Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Mairaj

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Mairaj

    Kia Muhammad (s.w) nay Mairaj ki raat Allah ka deedar kia tha?? (Ahadees Ki rooshni main parhian)
    Attached Files


    Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

  • #2
    Re: Mairaj

    اسلام علیکم سب سے پہلے تو یہ عرض کردوں کہ واقعہ معراج میں رویت باری تعالٰی تو کُْجا خود واقعہ معراج کہ جسمانی ہونے کا بھی بعض مسلمانوں نے انکار کردیا جن میں سر سید احمد خان پیش پیش ہیں ۔ ۔ ۔اور یہ سب انکار کرنے والے بھی دلائل خود قرآن و سنت سے ہی دیتے ہیں ۔ آج کل کہ اس پُرفتن دور میں جب کہ ہر طرف جدیدیت اور روشن خیالی کا دور دورہ ہے ایسے میں بعض جدید مفسرین کا واقعہ معراج میں روئت باری تعالی کہ انکار کو شد و مد سے بیان کرنا چنداں باعث تعجب نہیں انکار کہ لیے فقط عقل کا پیرو ہونا اور اقرار کہ لیے عشق کی غلامی درکار ہے وہ غلامی کہ جس کہ سرخیل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں اور جن کے لیے علامہ نے کیا خوب کہاکہ
    صدیق کہ لیے خدا کا رسول بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    کہ قافلہ سالار عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ جو کشتہ عشق مصطفٰی میں گند چکا تھا وہ کہ جو اپنی رضا تو کُجا خود اپنی ہستی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی میں گم کر چکا تھا خیر مشرکین نے بڑے زُعم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ: دیکھو !تمہارے صاحب رات کے ایک مختصر عرصے میں اتنی بڑی سیر کا دعویٰ کررہے ہیں بھلا بتاؤ یہ کیسے ممکن ہے ؟ تو صدیق اکبر نے جواب دیا اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کہا تو اللہ کی قسم میں اس کی تصدیق کرتا ہوں ۔ ۔
    یہ سن کر مشرکین گُنگ ہوگئے اور اپنا سا منہ لے کر چل دیئے خیر بات بہت دور عشق کی گلیوں چلی گئی ہم یہ عرض کررہے تھے کہ معراج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ دوران رویت باری تعالٰی کا مسئلہ امت کہ درمیان مختلف فیہ ہے امت کی اکثریت یعنی جمہور کی رائے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اپنے رب کو سر کی آنکھوں سے دیکھا جب کہ بعض اکابرین امت کا خیال ہے کہ آپ نے معراج کی رات اللہ پاک کو نہیں دیکھا ان میں سر فہرست سیدہ کائنات ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ہیں کہ جن کہ قول کو بنیاد بنا کر مولانا مودودی بھی رویت باری کا انکار کرہے ہیں ذیل میں ہم محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادی کی کتاب فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امکان رویت باری تعالی کہ اس مسئلہ کو واضح کریں گے ۔ ۔ ۔




    واقعہ معراج کو قرآن نے اول تا آخر خدائے لم یزل کی قدرت کاملہ قرار دیا ہے اسی لئے اس قصے کو سبحان الذی سے شروع کیا تاکہ ذہن میں کسی قسم کا خلجان باقی نہ رہے کہ اس واقعہ کی ذمہ داری اس عظیم و برتر ذات پر ہے جو ہر قسم کی کمزوری، نقص اور عیب سے پاک ہے اور بلاشرکتِ غیرے اس بات پر قادر ہے کہ وہ معراج جیسا عظیم و بے مثال سفر کرا سکے۔ اگر دعویٰ کسی فرد بشر کی طرف سے ہوتا کہ میں نے اپنی طاقت اور صلاحیت کے بل بوتے پر معراج کیا تو معاملے کی صورت مختلف ہوتی لیکن یہاں تو بات ہی اور ہے۔ خدا تعالیٰ اپنی ذات کو ہر کمزوری، عیب اور سقم سے پاک قرار دے کر معراج کو اپنی طاقت اور قدرت کاملہ سے منسوب کر رہا ہے لہٰذا یہ بحث کہ رؤیت باری تعالیٰ کس طرح ممکن ہے خود خالقِ مطلق کی قدرت و اختیار کے دائرے کو زیر بحث لانے کے مترادف ہو گا لیکن خدا کی قدرت و طاقت کا اندازہ انسان کے حیطہ ادراک سے باہر ہے۔ اگر واقعہ معراج کی صحت کی کسوٹی انسان کی طاقت و قدرت ہو تو پھر یہ سارا معاملہ انسان کی دسترس اور دائرہ اختیار سے باہر ہے لیکن جہاں خدا کی قدرت اور اختیار کی بات آ جائے تو پھر اس واقعہ کی مختلف جہتوں سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
    قرآن و حدیث کی روایات کی من مانی تاویل سے واقعہ معراج کی عظمت سے روگردانی کا پہلو نکلتا ہے۔ معجزہ معراج کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے سے ممکن و ناممکن کی لایعنی بحث کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پھر بیت المقدس کے سفر، آسمانوں اور عالمِ اُخروی کے مشاہدات کی عقلی توجیہہ ذہن میں ان گنت سوال چھوڑ جاتی ہے۔ معجزہ تو ہے ہی وہ خرق عادت واقعہ جو عقل میں نہ آ سکے۔ اسے دلیل نبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بنابریں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک معجزے کا انکار سارے معجزات کا انکار اور خود رسالت کا انکار سمجھا جائے گا۔



