Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تصویر بنوانا کیسا ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تصویر بنوانا کیسا ہے


    ایک سوال کیا گیا کہ

    مجھے تصویر کے بارے میں دریافت کرنا ہے کہ کیا تصویر بنانا یا بنوانا صحیح ہے یا نہیں – حدیث میں جس تصویر کی ممانعت آئ ہے کیا آج کل کی تصویر جو تو ٹی وی کمپوٹر اور موبائل اور کرنسی نوٹ کیا اسی زمرہ میں آتے ہیں

    ہم جب نماز پڑھتے ہیں تو ہماری جیب میں ہمارا آئ ڈ ی کارڈ اور کرنسی نوٹ ہماری جیب میں ہوتا ہے – کیا اس سے ہماری نماز ہو جاتی ہے – حدیث میں ہے کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہو وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے – اب تو تصویر ہماری جیبوں میں ہے

    رہنمائی فرمائیں

    جواب


    کسی جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ایک پردہ دیکھا جس پر گھوڑا بنا تھا جس کے پر تھے آپ نے اس قسم کے تخیلاتی غیر فطری تخلیق سے منع کیا

    حدیث میں ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گڑیاں تھیں جن سے وہ کھیلتی تھیں اور ان پر قدغن نہیں کی گئی

    لہذا یہ حرمت ممکن ہے غیر فطری چیزوں پر تھی وہ اشیاء جو الله نے پیدا کیں اور اس کی تخلیق ہیں ان کو کوئی بھی یہ سوچ کر نہیں بناتا کہ یہ میری تخلیق ہے
    لیکن ایسی چیز بنانا جو تخیلاتی ہو وہ ممنوع ہے جسے اڑتے گھوڑے وغیرہ

    حدیث میں آیا ہے کہ روز قیامت کہا جائے گا کہ اب اس میں روح ڈالو لہذا تمام ذی روح جسموں کی تصویر منع کی جاتی ہے جو احتیاط ہے

    -فوٹو گرافی تصویر سازی نہیں عکس ہے لہذا اس میں قباحت نہیں ورنہ آئنیہ دیکھنا بھی حرام ہوتا

    اگر تصویر جیب میں ہے تو اس پر کوئی قباحت نہیں ہے

    واللہ اعلم

    ======

    ابو داود کی حدیث ہے

    حدیث نمبر: 4153

    حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُهَيْلٍ يَعْنِي ابْنَ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ “لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا تِمْثَالٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ نَسْأَلْهَا عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْطَلَقْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْنَا:‏‏‏‏ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ أَبَا طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَذَا وَكَذَا فَهَلْ سَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ ذَلِكَ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكُمْ بِمَا رَأَيْتُهُ فَعَلَ، ‏‏‏‏‏‏خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ وَكُنْتُ أَتَحَيَّنُ قُفُولَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذْتُ نَمَطًا كَانَ لَنَا فَسَتَرْتُهُ عَلَى الْعَرَضِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ اسْتَقْبَلْتُهُ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَعَزَّكَ وَأَكْرَمَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ فَرَأَى النَّمَطَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا وَرَأَيْتُ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهِ فَأَتَى النَّمَطَ حَتَّى هَتَكَهُ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَأْمُرْنَا فِيمَا رَزَقَنَا أَنْ نَكْسُوَ الْحِجَارَةَ وَاللَّبِنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَطَعْتُهُ وَجَعَلْتُهُ وِسَادَتَيْنِ وَحَشَوْتُهُمَا لِيفًا فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ”.


    ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: “فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا مجسمہ ہو”۔ زید بن خالد نے جو اس حدیث کے راوی ہیں سعید بن یسار سے کہا: میرے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلو ہم ان سے اس بارے میں پوچھیں گے چنانچہ ہم گئے اور جا کر پوچھا: ام المؤمنین! ابوطلحہ نے ہم سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایسا ایسا فرمایا ہے تو کیا آپ نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے؟ آپ نے کہا: نہیں، لیکن میں نے جو کچھ آپ کو کرتے دیکھا ہے وہ میں تم سے بیان کرتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ میں نکلے، میں آپ کی واپسی کی منتظر تھی، میں نے ایک پردہ لیا جو میرے پاس تھا اور اسے دروازے کی پڑی لکڑی پر لٹکا دیا، پھر جب آئے تو میں نے آپ کا استقبال کیا اور کہا: سلامتی ہو آپ پر اے اللہ کے رسول! اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں، شکر ہے اس اللہ کا جس نے آپ کو عزت بخشی اور اپنے فضل و کرم سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر پر نظر ڈالی، تو آپ کی نگاہ پردے پر گئی تو آپ نے میرے سلام کا کوئی جواب نہیں دیا، میں نے آپ کے چہرہ پر ناگواری دیکھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردے کے پاس آئے اور اسے اتار دیا اور فرمایا: “اللہ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا ہے کہ ہم اس کی عطا کی ہوئی چیزوں میں سے پتھر اور اینٹ کو کپڑے پہنائیں” پھر میں نے کاٹ کر اس کے دو تکیے بنا لیے، اور ان میں کھجور کی چھال کا بھراؤ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اس کام پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔


    تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۷ (۳۲۲۵)، ۱۷ (۳۳۲۲)، المغازي ۱۲ (۴۰۰۲)، اللباس ۸۸ (۵۹۴۹)، ۹۲ (۵۹۵۸)، صحیح مسلم/اللباس ۲۶ (۲۱۰۶)، سنن الترمذی/الأدب ۴۴ (۲۸۰۴)، سنن النسائی/الصید والذبائح ۱۱ (۴۲۸۷)، الزینة من المجتبی ۵۷ (۵۳۴۹)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۴۴ (۳۶۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۸۹، ۳۷۷۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الاستئذان ۳ (۶)، مسند احمد (۴/۲۸، ۲۹، ۳۰) (صحیح)
    =====

    صحیح مسلم میں ہے

    حضرت زید بن خالد (رض) جہنی فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں آیا اور میں نے عرض کیا کہ حضرت ابوطلحہ (رض) مجھے یہ خبر دیتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے کہ جس میں کتے اور تصویریں ہوں تو کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح یہ حدیث سنی ہے تو حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا نہیں! لیکن میں تم سے وہ واقعہ بیان کروں گی جو میں نے دیکھا ہے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مرتبہ جہاد میں تشریف لے گئے میں نے ایک نقش ونگار والا کپڑا لکڑی کے دروازے پر لٹکا دیا جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس تشریف لائے اور پردہ کو دیکھا تو میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس میں ناپسندیدگی کے اثرات پہچان لئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ ہمیں یہ حکم نہیں دیتا کہ پتھروں اور مٹی کو کپڑا پہنائیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر ہم نے اس پردے کو کاٹ کر دو تکیے بنا لئے اور ان میں کھجوروں کی چھال بھر لی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے اس طرح کرنے پر کوئی عیب نہیں لگایا۔

    ===

    صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے

    زہیر بن حرب، اسماعیل بن ابراہیم، داؤود، عروہ، حمید بن عبدالرحمن، سعد بن ہشام، حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر پرندوں کی تصویر بنی ہوئی تھی اور جب کوئی اندر داخل ہوتا تو یہ تصویریں اس کے سامنے ہوتیں (یعنی سب سے پہلے اس کی نظر تصویروں پر پڑتی) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا اس پردے کو نکال دو کیونکہ جب گھر میں داخل ہوتا ہوں اور ان تصویروں کو دیکھتا ہوں تو مجھے دنیا یاد آجاتی ہے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ہمارے پاس ایک چادر تھی جس پر نقش ونگار کو ہم ریشمی کہا کرتے تھے اور ہم اسے پہنا کرتے تھے۔


    ========

    صحیح مسلم میں ہے

    : ابوبکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن عیینہ، زہیر، سفیان بن عیینہ، عبدالرحمن بن قاسم، حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ہاں تشریف لائے اور میں نے اپنے دروازے پر ایک پردہ ڈالا ہوا تھا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں تو جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پردہ کو دیکھا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے پھاڑ دیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ اقدس کا رنگ بدل گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عائشہ! قیامت کے دن سب سے سخت ترین عذاب اللہ کی طرف سے ان لوگوں کو ہوگا جو اللہ کی مخلوق کی تصویریں بناتے ہیں حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ پھر ہم نے اس پردے کو کاٹ کر ایک تکیہ یا دو تکیے بنا لئے۔


    ====

    اسی طرح جیب کا نوٹ ہے


  • #2
    لیکن آج کل علماکرام بھی تصویرے بنواتے ہےاور تصویر بنانے کے متعلق کوئ سخت بیان بھی نہیں دیا گیا
    Urdu Articles
    https://rkinfocorner.com

    Comment

    Working...
    X