قا رئینِ گرامی۔ وہ مقدس مہینہ جاری ہے جس میںکہ سر کا رِ دو عا لم محمد مصطفٰی کی ولادت با سعا دت ہو ئی ۔ان کے با رے میں اتنا کچھ لکھا گیا کہ شا ید کسی کے با رے میں لکھا گیا ہو۔ جو آپ ہر سا ل رو ایتی مضا مین میں پڑھتے رہتے ہیں۔ لیکن جب کو ئی شخصیت ہمہ صفت ہوتو اس کا کو ئی نہ کو ئی پہلو وہ اہمیت نہیں حاصل کر پا تا اور نگا ہو ں سے اوجھل رہ جا تا ہے۔ جوبعض اوقات اس کی سب سے اہم خصو صیت ہو تی ہے ۔
یہ ہی معا ملہ آقا ئے نا مدا ر کے با رے میں ہے کہ وہ ایک کا مل شخصیت تھے ۔ لہذا لو گو ں نے انہیں بطو ر نبی پیش کیا، بطو ر بہترین کمانڈر پیش کیا، بہترین منتظم پیش کیا ، منصف وغیرہ پیش کیا۔ مگر کسی بھی اسکا لر نے ان کے اس وصف پر زیا دہ روشنی ڈا لنے کی کوشش نہیں کی جو اس دور میں اور ان کی شخصیت میں نا در الو جو د تھا۔ اوران کے خا لق کی نگا ہ میں سب سے زیا دہ اہم بھی۔ وہ تھیں دو صفا ت جو قدرتی طو ر پر ہمیشہ ایک دو سری سے جڑی ہوئی ہو تی ہیں اور وہ ہیں خلقِ عظیم اور رحمت یعنی بہ الفا طِ دیگر ایک انتہا ئی اچھا اخلا ق اور کر یما نہ طبیعت جو خالق کی نگا ہ میں سب سے ا ہم تھی ۔جس نے بے حسا ب مخلو ق تخلیق کی اور ان سب میں سے ایک کا مل انسا ن پیدا کیا جس پر تما م اکملیت ختم کر دی اور اس میں سے اس کے نز دیک سب سے زیا دہ جو چیز اہم تھی وہ اس نے چن لی جو کہ رحمت تھی اور حضو ر کی اکملیت کے حسا ب سے وہ بھی بہ د رجہ اتم عطا فر ما ئی ۔
لیکن حضور کا دور وہ دو ر تھا جس میں حکمرانو ں کی عظمت دو سری چیزو ں کی بنا پر ما نی جا تی تھی۔ وہ تا ریخ دانوں نے حضو ر میں پا ئیں اورچن لیں لہذا جو جمع کنند گان کے خیال میںا ہم تھیں اور لو گو ں کے سینو ں میں محفو ظ رہ گئیں تھیں ان کو محفو ظ کرلیا گیا ۔کیو نکہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک دو ر ایسا آئیگا۔ جس میں سیرت کے اِس حصہ کا کھو ج لگا نا ہو گا جس کو خدمتِ خلق ایثار اور قربا نی کہتے ہیںاور اس کو ایک وقت میں وقت کے لحا ظ سے سب سے زیا دہ اہمیت دی جا ئے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حضو ر کے چا لیس سا لہ کا رنا مے جو کہ لا کھو ں کی تعداد میں ہو نا چا ہیئے تھے ،کیو نکہ وہ پہلے چا لیس سالہ دور پر محیط تھے۔
ان میں سے چند کے سوا کچھ درج نہیں کیو نکہ اس دور میں نہ کا غذ تھا نہ قلم اور نہ خوا ندہ لو گ۔ وہ یا دا شتیں بھی اسی طرح سینو ں میں تھیں جس طر ح دوسرے کا ر نامے، مگر جمع نہ کر نے کے با عث جا نے والوں کے سا تھ چلی گئیں ۔ اور ان کا اب چو دہ سو سا ل کے بعد سرا غ لگا نا نا ممکن ہے ۔ جیسی جیسی ضرورت ہو تی گئی اس پر لو گ حضو ر کے پر دہ کر نے کے بعدمتو جہ ہو تے گئے۔ مثلا ً ارکا ن اسلام اور روزمرہ کا کا رو با ر چلا نے کے لیئے احا دیث اورسنت کی ضرورت پڑی، اور لو گو ں نے محسو س کیاکہ صحابہ کرام انتقال فرماتے جا رہے ہیں اور وہ بھی سا تھ میں دفن ہو رہی ہیں ۔تو ان کو اکھٹا کر نا شروع کیا اور ایک ایک حد یث کے لیئے میلو ں کاسفر کیا مگر سیرت کے اس حصہ کی اس وقت کو ئی خا ص ضرورت محسو س نہیں کی گئی۔
