Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Taqdeer Kia hai?

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Taqdeer Kia hai?


    الفقہ : تقدیر کیا ہے۔ ۔ ۔ ؟

    سوال: کیا حالت غربت و مظلومیت کو تقدیر پر محمول کرنا درست ہے؟ کیا انسان مجبور محض ہے؟ نیز قرآن و سنت کی روشنی میں تقدیر کی وضاحت فرمائیں۔
    جواب: قدیم زمانے سے گمراہ انسانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے جرائم اور گناہوں کو تقدیر کا نام دے کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور مظلوم طبقہ بھی خدا کی رضا سمجھ کر چپ ہوجاتا ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ تقدیر علمِ الہٰی کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا ہے؟ اسے وہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں اس پر اتنا ایمان رکھنا چاہئے کہ جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے علم کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے ٹائم ٹیبل کے مطابق ہوتا ہے، اُس کے لئے کوئی حادثہ اچانک نہیں ہوتا کیونکہ وہ سب کچھ پہلے سے جانتا ہے۔
    یاد رکھیں کہ ہم تقدیر کے مکلف نہیں بلکہ احکام شرع کے پابند ہیں۔ کوئی شخص جرم کا ارتکاب اور نیکی کا انکار اس دلیل سے نہیں کرسکتا کہ میری تقدیر میں یہی تھا اس لئے کہ آپ کو شریعت نے نیکی کرنے اور بدی سے بچنے کا واضح حکم دیا ہے۔ آپ اس شرعی حکم کو بخوبی جانتے ہیں۔ تقدیر کا تعلق علم غیب سے ہے جو آپ کے بس میں نہیں، پھر جو چیز آپ جانتے ہیں اور جس کا حکم بھی آپ کو دیا گیا ہے اور جس کی تعمیل یا انکار کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔ اگر آپ اس کی تعمیل نہیں کرتے اور اس علم الہٰی کا جسے آپ جانتے ہی نہیں، بہانہ بناکر آپ غلط راہ اختیار کررہے ہیں کہ جی قسمت میں یہی لکھا تھا۔ آپ کو کیسے پتہ چل گیا کہ آپ کی قسمت میں یہی لکھا تھا؟ کیا آپ نے لوح محفوظ پر لکھا دیکھ لیا تھا؟ پس جس کا پتہ ہے اختیار ہے، کرنے کی قدرت ہے، جس کے انجام سے باخبر ہیں اس پر عمل نہ کرنا اور جسے جانتے ہی نہیں اس کا بہانہ بنا کر فرائض سے فرار اور جرائم کا ارتکاب کرنا، بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
    تقدیر کے پابند ہیں جمادات و نباتات
    مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند
    اس غلط سوچ نے ہمارے معاشرے کو جہنم زار بنادیا ہے۔
    عمل سے فارغ ہوا مسلمان
    بنا کے بہانہ تقدیر کا
    غربت، پسماندگی، جہالت، بیروزگاری، ظلم، ڈاکے، قتل، اغوا، آبرو ریزیاں، تخریب کاریاں، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے تمام شیطان تقدیر کا غلط مفہوم نکال کر ہی اپنی کرتوتوں کا جواز نکالتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی کو ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا۔ نہ مظلوم کو دب دبا کر ظلم کے آگے گھٹنے ٹیکنے کا کہیں حکم دیا بلکہ مظلوموں کو ظالموں سے قتال کرنے کا حکم دیا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا:
    أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌO
    مسئلہ جبرو قدر:

    بعض لوگ اپنی برائیوں سے بھری زندگی کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان اپنے خصائل کی تشکیل کے حوالے سے بھی بے بس ہے لہذا ایسے انسان کو گناہ و ثواب اور خیرو شر کی کڑی آزمائش میں ڈالنا ظلم ہے۔ ان احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمیں عقل، فہم، دانش، شعور، حواس اور وحی کے ذریعے اچھے برے کا تمام علم دے دیا گیا۔ سیدھے راستہ کی نشاندہی بھی فرما دی اور اس پر چلنے کا انجام بھی۔ برا راستہ بھی بتا دیا اور اس کو اپنانے کا خطرناک نتیجہ بھی۔ ہمیں علم، شعور اور ارادہ و اختیار دے دیا کہ سمجھو اور جس راستے کو چاہو اختیار کرلو۔ یہ اختیار فرشتوں کو نہیں ملا، انسانوں کو ملا ہے۔ اس میں انسانوں کی عزت و عظمت ہے کہ وہ بے اختیار پتھر یا کسی مشین کا کل پرزہ نہیں۔ بااختیار، باشعور، مقتدر ہستی ہے لیکن اکثر انسانوں نے اللہ کی ان عطا شدہ نعمتوں کی ناقدری کی اور ان کا غلط استعمال کیا اور بجائے فائدے کے اپنی ہلاکت کا سامان کرلیا جیسے لوہے سے آپ نے ایک نہایت ضروری اور کار آمد مفید آلہ چھری بنائی۔ اب اس کا استعمال آپ کے اختیار میں ہے چاہیں تو گوشت، سبزیاں وغیرہ کاٹ کر زندگی کو سہولتوں سے متمتع کریں اور چاہیں تو اپنے یا کسی اور بے گناہ کے پیٹ میں گھونپ کر چراغ زندگی گل کردیں۔ قصور نہ لوہا بنانے والے خدا کا ہے نہ چھری بنانے والے کا۔ قصور اس احمق کا ہے جس نے خالق کی نافرمانی کی۔ دوسرے انسانوں سے بہتر استعمال کا سبق نہ لیا اور کسی خیر خواہ کے مشورے پر بھی توجہ نہ دی۔ عقل و فہم اور شعور کا بھی خون کیا اور پند ناصح کو بھی درخور اعتناء نہ جانا۔ انسان اپنی ابتدائے آفرینش سے فریب نفس کا شکار ہے۔ جان بوجھ کر غلط کاریاں کرتا ہے اور اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور طفل تسلیوں کے طور پر اس قسم کی منفی سوچوں میں مگن رہتا ہے۔
    پر تجسس ذہن وہ نہیں جو منفی سوچ سوچے، تجسس صحیح وہی ہے جو مثبت ہو۔ صبح سویرے اٹھتا، قضائے حاجت سے فارغ ہوتا، ناشتہ کرتا اور دفتر، دکان، کارخانے، سکول، کالج، کھیت، زمین، باغ، منڈی کی طرف وقت مقررہ پر روزی کمانے اور مستقبل سنوارنے کے لئے ہمت کرکے چل پڑتا ہے۔ اس وقت ایسی منفی سوچ نہیں سوچتا، کام سے فارغ ہوکر گھر پہنچتا، کھانا کھاتا اور وقت پر سوتا ہے۔ کبھی ان مصروفیات پر منفی سوچ کی گرد پڑنے نہیں دیتا۔ ہر کام وقت پر کرتا ہے لیکن جونہی دینی فرائض انجام دینے کی باری آئی، نفس ہزاروں وسوسے پیدا کرتا اور انسان کو احساس ذمہ داری سے عاری کرتا ہے۔ کبھی اپنی کوتاہیوں کو تقدیر کے پلڑے میں ڈالتا ہے کبھی ماحول کی آلودگی کے ذمے لگاتا ہے۔
    یہ سب بہانے اور نفس کی خود فریبیاں ہیں۔ وسوسوں سے دامن بچایئے۔ ہدایاتِ نبوت پر یقین کے ساتھ کار بند ہونا سیکھئے اور سکون سے زندہ رہئے۔ نیک عمل کیجئے اور گناہوں کے خلاف سینہ سپر ہوجائیے۔ ان وساوس سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی صحبت بھی ہے۔ کسی بزرگ کی صحبت اختیار کریں۔ اپنی زندگی سنوارئیے اور دوسروں کا بھلا کیجئے۔
    ہم حکم خداوندی کے پابند ہیں علم خداوندی کے نہیں
    وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ.
    (البقره، 2 : 188)
    تقدیر علم خداوندی کا نام ہے
    _____signature_____