    رؤیت باری تعالیٰ کی تحقیق

    مسلمہ امور سے انحراف کر کے اپنی ذات کو نمایاں کرنے کی روش نے جہاں فکری مغالطوں کو جنم دیا ہے وہاں بعض خود ساختہ دانشوروں نے اپنے قاری کے ذہن کو غبار تشکیک میں لپیٹ کر اعتقادی بے راہروی کی بنیاد بھی رکھی ہے۔ برصغیر میں برطانوی استعمار نے ہماری اسی مجلسی کمزوری کو دیکھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو بھی مباحثوں اور مناظروں کا موضوع بنا کر جس گھناؤنی سازش کا ارتکاب کیا تھا ہم اس کے منحوس اثرات سے آج تک چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے بلکہ یہ غلط روش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناآسودہ امت کو مختلف خانوں میں بانٹ کر ان کی اجتماعی قوت کو مفلوج کرنے کا باعث بنی ہے۔ اَفراط و تفریط کے اِسی موسم ناروا میں فرقہ واریت کا تھوہڑ خوب پنپا ہے۔
    آیہ معراج کی تشریح کرتے ہوئے کچھ علماء تفسیر رؤیت کے بارے میں سخت مغالطے کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ آیہ کریمہ میں دو کمانوں یا اس سے بھی کم باہمی قرب کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل علیہ السلام کے درمیان قرب سے تعبیر کرتے ہیں۔ رؤیت باری تعالیٰ کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے اس گمان میں مبتلا ہیں کہ مقام دنی فتدلی اور قاب قوسین او ادنی پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جبرئیل علیہ السلام کا قرب اور اصل صورت میں دیدار نصیب ہوا۔
    قابل غور امر یہ ہے کہ بفرض محال اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو کیا قرب حضرت جبرئیل علیہ السلام کی عظمت کا آئینہ دار ہے یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا عکاس، جنہیں خالق موجودات نے بطور مہمان خصوصی معراج کے لئے بلوایا تھا، جبرئیل علیہ السلام ان گنت بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور وہ بارگاہ حریم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بغیر اجازت داخل نہ ہوتے تھے۔ اگر معراج میں جبرئیل علیہ السلام کی عظمت کا اظہار مقصود ہوتا تو فی الواقع یہ معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے جبرئیل علیہ السلام کی ہوتی۔
    صحیح بخاری میں آیہ کریمہ مذکورہ کی تفسیر ان الفاظ میں کی گئی ہے۔
    دنی الجبار رب العزة فتدلی حتی کان منه قاب قوسين او ادنی
    1. صحيح البخاری، 2 : 1120، کتاب التوحيد، رقم : 7079
    اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے درمیان جتنا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
    حدیث مبارکہ سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ آیہ کریمہ میں وہ ذات جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوئی اس سے مراد رب العزت ہے جو جبار ہے۔
    علماء میں ایک ایسا گروہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باری تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوا۔ انکارِ رؤیت کی دو ممکنہ صورتیں


    پہلی صورت : پہلی صورت یہ کہ اللہ کا دیدار سرے سے ممکن ہی نہیں اور انسانی آنکھ کو اتنی تاب کہاں کہ وہ اللہ کا دیدار کر سکے۔
    دوسری صورت : یہ کہ امکان تو موجود ہے لیکن شب معراج ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
    ان دونوں امکانی صورتوں کو جن کی بنا پر رؤیت باری تعالیٰ سے انکار کیا جاتا ہے ہم علماء کی طرف سے پیش کردہ ہر صورت کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جائزہ لیں گے۔ لَاتُدْرِکُہُ الْاَبْصَار کی تشریح


    پہلی صورت میں قرآن حکیم کی جس آیہ مقدسہ کو رؤیت باری تعالیٰ کے عدم امکان کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ درج ذیل ہے۔
    لاَّ تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ.
    (الانعام، 6 : 103)
    نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیں اور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
    مذکورہ آیہ مقدسہ کا بالعموم یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ کسی آنکھ کو اتنی قدرت حاصل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کر سکے۔ اس آیت سے یہ معنی مراد لینا اسے نہ سمجھنے کے مترادف ہے اس لئے کہ اس میں رؤیت کا نہیں بلکہ ادراک، کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ آیت کا معنی یہ ہوا کہ آنکھیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ سب آنکھوں کا ادراک کر سکتا ہے اور ادراک دیکھنے کے معنی میں نہیں بلکہ کسی شئے کے احاطہ کرنے کے معنی میں آتا ہے۔ دیکھنا اور بات ہے اور کسی چیز کا احاطہ کرنا دوسری بات ہے۔ مذکورہ آیہ کریمہ میں رب ذوالجلال نے اپنے دیکھے جانے کی نفی نہیں کی بلکہ ارشاد یہ ہوا ہے کہ عالم امکان میں ساری آنکھیں بھی مل کر اس کی ذات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں اور صرف اسی کی ذات ہر چیز کا احاطہ کرنے پر قادر ہے لہٰذا ادراک سے دیکھنا مراد لے کر آیت کا یہ معنی نکالنا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کسی آنکھ کے لئے ممکن ہی نہیں، چنداں درست نہیں۔
    (مدارج النبوة، 1 : 207) (شرح مسلم، 1 : 97)
    مثال : اس نکتہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال یوں دی جا سکتی ہے۔ ایک مقرر جم غفیر سے خطاب کر رہا ہے۔ مجمع دور تک پھیلا ہوا ہے جسے وہ دیکھ تو سکتا ہے لیکن سب حاضرین جلسہ کا وہ احاطہ نہیں کر سکتا۔ جو لوگ سامنے اس کے قریب ہیں انہیں وہ دیکھتا ہے لیکن جو لوگ پس دیوار ہیں وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ اس سے یہ نکتہ کھلتا ہے کہ کوئی محدود وجود غیر محدود وجود کو دیکھ تو سکتا ہے مگر اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ کسی جزو کو یہ طاقت حاصل نہیں کہ وہ کل کا احاطہ کر سکے۔ پس ذات خداوندی جو غیر محدود اور کل ہے اس کا احاطہ سب انسانی آنکھیں جو محدود اور جزو ہیں مل کر بھی نہیں کر سکتیں جبکہ وہ ذات ہر شئے کا احاطہ کرنے پر قادر ہے۔ اس ساری گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار اور مشاہدہ عین ممکن ہے مگر اس کا ادراک ممکن نہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف


    اس سلسلہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برگزیدہ صحابی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ جن کی قرآن فہمی مشہور خاص و عام تھی اور جنہیں صاحب قرآن نے ترجمان القرآن کے خطاب سے نوازا تھا، انہوں نے ان صحابہ رضی اللہ عنھم سے جو مذکورہ آیت سے نفی رؤیت کی دلیل لاتے تھے اختلاف کیا اور فرمایا کہ اس آیت میں رؤیت کی نہیں بلکہ ذات باری تعالیٰ کے ادراک کی نفی کی گئی ہے۔
    دوسری آیت کی تشریح


    دوسری آیہ کریمہ نفی رؤیت کے لئے جس کا سہارا لیا جاتا ہے وہ یہ ہے۔
    وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا.
    (الشوریٰ، 42 : 51)
    اور کسی آدمی کی طاقت نہیں کہ اللہ اس سے (براہ راست) بات کرے مگر ہاں (اس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اللہ) کسی فرشتے کو بھیج دے۔
    علماء نے اس آیت کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ کسی بشر کی مجال نہیں کہ وہ بے حجاب اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہو سکے اس لئے اس کا دیدار بے حجاب ممکن ہی نہیں۔ اس دلیل کی بنا پر وہ تسلیم نہیں کرتے کہ شب معراج آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذات باری تعالیٰ کا بے حجاب دیدار کیا۔ اس آیت کو سمجھنے میں ان سے وہی مغالطہ سرزد ہوا جو سابقہ آیت کو سمجھنے میں ہوا تھا۔ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کریمہ میں بے حجاب کلام کی نفی کی گئی ہے نہ کہ بے حجاب مشاہدے کی، جبکہ اس میں دیدار اور مشاہدے کا نہیں بلکہ بے حجاب کلام کا ذکر ہے اور یہ تو نہیں کہا گیا کہ اللہ کو طاقت نہیں کہ وہ اپنا دیدار کسی کو بے حجاب کرا سکے۔ چونکہ اس آیت میں خدا کی نہیں بلکہ بشر کی طاقت کی نفی کی جا رہی ہے اس لئے اسے شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار الٰہی کی نفی کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔

