Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

انسان کیا ہے؟

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • انسان کیا ہے؟

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


    اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔

    یاایہا الناس انتم الفقراءالی اللّٰہ واللّٰہ ھو الغنی الحمید \ فاطر: ١٥

    عزیز دوستوں!۔
    فقر بندگی کا ایک زبردست موضوع ہے۔ بلکہ فقر ہی بندگی ہے۔ انسان کیا ہے؟ محتاجیوں اور ضرورت مندیوں کا مجموعہ۔ اپنی یہ حقیقت پہچاننا، اس کا اعتراف اور احساس کرنا بندگی کا ایک زبردست عمل ہے۔ دوسری طرف اللہ کو ہر ضرورت سے بے نیاز اور ہر نقص سے مبرا جاننا اور یوں اللہ کو خود اس کی ذات میں قابل ستائش مان کر اس کی حمد کرنا عبادت کی ایک اعلیٰ صورت ہے۔

    ان دونوں باتوں میں براہ راست تعلق ہے۔ جس قدر انسان اپنے فقر اور احتیاج کا احساس کرتا ہے اتنا ہی وہ اللہ کی بے نیازی کا معترف ہوتا اور اس کی مطلق حمد کا دم بھرتا ہے۔ جس قدر وہ اللہ کے غنی اور بے نیاز ہونے کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے اتنا ہی وہ اپنی اور سب مخلوق کی اللہ کے آگے محتاجی اور ضرورت مندی کا معترف ہوتا ہے اور اسی قدر اس پر خالق اور مخلوق کی حقیقت کا یہ فرق واضح ہو جاتا ہے۔ نہ صرف خالق اور مخلوق کا یہ فرق ظاہر ہوتا ہے بلکہ خالق اور مخلوق کا یہ تعلق بھی واضح ہوتا ہے۔ ایک بے نیاز اور دوسرا اس کامحتاج۔ ایک غنی اور دوسرا اس کے در کا فقیر۔

    چنانچہ آدمی کا اپنے آپ کو فقیر اور محتاج جاننا اور اللہ کے غنی اور بے نیاز ہونے کا معترف ہونا ایک محنت طلب کام ہے اور دل کا ایک مسلسل عمل۔


    اسلامی عبادات ساری کی ساری دراصل اسی فقر کا اظہار ہیں۔ مخلوق کی اسی صفت کا اقرار ہیں۔ بندگی کا ہر عمل اللہ کے غنی مطلق اور لائق حمد ہونے کا اعتراف ہے۔ نماز ہے تو تب دُعا ہے تو تب۔ تسبیح ہے تو تب اور ذکر ہے تو تب۔ سب اسی حقیقت کا اعادہ ہے۔ البتہ روزہ اس حقیقت کا ایک بہت ہی منفرد اظہار ہے۔ روزہ ایک موحد کی زبان پر اس کے اس فقر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ روزہ کی صورت میں ایک موحد کا رواں رواں یہ بولتا ہے کہ وہ مجسم احتیاج ہے اور اس ذات کا سدا محتاج جو ہر عیب سے پاک، ہر ضرورت سے بے نیاز، غنی مطلق، لائق حمد اور احد اور صمد ہے اور جس کے آگے ہر مخلوق اپنی ضرورت کیلئے دست سوال درازکرتی اور ایک اسی کے فضل کے سہارے جیتی ہے اور جس کے در کا یوں محتاج ہونا کہ اس کی محتاجی اس کے ماسوا ہر ہستی سے اس کو بے نیاز کردے نہ صرف فضیلت کی بات ہے بلکہ انسان کی اصل دولت اور سرمایہء افتخار ہے۔ پس روزہ ایک انداز کی تسبیح ہے۔ یہ اپنے فقر کا بیان ہے اور خداکے بے عیب اور بے نیاز ہونے کا اقرار اور اس کے فضل کا اعتراف اور اس کی احسان مندی کا اظہار اور اس کی دین پر قناعت اور اس سے مانگنے کا ایک اسلوب۔

