دھرم سر جھیل
سطع سمندر سے 13150 فٹ بلند دھرم سر اور سمبک سر جھلیوں کی خوبصورتی دییکھنے کا لائق ہے۔۔درہ بابو سر سے ایک جیپ ٹریک نیچے گٹی داس کے میدان میں اترتا ہے اور یہ جیپ ٹریک جہاں میدان کو چھوتا ہے وہاں اپ کو دائیں طرف اینٹوں کی ایک چار دیوری سی نظر اتی ہے جو یہاں کا پولو گروانڈ ہے جھیلوں کو تریک اسی جگہ سے شروع ہوتا ہے جہاں اپ کو ایک نالے کو عبور کر کے ایک چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے ایک ہزار فٹ کی یہ چڑھائی تھوڑی سی مشکل ہے میں جولائی 2008 میں یہاں ایا تھا۔ٹریک کے اغاز میں ایک چلاسی نوجوان سے ملاقات ہوگئی جو ہمیں اپنے گھر سے تاڑ رہا تھا ور ظاہرا مسلح تھا علکیک سلیک کے بعد جب ہم نے جانا چاہا تو اس نے ہمیں چاے ک دعوت دی
یارا ہم تم کو چائے پلائے گا۔۔تم ہمارا مہمان ہے
نہیں ہمیں جلدی ہے میں نے معذرت چاہی
تم چائے پئے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتا اس نے گویا دھمکی دی
بھرھال مں چائے کے لیے رک گیا اس وران اس نے سوال و جواب کا سلسہ شروع کع دیا کہ شہر میں کیا کرتا ہے یہاں کس لئے اتا ہے تصویریں کیوں بناتا ہے وغیرہ وغیرہ
کچھ دیر میں دو چھوٹے بچے چائے لے ائے اور ابھی ہم بکری کے دودھ کی یہ چائے زہر مار کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس چلاسی نواجوان نے عجیب وغریب بات کہہ دی
یارا ادھر اکیلا کیوں اتا ہے؟۔۔اپنی گرل فرینڈ کو ساتھ لایا کرو نا ‘‘ اس سے پہلے کہ میں اس غیر متوقع سوال کا کوئی جواب دیتا وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے بولا ’’ ادہر کوئی مسئلہ نہیں۔۔بے فکر ہو کر لائو۔۔جو مرضی کرو۔۔اور اگر کوئی گڑ بڑ کرے تو ہم کو بتاو
ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہاں گرل فرینڈ لانے کی صورت میں پہلے گڑ بڑ کون کرے گا ہم نے اسے بتایا کہ ہما اس قماش کے لوگ نہیں ہیں لیکن یہ مسلسل ہمیں قائل کرتا رہا۔۔شاید اس کا خیال تھا کہ شہری بابو قسم کے لوگ بس یہی کام کرتے ہیں
گرل فرینڈ کا ذکر کرتے ہوئے س کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرا جاتی اور جب وہ یہ کہتا کہ جو مرضی کرو تو اس کی آنکھوں سے عیاشی چھلکتی تھی
جھیل تلاش کرتے ہوئے مجھے کوئ دقت نہیں ہوئی کونکہ مقامی بچوں نے خود ہی اپنی خدمات پیش کر دی دس بارہ بچے ہمارے ساتھ چلنے لگے ان میں سے بیشتر اردو سے نابلد تھے لیکن کرنسی سے خوب واقف تھے پہلے انہوں نے دس دس روپے پہ راہنامئی فراہم کی لیکن جوں جوں بلندی کی طرف بڑھتے گئے انہوں نے اپنا ریٹ بڑھانا شروع کردیا اور جھیل پر پہنچ کر ساٹھ روپے فی کس کا مطالبی کیا جا رہا تھا اچھا خاصہ ہنگامہ ہوا گیا اس سے پہلے کے معاملہ مزید بگڑتا ہم نے پچیس روپے فی بچہ کے حساب سے ادائگی کر کے تصادم سے بچا لیا