    Last edited by aabi2cool; 17 December 2008, 17:38.
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #3
      Re: Mairaj

      انکارِ رؤیت کی تیسری دلیل


      منکرین رؤیت باری تعالیٰ اِس حدیث کے حوالے سے دیتے ہیں جس میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ان سے معراج میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار الٰہی کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا۔
      نورٌاَنّٰی أَرَاَه.
      وہ تو نور تھا میں بھلا اسے کیسے دیکھ سکتا تھا۔
      (الصحيح لمسلم، 1 : 99، کتاب الايمان، رقم : 291)
      اس حدیث مبارکہ کا ترجمہ بالعموم یہی کیا جاتا ہے اور اسی سے وہ نفی رؤیت کا استدال کرتے ہیں۔ اگر ہم گہرائی میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی پر غور کریں تو اس کا یہ معنی نہیں جو بادی النظر میں سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے اگلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ
      رايت نورا
      میں نے نور کو دیکھا۔
      (الصحيح لمسلم، 1 : 99، کتاب الايمان، رقم : 292)
      اس کی روشنی میں متذکرہ بالا حدیث کا معنی یہ ہوا کہ میں نے جس طرف سے بھی دیکھا اسے نور پایا۔ یہ معنی نہیں کہ وہ نور تھا میں اسے کیسے دیکھ سکتا تھا۔ رایت نورا کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدار الٰہی کا اثبات کرتے ہوئے اس کی کیفیت بیان کر رہے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو جس طرف سے بھی دیکھا نورٌ علٰی نور پایا۔
      اللہ تعالیٰ خالق نور ہے


      یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نور اپنی ماہیت کے اعتبار سے وہ چیز ہے جس کو دیکھا نہیں جا سکتا بلکہ اس کی مدد سے اشیاء نظر آتی ہیں لہٰذا اللہ کے نور کا دیدار چہ معنی دارد؟ اس کا جواب یہ ہے کہ باری تعالیٰ کی ماہیت کو نور قرار دینا اصلاً غلط ہو گا کیونکہ بشر کی طرح نور بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جسے اپنی ذات کے اعتبار سے کسی جہت اور ہیئت میں مقید نہیں کیا جا سکتا اس لئے بعض علماء کے نزدیک اللہ کو نور کہنا کفر کے مترادف ہے۔ بے شک وہ اللہ تعالیٰ خالق نور ہے کہ وہ بشر اور دیگر مخلوقات کا خالق ہے مگر جب باری تعالیٰ نے اپنا تعارف قرآن پاک میں اس طرح کرایا ہے کہ
      اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
      (النور، 24 : 35)
      اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
      تو مفسرین قرآن اور ائمہ کرام نے اس کا معنی مراد یہ لیا ہے کہ وہ ذات جو آسمانوں اور زمین کو روشن کرنے والی ہے لہٰذا آیت کریمہ میں مجازاً سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کو نور سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد اس کی تجلی ذات ہے نہ کہ اس کی ماہیت۔
      اِمکانِ رؤیت باری تعالیٰ


      رؤیت باری تعالیٰ کے ضمن میں یہ خیال عام ہے کہ اس دنیا میں اللہ کو دیکھنا ممکن نہیں ہے اور بطور انعام دیدار الٰہی محض آخرت کا حصہ ہے۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کی دو آیات کو ذہن نشین کر لینا ضروری ہو گا جس سے اس دنیا میں دیدار الٰہی کی اِمکانی صورت واضح ہو جائے گی۔
      قرآن کریم کی پہلی آیت کا محل موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کا بارگاہ رب العزت میں دیدار کے لئے خواستگار ہونا ہے۔ وہ سراپا سوال بن کر باری تعالیٰ کے حضور اِستدعا کرتے نظر آتے ہیں۔
      رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ.
      (الاعراف، 7 : 143)
      اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کر لوں۔
      یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی جنہیں بارہا اپنے رب سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا ہے، اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ وہ دیدارِ الٰہی کا مطالبہ کر کے ایسی چیز کا تقاضا کر رہے ہیں جو سرے سے ممکن ہی نہیں؟ جناب کلیم اللہ کا رؤیت باری تعالیٰ کے عدم امکان کے بارے میں بے خبر ہونا بعید از فہم ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کا بارہا خدا کے حضور دیدار کا تقاضا کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ علی وجہ البصیرت ان کا اعتقاد تھا کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار اس دنیا میں عین ممکن ہے۔ یہی سبب ہے کہ سر طور رب ارنی کی صدا بلند کرتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس التجا کے جواب میں باری تعالیٰ نے جو ارشاد فرمایا وہ بھی غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ خدا کی طرف سے اپنے کلیم کو خطاب فرمایا گیا۔
      لَن تَرَانِي.
      (الاعراف، 7 : 143)
      تم مجھے (براہِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکو گے۔

      جواب کی نوعیت پر غور کریں تو اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ مجھے دیکھا نہیں جاسکتا بلکہ ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ! تیری آنکھ مجھے دیکھنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہ نہیں کہا کہ کوئی آنکھ مجھے دیکھنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ اس سے امکان رؤیت کی نفی نہیں ہوتی بلکہ اس فرمودہ خداوندی میں اس بات کا اثبات مضمر ہے کہ میرے دیدار کا شرف معراج کی شب صرف میرا حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاصل کرے گا۔ قضا و قدر نے یہ شرف و امتیاز حضور سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں رکھا ہے۔ یہی سبب تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی التجا کو شرف پذیرائی نہ بخشا گیا کیونکہ اس سعادت کے لئے ازل سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کو منتخب کیا جا چکا تھا۔
      ایں سعادت بزورِ بازو نیست

      تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

      دوسری آیت میں اہل جنت کے لئے مژدہ ہے کہ انہیں اللہ رب العزت اپنے دیدار سے نوازیں گے۔ ارشاد ربانی ہے :
      وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌO إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌO
      (القيامة، 75 : 22 - 23)
      بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تروتازہ ہوں گےo اور (بلا حجاب) اپنے رب (کے حسن و جمال) کو تک رہے ہوں گےo
      بموجب ارشاد خداوندی اہل خلد کے تروتازہ چہروں پر بشاشت کی لہر دوڑ جائے گی جب انہیں خدا کا دیدارِعام بے حجاب کرایا جائے گا۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے بے حجاب دیدار سے بڑھ کر اور کوئی نعمت اہل ایمان کے لئے نہ ہو گی۔
      رؤیت باری پر متفق علیہ حدیث


      حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
      انکم سترون ربکم عيانا

      بے شک تم اپنے رب کو اعلانیہ دیکھو گے۔
      1. صحيح البخاری، 2 : 1105، کتاب التوحيد، رقم : 6998

      2. مسند احمد بن حنبل، 3 : 16

      حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چودہویں کے چاند کی رات ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا :
      انکم سترون ربکم يوم القيامة کما ترون القمر هذا

      تم اپنے رب کو دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھتے ہو۔
      1. صحيح البخاری، 2 : 1106، کتاب التوحيد

      2. سنن ابی داؤد، 2 : 302، کتاب السنة، رقم : 4729
      3. سنن ابن ماجه، 1 : 63، رقم : 177
      4. مسند احمد بن حنبل، 4 : 360

      اس سے یہ بات ظاہر و باہر ہے کہ مندرجہ بالا ارشادات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رو سے ذات باری تعالیٰ کے مطلقاً دیدار کی نفی نہیں ہوئی۔ اب اگر بالفرض اس کے عدم امکان کو تسلیم کر لیا جائے تو منطق کے اصول کے مطابق جو چیز اس جہان میں ناممکن ہے وہ عالم اخروی میں بھی ناممکن ہے لیکن بفحوائے ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مومن کے لئے آخرت میں سب سے بڑی نعمت دیدار خداوندی ہو گا۔
      دولتِ دیدارِ الٰہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مختص تھی


      یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام اپنے ہر ایمان دار امتی سے بدرجۂ اَتم کہیں بڑھ کر ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہر مومن کو ایمان کی دولت ان کے صدقے سے عطا ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ منفرد امتیاز صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو حاصل ہے کہ انہیں معراج کی شب مشاہدہ و دیدار حق نصیب ہوا جبکہ دوسرے اہل ایمان کو یہ سعادت آخرت میں نصیب ہو گی۔ احادیث میں ہے کہ معراج کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو احوال آخرت، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا جبکہ باقی سب کو ان کا چشم دید مشاہدہ موت کے بعد کرایا جائے گا۔ بلاشبہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات میں شامل ہے کہ انہیں قیامت تک پیش آنے والے واقعات کی پیشگی مشاہدے کے ذریعے خبر دے دی گئی اور آخرت کے سب احوال ان پر بے نقاب کر دیئے گئے۔ اس بنا پر تسلیم کر لینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے کہ منجملہ کمالات میں سے یہ کمال صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوا کہ دیدار الٰہی کی وہ عظمت عظمیٰ جو مومنوں کو آخرت میں عطا ہو گی وہ آپ کو شب معراج ارزانی فرما دی گئی۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا تھا کہ چھوٹی نعمتوں کے باوصف سب سے بڑی نعمت جو دیدار الٰہی ہے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محروم کر دیا جاتا۔
      امکان کی بات سے قطع نظر سورہ نجم کی آیات معراج میں چار مقامات ایسے ہیں جن میں ذات باری تعالیٰ کے حسن مطلق کے دیدار کا ذکر کیا گیا ہے۔
      ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO
      (النجم، 53 : 8 - 9)
      پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o
      ارشاد ربانی میں اس انتہائی درجے کے قرب کی نشاندہی کی گئی ہے جس کا حتمی نتیجہ اور نقطہ منتہی سوائے دیدار الٰہی کے اور کچھ قرین فہم نہیں۔ اس کے بعد فرمایا۔
      مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO
      (النجم، 53 : 11)
      (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo
      قرآن حکیم نے یہ واضح فرما دیا کہ شب معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمال ذات باری تعالیٰ کا مشاہدہ دل کی آنکھ سے بھی کیا اور سر کی آنکھ سے بھی۔
      دیدارِ الٰہی کے بارے میں علماءِ امت کی تصریحات


      حدیث طبرانی میں ہے کہ
      ان محمدا رای ربه مرتين مرة بعينه و مرة بفواده.

      حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا۔ ایک مرتبہ آنکھ سے اور ایک مرتبہ دل سے۔
      1. المعجم الکبير، 12 : 71، رقم : 12564

      2. المعجم الاوسط، 6 : 356، رقم : 5757
      3. المواهب اللدنيه، 2 : 37
      4. نشر الطيب : 55

      اس حدیث پاک سے رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں اوپر درج کی گئی قرآنی آیات کے مضمون کی بخوبی تائید ہوتی ہے۔
      حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ جیسے برگزیدہ اصحاب رسول کی صحبت سے فیض یافتہ نامور تابعی ہیں، ان سے ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں سوال کیا گیا کہ آیا انہوں نے معراج کی شب ذات باری تعالیٰ کا دیدار کیا؟ تو انہوں نے تین بار قسم کھا کر اس بات کا اقر ار کیا کہ ہاں انہوں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔
      اسی طرح جب امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رؤیت باری تعالیٰ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے تین بار یہ الفاظ دہرائے، قد رای ربہ یعنی انہوں نے اپنے رب کودیکھا، یہاں تک کہ ان کی سانس پھول گئی۔
      یہ خیالات و معتقدات سب ممتاز اور قابل ذکر صحابہ، صحابیات، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ کرام کے ہیں۔ قرآن حکیم نے رؤیت باری کی تائید فرماتے ہوئے شک کرنے والوں سے پوچھا۔
      أَفَتُمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرَىO
      (النجم، 53 : 12)
      کیا تم ان سے اس پر جھگڑتے ہو جو انہوں نے دیکھاo
      سرور دوجہاں، ہادی انس و جاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ظاہری آنکھ کے علاوہ ایک آنکھ باطنی دل کی بھی عطا فرمائی تھی۔ جب ساعت دیدار آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہری جلوہ اور باطنی جلوہ دونوں نصیب ہوئے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
      وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىO
      (النجم، 53 : 13)
      اور بیشک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)o
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #4
        Re: Mairaj

