تمہید
قرآن کریم نے جتنا زور توحید کے اثبات اور شریک کی تردید پر دیا ہے اتنا زور کسی دوسرے مسئلے پر نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے:
ان الشرک لظلم عظیم (لقمان: 13)
یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
قرآن پاک بتاتا ہے کہ تمام انبیا کی دعوت کا مرکزی نکتہ ایک ہی تھا: لا الہ الا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی بھی الہ نہیں ہے۔
وما ارسلنا من قبلك من رسول الا نوحي اليه انه لا اله الا انا فاعبدون (الانبیاء: 25)
اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی الہ نہیں تو میری ہی عبادت کرو
اللہ تعالیٰ کے قانون میں شرک کتنی بری چیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ اٹھارہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نام گنوانے کے بعد فرماتے ہیں:
ولو اشركوا لحبط عنهم ما كانوا يعملون (الانعام:88)
اور اگر وہ لوگ بھی شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے
یعنی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات کے کسی کو شریک ٹھہرانا کس قدر ناپسند ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرے کے کہا جارہا ہے:
ولقد اوحي اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين (الزمر: 65)
اور (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاؤ گے۔
گو کہ نبی سے شرک ہونا ناممکن ہے لیکن امت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔
انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ و ماوہ النار وما للظٰلمین من انصار (المائدہ: 72)
یقینا جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سے ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان تجعل للہ ندا و ھو خلقک (صحیح البخاری)
کہ تو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے۔
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کی ایک مخصوص دعا ایسی ہوتی ہے جس کو درجہ قبولیت حاصل ہوتا ہے اور ہرنبی نے ایسی دعا دنیا کے اندر ہی کر لی ہے لیکن میں نے وہ دعا ابھی تک نہیں کی وہ دعا میں نے اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ لیکن یہ دعا کس کے حق میں قبول ہو گی؟ پڑھیے:
فھی نائلۃ ان شاء اللہ من مات من امتی لایشرک باللہ شئیا (صحیح مسلم)
تو وہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچ سکتی ہے جس کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کے شرک میں ملوث ہوجانے کا خطرہ ہے۔
حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں مجھے میرے محبوب ﷺ نے یہ وصیت کی ہے:
ان لاتشرک باللہ شیئا وان قطعت او حرقت (سنن ابن ماجہ)
کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا چاہے تم ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں یا قتل کردیے جاؤ۔
خلاصہ یہ کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنا رہے گا۔ اس کے باوجود لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ قلب کی گہرائیوں سے اپنے اعمال کو اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس تمام تر گمراہی کی بنیادی وجہ ایک ہے وہ یہ کہ عام مسلمان سمجھتا ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام جن لوگوں میں آیا وہ بت پرست تھے۔ کیونکہ وہ بت پرست تھے اس لیے وہ تمام آیتیں اور حدیثیں جن میں شرک کی برائی آئی ہے ان سے بت پرستی والا شرک ہی مراد ہے۔
اس مضمون میں اس مغالطے کا جائزہ لے کر حقیقت بیان کی گئی ہے۔آیئے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین عرب کا خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کیا عقیدہ تھا۔
مشرکین عرب کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں
کیا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری تھے۔ یقینا نہیں! مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری نہیں تھے۔ وہ نہ صرف اس کے ہونے کے قائل تھے بلکہ بہت ساری چیزوں کو وہ صرف اسی کی طرف منسوب کرتے تھے ]حاشیہ: [ مثلا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا خالق اور رازق، کائنات کے امور کو چلانے والا، اور ہر چیز کا اختیار رکھنے والا مانتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے۔
خالق اللہ
ولئن سالتهم من خلقهم ليقولن الله فانى يؤفكون (الزخرف: 87)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟
ولئن سالتهم من خلق السمٰوٰت والارض ليقولن الله (الزمر: 38)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے
رزق دینے والا اللہ، مالک اللہ، زندگی دینے والا اللہ، موت دینے والا اللہ،دنیا کے امور چلانے والا اللہ
قل من يرزقكم من السماء والارض ام من يملك السمع والابصار ومن يخرج الحي من الميت ويخرج الميت من الحي ومن يدبر الامر فسيقولون الله فقل افلا تتقون (یونس: 31)
(ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔ جھٹ کہہ دیں گے کہ اللہ۔ تو کہو کہ پھر تم (اللہ سے) ڈرتے کیوں نہیں؟
