حضرت زید بن دثِنّہ رضی اللہ عنہ اور اُن کے رفقاء کا کمالِ عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رئیسِ قریش سفیان بن خالد نے ایک سازش کے تحت چند آدمی مدینہ منورہ بھیجے کہ اپنے مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچائیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کرکے چند مبلغین اپنے ہمراہ لائیں تاکہ اُنہیں مقتولینِ اُحد کا انتقام لینے کے لئے قتل کر دیا جائے ۔ اس کام کے لئے انہیں سو اونٹوں کا لالچ دیا گیا۔ یہ سازشی عناصر مدینہ منورہ سے جن مسلمانوں کو اپنے ساتھ لائے ان میں حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ اور حضرت عاصم رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ راستے میں اُنہوں نے اپنے مزید آدمیوں کو بلا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گھیرا تنگ کر دیا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہمت نہ ہاری اور جرات و بہادری سے مردانہ وار مقابلہ کیا۔ یہ مٹھی بھر مجاہد آخر دم تک لڑتے رہے اور سوائے دو افراد کے سب کے سب شہید ہو گئے، ان دو کو مکہ لے جا کر فروخت کر دیا گیا۔ ان میں ایک حضرت زید رضی اللہ عنہ تھے، جنہیں صفوان بن اُمیہ نے پچاس اونٹوں کے عوض خریدا تاکہ باپ کے بدلے میں انہیں قتل کر کے اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کر سکے۔
کفار و مشرکین کے سازشی گروہ میں ایک عورت سُلافہ بنت سعد بھی شامل تھی جس کے دو بیٹے غزوۂ اُحد میں واصلِ جہنم ہوئے تھے۔ اس نے نذر مانی تھی کہ اگر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کا سر اُسے مل جائے تو وہ اُس کی کھوپڑی میں شراب پئے گی۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے، تو اس سے قبل اُنہوں نے بارگاہِ خُداوندی میں دعا کی : یا اللہ! میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری شہادت سے آگاہ فرما دے۔ اے پروردگارِ عالم! میرا سر تیری راہ میں کاٹا جارہا ہے تو اس کی حفاظت فرما۔
جب کفار حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کا سر کاٹنے لگے تو کہیں سے شہد کی مکھیوں کا ایک غول نمودار ہوا، جس نے شہید کے بدن کو اپنے حصار میں لے لیا۔ کفار نے سرکاٹنے کا کام یہ سوچ کر رات پر ملتوی کر دیا کہ رات کو تو شہد کی مکھیاں غائب ہو جائیں گی، لیکن رات شدید بارش ہوئی اور شہید کی لاش کو طوفانی موج بہالے گئی۔ دوسری طرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جانے لگا تو کفارو مشرکینِ مکہ کا ایک ہجوم جمع ہو گیا، جس میں ابوسفیان بھی شامل تھے۔ ابوسفیان نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
أنشدک اﷲ يا زيد! أتحب أن محمداً الآن عندنا مکانک يضرب عنقه وانک في أهلک؟
واﷲ! ما أحبّ أنّ محمداً الآن فی مکانه الذی هو فيه تصيبه شوکة تؤذيه وأنی جالسٌ فی أهلی.
ما رأيتُ من الناس أحدا يحب أحداً کحبِ أصحاب محمد محمداً.
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 2126
ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 55، 356
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 4 : 465
طبري، تاريخ الامم و الملوک، 2 : 579
ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 108، 155، 6358
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 719
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 649
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو بھی قیدی بنا لیا گیا تھا اور کچھ عرصے بعد اُنہیں بھی تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن شہادت سے قبل آپ نے مہلت مانگی کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں، اجازت ملنے پر وہ اطمینان سے بارگاہِ خُداوندی میں سجدہ ریز ہو گئے۔ تختہ دار پر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں التجاء کی کہ مولا! میرا سلام میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دے۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس وقت میں مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وعلیکم السلام۔ اس کے ساتھ ہی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ قریشِ مکہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے ایسے چالیس افراد بلائے جن کے آباء و اجداد جنگِ بدر میں واصلِ جہنم ہوئے تھے۔ اُنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، آپ رضی اللہ عنہ کی میت تختہ دار پر لٹکی رہی، جس کی نگرانی کے لئے کفار نے چالیس افراد کا ایک ٹولہ مقرر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی اُس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أيّکم ينزل خبيبًا عن ختبته وله الجنة.
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 160 - 161
Comment