        بارگاہِ خداوندی میں مسلسل حاضری


        اس سے پہلے یہ ذکر آ چکا ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خالق و مالک سے وصال و دیدار کی نعمتوں سے مالامال ہونے کے بعد سفلی دنیا کی طرف لوٹے تو اللہ جل مجدہ کی طرف سے امت کے لئے پچاس نمازوں اور چھ ماہ کے روزوں کا تحفہ لائے۔ راستے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو ان کے استفسار پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں صورتحال سے مطلع فرمایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اصرار کر کے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار رب تعالیٰ کے ہاں بھیجتے رہے یہاں تک کہ آپ نے 9 مرتبہ ذات باری تعالیٰ سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں اللہ رب العزت نے تخفیف فرما کر پانچ نمازیں اور ایک ماہ کے روزے امت مسلمہ پر فرض کئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مزید تخفیف کے بارے میں اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اب دسویں مرتبہ رب کے ہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نو مرتبہ دیدار اور ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا۔
        چشمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیدارِ الٰہی میں محو تھیں


        حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ مبارک جو دیدارِ الٰہی کے شرف سے مشرف ہوئیں، کائنات سماوی کا ایک ایک نقش جن میں ثبت ہے، کتاب زندگی کے سرورق کا وہ جلی عنوان ہے جو ان گنت کائناتی سچائیوں کے انکشاف کا نقیب ہے، انہیں چشمان مبارک کے تصدق میں کائنات رنگ و بو میں رعنائیوں کے جھرمٹ اترتے ہیں، انہی چشمان مقدس میں موسیٰ علیہ السلام کی آرزو، انوار و تجلیات الہٰیہ کی صورت میں جاگزیں ہے اور یہی چشمان مقدس سدرۃ المنتہیٰ کے جمال کی عینی شاہد ہیں۔
        کلام ربانی میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان مبارک آنکھوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اپنے حوصلے، اعتماد، ہمت اور عزم و یقین کے باعث اس ارشاد ربانی کا مصداق ٹھہریں۔
        مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىO
        (النجم، 53 : 17)
        اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o
        آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بصارت اس درجہ طاقت و وسعت کی حامل تھی کہ شب معراج مشاہدہ حق کے وقت اس میں نہ صرف اضمحلال واقع نہ ہوا بلکہ وہ کمال ہوش کے ساتھ مشاہدہ جمال میں محو رہی۔
        حضرت سہل بن عبداللہ التستری رحمۃ اللہ علیہ اسی مشاہدہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
        شاهد نفسه والی مشاهدتها و انما کان مشاهدا ربه تعالی بشاهد ما يظهر عليه من الصفات التی اوجبت الثبوت فی ذلک المحل
        (روح المعانی، 27 : 54)
        اس طرح مستغرق ہوئے کہ سوائے ذات باری اور صفات الہٰیہ کے کسی طرف متوجہ نہ ہوئے۔
        اس کے برعکس حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر تجلی الہٰی کی ایک جھلک بھی برداشت نہ کر سکے اور صفاتی تجلی کی انعکاسی شعاع کے اثر سے آپ علیہ السلام کا خرمن ہوش جل گیا۔

        کسی صاحب نظر نے بصارت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بصارت موسیٰ علیہ السلام سے کیا خوبصورت موازنہ کیا ہے۔
        موسیٰ ز ہوش رفت بہ یک پر تو صفات

        تو عین ذات می نگری در تبسمی

        قرآن آگے چل کر رؤیت آیات الہٰیہ کے باب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال بصارت کا ذکر بایں الفاظ کرتا ہے۔
        لَقَدْ رَأَى مِنْ آيَاتِ رَبِّهِ الْكُبْرَىO
        (النجم، 53 : 18)
        بیشک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیںo
        حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان چشمان مقدس نے اللہ رب العزت کا بے حجاب نظارہ کیا۔ اب اس کے بعد وہ کونسی چیز ہو گی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم بینا سے پوشیدہ رہی ہو گی۔ یہی چشم بینا کائنات کی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ماضی، حال کے علاوہ مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات اور تغیرات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مبارک پر روز روشن کی طرح واضح اور نمایاں تھے۔
        دل نے تجلیاتِ الہٰیہ کی تصدیق کی


        حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال بصارت کے ذکر کے بعد قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب انور کا ذکر بھی کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے :
        مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىO
        (النجم، 53 : 11)
        (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آ
        نکھوں نے دیکھا

        سفرِ مراجعت


        معراج سے واپسی کا سفر براق پر طے ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس کی راہ سے حرم کعبہ میں تشریف لائے۔ رات کی وہی تاریکی تھی جب آپ بستر پر محو استراحت ہوئے۔ وہ ایک لمحہ جو کائنات ارضی و سماوی کی زمانی و مکانی وسعتوں کو محیط تھا اپنے دامن میں معراج کی عظمتوں اور رفعتوں کو سمیٹے ہوئے تھا۔
        حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب اور بیداری کے بارے میں حدیث پاک کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔
        واستيقظ وهو فی مسجد الحرام.
        میں بیدار ہوا حالانکہ میں مسجد حرام میں تھا۔
        (صحيح البخاری، 2 : 1120، کتاب التوحيد، رقم : 7079)

        اس حدیث مبارکہ سے کچھ لوگ مغالطے کا شکار ہو گئے اور انہیں واقعہ معراج میں تضاد دکھائی دینے لگا۔ لوگوں پر وارد ہونے والے اشکال کا جواب ائمہ کرام (جن میں امام ترمذی، امام عسقلانی اور امام قسطلانی رحمھم اللہ تعالیٰ کے نام قابل ذکر ہیں) نے اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ دیا ہے لیکن وہ جن کی سوچ میں کجی اور عدم مطالعہ کی بنا پر جن کا مبلغ علم محدود ہے انہیں واقعہ معراج میں سوائے تضادات کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔
        سفر معراج پر روانہ ہونا بھی عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلیل ہے اور سفر معراج سے مراجعت یعنی اس کرہ ارضی کی طرف واپسی بھی شوکت حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مظہر ہے۔ جن عجائبات کا آپ نے اس سفر میں مشاہدہ کیا وہ بھی رسول کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کو دوبالا کرنے کے لئے تھے۔ سفر معراج سے عروج آدم خاکی کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ علوم جدیدہ نے جن کائناتی سچائیوں کو بے نقاب کیا ہے ان میں سفر معراج بھی شامل ہے۔ اگر تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر دیکھا جائے کہ کائنات کی بے کراں وسعتوں میں تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مقدسہ کی تلاش ہی جدید سائنسی انکشافات کی بنیاد ہے۔ دنیا اس حقیقت کا بلاواسطہ اعتراف نہیں کرے گی کہ آج کا انسان اپنی تمام آزاد خیالی کے سفلی اور علاقائی تعصبات سے دامن نہیں چھڑا سکا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنی اور انسانی بنیادوں پر جس وسیع معاشرے کی بنیاد رکھی تھی دنیا شعوری اور لاشعوری دونوں سطحوں پر ان اہداف کے حصول کے لئے مصروف عمل ہے۔ اگر سفر معراج کو جدید سائنسی انکشافات کی بنیاد قرار دیا جائے تو یہ اس عظیم معجزہ کے محض ایک پہلو کا اعتراف ہو گا لیکن جوں جوں سائنس ترقی کرے گی ذہن انسانی میں تحقیق و جستجو کے نئے نئے دروازے کھلیں گے توں توں سفر معراج کے حوالے سے ان گنت کائناتی پیچیدگیاں خودبخود حل ہوتی جائیں گی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ زندہ معجزہ اللہ رب العزت کی قدرت مطلقہ کا مظہر بن کر شاہراہ حیات کا وہ سنگ میل ثابت ہو گا کہ جسے بوسہ دیئے بغیر ارتقاء کے سفر پر روانہ ہونے والا انسان ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکے گا۔ سفر معراج عروج آدم خاکی وہ دروازہ ہے جس میں داخل ہوئے بغیر انسان پتھر اور دھات کے زمانے کی طرف تو لوٹ سکتا ہے ارتقاء کی سیڑھی کے پہلے زینے پر بھی قدم نہیں رکھ سکتا۔
        وما علینا الاالبلاغ
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #5
          Re: Mairaj