لہذا کسی نے ان کو مر تب بھی نہیں کیا اور اب جبکہ دنیاہر چیز کاثبو ت ما نگتی ہے۔ جو انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک منٹ سے کم عرصہ میں دنیا کے اس کو نے سے اس کو نے تک پہو نچ جا تا ہے۔ اگر سیرت کے کسی طا لب علم سے یہ سوا ل پو چھ لیاجا ئے کہ حضو ر کورحمت اللعالمین کیو ں کہا گیا؟ تو وہ بغلیں جھا نکتا نظر آئے گا ۔
اللہ تعا لیٰ مو لا نا حا لی کی قبر کو منو ر فر ما ئے کہ انہو ں نے سب سے پہلے مسدس حا لی میں یہ اشعارکہہ کر حضورکا بڑا خو بصو ر ت تعا رف پیش کیا ہے وہ نبیو ں میں رحمت لقب پا نے وا لا وہ اپنے پرا یوں کے کا م آنیوالا ۔ حرا سے اتر کر سو ئے قوم آیا اوراک نسخہ کیمیا سا تھ لا یا ً ان شعار میں جو واقعا ت جس طر ح رو نما ہو ئے اسی تر تیب سے مو لا نا نے پیش کیئے ہیں ۔ یعنی سب سے پہلے خدمتِ خلق رحمت ،شفقت اور مروت دیا نت وغیرہ جو چا لیس سا ل تک حضور کا طر ہ امتیا ز تھی۔ یعنی غلا مو ں کے حما یتی بو ڑھو ں کے مدد گا ر اور مظلو مو ں کی داد رسی ان کا شیوہ تھا۔ جس کے لیئے قر آن نے کہا کہ اس کا عا مل کبھی فنا نہیں ہو گا ۔
حضو ر نے تلقین فر ما ئی کہ خد مت کرو ،خدمت کرو ، خدمت کرو ۔ اور ایک حدیث میں فر ما دیا کہ وہ انسا ن ہی نہیں جو انسا نو ں کے کام نہ آئے ۔ چو نکہ ابتدائی دور میں حضور کے پا س سوا ئے خد مت خلق کے کو ئی اور ذمہ دا ری نہیں تھی لہذا یا تو وہ لو گو ں کی خد مت میں وقت گزا رتے تھے یا پھر عبا دت میں ۔ ان میں سے تھو ڑی سی مثا لیں اگر کسی کامطا لعہ وسیع ہے تو کہیں کہیں سیرت کی کتا بو ں میں بکھری ہو ئی ملیں گی لیکن افرا ط اس لیئے نہیںہے کہ جیسا ہم نے پہلے عرض کیا کہ اس کی طرف تو جہ نہیں دی گئی۔کیونکہ سیرت نگا روں کے نز دیک وہ حصہ زیا دہ اہم تھا جو نبوت پر مبعو ث ہو نے کے بعد کے دو ر پر مشتمل ہے ۔ اس سے پہلے کے واقعا ت اگر کہیںنظر بھی آئیں ۔ تو عا م قا ری یو نہیں پڑھ کر گزر جاتا ہے ۔کیو نکہ اس کے لیئے کو ئی علاحدہ با ب مو جو د نہیں ۔
مگر آج کے دو ر میں ان ہی کی سب سے زیا دہ ضرو رت ہے کیو نکہ یہ دو ر خدمتِ خلق کا دور ہے جس کی ابتدا حضور سے ہو ئی تھی جو کہ ان کی اور صفا ت کی طر ح اکملیت کے در جہ پر پہو نچی ہو ئی تھی ۔ ہما ری صو رت حا ل یہ ہے کہ یہ کسی بھی مسلما ن سے پو چھیں کہ وہ کیا تھے تو فخر سے کہے گا کہ وہ رحمت اللعا لمین تھے،مگر وہ خصو صیا ت کیا تھیں جن کی بنا پر وہ رحمت اللعا لمین کہلا ئے اور خود ان کے خا لق نے ان کو رحمت اللعا لمین فر ما یا۔اس پر بڑے سے بڑا عا لم چند مثا لو ں کے بعد خا مو ش ہو جا ئے گا۔ جبکہ غیر مسلم حضو ر کے زما نے سے لے کر آج تک وہ تمام چیزیں جمع کر تے آئے ہیں۔ جو گمرا ہ کن اور جھو ٹ کا پلندہ تھیں۔ تاکہ حضور کے اوصاف حمیدہ کے خلا ف کسی طر ح کچھ بھی ثا بت کیا جا سکے اور ہم اس کے جو اب کے لیئے آج دلا ئل سے مسلح نہیں ہیں
لہذا، بعض اوقا ت ہم جھنجھلا ہٹ کا مظا ہرہ کرتے ہیں اور ڈنڈے سے کام لیتے ہیں۔جو کہ قطئی غلط رویہ ہے اس لیئے کہ دلا ئل کا جو اب دلا ئل سے آج کی دنیا میں پسند کیا جا تا ہے ۔لہذا ہما رے پا س جو بھی بچا ہواسر ما یہ مو جو د ہے اس کو یک جا کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر مزید تحقیق کی بھی ۔تو جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں حضور نے چا لیس سا ل تک صرف اور صرف خد متِ خلق کی یہ ہی وجہ تھی کہ تما م پسما ند ہ لو گ ان کے ہمنوا بن گئے ۔