:36_3_21[1]:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
سائنس عالمِ اَسباب اور اللہ ربّ العزّت کی طے کردہ فطرت کے قوانین کے مطالعہ کا نام ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے :
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ.
(حم السجده، 41 : 53)
ہم عنقریب اُنہیں دُنیا میں اور خود اُن کی ذات میں (اپنی قدرت و حکمت کی) نشانیاں دِکھائیں گے یہاں تک کہ اُن پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
عالمِ اَسباب کو اپنا موضوعِ بحث بنانے والی سائنس عالمِ مافوق الفطرت کے مطالعہ سے تو کجا اُس کی اَبجد کے شعور سے بھی محروم ہے۔ آج جو اَعمال و اَفعال ہم اَسباب اِختیار کر کے سراِنجام دیتے ہیں اور اُنہیں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کے مظہر قرار دیتے ہیں، اُن میں سے بہت سے اَعمال اَسباب و عِلل کے بغیر سائنسی زبان میں یکسر ناممکن قرار پاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سائنس اپنے مخصوص دائرۂ کار (عالمِ اسباب) میں مقیّد ہونے کے سبب مادُون الاسباب اور مافوق الفطرت اَفعال کا سراِنجام دینا تو کجا اُن کی تعبیرو توجیہہ اور تفہیم و توثیق کے قابل بھی کسی صورت نہیں ہو سکتی۔ یہاں اِس اَمر کی وضاحت ضروری ہے کہ معجزہ کسی مادّی تعبیر و تفہیم یا توجیہہ و توثیق کا محتاج نہیں، مقصود صرف اِس اَمر کی نشاندہی ہے کہ جن حقائق کا اِنکشاف حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل وحی اِلٰہی اور علمِ نبوت کی بنیاد پر کیا تھا، آج سائنس اپنے اِرتقائی سفر کے اَن گنت مراحل طے کرنے کے بعد اُن حقائق کی اپنی سی جزوی تعبیر و توجیہہ کرنے کے قابل ہوئی ہے۔ یقیناً اِس بات کا اِمکان موجود ہے کہ سائنس آگے چل کر اپنے موجودہ نظریات سے رُجوع کر لے یا اُن میں ترمیم و اِضافہ کو ضروری گردانے، لیکن ہمارے لئے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اَقدس سے نکلا ہوا ہر حرف، حرفِ آخر ہے اور یہی ہماری اِیمانیات کا بنیادی پتھر ہے۔ معجزہ کا لغوی مفہوم
معجزہ کا اِصطلاحی مفہوم
مختلف اَدوار میں اَربابِ علم و فن نے معجزہ کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں۔ چند اہم تعریفات یہ ہیں :
1. أمر خارق العادة يعجز البشر عن أن يأتوا بمثله.
(المنجد : 488)
معجزہ اُس خارقُ العادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مِثل لانے سے فردِ بشر عاجز آ جائے۔
2۔ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
إعلم أنّ معنٰی تسميتنا ماجاء ت به الأنبياء معجزة هو أن الخلق عجزوا عن الإتيان بمثلها.
(الشفاء، 1 : 349)
یہ بات بخوبی جان لینی چاہئے کہ جو کچھ انبیاء علیھم السلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اُسے ہم نے معجزے کا نام اِس لئے دیا ہے کہ مخلوق اُس کی مِثل لانے سے عاجز ہوتی ہے۔
3۔ اِمام خازن رحمۃ اللہ علیہ معجزہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
(تفسير الخازن، 2 : 124)
معجزہ اللہ کے نبی اور رسول کی طرف سے (جملہ اِنسانوں کے لئے) ایک چیلنج ہوتا ہے اور باری تعالیٰ کے اِس فرمان کا آئینہ دار ہوتا ہے کہ :
4. المعجزة عبارةٌ عن إظهار قدرة اﷲ سبحانه و تعالٰی و حکمته علٰی يد نبی مرسل بين أُمّته بحيث يعجز أهل عصره عن إيراد مثلها.
(معارج النبوة، 4 : 377)
معجزہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا اُس کے برگزیدہ نبی کے دستِ مبارک پر اِظہار ہے تاکہ وہ اپنی اُمت اور اہلِ زمانہ کو اُس کی مِثل لانے سے عاجز کر دے۔
5۔ ابوشکورسالمی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی معجزہ کی بڑی جامع تعریف کی ہے، فرماتے ہیں :
حد المعجزة أن يظهر عقيب
السوال و الدّعوىٰ ناقضاً للعادة
من غير إستحالة بجميع الوجوه
و يعجز الناس عن إتيان مثله
بعد التجهد و الإجتهاد إذا کان
بهم حذاقة و رزانة فی مثل تلک الصنيعة.
(کتاب التمهيد فی بيان التوحيد از ابو شکور : 71)
معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ سوال اور دعویٰ کے بعد (اللہ کے رسول اور نبی کے ہاتھ پر) کوئی ایسی خارقِ عادت چیز ظاہر ہو جو ہر حیثیت سے مُحال نہ ہو اور لوگ باوجود کوشش اور تدبیر کے اُس قسم کے معاملات میں پوری فہم و بصیرت رکھتے ہوئے بھی اُس کے مقابلے سے عاجز ہوں۔
مندرجہ بالا تعریفات سے یہ بات اظہر مِن الشمس ہو جاتی ہے کہ
- معجزہ مِن جانبِ اللہ ہوتا ہے لیکن اُس کا صدُور اللہ کے برگزیدہ نبی اور رسول کے ذرِیعہ ہوتا ہے۔
- معجزہ مروّجہ قوانینِ فطرت اور عالمِ اَسباب کے برعکس ہوتا ہے۔
- معجزہ نبی اور رسول کا ذاتی نہیں بلکہ عطائی فعل ہے اور یہ عطا اللہ ربّ العزّت کی طرف سے ہوتی ہے۔
- معجزے کا ظہور چونکہ رحمانی اور اُلوہی قوّت سے ہوتا ہے اِس لئے عقلِ اِنسانی اُس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے اور تصویرِ حیرت بن کر سرِتسلیم خم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی حقیقت کا اِدراک نہیں کر سکتی۔
Comment