زمین و آسمان کا مالک اللہ، ہر چیز کا مالک اللہ، بچانے والا اللہ، گھیرنے والا اللہ
قل لمن الارض ومن فيها ان كنتم تعلمون () سيقولون لله قل افلا تذكرون () قل من رب السمٰوٰت السبع ورب العرش العظيم() سيقولون لله قل افلا تتقون() قل من بيده ملكوت كل شيء وهو يجير ولا يجار عليه ان كنتم تعلمون() سيقولون لله قل فانى تسحرون (یونس: 84-89)
کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے سب کس کا ہے؟ جھٹ بول اٹھیں گے کہ اللہ کا۔ کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟ (ان سے) پوچھو کہ سات آسمانوں کا کون مالک ہے اور عرش عظیم کا (کون) مالک (ہے؟) بےساختہ کہہ دیں گے کہ یہ (چیزیں) اللہ ہی کی ہیں، کہو کہ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور وہ بچاتا ہے اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا، فورا کہہ دیں گے کہ (ایسی بادشاہی تو) اللہ ہی کی ہے، تو کہو پھر تم پر جادو کہاں سے پڑ جاتا ہے؟
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ یہیں سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ وہ بتوں کو اللہ نہیں مانتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ بتوں کا اللہ نہیں مانتے تھے تو پھر وہ بتوں کی پوجا کیوں کرتے تھے؟ درحقیقت بتوں کو وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کا ذہن کسی پیکر محسوس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا طلبگار تھا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے:
والذين اتخذوا من دونه اولياء ما نعبدهم الا ليقربونا الى الله زلفى (الزمر:3)
اور جن لوگوں نے اس کے (اللہ) سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی اس لئے عبادت ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔
ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم ويقولون هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس: 18)
اور یہ (لوگ) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
قرآن کریم نے جتنا زور توحید کے اثبات اور شریک کی تردید پر دیا ہے اتنا زور کسی دوسرے مسئلے پر نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے:
ان الشرک لظلم عظیم (لقمان: 13)
یقینا شرک بہت بڑا ظلم ہے۔
قرآن پاک بتاتا ہے کہ تمام انبیا کی دعوت کا مرکزی نکتہ ایک ہی تھا: لا الہ الا اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا تمہارا کوئی بھی الہ نہیں ہے۔
وما ارسلنا من قبلك من رسول الا نوحي اليه انه لا اله الا انا فاعبدون (الانبیاء: 25)
اور جو پیغمبر ہم نےتم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی الہ نہیں تو میری ہی عبادت کرو
اللہ تعالیٰ کے قانون میں شرک کتنی بری چیز ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سورۃ انعام میں اللہ تعالیٰ اٹھارہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نام گنوانے کے بعد فرماتے ہیں:
ولو اشركوا لحبط عنهم ما كانوا يعملون (الانعام:88)
اور اگر وہ لوگ بھی شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے
یعنی مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کو اس کی ذات کے کسی کو شریک ٹھہرانا کس قدر ناپسند ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرے کے کہا جارہا ہے:
ولقد اوحي اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك ولتكونن من الخاسرين (الزمر: 65)
اور (اے محمدﷺ) تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاؤ گے۔
گو کہ نبی سے شرک ہونا ناممکن ہے لیکن امت کو سمجھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے۔
انہ من یشرک باللہ فقد حرم اللہ علیہ الجنۃ و ماوہ النار وما للظٰلمین من انصار (المائدہ: 72)
یقینا جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر بہشت حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سے ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ان تجعل للہ ندا و ھو خلقک (صحیح البخاری)
کہ تو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے حالانکہ اسی نے تجھے پیدا کیا ہے۔
حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کی ایک مخصوص دعا ایسی ہوتی ہے جس کو درجہ قبولیت حاصل ہوتا ہے اور ہرنبی نے ایسی دعا دنیا کے اندر ہی کر لی ہے لیکن میں نے وہ دعا ابھی تک نہیں کی وہ دعا میں نے اپنی امت کی شفاعت کے لیے چھوڑ رکھی ہے۔ لیکن یہ دعا کس کے حق میں قبول ہو گی؟ پڑھیے:
فھی نائلۃ ان شاء اللہ من مات من امتی لایشرک باللہ شئیا (صحیح مسلم)
تو وہ دعا اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری امت میں سے ہر اس شخص کو پہنچ سکتی ہے جس کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرایا۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کے شرک میں ملوث ہوجانے کا خطرہ ہے۔
حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں مجھے میرے محبوب ﷺ نے یہ وصیت کی ہے:
ان لاتشرک باللہ شیئا وان قطعت او حرقت (سنن ابن ماجہ)
کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا چاہے تم ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں یا قتل کردیے جاؤ۔
خلاصہ یہ کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ مشرک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنا رہے گا۔ اس کے باوجود لوگ شرکیہ عقائد اور اعمال میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ قلب کی گہرائیوں سے اپنے اعمال کو اسلام کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس تمام تر گمراہی کی بنیادی وجہ ایک ہے وہ یہ کہ عام مسلمان سمجھتا ہے کہ شرک صرف بت پرستی کا نام ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام جن لوگوں میں آیا وہ بت پرست تھے۔ کیونکہ وہ بت پرست تھے اس لیے وہ تمام آیتیں اور حدیثیں جن میں شرک کی برائی آئی ہے ان سے بت پرستی والا شرک ہی مراد ہے۔
اس مضمون میں اس مغالطے کا جائزہ لے کر حقیقت بیان کی گئی ہے۔آیئے سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ مشرکین عرب کا خود اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کیا عقیدہ تھا۔
مشرکین عرب کا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں
کیا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری تھے۔ یقینا نہیں! مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکاری نہیں تھے۔ وہ نہ صرف اس کے ہونے کے قائل تھے بلکہ بہت ساری چیزوں کو وہ صرف اسی کی طرف منسوب کرتے تھے ]حاشیہ: [ مثلا مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو آسمانوں اور زمین کا خالق اور رازق، کائنات کے امور کو چلانے والا، اور ہر چیز کا اختیار رکھنے والا مانتے تھے۔ ملاحظہ کیجیے۔
خالق اللہ
ولئن سالتهم من خلقهم ليقولن الله فانى يؤفكون (الزخرف: 87)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے۔ تو پھر یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں؟
ولئن سالتهم من خلق السمٰوٰت والارض ليقولن الله (الزمر: 38)
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے
رزق دینے والا اللہ، مالک اللہ، زندگی دینے والا اللہ، موت دینے والا اللہ،دنیا کے امور چلانے والا اللہ
قل من يرزقكم من السماء والارض ام من يملك السمع والابصار ومن يخرج الحي من الميت ويخرج الميت من الحي ومن يدبر الامر فسيقولون الله فقل افلا تتقون (یونس: 31)
(ان سے) پوچھو کہ تم کو آسمان اور زمین میں رزق کون دیتا ہے یا (تمہارے) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے اور بےجان سے جاندار کون پیدا کرتا ہے اور دنیا کے کاموں کا انتظام کون کرتا ہے۔ جھٹ کہہ دیں گے کہ اللہ۔ تو کہو کہ پھر تم (اللہ سے) ڈرتے کیوں نہیں؟
زمین و آسمان کا مالک اللہ، ہر چیز کا مالک اللہ، بچانے والا اللہ، گھیرنے والا اللہ
قل لمن الارض ومن فيها ان كنتم تعلمون () سيقولون لله قل افلا تذكرون () قل من رب السمٰوٰت السبع ورب العرش العظيم() سيقولون لله قل افلا تتقون() قل من بيده ملكوت كل شيء وهو يجير ولا يجار عليه ان كنتم تعلمون() سيقولون لله قل فانى تسحرون (یونس: 84-89)
کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ زمین اور جو کچھ زمین میں ہے سب کس کا ہے؟ جھٹ بول اٹھیں گے کہ اللہ کا۔ کہو کہ پھر تم سوچتے کیوں نہیں؟ (ان سے) پوچھو کہ سات آسمانوں کا کون مالک ہے اور عرش عظیم کا (کون) مالک (ہے؟) بےساختہ کہہ دیں گے کہ یہ (چیزیں) اللہ ہی کی ہیں، کہو کہ پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ کہو کہ اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی بادشاہی ہے اور وہ بچاتا ہے اور اس سے کوئی بچا نہیں سکتا، فورا کہہ دیں گے کہ (ایسی بادشاہی تو) اللہ ہی کی ہے، تو کہو پھر تم پر جادو کہاں سے پڑ جاتا ہے؟
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین عرب اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے۔ یہیں سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ وہ بتوں کو اللہ نہیں مانتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ جب وہ بتوں کا اللہ نہیں مانتے تھے تو پھر وہ بتوں کی پوجا کیوں کرتے تھے؟ درحقیقت بتوں کو وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ ان کا ذہن کسی پیکر محسوس کے واسطے سے اللہ تعالیٰ سے جڑنے کا طلبگار تھا۔ اسی لیے وہ کہتے تھے:
والذين اتخذوا من دونه اولياء ما نعبدهم الا ليقربونا الى الله زلفى (الزمر:3)
اور جن لوگوں نے اس کے (اللہ) سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کی اس لئے عبادت ہیں کہ ہم کو اللہ کا مقرب بنادیں۔
ويعبدون من دون الله ما لا يضرهم ولا ينفعهم ويقولون هؤلاء شفعاؤنا عند الله (یونس: 18)
اور یہ (لوگ) اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ ہی سکتی ہیں اور نہ کچھ بھلا ہی کر سکتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔
(جاری ہے)