  • #2
    Re: Taqdeer Kia hai?

    bohat khoob naveed bhai aap nay bohat achi sharing ki bohat hi asaan zuban main taqdeer k masla ko samjhnay ki koshish ki gai hy iS thred main. jazak ALLAH
    Last edited by aabi2cool; 11 November 2007, 15:28.
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #3
      Re: Taqdeer Kia hai?

      Jazak ALLAH kher :) Nice Post :)
      Allah

      Comment


      • #4
        Re: Taqdeer Kia hai?

        Nice post
        :jazak:

        Comment


        • #5
          Re: Taqdeer Kia hai?

          nav33d bhai apse ak request hai

          kia ap apn3 topics roman urdu mei post kar sakt3 hain?

          Comment


          • #6
            Re: Taqdeer Kia hai?

            :jazak:



            Comment


            • #7
              Re: Taqdeer Kia hai?

              :jazak:
              u can't gain RESPECT by choice nor by requesting it... it is earned through your words & actions."

              :pr:

              Comment


              • #8
                Re: Taqdeer Kia hai?


                :jazak:
                Naveed bhai aap ne bohat hi khoobsoorat andaaz main taqeer jase bohat hi ahm moamle ko byan karne ki koshish ki ha ALLAH TALLA aap ko jazai khair se nawaze aur aap ko isi tarha Din Islam ki khidmat karte rahne ki taufeeq ata farmai aamin.

                Comment


                • #9
                  Re: Taqdeer Kia hai?

                  nice post

                  I Have Green Blood In My Veins Because I Am a Pakistani


                  Comment


                  • #10
                    Re: Taqdeer Kia hai?

                    Good and nice
                    Thanks

                    Comment


                    • #11
                      Re: Taqdeer Kia hai?


                      سوال : اﷲ تعالیٰ نے جب سب کچھ لکھ دیا ہے کہ انسان دْنیا میں جا کر یہ کام کے گا ۔ نیک بخت ہوگا یا بد بخت ‘جنتی ہوگا یا جہنمی۔ تو ہمارا کیا قصور ہے جب کوئی کسی کے مقدر میںلکھا ہے تو اْسے پھر سزا کیوں دی جائے گی؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔

                      جواب: مسئلئہ تقدیر اِن مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص کرنا شرعاً منع ہے کیونکہ اِس کے متعلق بحث وتکرار سے اَجر کی محرومی ‘بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :


                      ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب پر اِس حالت میں نکلے کہ وہ مسئلئہ تقدیر پر بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اِس قدر غْصّے میں آگئے معلوم ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پہ انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اِس کا حکم دیئے گئے ہو یا تم اِس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو؟ اﷲکے قرآن کی بعض کے سا تھ ٹکراتے ہو ؟ اِسی وجہ سے پہلی اْمتیں ہلاک ہوگئیں۔‘‘(ابن ماجہ (۸۵) ۱/ ۲۳ مصنف عبدالرزاق (۶۰۳۲۷) ۱۱ / ۲۱۶' مسند احمد ۲ / ۱۷۸'۱۸۵'۱۹۵)



                      اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر وشر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چا ہے اختیار کر لے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

                      ’’ہم نے اْس کو راستہ دکھادیا ہےخواہ وہ شکرگزار بنے یا نا شکرا۔‘‘(الدھر : ۳)

                      ایک اور مقام پر فرمایا:

                      ’’ہم نے اْسے دونوں راستے دکھا دیئے۔" (البلد : ۱۰)

