Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اللہ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ تقو

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اللہ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ تقو

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    عزیز دوستوں!۔
    اللہ تعالٰی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے کہ!۔
    إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
    تم میں سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے (الحجرات۔١٣)۔۔۔

    تقوٰی وقایۃ سے ماخوذ ہے وقایہ ایسی چیز کو کہا جاتا ہے جس سے سرکو ڈھانپا جاتا ہے اس لئے ہر وہ احتیاط اور رویہ وقایۃ ہے جس کے ذریعے سے نقصان دہ چیزوں سے بچا جاسکتا ہے تقاۃ بھی اسی کے ہم معنی ہے اس اعتبار سے تقوٰی کا مطلب اور مفہوم یہ ہوا کہ انسان اللہ کے عذاب سے بچنے کی کوشش کرے اللہ کے تمام حکموں کو بجا لائے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے باز رہے یعنی انسان ہر وقت اللہ کا خوف اور ڈر اپنے دل میں رکھے اور ہر کام سے پہلے قرآن و حدیث کو مدنظر رکھے تقوٰی سے انسان کے دل اور دماغ میں ایسی نورانیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ حق اور باطل کو پہچان سکتا ہے ظلمت اور تاریکی کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور انسان اللہ تعالٰی کا سب سے زیادہ محبوب اور مقرب بندہ بن جاتا ہے۔۔۔۔

    قرآن مجید میں کئی جگہ اللہ وحدہ لاشریک نے تقوٰی اختیار کرنے کی رغب دلائی ہے ملاحظہ ہو!۔
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
    اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو (ال عمران۔١٠٢)۔۔۔

    حق تقاقۃ کی تفسیر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، ربیع، قتادہ اور حسن بصری وغیرہ نے یہ فرمائی ہے کہ!۔
    حق تقاتۃ ھو ان یطاع یعصی ویذکر فلا ینسی ویشکر فلا یکفر۔
    تقوٰی کا حق یہ کہ اللہ کی اطاعت ہر کام میں کی جائے اس کی نافرمانی نہ کی جائے انسان ہمیشہ اس کو یاد رکھے اور کبھی نہ بھولے اور ہمیشہ اس کا شکر ادا کرتا رہے ناشکری نہ کرے۔
    مستدرک الحاکم ٢\٢٩٤، طبرانی فی الکبیر ٨٥٠١، طبرانی فی تفسیرہ ٧٥٣٤)۔۔۔

    ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ!۔
    فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ
    پس تم اللہ سے ڈرتے رہو جس قدر تم سے ہوسکے (التغابن۔١٦)۔۔۔

    یہ درحقیقت حَقَّ تُقَاتِهِ کی ہی تفسیر وتشریح ہے انسان کی نجات کا دارومدار تقوٰی پر ہے اور اس ے انسان کا رزق بھی بڑھتا ہے جیسا کہ اللہ وحدہ لاشریک کا فرمان ہے کہ!۔
    وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ
    اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے آسانیاں پیدا کردیتا ہے اور ایسی جگہ سے اُسے رزق دیتا ہے جہاں سے اُس کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔(الطلاق ٢۔٣)۔۔۔

    تقوٰی اختیار کرنے سے انسان کے اندر بصیرت اور حق اور باطل کی پہچان بھی پیدا ہوتی ہے اور انسان کے سارے گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں جیسا کہ اللہ وحدہ لاشریک نے ارشاد فرمایا!۔

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تَتَّقُواْ اللّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَاناً وَيُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
    اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا اور تمہارے (دامن) سے تمہارے گناہوں کو مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا، اور اللہ بڑے فضل والا ہے (الانفال۔٢٩)۔۔۔

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا [من اکرم الناس؟] لوگوں میں سے سب سے زیادہ معزز کون ہے۔
    [قال:اتقاھم]
    فرمایا جو ان میں سے سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہے۔۔۔
    (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب واتخزاللہ ابراھیم خلیلا ح ٣٣٥٣، صحیح مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل یوسف علیہ السلام ھ ٢٣٧٨)۔۔۔

    تقوٰی اختیار کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان دنیا کی رنگینوں سے اور خوش رنگ اور دل کو لبھانے والی چیزوں سے بچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ!۔
    ان الدنیا حلوۃ خخرۃ وان اللہ مستخلفکم فیھا فینظر کیف تعملون فاتقو الدنیا واتقوا النساء فان اول فتنۃ بنی اسرائیل کانت فی النساء۔

    بیشک دنیا شریں اور سرسبز ہے اللہ تعالٰی اس میں تمہیں جانشین بنانے والا ہے وہ دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟؟؟۔۔۔ پس (اگر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو) دنیا(کے دھوکے) سے بچو اور عورتوں (کے فتنے میں مبتلا ہونے) سے بچو کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں کے بارے میں تھا۔۔۔
    (کتاب الرقاق باب اکثر اھل الجنۃ الفقراء واکثر اھل النار النساء ح ٢٧٢٢)۔۔۔

    تقوٰی اختیار کرنے کے لئے لازم ہے کہ انسان ہمشہ ہدایت کے راستے پر چلتا رہے اپنے آپ کو حرام چیزوں سے بچا کر رکھے تقوٰی کا اصل معیار یہ ہے ہک انسان شک والی چیزوں کو بھی چھوڑ دے اور ایسی چیزوں کو اختیار کرے جن میں ذرہ برابر بھی شک نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ!۔
    دع مایریبک الی مالا یریبک
    ایسی چیز چھوڑ دو جو تم کو شک میں ڈال دے اور اسے اختیار کرو جو تمہین شک میں نہ ڈالے۔
    (صحیح سنن ترمذی، ابو الزھد باب اعقلھا وتوکل ح ٢٥١٨)۔۔۔

    اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!۔
    فمن اتقی الشبھات استبرا لدینہ وعرضہ
    جو شخص شبہے والی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت (دونوں کو) بچالیا۔۔۔
    (صحیح بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرالدینہ ح ٥٢، صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب اخذ الحلال وترک الشبھات ح ٥٩٩)۔۔۔

    آخر میں اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو تقوٰی کے نور سے منور کردے آمین یارب العالمین۔

    وسلام۔۔

  • #2
    bohat hi umda sharing ha ALLAH TALLA aap ko jaza-e khair ata farmai aamin:rose

    Comment


    • #3

      Comment


      • #4
        ماشااللہ بہت خوب بھائی
        جاری رکھیں، ہم آپ سے علم سیکھہ رہے ہیں۔ الحمد اللہ
        جزاک اللہ

        Comment

        Working...
        X