وہ غلا مو ں کی حما یت کر تے بو ڑھو ں کا بو جھ ڈھو تے لو گو ں کے ما ل کی حفا ظت کر تے لہذا لو گ ان کی دیا نت کی وجہ سے اما نتیں ان کے پا س رکھتے ۔اور اس کے لیئے جس چیز کی ضرو ر ت ہو تی ہے وہ بھی پر ور دگا ر نے ان کو بد رجہ اکملیت عطا کی تھی وہ تھا جذ بہ ایثا ر ۔اس کا پہلا مظا ہر ہ جو ہمیں پیدا ئش کے فو را ً بعد نظر آتا ہے وہ یہ تھا کہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی کو اپنے اوپر تر جیح ،ما ئی حلیمہ فر ما تی ہیں کہ میں اگر انہیں دو دھ پلا نا بھی چا ہتی وہ اس وقت تک نہ پیتے جب تک میرا بیٹا نہ پی لیتا اور صرف ایک پستان سے پیتے، یہ اس اکملیت کا پہلا ثبوت تھا ۔جو نظر آتا ہے ۔
اس کے بعد بڑے ہو ئے تو ما ئی حلیمہ کو کبھی انہو ں نے تنگ نہیں کیا نہ ضد نہ شرا رتیں بلکہ کو شش کر تے کہ ان کا ہا تھ بٹا ئیں۔ اس کے بعد وہ دو ر آیا کہ وہ گھر سے با ہر تشر یف لے جا نے لگے، گو کہ یہ ان کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ کا م کر یں مگر وہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی بہنو ں کا ریو ڑ چرا نے میں ہا تھ بٹا تے ۔اس کے بعد وہ مکہ آگئے ۔ اور یہا ں غلا مو ں کے سا تھ ظلم دیکھا ،ان کی وہ جو بھی مدد کر سکتے تھے کر نے لگے ۔بو ڑھوں کا کا م کرتے ان کا بو جھ اٹھا لیتے ۔جب جو انی کو پہو نچے تو انہو ں نے پو رے معا شرے کو بر ائی میںملو ث پا یا ۔لہذا انہو ں نے ایک کمیٹی بنا نے پر سردا روں کو را ضی کر لیا اور وہ پسا ند ہ اور مظلو مو ں کو امدا د فرا ہم کر نے لگے ۔اور اس میں وہ سب زیادہ فعال تھے ۔اور یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہا حا لانکہ وہ نبو ت کا دعوہ کر چکنے کی وجہ سب کے دشمن ہو چکے تھے ۔
اس دو ر میں بھی ایک واقعہ ایسا ملتا ہے جس کو لو گو ں نے اور طر ح پیش کیا ہے وہ یہ تھا کہ ابو جہل نے ایک بدو سے اونٹ خریدا اور پھر نا دہند ہو گیا کسی نے حضو ر کی طر ف اشا رہ کر کے کہا ان کے پا س چلے جا وہ دلوا دینگے۔ وہ حضور کے پا س آیا آپ فورا ً اس کے
سا تھ چلد دیئے اور جیسے ہی اس نے حضور کے ہمرا ہ اسے دیکھا ابو جہل نے فو را ً اس کو رقم لا کر دیدی ۔اس آدمی کا کہنا اور حضور کا جا نا اسی معا ہدہ کے تحت تھا ۔لیکن جن کو اس معا ہدہ کا علم ہی نہیں ہے وہ دوسری تو ضیحات پیش کرتے ہیں کہ کسی نے مذاق میں کہا تھا۔اب آگے دیکھتے ہیں کہ ایک ضعیفہ مکہ چھو ڑ کر جا رہی حضور اس کا سا مان اٹھا لیتے ہیں۔ اور اس کو کارواں تک پہو نچا دیتے ہیں۔حضو راس سے پو چھتے ہیں کہ اس ضعیفی میں وجہ سفر؟ تو کہتی بیٹا میں اپنا ایما ن بچا کر لے جا رہی ہو ں ۔
یہا ں ایک شخص ہے محمدوہ بڑاہی جا دو گر ہے ایسا الفا ظ کا جا دو چلا تا ہے کہ لو گ اس کے مطیع ہو جا تے ہیں تم بہت اچھے آدمی ہو اس سے بچ کر رہنا اور ہا ں بیٹا ! تمہا را نا م کیا ہے ؟ حضور فر ما تے ہیں محمداور وہ ایما ن لے آتی ہے ۔ دوسرا واقعہ سنئے کہ ایک بو ڑھی جب حضور وہاں سے گز ر تے تو انتظا ر میں رہتی ہے اور ان کے اوپر روزانہ کو ڑا پھینکتی ، ایک دن وہ نظر نہیںآئی ہے تو حضور اس کے دروازے پردستک فر ما تے ہیں ۔ وہ پو چھتی ہے کو ن ہو کیسے آئے ہو تو حضو ر فر ما تے ہیں میں محمد ہوںآج تم نظر نہیںآئیں تو خیریت پو چھنے آگیا۔ اس نے بتا یا کہ میں بیما ر ہوں۔ اس وجہ سے نہ آسکی اور وہ شرمندہ ہوکرایما ن لے آتی ہے ۔ حضور کے قتل کے منصو بے بن رہے ہیںمگر لو گ اپنی اما نتیں اب بھی ان ہی کے پا س رکھتے ہیں۔حضور انتقام میں انہیں غصب نہیں فر ما تے ہیں۔ حتیٰ کہ جس را ت ہجرت فر ما تے ہیں ان اما نتو ں کو سپرد کر نے کے لیئے اپنے سب سے زیا دہ چہیتے چچا زاد علی کو خطر ہ میں ڈا لد یتے ہیں ۔جب کہ اِس کی تا ریخ میں ایک اور مثا ل مو جو د تھی کہ بنی اسرا ئیل قبطیو ں کی اما نتیں سا تھ لے آئے تھے ۔
اس کے بعد جب ایک عرصہ کی جلا وطنی کے بعد بطو ر فا تح مکہ میں دا خل ہو تے ہیں ۔دس ہزا ر جا نثا ر فو ج ہم رکا ب ہے ۔ اب وہ لو گ لر ز رہے ہیں جنہو ں نے حضور اور مسلمانوں کی زند گی اجیرن کیئے رکھی ،حج اور عمرہ جس سے کسی کو بھی رو کنے کا رواج نہ تھا نہیں کر نے دیا ۔ حضرت بلا ل کو ریت پر تپا نے وا لے غلا مو ں کو اس خطا پر مار نے وا لے کہ انہو ں نے اسلام کیو ں قبو ل کیا۔ حضور پر سا ت سا ل تک دا نہ پا نی بند کر نے وا لے سب خا ئف تھے اور پر یشا ن تھے کہ دیکھیں اب کیا ہو تا ہے؟ کہ ایک منا دی اعلان کر تا ہے کہ جو حرم میں ہو وہ محفو ظ ہے، جو اپنے گھر میں بیٹھا رہے وہ محفو ظ ہے۔ جو حضورپر اور حضرت بلا ل پر ظلم ڈھا نے ابو سفیان کے گھر میں پنا ہ لے وہ بھی محفو ظ ہے ۔ حضور حرم میں دا خل ہو کر فر ما تے ہیں کہ آج کے رو ز کو ئی انتقام نہیں میں سب کو معا ف کر تا ہو ں ۔لو گ جو ق در جو ق بیعت کے لیئے حا ضر ہو رہے ہیں ان میں ابو سفیا ن کی بیو ی ہندہ بھی ہے ۔
جس نے حضور کے چچا کا حضرت حمزہ کلیجہ نکا ل کر چبا یا تھا ۔ وہ جا تے ہو ئے ڈرتی ہے منہ چھپا تی ہے مگر معا فی لے کر نکلتی ہے ۔ عکرمہ بن ابو جہل کی بیوی آکر کہتی ہیںجو مسلمان ہیں اور مدینہ ہجرت کر چکی ہیں۔ کہ عکر مہ اور صفوان بن امیہ بھا گ گئے ہیںاگر آپ انہیں معا ف کر دیں۔ تو میں انہیں لے آؤ ں حضور فر ما تے ہیں لے آؤ معا فی ہے ۔ یہ دو نو ں وہ تھے جو کہ اس دن بھی جنگ سے بعض نہ آئے اور خا لدبن ولید سے بھڑ گئے اور جب شکست کھا ئی تو فرار ہو گئے ۔
عکر مہ بھا گ جا تا ہے مگر صفوان کو جہا ز نہیں ملتا ہے لہذا وہ ان کو مل جا تا ہے اس کو معا فی کا یقین نہیں آتا مگر ان کے یقین دلا نے پر چلد یتا ہے جب در با رِ رسا لت میں پہو نچتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ایما ن دو ما ہ بعد لا ؤنگا اگر میرا دل چا ہا تو حضور فر ما تے ہیں تمہیں دو ما ہ نہیں چا ر ما ہ کی مہلت ہے ۔وہ ایک ما ہ کے بعد ہی غزوہ حنین میں مدد کر تا ہے اورایما ن لے آتا ہے ۔
عکر مہ مدینہ میں آکر مشرف بہ اسلام ہو تا ہے ۔ حبشی جس نے حضر ت حمزہ کودھو کے سے اپنے حر بہ سے شہید کیا تھا چھپتا پھر رہا ہے کیو نکہ اب پو را عرب اسلام میں دا خل ہو چکا ہے اس وقت کو ئی اسے مشو رہ دیتا ہے کہ کمبخت رحمت سے نا امید کیو ں ہے ؟ وہ تو رحمتِ عا لم ہیں ۔جا اور جا کر ان کے سا منے کلمہ پڑھے لے وہ جا تا ہے اس حا لت میں کہ کلمہ اس کی زبا ن پر ہے حضور اس کو بھی معا ف کر دیتے ہیں ۔
