بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اسلام میں فرقہ پرستی ...؟!
اللہ سبحان و تعالیٰ کا ارشادِ عظیم ہے:
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا، انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔
(اٰل عِمْرٰن ۔١٠٥)
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا، انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔
(اٰل عِمْرٰن ۔١٠٥)
یہ آیت دین میں باہمی اختلاف اور گروہ بندی / مسلک بندی کی ممانعت میں بالکل واضح اور صریح ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دین میں اختلاف پیدا کرنے اور مختلف فرقوں میں بٹ جانے منع فرمایا ہے اور گذشتہ امتوں کا ذکر کرتے ہوئے امّتِ مسلمہ کو اُن کی روش پر چلنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دین میں اختلاف پیدا کرنے اور مختلف فرقوں میں بٹ جانے منع فرمایا ہے اور گذشتہ امتوں کا ذکر کرتے ہوئے امّتِ مسلمہ کو اُن کی روش پر چلنے سے بھی منع فرمایا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امّت میں اختلاف بے حد ناگوار تھا۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ اُمتوں کی مثال دے کر اپنی اُمّت کو باہمی اختلاف سے ڈرایا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ ہیں..
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت کی نسبت آپس میں اختلاف کر رہے تھے۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ء مبارک پر غصّہ کے آثار ظاہر تھے۔ آپ نے فرمایا: بات یہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے ہی کے سبب ہلاک ہو گئے۔
( مشکوٰۃ شریف ، باب الاعتصام ، صفحہ نمبر :٢٠ )
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت کی نسبت آپس میں اختلاف کر رہے تھے۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ء مبارک پر غصّہ کے آثار ظاہر تھے۔ آپ نے فرمایا: بات یہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے ہی کے سبب ہلاک ہو گئے۔
( مشکوٰۃ شریف ، باب الاعتصام ، صفحہ نمبر :٢٠ )
آج فرقہ پرستی اور مسلک بندی نے مسلمانوں کو پوری دنیا میں ذلیل و خوار کر رکھا ہے ، کیونکہ مسلمانوں نے اللہ کی مقدس کتاب قرآن مجید کو چھوڑ دیا ہے۔
آیتِ مقدسہ ملاحظہ کیجئے:
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے ، اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ (سورۃ الفرقان ۔ آیت : ٣٠)
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے ، اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔ (سورۃ الفرقان ۔ آیت : ٣٠)
اور یہ ہے ایک مستند حدیث:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک وقت ایسا ہوگا، جب مسلمان ذلیل و خوار ہو رہے ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا اس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تعداد تو ان کی بہت ہی زیادہ ہوگی ، مگر وہ لوگ بھٹک گئے ہوں گے، یعنی اللہ کی رسّی حبْلِ اللہ یعنی قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہوگا۔
( الصحیح البخاری حدیث نمبر: ٥٤٦/٦ راوی: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک وقت ایسا ہوگا، جب مسلمان ذلیل و خوار ہو رہے ہوں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا اس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تعداد تو ان کی بہت ہی زیادہ ہوگی ، مگر وہ لوگ بھٹک گئے ہوں گے، یعنی اللہ کی رسّی حبْلِ اللہ یعنی قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہوگا۔
( الصحیح البخاری حدیث نمبر: ٥٤٦/٦ راوی: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ )
کیا اللہ کے فرمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے بعد بھی ہم اپنے آپ کو فرقہ پرستی اور مسلک بندی کے جال میں پھنسا کر رکھیں گے؟ اور اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں تھامیں گے ؟؟
سوچئے اور خوب سوچئے ...!!
Comment