    چنانچہ روزہ اس صفت بندگی کا اقرار ہے۔ یہ انسان کے فقر کا بیان ہے۔ اس کا مدعا یہ ہے کہ بندہ بھوکا ہے ___ اور بھوک بندے کی صفت ہے ___ جب تک کہ اللہ اس کو نہ کھلائے اور یہ کہ پاکی اور تعریف اس کی جو اس کی اس بھوک کا علاج اپنے پاکیزہ رزق سے کرتا ہے اور یہ کہ تعریف اس کی تب بھی جب بندہ بھوکا ہو اور تعریف اس کی تب بھی جب بندہ اس کا رزق کھائے اور اس رزق سے اپنی بھوک اور پیاس بجھائے۔ سو یہ ایک بے لوث تعلق ہے۔ گو یہ ایک محتاج اور ایک غنی کا تعلق ہے اور گو یہ اس کے فضل کا ہر دم سوالی ہے مگر اس کو یہ ظرف بھی نصیب ہوا ہے کہ اِس کیلئے اُس کی تعریف کرنا کچھ پیٹ بھرنے پر موقوف نہیں! سبحان اللہ روزہ کیسی خوبصورت عبادت ہے! اللہ کی تسبیح، اللہ کی بندگی، اللہ کی حمد اور اللہ کی فرمانبرداری کچھ اِس کی شکم سیری پر منحصرنہیں۔ یہ بھوکا رہ کر بھی اس کی ویسی ہی حمد اور تعریف کرے گا جیسی کہ شکم سیر ہو کر۔ اس لئے کہ وہ آپ اپنی ذات میں قابل ستائش ہے اور لائق حمد اور یہ آپ اپنی ذات میں احسان مند اور اُس کا ثنا خوان! وہ دے تو اُس کے دینے پر اُس کی تعریف وہ کبھی کسی وقت نہ بھی دے تو اُس کی حکمت پر پیشگی اعتماد اور اُس کی دانائی پر اُس کی تعریف اور اُس کے فیصلے پر کامل اطمینان اور اِس سے بھی بہتر صلہ پانے کی اُس سے امید اور آس۔ وہ دے کر کھانے سے روک دے تب بھی اُسی کی تعریف اور اُس کا حکم بسروچشم! لہ الحمد فی الاولی والاخرہ ولہ الحکم والیہ ترجعون۔

    پس یہ ایک غیر مشروط بندگی ہے۔ ہر حال میں اللہ کی تعریف اور اللہ کی احسان مندی ہے اور اللہ کی طلب میں سچا ہونے کی ایک عاجزانہ مگر ایک عملی تعبیر۔

    روزہ اگر میکانکی عمل نہیں بلکہ ایک شعوری عمل ہے اور ایمان اور احتساب کا پیدا کردہ ہے تو انسان کی بھوک اور پیاس ان سب احساسات کی ایک خاموش مگر خوبصورت زبان بن جاتی ہے۔ انسان سارا دن ان احساسات کو پالتا اور بڑھاتا ہے اور اسی کیفیت میں صبح سے شام کر لیتا ہے۔ یوں ایک مہینہ وہ یوں گزارتا ہے کہ صبح چڑھتے ہی ایمان کا یہ سبق بیک وقت شعور اور عمل کی زبان میں یاد کرنے لگتا ہے اور شام ڈھلنے تک اسی سبق کو یاد کئے چلا جاتا ہے۔ یہ سبق ایک بار ذہن نشین ہوجائے تو بھوک اور پیاس میں اللہ نے کچھ ایسی خاصیت رکھی ہے کہ یہ خود ہی اس سبق کی یاددہانی بنتی ہے۔ یہ ایک قدرتی انتظام ہے کہ دن کا زیادہ سے زیادہ حصہ انسان اس سبق کے یاد کرنے میں گزارے۔ جیسے جیسے بھوک پیاس میں شدت آتی ہے ویسے ویسے ہی یہ سبق یاد ہونے لگتا ہے اور اسی نسبت سے ایمان کی یہ غذا اس کی روح میں اترتی ہے۔ جس شخص کی بھوک اور پیاس کو ایسی خوبصورت زبان مل جائے اور وہ اس کیلئے اتنے سارے پیغام نشر کرے وہ مالک کی نگاہ میں بھلا کیوں نہ جچے گا۔ اب حال یہ ہوتا ہے کہ اس کے منہ کی ناخوشگوار بو اللہ کے ہاں مشک کی خوشبو سے بڑھ جاتی ہے۔

    وسلام۔۔۔

  • #2
    Re: انسان کیا ہے؟

    جزاک اللہ کارتوس بھائی اور پغا، کے اسلام سیکشن میں خوش آمدید میں امید کرتا ہوں کے ہم آپ کے علم سے یہاں مستفید ہوں گے اور آپ بھی پیغام پالیسی کو مد نظر رکھتے ہوئے معیاری پوسٹنگ کریں گے۔
    والسلام آپ کا خیر اندیش عابد عنایت
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #3
      Re: انسان کیا ہے؟

      Bohat khoob :rose
      :jazak:

      Comment


      • #4
        Re: انسان کیا ہے؟

        jazakallah Kartoos Bhai!
        its really a great thread about huminty in Islam.
        please keep it up.
        Waslaam-o-Alaikum

        Comment

        Working...
        X