہیے تھے کہ ۔ ۔ قرع نعالھما کیونکہ آگے حدیث کے الفاط میں اس بات کی صراحت ہے کہ آنے والے فرشتے دوں ہوں گے جیسے کہ ۔ ۔ أتاه ملكان ۔ ۔ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے یہاں ملکان تثنیہ کا صیغہ ہے جو کہ دو افراد پر بولا جاتا ہے اب اگر مردہ فرشتوں کے جوتون کی آواز سنتا تو اسی مناسبت سے صغیہ قرع نعالھما ہونا چاہیے تھا اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کم از کم فرشتوں کی تعداد تثنیہ کے صغیہ کی بجائے جمع کے صیغے کے ساتھ ان الفاظ میں ہونی چاہیے تھی کی اتاہ ملکین ۔ ۔ ۔
باقی جس بھونڈے طریقے سے آپ نے عذاب قبر جو کہ برحق ہے کا انکار کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کے لیے الگ سے ایک تھریڈ لگا لیجیئے تو میں جناب کی خدمت میں عرض کردوں کا یہاں قبر سے مراد کونسی قبر ہے وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔
ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں
Comment
Comment