سطع سمندر سے 13150 فٹ بلند دھرم سر اور سمبک سر جھلیوں کی خوبصورتی دییکھنے کا لائق ہے۔۔درہ بابو سر سے ایک جیپ ٹریک نیچے گٹی داس کے میدان میں اترتا ہے اور یہ جیپ ٹریک جہاں میدان کو چھوتا ہے وہاں اپ کو دائیں طرف اینٹوں کی ایک چار دیوری سی نظر اتی ہے جو یہاں کا پولو گروانڈ ہے جھیلوں کو تریک اسی جگہ سے شروع ہوتا ہے جہاں اپ کو ایک نالے کو عبور کر کے ایک چڑھائی چڑھنا پڑتی ہے ایک ہزار فٹ کی یہ چڑھائی تھوڑی سی مشکل ہے میں جولائی 2008 میں یہاں ایا تھا۔ٹریک کے اغاز میں ایک چلاسی نوجوان سے ملاقات ہوگئی جو ہمیں اپنے گھر سے تاڑ رہا تھا ور ظاہرا مسلح تھا علکیک سلیک کے بعد جب ہم نے جانا چاہا تو اس نے ہمیں چاے ک دعوت دی
یارا ہم تم کو چائے پلائے گا۔۔تم ہمارا مہمان ہے
نہیں ہمیں جلدی ہے میں نے معذرت چاہی
تم چائے پئے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتا اس نے گویا دھمکی دی
بھرھال مں چائے کے لیے رک گیا اس وران اس نے سوال و جواب کا سلسہ شروع کع دیا کہ شہر میں کیا کرتا ہے یہاں کس لئے اتا ہے تصویریں کیوں بناتا ہے وغیرہ وغیرہ
کچھ دیر میں دو چھوٹے بچے چائے لے ائے اور ابھی ہم بکری کے دودھ کی یہ چائے زہر مار کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس چلاسی نواجوان نے عجیب وغریب بات کہہ دی
یارا ادھر اکیلا کیوں اتا ہے؟۔۔اپنی گرل فرینڈ کو ساتھ لایا کرو نا ‘‘ اس سے پہلے کہ میں اس غیر متوقع سوال کا کوئی جواب دیتا وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئے بولا ’’ ادہر کوئی مسئلہ نہیں۔۔بے فکر ہو کر لائو۔۔جو مرضی کرو۔۔اور اگر کوئی گڑ بڑ کرے تو ہم کو بتاو
ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہاں گرل فرینڈ لانے کی صورت میں پہلے گڑ بڑ کون کرے گا ہم نے اسے بتایا کہ ہما اس قماش کے لوگ نہیں ہیں لیکن یہ مسلسل ہمیں قائل کرتا رہا۔۔شاید اس کا خیال تھا کہ شہری بابو قسم کے لوگ بس یہی کام کرتے ہیں
گرل فرینڈ کا ذکر کرتے ہوئے س کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرا جاتی اور جب وہ یہ کہتا کہ جو مرضی کرو تو اس کی آنکھوں سے عیاشی چھلکتی تھی
جھیل تلاش کرتے ہوئے مجھے کوئ دقت نہیں ہوئی کونکہ مقامی بچوں نے خود ہی اپنی خدمات پیش کر دی دس بارہ بچے ہمارے ساتھ چلنے لگے ان میں سے بیشتر اردو سے نابلد تھے لیکن کرنسی سے خوب واقف تھے پہلے انہوں نے دس دس روپے پہ راہنامئی فراہم کی لیکن جوں جوں بلندی کی طرف بڑھتے گئے انہوں نے اپنا ریٹ بڑھانا شروع کردیا اور جھیل پر پہنچ کر ساٹھ روپے فی کس کا مطالبی کیا جا رہا تھا اچھا خاصہ ہنگامہ ہوا گیا اس سے پہلے کے معاملہ مزید بگڑتا ہم نے پچیس روپے فی بچہ کے حساب سے ادائگی کر کے تصادم سے بچا لیا
Comment