Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

كيا شريعت اسلاميہ ميں عورت كا حكمران بننا 

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • كيا شريعت اسلاميہ ميں عورت كا حكمران بننا 

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    اول: ہر مسئلہ ميں لازم نہيں كہ اس كى خاص دليل قرآن مجيد سے ہو، بلكہ بہت سے احكام ايسے ہيں جو سنت نبويہ صحيحہ سے ثابت ہيں، اور قرآن مجيد سے ثابت نہيں، اور مسلمان شخص پر ضرورى اور واجب ہے كہ وہ قرآن و سنت دونوں كى اتباع و پيروى كرے.

    فرمان بارى تعالى ہے:
    {اے ايمان والو! اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى اطاعت و فرمانبردارى كرو، اور اپنے حكمرانوں كى، اور اگر كسى چيز ميں تم اختلاف كرو تو اسے اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى طرف لوٹاؤ اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہو، يہ تمہارے ليے انجام كے لحاظ سے بہتر اور اچھا ہے} النساء ( 59 ).

    تو اللہ تعالى نے اس آيت ميں اپنى اور اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت كرنے، اور متنازعہ مسائل كو اپنى كتاب اور اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر لوٹانے كا حكم ديا ہے.

    اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
    {اور رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) جو حكم تمہيں ديں اسے مان ليا كرو، اور جس چيز سے منع كريں اس سے رك جايا كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، بلا شبہ اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے} الحشر ( 7 ).

    اور ابن ماجۃ رحمہ اللہ تعالى نے مقدام بن معديكرب كندى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

    " قريب ہے كہ ايك وقت آئے ايك شخص اپنے تكيہ پر سہارا ليے ہوئے ميرى احاديث ميں سے ايك حديث بيان كرے، تو يہ كہے: ہمارے اور تمہارے مابين اللہ عزوجل كى كتاب ہے، اس ميں جو كچھ ہم حلال پائيں گے اسے ہم حلال مانيں گے، اور جو كچھ اس ميں حرام پائيں گےاسے ہم حرام مانيں گے، خبردار! بلاشبہ اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے جو حرام كيا ہے وہ اسى طرح ہے جس طرح اللہ تعالى نے حرام كيا ہے" سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 12 )علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 8186 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

    دوم: كتاب و سنت كے دلائل سے يہ ثابت ہوتا ہے كہ عورت كے ليے ولايت عامہ كا منصب جائز نہيں، مثلا خلافت، اور وزارت، اور قضاء جج وغيرہ.

    ذيل ميں اس كے قرآن وسنت سے دلائل پيش كيے جاتے ہيں:

    1 - قرآن مجيد سے دلائل:
    فرمان بارى تعالى ہے:

    {مرد عورتوں پر حاكم ہيں، اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں} النساء ( 34 ).

    قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
    قولہ تعالى: {مرد عورتوں پر حاكم ہيں}.

    يعنى: وہ ان پر خرچ كرتے ہيں، اور ان كا دفاع اور حفاظت كرتے ہيں، اور اس ليے بھى كہ مردوں ميں ہى حكمران اور امير اور جھاد و قتال اور جنگ كرنے والے ہوتے ہيں، اور يہ عورتوں ميں نہيں ہوتا. اھـ
    ديكھيں: تفسير القرطبى ( 5 / 168 ).

    اور ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:

    يعنى مرد عورت پر قيم اور نگران ہے، يعنى وہ اس كا رئيس اور بڑا اور اس پر حاكم ہے، اور جب وہ ٹيڑھى ہو جائے تو اسے سيدھا كرنے والا ہے.

    { اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے}.

    يعنى: كيونكہ مرد عورت سے افضل ہے، اور مرد عورت سے بہتر ہے، اسى ليے نبوت مردوں كے ساتھ خاص ہے، اور اسى طرح بڑى حكمرانى اور بادشاہت بھى.

    اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
    " وہ قوم كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات كا نگران عورت كو بنا ليا"
    اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں نقل كيا ہے.

    اور اسى طرح قضاء اور جج كا منصب بھى. اھـ
    ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 492 ).

    2 - سنت نبويہ سے دلائل:
    ابو بكرۃ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ خبر ملى كہ اہل فارس نے كسرى كى بيٹى كو اپنا حكمران اور بادشاہ بنا ليا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

    " وہ قوم كبھى بھى ہرگز كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات كا نگران ايك عورت كو بنا ليا"
    صحيح بخارى حديث نمبر ( 4163 ).

    امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
    اس ميں دليل ہے كہ عورت حكمرانى نہيں كر سكتى اور وہ اس كى اہل نہيں، اور كسى بھى قوم كے ليے اسے حكمران بنانا حلال نہيں، كيونكہ ان پر ايسے كام سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جو ان كى عدم فلاح اور ناكامى كا باعث ہو.اھـ كچھ كمى و بيشى كے ساتھ
    ديكھيں: نيل الاوطار للشوكانى ( 8 / 305 ).

    اور ماوردى رحمہ اللہ تعالى وزارت كے متعلق كلام كرتے ہوئے كہتے ہيں:
    اور عورت كے ليے يہ منصب جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

    " وہ قوم كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات عورت كے سپرد كر ديے"؛

    اور اس ليے بھى كہ اس ميں رائے طلب كى جاتى ہے، اور عزم كى پختگى بھى ہوتى ہے جس سے عورتيں كمزور ہيں، اور معاملات خود طے كرنے ميں ظاہر بھى ہونا پڑتا ہے جو كہ عورتوں كے ليے ممنوع ہے. اھـ
    ديكھيں: الاحكام السطانيۃ ( 46 ).

    اور ابن حزم رحمہ اللہ تعالى خلافت كے متعلق كلام كرتے ہوئے كہتے ہيں:
    اور اس ميں كسى كا اختلاف نہيں كہ يہ عورت كے ليے ناجائز ہے. اھـ
    ديكھيں: الفصل فى الملل و الاھواء والنحل ( 4 / 129 ).

    اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں ہے:
    فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ امام اعظم كى شروط ميں سے ہے وہ مرد ہو، لھذا عورت كے ليے حكمرانى صحيح نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

    " وہ قوم ہرگز كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات عورت كى سپرد كر ديے"

    اور ( مرد اس ليے ہے ) تا كہ وہ مردوں سے ميل جول ركھ سكے، اور حكمرانى كے معاملات نپٹانے كے ليے فارغ ہو؛ اور اس ليے بھى كہ اس منصب ميں بہت سے خطرناك اعمال پائے جاتے ہيں، اور بہت زيادہ تھكا دينے والے كام ہيں، جو صرف اور صرف مرد كے لائق ہيں. اھـ
    ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 21 / 270 ).

    شيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:
    خالص شريعت اسلاميہ ميں عورت كا اپنے آپ ملك كى سربراہ يا حكومت كى سربراہ، يا وزيراعظم كى نامزدگى كے ليے پيش كرنے كا حكم كيا ہے؟

    تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا: عورت كو حكمران بنانا، اور اسے مسلمانوں كى عام سردارى كے ليے اختيار كرنا جائز نہيں، اس پركتاب و سنت اور اجماع دلالت كر رہا ہے:

    كتاب اللہ ميں فرمان بارى تعالى ہے:
    {مرد عورتوں پر حاكم ہيں، اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے} النساء ( 34 ).

    اور آيت ميں مذكور حكم عام ہے جو كہ مرد كى اس كے خاندان ميں حكمرانى اور ذمہ دارى كو شامل ہے، اور اسى طرح عام حكمرانى تو بالاولى شامل ہو گى، اور اس حكم كى مزيد تاكيد آيت ميں وارد تعليل سے ہوتى ہے كہ آيت ميں عقل اور رائے اور حكم اور سردارى كى دوسرى اشياء كى افضليت ہے.

    اور سنت نبويہ سے دليل يہ ہے كہ:
    كہ جب فارسيوں نے كسرى كى بيٹى كو اپنا حكمران اور بادشاہ بنا ليا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

    " وہ قوم ہرگز كبھى بھى كامياب نہيں ہو سكتى جس نے اپنے معاملات عورت كے سپرد كر ديے"

    اسے امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے روايت كيا ہے.
    اور اس ميں كوئى شك نہيں كہ يہ حديث عورت كى عمومى امارت اور حكمرانى كى حرمت پر دلالت كرتى ہے، اور اسى طرح كسى صوبے اور ملك كى حكمرانى كى حرمت پر بھى؛ كيونكہ يہ سب كچھ اس كى عمومى صفت ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كو حكمران بنانے كى كاميابى اور فلاح كى نفى كى ہے، اور فلاح و كاميابى خير و بھلائى ميں كاميابى ہوتى ہے.

