جھیل سیف الملوک
جھیلیوں کی ملکہ اور داستانوی شہرت رکھنے والی جھیل سیف الملوک
وادای کاغان کا سب سے چمکدار موتی اور اس کے ماتھے کا جھومر۔۔
بلند و بالا برفانی پہاڑوں میں گھری یہ پیالہ نما جھیل خوبصورتی میں
اپنی مثال اپ ہے۔۔دیو مالائی اور طلسماتی کہانیوں کا محور یہ پریوں ک جھیل
قدرت کی صناعی کا ایک بے مثال شاہکار ہے جس کے حسن کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں کہ اس کے ساتھ پریوں اور شہزادوں کی داستانیں کیوں منسوب ہیں جھیل کے اس پاس پھیلا ہوا سبزہ
اور پہاڑوں کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں اور جھیل کی صاف و شفاف سطع
پر ان کا عکس بلاشبہ فطرت کے خوبصورت ترین مناظر میں سے ایک ہے۔۔۔
جھیل سیف الملوک ایک افسانوی شہرت کی حامل جھیل ہے۔۔اتی شہرت
اور ایسی پذیرائی وادی بھر میں کسی اور مقام کو نہیں مل سکی یہ وادی ہی کی نہیں
پاکتسان کی بھی مقبول ترین جھیل ہے اس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ کسی راہ
چلتے شخص سے پوچھ لیں کہ پاکتسان کی کسی جھیل کا نام بتاو
تو بہ بے اختیار سیف الملوک کا نام لے گا۔۔جھیل کی محافظ برف کی چادر اوڑھے ہوئے پہاڑی
چوٹیوں میں وادی کاغان کی بلند ترین چوٹی ملکہ پربت بھی سامل ہے جسکی
بلندی 17355 فٹ ہے
جھیل سیف الملوک
جھیل سیف الملوک ناران سےاٹھ کلومیٹر جنوب مشرق
کی طرف سطع سمندر سے دس ہزار پانچ سو پچاس فٹ کی بلندی پہ واقع ہے
ناران سے جھیل تک دو سے تین گھنٹوں میں پیدل پہنچا جا سکتا ہے یا پھر باسانی
جیپ بھی ھاصل کی جا سکتی ہے اس راستے میں ایک گلیشیر سے بھ گزرنا پڑتا
ہے جب تک اس گلشئیر کا کلیر نہ کر دیا جائے جیپیں اگے نہیں جا سکتیں۔۔
جھیل کا خوبصورت ترین روپ جون جولائی میں دیکھنے کو ملتا ہے جب اس کے سر سبز کناروں
پر پھول مسکراتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے دمکتی ہیں اگست کے اخری دنوں میں سیف الملوک
تک پہنچنے والئے سیاح اکثر مایوس نظر اتے ہیں کہ اس کے اس پاس نہ
برف رہتی ہے نہ پھول اکتوبر میں سیاحوں کا سلسہ ختم ہو جاتا ہے اور جھیل کی رونقیں
ماند پڑ جاتی ہیں نومبر سے اپریل تک جھیل ای بار پھر
اسی سکوت اور تنہائی میں چلی جاتی ہے جیسے سینکڑوں سال قبل تھی۔۔جہاں اس کی سفید
خلوت میں کوئی مخل نہیں ہوتا
اپریل میں منجمد جھیل سیف الملوک
حالیہ برسوں میں جھیل پر انے والے سیاحوں کی تعداد میں بے پناہ
اضافہ ہوا ہے گئے وقتوں میں یہاں اکا دکا لوگ پہنچتے تھے ۔۔پھر رفتہ رفتہ یہاًں
گرمیوں کے تین چار ماہ قدرے رونق اور چہل پہل
رہنے لگی اس کے بعد وہ وقت ایا کے تل دھرنے کو جگہ نہ رہی اج وادی
میں لاتعداد سیاحوں میں سے ہر شخص یہاں پہنچنا اولین فرض خیال کرتا ہے
عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں یہ جھیل سہمی ہوئی ڈری ہوئی
دکھائی دیتی ہے لیکن اس تمام شور و غل اور گہماگہمی کے باوجود اس جھیل وہ
وہ سحر موجود ہے جو اپ کو جکڑ لیتا ہے اور اگر اپ چاہیں۔۔۔۔۔۔تو اس بے ہنگم
ہجوم میں بھی تنہا ہو سکتے ہیں
جھیل سیف الملوک کی پہلی جھلک بھی ایک سانس روک دینے والا نظارہ ہوتا ہے
جو سیآحوں کو ایک بار دم بخود کر دیتا ہے خاص طور پر ان سیاحوں
کا جو اس کے حسن کا پہلی مرتبہ دیدار کر رہے ہوتے ہیں
لیکن یہ بھی ان زمانوں کی بات تھی جب جھیل کی پہلی جھلک بھی صرف جھیل ہی دکھاتی تھی
اور اس کے کناروں پر بسا شہر اور بے پناہ مخلوق نظر نہیں اتی تھی