اس ہدا یت کے سا تھ کہ آئندہ میرے سا منے نہیں آ نا کہ میں بھی انسا ن ہو ں اور میرے منہ سے مبا دا کو ئی غلط با ت نکل جا ئے ۔ کیا ایسا انسان دنیا نے کو ئی اوردیکھا ؟ اسی لیئے حق تعا لیٰ نے فر ما یا۔ وما ارسلٰنک الارحمت اللعا لمین ( اے م محمد) ہم نے آپ کو تمام جہا نو ں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ً
یہ ہی معا ملہ آقا ئے نا مدا ر کے با رے میں ہے کہ وہ ایک کا مل شخصیت تھے ۔ لہذا لو گو ں نے انہیں بطو ر نبی پیش کیا، بطو ر بہترین کمانڈر پیش کیا، بہترین منتظم پیش کیا ، منصف وغیرہ پیش کیا۔ مگر کسی بھی اسکا لر نے ان کے اس وصف پر زیا دہ روشنی ڈا لنے کی کوشش نہیں کی جو اس دور میں اور ان کی شخصیت میں نا در الو جو د تھا۔ اوران کے خا لق کی نگا ہ میں سب سے زیا دہ اہم بھی۔ وہ تھیں دو صفا ت جو قدرتی طو ر پر ہمیشہ ایک دو سری سے جڑی ہوئی ہو تی ہیں اور وہ ہیں خلقِ عظیم اور رحمت یعنی بہ الفا طِ دیگر ایک انتہا ئی اچھا اخلا ق اور کر یما نہ طبیعت جو خالق کی نگا ہ میں سب سے ا ہم تھی ۔جس نے بے حسا ب مخلو ق تخلیق کی اور ان سب میں سے ایک کا مل انسا ن پیدا کیا جس پر تما م اکملیت ختم کر دی اور اس میں سے اس کے نز دیک سب سے زیا دہ جو چیز اہم تھی وہ اس نے چن لی جو کہ رحمت تھی اور حضو ر کی اکملیت کے حسا ب سے وہ بھی بہ د رجہ اتم عطا فر ما ئی ۔
لیکن حضور کا دور وہ دو ر تھا جس میں حکمرانو ں کی عظمت دو سری چیزو ں کی بنا پر ما نی جا تی تھی۔ وہ تا ریخ دانوں نے حضو ر میں پا ئیں اورچن لیں لہذا جو جمع کنند گان کے خیال میںا ہم تھیں اور لو گو ں کے سینو ں میں محفو ظ رہ گئیں تھیں ان کو محفو ظ کرلیا گیا ۔کیو نکہ ان کو یہ علم نہیں تھا کہ ایک دو ر ایسا آئیگا۔ جس میں سیرت کے اِس حصہ کا کھو ج لگا نا ہو گا جس کو خدمتِ خلق ایثار اور قربا نی کہتے ہیںاور اس کو ایک وقت میں وقت کے لحا ظ سے سب سے زیا دہ اہمیت دی جا ئے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حضو ر کے چا لیس سا لہ کا رنا مے جو کہ لا کھو ں کی تعداد میں ہو نا چا ہیئے تھے ،کیو نکہ وہ پہلے چا لیس سالہ دور پر محیط تھے۔
ان میں سے چند کے سوا کچھ درج نہیں کیو نکہ اس دور میں نہ کا غذ تھا نہ قلم اور نہ خوا ندہ لو گ۔ وہ یا دا شتیں بھی اسی طرح سینو ں میں تھیں جس طر ح دوسرے کا ر نامے، مگر جمع نہ کر نے کے با عث جا نے والوں کے سا تھ چلی گئیں ۔ اور ان کا اب چو دہ سو سا ل کے بعد سرا غ لگا نا نا ممکن ہے ۔ جیسی جیسی ضرورت ہو تی گئی اس پر لو گ حضو ر کے پر دہ کر نے کے بعدمتو جہ ہو تے گئے۔ مثلا ً ارکا ن اسلام اور روزمرہ کا کا رو با ر چلا نے کے لیئے احا دیث اورسنت کی ضرورت پڑی، اور لو گو ں نے محسو س کیاکہ صحابہ کرام انتقال فرماتے جا رہے ہیں اور وہ بھی سا تھ میں دفن ہو رہی ہیں ۔تو ان کو اکھٹا کر نا شروع کیا اور ایک ایک حد یث کے لیئے میلو ں کاسفر کیا مگر سیرت کے اس حصہ کی اس وقت کو ئی خا ص ضرورت محسو س نہیں کی گئی۔
لہذا کسی نے ان کو مر تب بھی نہیں کیا اور اب جبکہ دنیاہر چیز کاثبو ت ما نگتی ہے۔ جو انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک منٹ سے کم عرصہ میں دنیا کے اس کو نے سے اس کو نے تک پہو نچ جا تا ہے۔ اگر سیرت کے کسی طا لب علم سے یہ سوا ل پو چھ لیاجا ئے کہ حضو ر کورحمت اللعالمین کیو ں کہا گیا؟ تو وہ بغلیں جھا نکتا نظر آئے گا ۔