          jazakAllah

          Comment


          • #6
            Re: Mairaj

            Originally posted by life. View Post
            jazakAllah
            PARHA BHI HY K KAHLI JAZAKALLAH KARDIYA HY :fuming:
            ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

            Comment


            • #7
              Re: Mairaj

              Dear Brother Abbicool2cool

              Your above mentioned article is good efforts. But I would say something about it. We have to consider a few points regarding this remarkable incident of 'Miraj' very carefully.

              1-First of all the above given article of Mulana Maudoodi is search work, just like your research work. So we can't say about him that he himself deny the fact of clear view of Prophet (Muhammad) P.B.U.H of Allah (s.w).

              2-The above article of Mualana Moaudoodi is based on the most authentic source of Ahadeeth related with Hazrat Aiysha (r.z) & Abdullah bin Masood (r.z). But in your article, I couldn't find any proof that these sources are weak or unreliable. In order to prove of view of Prophet (P.B.U.H) of Allah (s.w) we have to deny the statement of Hazrat Aiysha (r.z) & Abdullah bin Masood (r.z).

              3-Quran has not clearly mentioned view of Prophet (P.B.U.H) of Allah (s.w). There is no wording elaborates that the Prophet (P.B.U.H) clearly showed Him Allah (s.w). The wording of Allah in Surah-e-najam is some what is in distinct manner and defines that Allah (s.w) showed Prophet (P.B.U.H) His divine signs instead of His own self.

              4-In a hadeeth which is narrated from Ibn-e-Abbas (r.z), that he (Prophet) saw 'noor' instead of Allah Himself. As it was a very big and remarkable incident and Prophet (P.B.U.H) told all the stages of this incident very clearly to his companions, but no book of Ahadeeth (seha sitta) showed that Prophet (P.B.U.H) clearly defined the outlook of Allah (s.w) clearly to His companions. (If your could provide).

              5-In above article of Maulana Moudoodi, most of the hadeeth regarding clear view of Prophet (P.B.U.H) of Allah (s.w) were declared as weak and unreliable Ahdeeth.

              6-As far as the Prophet's companions are concerned, their views are based on assumptions instead of clear wording of Prophet (P.B.U.H) himself.

              7-As far as this statement is concerned that 'we should have to analyze' the remarkable incident of 'Miraj' with loving heart 'Isq'. I would say you are absolutely true. We should not be prejudice in this manner. But we should also rely upon actual facts instead of weak statements of Muhadatheen.

              Waslam!

              Allah may bless us all and forgive us on our misdeeds and showed us the right ways of Prophet (P.B.U.H) and his companions (r.z) and fill out hearts with true love of Allah (s.w) and His Prophet (P.B.U.H). (Aamin).


              Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

              Comment


              • #8
                Re: Mairaj

                Dear Brother Abbicool2cool

                Your above mentioned article is good efforts. But I would say something about it. We have to consider a few points regarding this remarkable incident of 'Miraj' very carefully.
                اسلام علیکم محترم جناب محمد علی جواد صاحب
                سب سے پہلے تو مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر آپ کا اس تھریڈ کو لگانے کا مقصد کیا تھا؟ یعنی عنوان تو آپ نے اس کا معراج رکھا ہے لیکن زور سارا آپ اس تحقیق پر دے رہے جو کہ یہ ثابت کررہی ہے معراج کی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذات باری تعالٰی کہ قُرب کی بجائے جبرائیل علیہ السلام کا قرب نصیب ہوا تھا کیا آپ کہ نزدیک میرے اور آپ کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کو جبرائیل علیہ السلام کا قرب نصیب ہوا ہو؟ جبکہ معراج مشتق ہے عروج سے یعنی بلندی اور معنٰی اس کہ اوپر چڑھنے کی چیز، سیڑھی (کہ یہ اسم آلہ کا صیغہ ہے) یا زینہ کہ ہیں۔ آپ کے نزدیک میرے اور آپ کہ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور بلندی اور عروج اس میں ہے کہ آپ جبرائیل علیہ السلام کہ قریب ہوئے ہوں؟ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ ادنٰی غلاموں میں سے ایک غلام ہیں نہیں نہیں اللہ کی قسم یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج نہیں کہ آپ جبرائیل کو اصل صورت میں دیکھیں بلکہ یہ خود جبرائیل کی معراج ہے کہ وہ اپنےاصلی پیکر کی تصدیق زبان مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے کروائیں ارے جبرائیل تو وہ ہیں کہ جو میرے حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کا جھولا جھولانے والے ہیں جن کو یہ جرات نہیں کہ وہ آپکی صلی اللہ علیہ وسلم اجازت کہ بغیر آپکے گھر میں بھی داخل ہوں اور باوجوہ نوری مخلوق ہونے کہ سدرۃالمنتھٰی پر جاکر وہ ایک بالشت بھی مزید آپ کا ساتھ دینے سے معذرت خواں ہوں اور عرض کریں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں ایک بالشت بھی آگے بڑھا تو انوار و تجلیات باری تعالٰی کی تاب نہ لاتے ہوئے جل کر راکھ ہوجاؤں گا ۔۔ ۔واللہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اس کہ کہیں بلند تر ہے کہ جبرائیل کو اصل صورت میں دیکھنا آپ کی معراج کہلائے اور جدید مفسرین (اپنی کج فھمی سے) حقیقی قرآنی اسلوب سے عدم واقفیت کی بنا پر اور بعض آثار صحابہ کا نام لیکر یہ کہیں کہ یہ میرے آقا کی معراج تھی کہ انھوں نے جبرائیل کو دو بار اصل صورت میں دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔
                1-First of all the above given article of Mulana Maudoodi is search work, just like your research work. So we can't say about him that he himself deny the fact of clear view of Prophet (Muhammad) P.B.U.H of Allah (s.w).
                جہاں تک بات مولانا مودودی کی تو آپ کی اطلاع کی لیے عرض کردیتا ہوں کہ جتنی واقفیت میں مولانا مودودی اور انکی قائم کردہ جماعت جماعت اسلامی سے رکھتا ہوں آپ شاید ہی رکھتے ہوں مولانا مودودی کی تفسیر تفھیم القرآن سے لیکر سیرت سروردوعالم ،اور خلافت و ملوکیت سے لیکر رسائل مسائل تک تمام کتابیں پاکستان میں میری ذاتی لائبریری کا حصہ ہیں اور میں مولانا کہ اسلوب تحقیق سے اچھی طرح واقفیت رکھتا ہوں کیونکہ میں نے مولانا کو اتنا پڑھا ہے کہ شاید ہی آپ تصور کرسکیں خیر ۔ ۔ ۔ ۔
                2-The above article of Mualana Moaudoodi is based on the most authentic source of Ahadeeth related with Hazrat Aiysha (r.z) & Abdullah bin Masood (r.z). But in your article, I couldn't find any proof that these sources are weak or unreliable. In order to prove of view of Prophet (P.B.U.H) of Allah (s.w) we have to deny the statement of Hazrat Aiysha (r.z) & Abdullah bin Masood (r.z).
                پہلے تو یہ واضح کردوں کہ مولانا مودودی کہ جس تحقیق کو آپ اتھینٹکیت کا سرٹیفیکیٹ سدے رہے ہیں وہ خود اتنی ہی اتھینٹک ہے کہ جتنے کہ خود مولانا مودودی دینی حلقوں میں اتھینٹک سمجھے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔میری مجبوری یہ ہے کہ میں اس وقت پردیس میں ہوں جہاں میرے پاس اصل ماخذ کتب دستیاب نہیں ہیں وگرنہ میں آپ کہ سامنے متقدمین علماء کی کتب کہ حوالے اس ،مسئلہ پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتا ۔ ۔ ۔ ۔سر دست میری ساری تحقیق کا مدار نیٹ پر دستیاب مواد ہی ہے
                3-Quran has not clearly mentioned view of Prophet (P.B.U.H) of Allah (s.w). There is no wording elaborates that the Prophet (P.B.U.H) clearly showed Him Allah (s.w). The wording of Allah in Surah-e-najam is some what is in distinct manner and defines that Allah (s.w) showed Prophet (P.B.U.H) His divine signs instead of His own self.
                پہلی تو بات یہ ہے کہ دین میں یہ کوئی اصول ہی نہیں کہ اگر کسی معاملے میں قرآن صراحت نہ کرئے تو اس معاملے کو تسلیم ہی نہ کیا جائے خود سنت جس کو قرآن میں حکمت سے بھی تعبیر کیا گیا ہے قرآن ہی کی وضاحت میں آئی ہے لہزا آپ کا یہ اعتراض لا یعنی ہے کہ رویت کہ مسئلہ میں قرآن صراحت سے کچھ نہیں کہتا
                4-In a hadeeth which is narrated from Ibn-e-Abbas (r.z), that he (Prophet) saw 'noor' instead of Allah Himself. As it was a very big and remarkable incident and Prophet (P.B.U.H) told all the stages of this incident very clearly to his companions, but no book of Ahadeeth (seha sitta) showed that Prophet (P.B.U.H) clearly defined the outlook of Allah (s.w) clearly to His companions. (If your could provide).
                پہلی بات کہ اس مسئلہ کی توضیح میں فقط صحاح ستہ کی رو سے یہ دین کا کونسا اصول ہے اور کس دلیل کہ تحت وارد کیا گیا ہے ؟ کیا صحاح ستہ سے باہر صحیح احادیث کا وجود ناپید ہے ؟ اصل میں صحیح احادیث کی تلاش میں فقط صحاح ستہ کی شرط لگانا خود دین میں بدعت ایجاد کرنے کہ مترادف ہے ۔ ۔ کیا صحاح ستہ اور کیا غیر صحاح ستہ بلکہ خود صحیحین یعنی بخاری و مسلم بھی بعد کہ علماء کہ ذاتی اجتھاد سے جنم لیکر اجماع امت کی درجہ بندیوں کا نتیجہ ہیں نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد پاک ہے کہ میری حدیث کو فقط صحاح ستہ میں تلاش کرو ۔ ۔ ۔
                رہ گئی صحاح سے اس مسئلہ کی توضیح تو کیا؟ آپ کی نظر سے ہمارے اولین مراسلے میں . صحيح البخاری،کتاب التوحيد، کی وہ روایت نہیں گزری کہ جس میں اس آیت کی تشریح خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ان الفاظ کہ ساتھ کہ ۔۔ ۔
                دنی الجبار رب العزة فتدلی حتی کان منه قاب قوسين او ادنی
                اللہ رب العزت اتنا قریب ہوا کہ دو کمانوں کے درمیان جتنا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔
                یہ تفسیر تمام تفاسیر پر فائق ہے کہ اس میں صریحا قول رسول بیان ہوا ہے اور اسکو مولانا مودودی بیان تو کرتے ہیں مگر قرآن کی نصوص کہ مخالف قرار دے کر اس کا رد کر دیتے ہیں ہم پوچھتے ہیں کہ آخر وہ کونسے نصوص قرآن ہیں کہ جن کہ خلاف ہے یہ روایت آخر مولانا مودودی بیان کیوں نہیں کردیتے وہ تو اب کیا کریں گے ؟ آپ ہی بتا دیں کہ آخر قرآن پاک کہ وہ کونسے واضح نصوص ہیں جو کہ رویت باری تعالٰی کی نفی میں دال ہیں ۔؟