                      اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو خیروشرکے دونوں راستے دکھا دئیےہیں اور اْسے عقل وشعور دیا ہے کہ اپنے لیے اِن دونوں راستوں میں سے جو صحیح راستہ ہے اختیار کرلے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیروبرکت والے راستے کو ا ختیار کرے گا جہنم کے درد ناک عزاب سے اپنے آپ کو بچالے گا اور اگر راہِراست کو ترک کرکے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پرگامزن ہوگاتوجہنم کی آگ میںداخل ہوگا۔ اﷲتعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اْس نے اپنے عِلم کی بنیاد پر لکھی ہے کیونکہ اﷲتعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اْس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ کیا کرے گا؟ اْس کا انجام کیا ہوگا؟ اِس لیے اللہ نے اپنے عِلم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اْس کا عِلم و اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اْس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اْس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اﷲ کے کمالِ عِلم واحاطئہ کلی کا ذکر ہے۔ اِس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اْس نے اِن لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔
                      اِس لیے یہ بات کہنا صحیح نہیں ہوگی کہ زانی و شرابی ،چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے؟ کیونکہ اْن کے مقدر میں ہی زنا کرنا ،شراب پینا ، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا۔ اِس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک اْستاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی وعلمی صلاحیتوں اوراْنکےلکھنے پڑھنے سے دلچسپی وعدم دلچسپی سے اچھّی طرح واقف ہے اپنے عِلم کی بنا پر کسی ذہین و محنتی طالب عِلم کے بارے میں اپنی ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب عِلم اپنی کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور غبی و کند ذہن طالب عِلم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہوگا اور کند ذہن و لائق طالب عِلم دونوں کو کلاس میں برابر محنت کرائے اور اکٹھا اْنہیں سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین و لائق طالب عِلم اچھّے نمبر حاصل کر کے اوّل پوزیشن حاصل کرلے اور کند ذہن طالب عِلم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ لائق طالب عِلم اِس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اْس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اوّل پوزیشن حاصل کرلے گا اور کند ذہن اِس لیے فیل ہوا کہ اْس کے متعلق اْستاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہوگا ۔ لہٰذا اِس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے؟ یقینا سمجھدارانسان یہ نہیں کہےگا کہ اِس میں اْستاد کا قصور ہے۔ اِس لیے کہ اِس میں اْستاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو برابر سمجھتا رہا کہ امتحان قریب ہیں، محنت کرلو ورنہ فیل ہو جاؤ گے۔ اْستاد کی ہدایت کے مطا بق لائق و ذہین طالب عِلم نے محنت کی اور نا لا ئق و شریر طالب عِلم اپنی بْری عادات میں مشغول رہا اور اپنا وقت کھیل کود اور شرارتوں میں صرف کردیا۔
                      اِسی طرح اﷲ تعالیٰ جس کا عِلم بلاشبہ پوری کائنات سے ذیادہ اکمل و اتم ہے،اْس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں، اْس نے کامل عِلم کی بنا ء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی لکھ دیا ہے کہ یہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت؟ جنتی ہوگا یا جہنمی؟ مگر اِن سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کرتا البتہ اْن کی راہنمائی کرتے ہوئے اچھّے اور بْرے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رْسل بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلئہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد ورثعۃالانبیاء صالح علماء کے ذریعے کا ئنات میں اْنہیں ایمان و اعتقاد اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے۔ کفروشرک، معصیت اور گناہ سے منع کرتا ہے۔ جہنم کے عذاب اور حساب و کتاب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرتا ہے۔اِن تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے، فاسق اپنے فسق و فجور سے توبہ نہیں کرتا تو اْس کے اِن برْے اعمال پر اگر اﷲتعالیٰ اْس کو سزا دے تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ یہ تو عین عدل و انصاف ہے اِس کے بر خلاف نیک و بد اور کافر و مومن سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و نا انصافی ہے ۔

                      Comment

                      Working...
                      X