اللہ تعا لیٰ مو لا نا حا لی کی قبر کو منو ر فر ما ئے کہ انہو ں نے سب سے پہلے مسدس حا لی میں یہ اشعارکہہ کر حضورکا بڑا خو بصو ر ت تعا رف پیش کیا ہے وہ نبیو ں میں رحمت لقب پا نے وا لا وہ اپنے پرا یوں کے کا م آنیوالا ۔ حرا سے اتر کر سو ئے قوم آیا اوراک نسخہ کیمیا سا تھ لا یا ً ان شعار میں جو واقعا ت جس طر ح رو نما ہو ئے اسی تر تیب سے مو لا نا نے پیش کیئے ہیں ۔ یعنی سب سے پہلے خدمتِ خلق رحمت ،شفقت اور مروت دیا نت وغیرہ جو چا لیس سا ل تک حضور کا طر ہ امتیا ز تھی۔ یعنی غلا مو ں کے حما یتی بو ڑھو ں کے مدد گا ر اور مظلو مو ں کی داد رسی ان کا شیوہ تھا۔ جس کے لیئے قر آن نے کہا کہ اس کا عا مل کبھی فنا نہیں ہو گا ۔
حضو ر نے تلقین فر ما ئی کہ خد مت کرو ،خدمت کرو ، خدمت کرو ۔ اور ایک حدیث میں فر ما دیا کہ وہ انسا ن ہی نہیں جو انسا نو ں کے کام نہ آئے ۔ چو نکہ ابتدائی دور میں حضور کے پا س سوا ئے خد مت خلق کے کو ئی اور ذمہ دا ری نہیں تھی لہذا یا تو وہ لو گو ں کی خد مت میں وقت گزا رتے تھے یا پھر عبا دت میں ۔ ان میں سے تھو ڑی سی مثا لیں اگر کسی کامطا لعہ وسیع ہے تو کہیں کہیں سیرت کی کتا بو ں میں بکھری ہو ئی ملیں گی لیکن افرا ط اس لیئے نہیںہے کہ جیسا ہم نے پہلے عرض کیا کہ اس کی طرف تو جہ نہیں دی گئی۔کیونکہ سیرت نگا روں کے نز دیک وہ حصہ زیا دہ اہم تھا جو نبوت پر مبعو ث ہو نے کے بعد کے دو ر پر مشتمل ہے ۔ اس سے پہلے کے واقعا ت اگر کہیںنظر بھی آئیں ۔ تو عا م قا ری یو نہیں پڑھ کر گزر جاتا ہے ۔کیو نکہ اس کے لیئے کو ئی علاحدہ با ب مو جو د نہیں ۔
مگر آج کے دو ر میں ان ہی کی سب سے زیا دہ ضرو رت ہے کیو نکہ یہ دو ر خدمتِ خلق کا دور ہے جس کی ابتدا حضور سے ہو ئی تھی جو کہ ان کی اور صفا ت کی طر ح اکملیت کے در جہ پر پہو نچی ہو ئی تھی ۔ ہما ری صو رت حا ل یہ ہے کہ یہ کسی بھی مسلما ن سے پو چھیں کہ وہ کیا تھے تو فخر سے کہے گا کہ وہ رحمت اللعا لمین تھے،مگر وہ خصو صیا ت کیا تھیں جن کی بنا پر وہ رحمت اللعا لمین کہلا ئے اور خود ان کے خا لق نے ان کو رحمت اللعا لمین فر ما یا۔اس پر بڑے سے بڑا عا لم چند مثا لو ں کے بعد خا مو ش ہو جا ئے گا۔ جبکہ غیر مسلم حضو ر کے زما نے سے لے کر آج تک وہ تمام چیزیں جمع کر تے آئے ہیں۔ جو گمرا ہ کن اور جھو ٹ کا پلندہ تھیں۔ تاکہ حضور کے اوصاف حمیدہ کے خلا ف کسی طر ح کچھ بھی ثا بت کیا جا سکے اور ہم اس کے جو اب کے لیئے آج دلا ئل سے مسلح نہیں ہیں
لہذا، بعض اوقا ت ہم جھنجھلا ہٹ کا مظا ہرہ کرتے ہیں اور ڈنڈے سے کام لیتے ہیں۔جو کہ قطئی غلط رویہ ہے اس لیئے کہ دلا ئل کا جو اب دلا ئل سے آج کی دنیا میں پسند کیا جا تا ہے ۔لہذا ہما رے پا س جو بھی بچا ہواسر ما یہ مو جو د ہے اس کو یک جا کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر مزید تحقیق کی بھی ۔تو جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں حضور نے چا لیس سا ل تک صرف اور صرف خد متِ خلق کی یہ ہی وجہ تھی کہ تما م پسما ند ہ لو گ ان کے ہمنوا بن گئے ۔وہ غلا مو ں کی حما یت کر تے بو ڑھو ں کا بو جھ ڈھو تے لو گو ں کے ما ل کی حفا ظت کر تے لہذا لو گ ان کی دیا نت کی وجہ سے اما نتیں ان کے پا س رکھتے ۔