                5-In above article of Maulana Moudoodi, most of the hadeeth regarding clear view of Prophet (P.B.U.H) of Allah (s.w) were declared as weak and unreliable Ahdeeth.
                6-As far as the Prophet's companions are concerned, their views are based on assumptions instead of clear wording of Prophet (P.B.U.H) himself.
                پہلی بات تو یہ ہے کہ مولانا مودوی نے حضرت عائشہ کا ذاتی اجتھاد پیش کیا ہے نہ کہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جن دو آیات کو حضرت عائشہ نے دلیل بنایا ہے ہم ان دونوں آیات کے مطالب پیش کرچکے ہیں ۔ ۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کا مرتبہ اجتھاد سر آنکھوں پر کیونکہ یہ انھی کا منصب ہے ہم کیا اور ہماری اوقات کیا کہ ہم ان سے اختلاف کی جرات بھی کریں مگر خود بہت سے صحابہ نے بلکہ جمہور صحابہ نے حضرت عائشہ سے اس مسئلہ پر اختلاف کیا ہے اور حضرت عائشہ سے اس مسئلہ پر جو یہ قول منصوب ہے کہ اس امت میں وہ سب سے پہلی میں تھی کہ جس نے اس مسئلہ کی بابت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دریافت فرمایا تو اس قول کی حجت کہ بجائے اس قول کی صداقت پر کئی طرح کہ ابہامات ہیں ان میں سے سب سے بڑا اعتراض تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ اس وقت بہت کم سن تھیں جب واقعہ معراج پیش آیا یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ کہ جب ابھی حضرت عائشہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح بھی نہیں ہوا تھا اور خود بخاری ہی کی روایت کہ مطابق حضرت عائشہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح چھ سال کی عمر اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہجرت مدینہ کہ بعد ہوئی ۔ ۔ ۔دوسرا حضرت عبداللہ ابن مسعود سے بھی قول رسول مروی نہیں ہے بلکہ وہ بھی آیات کی تفسیر فرما رہے ہیں اور خود عبداللہ بن مسعود سے دیگر کتب میں احادیث موجود ہیں کہ جن میں وہ خود قول رسول سے رویت باری تعالٰی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیتے ہیں ۔اس کہ علاوہ بھی میں بے شمار روایات اور اقوال سلف و صالحین پیش کرسکتا ہوں اس مسئلہ پر لیکن فائدہ کیا ہوگا پہلے امت میں اتنا تفرقہ ہے لہزا ہمیں چاہیے کہ اس قسم کہ خالص علمی موضوعات کہ جن پر اکابرین امت یعنی صحابہ کرام کا بھی آپس میں اختلاف واقع ہوا ہو ان کو اس طرح سے عام فورمز پر نہ ڈسکس کیا کریں یہی ہم سب کہ حق میں بہتر ہے ۔ ۔ ۔ ۔

                7-
                As far as this statement is concerned that 'we should have to analyze' the remarkable incident of 'Miraj' with loving heart 'Isq'. I would say you are absolutely true. We should not be prejudice in this manner. But we should also rely upon actual facts instead of weak statements of Muhadatheen.

                اور آپ نے اپنے مقالے کہ آخر میں جس طرح عقل اور عشق کا ذکر کیا ہے اور عقل کو ترجیح دی ہے اس پر اقبال کہ فقط تین اشعار پیش کرکے اجازت چاہوں ۔
                اقبال علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ ۔ ۔
                عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
                عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

                اس لیے
                گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
                چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے

                اور پھر آخر میں تو اقبال نے حد ہی مکا دی میرا فیورٹ ہے یہ شعر ۔ ۔
                بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
                عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی

                والسلام
                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment


                • #9
                  Re: Mairaj

                  Dear Brother Abbi2cool!

                  Mujhay yeh parh ker khooshi hoi k aap ki study hum jaissay bohat say common musalmanon ki tarah nahi hai. Bulkay aap deni mamlaat aur ahadees ka kafi knowledge rakhtay hain.



                  Mera kehnay k matalb yeh hay aksar mamlaat main sahaba k dermian bhi ikhtilafat hoy aur ghalat fahmian bhi paida hoi lykin unhoun nay kabhi kissi deenee mamlay ku issue nahi banaya (hamri tarha).

                  Allah tu khud faramat hai tum main say koi bhi uss waqat tak kamil momin nahi ho sakta jab tak k uss ka her amal Mairy (Allah) aur Prophet Muhammad (p.b.u.h) k mohabbat k tabay nahi ho jata.

                  Lykin Prophet Muhammad (p.b.u.h) ki mohabbat k matlab yeh nahi k ham hud say barh jain. Prophet Muhammad (p.b.u.h) nay farmaya k "meri mohabbat main itnay na barho jitna nasara Issa bin maraym (p.b.u.h) ki mohabbat main barh gay k unhoon nay Issa bin maryam (p.b.u.h) kou Allah ka beta (son) bana liya. Main Allah ka banda aur uss ka rasool houn bas". (sahi bukhari /sahi muslim/abu daud).

                  Jab k hum main say bohat say loog jo apnay aap ko 'hanfi kehtay hain ya Imam Abu hanifa k muqalid hain' woh aap Muhammad (s.w) ko hazir aur nazir aur alim ul ghaib aur mushkil kusha jantay hain jo ke shirk hi ki qisam hai. Jab k Imam Abu hanifa ka fitwa hai k jo Muhamamd (s.w) kou hazrir aur nazir janata hai aur alim ul ghaib samjhta hai woh KAFIR hai. (Hanfi Books -Dur-e-mukhtaar / Hidayah).

                  Lihaza hamin sirf qabil-e-itamaad ahdees (seha sitta ki) aur riwayat per hi base ker k baat kerni chahye. Rahi doosir ahadees ki Books tou agar un ki riwayat sahi houn tou un per bhi hum aitaybaar ker saktay hain (jiss k ussool Hazrat shah wali Allah nay apni Book Nahjul balagaha main tarteeb diye hain).

                  Aap ki baat per amal kertay hoi, main koushis karoon ga k ainda is forum per aysa thread na mention karoun jo iss forum pay ikhtilaaf ka bais bany.

                  Agar aap mujhay apna personal e-mail add dain tu bohatt acha hai. Iss ke zarye haum aik doosray say ilmi iunformation ya ikhtilaffi masail per tabdal-e-khayal ker sakta hain.

                  Mera e-mail add yeh hai; jawad_saturn2000@yahoo.com.

                  Waslam!



                  Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                  Comment


                  • #10
                    Re: Mairaj

                    I m sorry!

                    Nahjul balagha is the book contaning Kutbaat of Hazrat Ali (r.z) and is NOT written by Hazrat Shah wali Allah. Actually his books name are Fiqa main Ikhtalifi masail ki wajoohat & Al balagh-ul mobeen. (please correct me if I m wrong)

                    Waslam!
                    Last edited by aabi2cool; 8 February 2009, 11:44.


                    Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

                    Comment


                    • #11
                      Re: Mairaj

                      :jazak:

                      Comment


                      • #12
                        Re: Mairaj

                        Originally posted by Muhammad Ali Jawad View Post
                        I m sorry!

                        Nahjul balagha is the book contaning Kutbaat of Hazrat Ali (r.z) and is NOT written by Hazrat Shah wali Allah. Actually his books name are Fiqa main Ikhtalifi masail ki wajoohat & Al balagh-ul mobeen. (please correct me if I m wrong)

                        Waslam!
                        mohammad ali jawad bhai kahan ho is kitab ka jo refrence main nay aap ko diya tha ka aap ki tashffi hogai????????????????'
                        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                        Comment

                        Working...
                        X