    خلفاء راشدين كے عہد مبارك ميں امت اور تين صديوں كے آئمہ كرام جن كے بارہ ميں خير و بھلائى كى شہادت دى گئى ہے نے عملى اجماع كيا كہ عورت كو نہ تو قضاء كا منصب ديا جا سكتا ہے، اور نہ ہى امارت و حكومت كا منصب، حالانكہ اس دور ميں ايسى عورتيں بھى تھيں جو دينى علوم ميں بہت زيادہ ماہر تھيں، اور علوم قرآن، اور علوم حديث، اور احكام ميں ان كى طرف رجوع كيا جاتا، اور ان سے مسائل دريافت كيے جاتے تھے، بلكہ اس دور ميں تو عورتوں نے امارت اور اس كے ساتھ منسلك دوسرے مناصب اور عام عہدوں كى طرف جھانكا تك بھى نہيں.

    پھر عام شرعى احكام تو عورت كى امارت كے متعارض ہيں، كيونكہ امارت اور حكمرانى ميں حالت تو يہ ہوتى ہے كہ حكمران اور امير اپنى رعايا كے حالات معلوم كرتا رہتا، اور امت كے افراد اور جماعتوں سے ميل جول ركھتا ہے، اور بعض اوقات جھاد ميں فوج كى قيادت بھى كرتا ہے، اور دشمنوں كے ساتھ معاہدے وغيرہ كرنا ہوتے ہيں، جو عورت كے حالات كے مناسب نہيں ہوتے، اور وہ احكام جو اس كى عزت بچانے كے ليے مشروع كيے گئے ہيں، اور اسے مبغوض قسم كے چھچھورے پن سے اس كى حفاظت كرنا.

    اور يہ بھى ہے كہ: عقل سے حاصل ہونے والى مصلحت بھى اس كا تقاضا كرتى ہے كہ عمومى مناصب اور عہدے عورت كے سپرد نہ كيے جائيں، كيونكہ سردارى اور منصب پر آنے كے ليے عقلى كمال اور پختگى اور تيزى اور قوت ارادى اور حسن تدبير اور معاملہ فہمى كا ہونا ضرورى ہے.

    اور يہ صفات ايسى ہيں جو عورت ميں نہيں، بلكہ وہ ناقص العقل، اور فكرى كمزورى، كے ساتھ ساتھ نرمى اور مہربانى جيسى قوت كے ساتھ پيدا ہوئى ہے، تو اسے اس منصب اور عہدے كے ليے اختيار كرنا اور چننا مسلمانوں كى خير خواہى اور نصيحت كے ليے نہيں، اور نہ ہى اس ميں انہيں عزت و تكريم اور تمكنت حاصل ہوتى ہے.

    اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. اھـ

    واللہ اعلم .

    وسلام۔۔۔

  • #2
    Re: كيا شريعت اسلاميہ ميں عورت كا حكمران بننا

    salam o alikum janab mera ap sy yehan aik swal hay
    abi to yehan per 21st centurey main mard aur aurat barabr kee hakdar hain...
    plz es k bary main thori tafseel batain gy?
    main waite karongi
    ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,
    372-haha372-haha372-haha

    Comment


    • #3
      Re: كيا شريعت اسلاميہ ميں عورت كا حكمران بننا

      بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

      السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
      سب سے پہلی اور اہم بات وہ یہ کہ کیا اسلامی تعلیمات کا صدیوں میں پیدا ہونے والے عمل سے کوئی تعلق ہے؟؟؟۔۔۔ دوسری بات یہ ہے کہ پیغام فورم پر بحث ومباحثے کی اجازت قطعی طور پر ممنوع ہے اس لئے اگر آپ کو اس تحریر کے حوالے سے اپنے شبہات کا تسلی بخش جواب درکار ہے تو میں آپ کو یہاں دعوت دیتا ہوں آپ سکون و اطمعنان سے اپنے سوالات مجھ سے پوچھ سکتی ہیں اور ان شاء اللہ میری کوشش ہوگی کہ میں آپ کے سوالوں کے تسلی بخش جوابات دوں۔۔۔
      وسلام۔۔۔

      Comment

      Working...
      X