اور اس کے لیئے جس چیز کی ضرو ر ت ہو تی ہے وہ بھی پر ور دگا ر نے ان کو بد رجہ اکملیت عطا کی تھی وہ تھا جذ بہ ایثا ر ۔اس کا پہلا مظا ہر ہ جو ہمیں پیدا ئش کے فو را ً بعد نظر آتا ہے وہ یہ تھا کہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی کو اپنے اوپر تر جیح ،ما ئی حلیمہ فر ما تی ہیں کہ میں اگر انہیں دو دھ پلا نا بھی چا ہتی وہ اس وقت تک نہ پیتے جب تک میرا بیٹا نہ پی لیتا اور صرف ایک پستان سے پیتے، یہ اس اکملیت کا پہلا ثبوت تھا ۔جو نظر آتا ہے ۔
اس کے بعد بڑے ہو ئے تو ما ئی حلیمہ کو کبھی انہو ں نے تنگ نہیں کیا نہ ضد نہ شرا رتیں بلکہ کو شش کر تے کہ ان کا ہا تھ بٹا ئیں۔ اس کے بعد وہ دو ر آیا کہ وہ گھر سے با ہر تشر یف لے جا نے لگے، گو کہ یہ ان کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ کا م کر یں مگر وہ اپنے دو دھ شر یک بھا ئی بہنو ں کا ریو ڑ چرا نے میں ہا تھ بٹا تے ۔اس کے بعد وہ مکہ آگئے ۔ اور یہا ں غلا مو ں کے سا تھ ظلم دیکھا ،ان کی وہ جو بھی مدد کر سکتے تھے کر نے لگے ۔بو ڑھوں کا کا م کرتے ان کا بو جھ اٹھا لیتے ۔جب جو انی کو پہو نچے تو انہو ں نے پو رے معا شرے کو بر ائی میںملو ث پا یا ۔لہذا انہو ں نے ایک کمیٹی بنا نے پر سردا روں کو را ضی کر لیا اور وہ پسا ند ہ اور مظلو مو ں کو امدا د فرا ہم کر نے لگے ۔اور اس میں وہ سب زیادہ فعال تھے ۔اور یہ سلسلہ ہمیشہ چلتا رہا حا لانکہ وہ نبو ت کا دعوہ کر چکنے کی وجہ سب کے دشمن ہو چکے تھے ۔
اس دو ر میں بھی ایک واقعہ ایسا ملتا ہے جس کو لو گو ں نے اور طر ح پیش کیا ہے وہ یہ تھا کہ ابو جہل نے ایک بدو سے اونٹ خریدا اور پھر نا دہند ہو گیا کسی نے حضو ر کی طر ف اشا رہ کر کے کہا ان کے پا س چلے جا وہ دلوا دینگے۔ وہ حضور کے پا س آیا آپ فورا ً اس کے
سا تھ چلد دیئے اور جیسے ہی اس نے حضور کے ہمرا ہ اسے دیکھا ابو جہل نے فو را ً اس کو رقم لا کر دیدی ۔اس آدمی کا کہنا اور حضور کا جا نا اسی معا ہدہ کے تحت تھا ۔لیکن جن کو اس معا ہدہ کا علم ہی نہیں ہے وہ دوسری تو ضیحات پیش کرتے ہیں کہ کسی نے مذاق میں کہا تھا۔اب آگے دیکھتے ہیں کہ ایک ضعیفہ مکہ چھو ڑ کر جا رہی حضور اس کا سا مان اٹھا لیتے ہیں۔ اور اس کو کارواں تک پہو نچا دیتے ہیں۔حضو راس سے پو چھتے ہیں کہ اس ضعیفی میں وجہ سفر؟ تو کہتی بیٹا میں اپنا ایما ن بچا کر لے جا رہی ہو ں ۔
یہا ں ایک شخص ہے محمدوہ بڑاہی جا دو گر ہے ایسا الفا ظ کا جا دو چلا تا ہے کہ لو گ اس کے مطیع ہو جا تے ہیں تم بہت اچھے آدمی ہو اس سے بچ کر رہنا اور ہا ں بیٹا ! تمہا را نا م کیا ہے ؟ حضور فر ما تے ہیں محمداور وہ ایما ن لے آتی ہے ۔ دوسرا واقعہ سنئے کہ ایک بو ڑھی جب حضور وہاں سے گز ر تے تو انتظا ر میں رہتی ہے اور ان کے اوپر روزانہ کو ڑا پھینکتی ، ایک دن وہ نظر نہیںآئی ہے تو حضور اس کے دروازے پردستک فر ما تے ہیں ۔ وہ پو چھتی ہے کو ن ہو کیسے آئے ہو تو حضو ر فر ما تے ہیں میں محمد ہوںآج تم نظر نہیںآئیں تو خیریت پو چھنے آگیا۔ اس نے بتا یا کہ میں بیما ر ہوں۔ اس وجہ سے نہ آسکی اور وہ شرمندہ ہوکرایما ن لے آتی ہے ۔ حضور کے قتل کے منصو بے بن رہے ہیںمگر لو گ اپنی اما نتیں اب بھی ان ہی کے پا س رکھتے ہیں۔حضور انتقام میں انہیں غصب نہیں فر ما تے ہیں۔ حتیٰ کہ جس را ت ہجرت فر ما تے ہیں ان اما نتو ں کو سپرد کر نے کے لیئے اپنے سب سے زیا دہ چہیتے چچا زاد علی کو خطر ہ میں ڈا لد یتے ہیں ۔جب کہ اِس کی تا ریخ میں ایک اور مثا ل مو جو د تھی کہ بنی اسرا ئیل قبطیو ں کی اما نتیں سا تھ لے آئے تھے ۔
