مشرکین عرب کی آپ ﷺ کے بارے میں رائے
مشرکین عرب رسول اللہ ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کا سبب آپ ﷺ کی ذات نہ تھی بلکہ وہ آپ ﷺ کے اخلاق کے گرویدہ تھے۔ ایک بار ابوجہل نے آپ ﷺ سے کہا:
قد نعلم يا محمد انك تصل الرحم ، وتصدق الحديث ، ولا نكذبك ، ولكن نكذب الذي جئت به۔ (سنن الترمذی)
ترجمہ: ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور باتیں بھی سچی کرتے ہیں، ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو آپ لے کر آئے ہیں۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کو رسول اللہ ﷺ کی ذات سے عناد نہ تھا اور وہ آپ ﷺ کے اعلی اخلاق کو مانتے تھے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے تمام کفار مکہ کو قبول اسلام کی دعوت دینے سے پہلے اپنے بارے میں رائے لی تو انہوں نے کہا:
ما جربنا عليك الا صدقا (صحیح البخاری)
ترجمہ: ہم نے آپ سے سچ ہی سنا ہے (یعنی آپ سچے ہیں)۔
لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے لاالہ الا اللہ کی دعوت دی تو یہی لوگ آپ ﷺ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگانے لگا۔ ایک موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کی دعوت یوں دی:
يا ايها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا (صحیح ابن حبان)
ترجمہ: اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو کامیاب ہوجاؤ گے
یہ سن کر ابولہب کہتا تھا:
انه صابی كاذب (مسند احمد)
ترجمہ: یقینا یہ بے دین جھوٹا ہے۔
مشرکین عرب کا شرک کیا تھا؟
اوپر بیان ہوا کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو سچا جانتے تھے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ کس چیز کا انکار کرتے تھے کہ اللہ کا اقرار کرنے کے باوجود وہ مشرک قرار دیے گئے؟ اس کا ایک ہی سبب تھا جس کو قرآن پاک نے اس طرح بیان کیا ہے:
اجعل الآلهة الها واحدا ان هذا لشي ء عجاب (ص: 5)
ترجمہ: کیا اس نے اتنے الہوں کی جگہ ایک ہی الہ بنا دیا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کا انکار صرف اللہ کو ایک الہ ماننےسے تھا۔
قرآن پاک نے اس کا جواب یوں دیا ہے:
لا تتخذوا الھین اثنین انما ھو الہ واحد (النحل: 51)
ترجمہ: تم دو الہ مت بناؤ الہ تو صرف ایک ہی ہے
لو كان فيهما آلهة الا الله لفسدتا فسبحان الله رب العرش عما يصفون (الانبیاء:22)
ترجمہ:اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہوجاتے
یعنی ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کثرت الہ کے قائل تھے جب کہ لا الہ الا اللہ ایک الہ کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہوا کہ یہ سمجھا جائے کہ الہ سے کیا مراد ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوکر بھی اپنے آپ کو توحید پر کاربند سمجھتے ہیں۔
مشرکین عرب رسول اللہ ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کا سبب آپ ﷺ کی ذات نہ تھی بلکہ وہ آپ ﷺ کے اخلاق کے گرویدہ تھے۔ ایک بار ابوجہل نے آپ ﷺ سے کہا:
قد نعلم يا محمد انك تصل الرحم ، وتصدق الحديث ، ولا نكذبك ، ولكن نكذب الذي جئت به۔ (سنن الترمذی)
ترجمہ: ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور باتیں بھی سچی کرتے ہیں، ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے بلکہ اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو آپ لے کر آئے ہیں۔
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کو رسول اللہ ﷺ کی ذات سے عناد نہ تھا اور وہ آپ ﷺ کے اعلی اخلاق کو مانتے تھے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے تمام کفار مکہ کو قبول اسلام کی دعوت دینے سے پہلے اپنے بارے میں رائے لی تو انہوں نے کہا:
ما جربنا عليك الا صدقا (صحیح البخاری)
ترجمہ: ہم نے آپ سے سچ ہی سنا ہے (یعنی آپ سچے ہیں)۔
لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے لاالہ الا اللہ کی دعوت دی تو یہی لوگ آپ ﷺ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگانے لگا۔ ایک موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے اس کلمے کی دعوت یوں دی:
يا ايها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا (صحیح ابن حبان)
ترجمہ: اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہو کامیاب ہوجاؤ گے
یہ سن کر ابولہب کہتا تھا:
انه صابی كاذب (مسند احمد)
ترجمہ: یقینا یہ بے دین جھوٹا ہے۔
مشرکین عرب کا شرک کیا تھا؟
اوپر بیان ہوا کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار نہیں کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کو سچا جانتے تھے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ وہ کس چیز کا انکار کرتے تھے کہ اللہ کا اقرار کرنے کے باوجود وہ مشرک قرار دیے گئے؟ اس کا ایک ہی سبب تھا جس کو قرآن پاک نے اس طرح بیان کیا ہے:
اجعل الآلهة الها واحدا ان هذا لشي ء عجاب (ص: 5)
ترجمہ: کیا اس نے اتنے الہوں کی جگہ ایک ہی الہ بنا دیا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین عرب کا انکار صرف اللہ کو ایک الہ ماننےسے تھا۔
قرآن پاک نے اس کا جواب یوں دیا ہے:
لا تتخذوا الھین اثنین انما ھو الہ واحد (النحل: 51)
ترجمہ: تم دو الہ مت بناؤ الہ تو صرف ایک ہی ہے
لو كان فيهما آلهة الا الله لفسدتا فسبحان الله رب العرش عما يصفون (الانبیاء:22)
ترجمہ:اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہوجاتے
یعنی ان کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کثرت الہ کے قائل تھے جب کہ لا الہ الا اللہ ایک الہ کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہوا کہ یہ سمجھا جائے کہ الہ سے کیا مراد ہے۔ لیکن اس سے پہلے ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے وہ یہ کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوکر بھی اپنے آپ کو توحید پر کاربند سمجھتے ہیں۔
(جاری ہے)