اس کے بعد جب ایک عرصہ کی جلا وطنی کے بعد بطو ر فا تح مکہ میں دا خل ہو تے ہیں ۔دس ہزا ر جا نثا ر فو ج ہم رکا ب ہے ۔ اب وہ لو گ لر ز رہے ہیں جنہو ں نے حضور اور مسلمانوں کی زند گی اجیرن کیئے رکھی ،حج اور عمرہ جس سے کسی کو بھی رو کنے کا رواج نہ تھا نہیں کر نے دیا ۔ حضرت بلا ل کو ریت پر تپا نے وا لے غلا مو ں کو اس خطا پر مار نے وا لے کہ انہو ں نے اسلام کیو ں قبو ل کیا۔ حضور پر سا ت سا ل تک دا نہ پا نی بند کر نے وا لے سب خا ئف تھے اور پر یشا ن تھے کہ دیکھیں اب کیا ہو تا ہے؟ کہ ایک منا دی اعلان کر تا ہے کہ جو حرم میں ہو وہ محفو ظ ہے، جو اپنے گھر میں بیٹھا رہے وہ محفو ظ ہے۔ جو حضورپر اور حضرت بلا ل پر ظلم ڈھا نے ابو سفیان کے گھر میں پنا ہ لے وہ بھی محفو ظ ہے ۔ حضور حرم میں دا خل ہو کر فر ما تے ہیں کہ آج کے رو ز کو ئی انتقام نہیں میں سب کو معا ف کر تا ہو ں ۔لو گ جو ق در جو ق بیعت کے لیئے حا ضر ہو رہے ہیں ان میں ابو سفیا ن کی بیو ی ہندہ بھی ہے ۔
جس نے حضور کے چچا کا حضرت حمزہ کلیجہ نکا ل کر چبا یا تھا ۔ وہ جا تے ہو ئے ڈرتی ہے منہ چھپا تی ہے مگر معا فی لے کر نکلتی ہے ۔ عکرمہ بن ابو جہل کی بیوی آکر کہتی ہیںجو مسلمان ہیں اور مدینہ ہجرت کر چکی ہیں۔ کہ عکر مہ اور صفوان بن امیہ بھا گ گئے ہیںاگر آپ انہیں معا ف کر دیں۔ تو میں انہیں لے آؤ ں حضور فر ما تے ہیں لے آؤ معا فی ہے ۔ یہ دو نو ں وہ تھے جو کہ اس دن بھی جنگ سے بعض نہ آئے اور خا لدبن ولید سے بھڑ گئے اور جب شکست کھا ئی تو فرار ہو گئے ۔
عکر مہ بھا گ جا تا ہے مگر صفوان کو جہا ز نہیں ملتا ہے لہذا وہ ان کو مل جا تا ہے اس کو معا فی کا یقین نہیں آتا مگر ان کے یقین دلا نے پر چلد یتا ہے جب در با رِ رسا لت میں پہو نچتا ہے تو کہتا ہے کہ میں ایما ن دو ما ہ بعد لا ؤنگا اگر میرا دل چا ہا تو حضور فر ما تے ہیں تمہیں دو ما ہ نہیں چا ر ما ہ کی مہلت ہے ۔وہ ایک ما ہ کے بعد ہی غزوہ حنین میں مدد کر تا ہے اورایما ن لے آتا ہے ۔
عکر مہ مدینہ میں آکر مشرف بہ اسلام ہو تا ہے ۔ حبشی جس نے حضر ت حمزہ کودھو کے سے اپنے حر بہ سے شہید کیا تھا چھپتا پھر رہا ہے کیو نکہ اب پو را عرب اسلام میں دا خل ہو چکا ہے اس وقت کو ئی اسے مشو رہ دیتا ہے کہ کمبخت رحمت سے نا امید کیو ں ہے ؟ وہ تو رحمتِ عا لم ہیں ۔جا اور جا کر ان کے سا منے کلمہ پڑھے لے وہ جا تا ہے اس حا لت میں کہ کلمہ اس کی زبا ن پر ہے حضور اس کو بھی معا ف کر دیتے ہیں ۔
اس ہدا یت کے سا تھ کہ آئندہ میرے سا منے نہیں آ نا کہ میں بھی انسا ن ہو ں اور میرے منہ سے مبا دا کو ئی غلط با ت نکل جا ئے ۔ کیا ایسا انسان دنیا نے کو ئی اوردیکھا ؟ اسی لیئے حق تعا لیٰ نے فر ما یا۔ وما ارسلٰنک الارحمت اللعا لمین ( اے م محمد) ہم نے آپ کو تمام جہا نو ں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجا ہے ً
Comment