۔۔اور یہ میں جن گزرے زمانوں کی بات کر رہا وہ اتنے بھی گئے گزرے نہیں
۔۔صرف چند سال پہلے کی بات ہے لیکن ان چند سالوں میں قوم نے صدیوں کا فاصلہ طے کر لیا
جاری ہے
جھیلیوں کی ملکہ اور داستانوی شہرت رکھنے والی جھیل سیف الملوک
وادای کاغان کا سب سے چمکدار موتی اور اس کے ماتھے کا جھومر۔۔
بلند و بالا برفانی پہاڑوں میں گھری یہ پیالہ نما جھیل خوبصورتی میں
اپنی مثال اپ ہے۔۔دیو مالائی اور طلسماتی کہانیوں کا محور یہ پریوں ک جھیل
قدرت کی صناعی کا ایک بے مثال شاہکار ہے جس کے حسن کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا
مشکل نہیں کہ اس کے ساتھ پریوں اور شہزادوں کی داستانیں کیوں منسوب ہیں جھیل کے اس پاس پھیلا ہوا سبزہ
اور پہاڑوں کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں اور جھیل کی صاف و شفاف سطع
پر ان کا عکس بلاشبہ فطرت کے خوبصورت ترین مناظر میں سے ایک ہے۔۔۔
جھیل سیف الملوک ایک افسانوی شہرت کی حامل جھیل ہے۔۔اتی شہرت
اور ایسی پذیرائی وادی بھر میں کسی اور مقام کو نہیں مل سکی یہ وادی ہی کی نہیں
پاکتسان کی بھی مقبول ترین جھیل ہے اس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ کسی راہ
چلتے شخص سے پوچھ لیں کہ پاکتسان کی کسی جھیل کا نام بتاو
تو بہ بے اختیار سیف الملوک کا نام لے گا۔۔جھیل کی محافظ برف کی چادر اوڑھے ہوئے پہاڑی
چوٹیوں میں وادی کاغان کی بلند ترین چوٹی ملکہ پربت بھی سامل ہے جسکی
بلندی 17355 فٹ ہے
جھیل سیف الملوک
جھیل سیف الملوک ناران سےاٹھ کلومیٹر جنوب مشرق
کی طرف سطع سمندر سے دس ہزار پانچ سو پچاس فٹ کی بلندی پہ واقع ہے
ناران سے جھیل تک دو سے تین گھنٹوں میں پیدل پہنچا جا سکتا ہے یا پھر باسانی
جیپ بھی ھاصل کی جا سکتی ہے اس راستے میں ایک گلیشیر سے بھ گزرنا پڑتا
ہے جب تک اس گلشئیر کا کلیر نہ کر دیا جائے جیپیں اگے نہیں جا سکتیں۔۔
جھیل کا خوبصورت ترین روپ جون جولائی میں دیکھنے کو ملتا ہے جب اس کے سر سبز کناروں
پر پھول مسکراتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیاں برف سے دمکتی ہیں اگست کے اخری دنوں میں سیف الملوک
تک پہنچنے والئے سیاح اکثر مایوس نظر اتے ہیں کہ اس کے اس پاس نہ
برف رہتی ہے نہ پھول اکتوبر میں سیاحوں کا سلسہ ختم ہو جاتا ہے اور جھیل کی رونقیں
ماند پڑ جاتی ہیں نومبر سے اپریل تک جھیل ای بار پھر
اسی سکوت اور تنہائی میں چلی جاتی ہے جیسے سینکڑوں سال قبل تھی۔۔جہاں اس کی سفید
خلوت میں کوئی مخل نہیں ہوتا
اپریل میں منجمد جھیل سیف الملوک
حالیہ برسوں میں جھیل پر انے والے سیاحوں کی تعداد میں بے پناہ
اضافہ ہوا ہے گئے وقتوں میں یہاں اکا دکا لوگ پہنچتے تھے ۔۔پھر رفتہ رفتہ یہاًں
گرمیوں کے تین چار ماہ قدرے رونق اور چہل پہل
رہنے لگی اس کے بعد وہ وقت ایا کے تل دھرنے کو جگہ نہ رہی اج وادی
میں لاتعداد سیاحوں میں سے ہر شخص یہاں پہنچنا اولین فرض خیال کرتا ہے
عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں یہ جھیل سہمی ہوئی ڈری ہوئی
دکھائی دیتی ہے لیکن اس تمام شور و غل اور گہماگہمی کے باوجود اس جھیل وہ
وہ سحر موجود ہے جو اپ کو جکڑ لیتا ہے اور اگر اپ چاہیں۔۔۔۔۔۔تو اس بے ہنگم
ہجوم میں بھی تنہا ہو سکتے ہیں
جھیل سیف الملوک کی پہلی جھلک بھی ایک سانس روک دینے والا نظارہ ہوتا ہے
جو سیآحوں کو ایک بار دم بخود کر دیتا ہے خاص طور پر ان سیاحوں
کا جو اس کے حسن کا پہلی مرتبہ دیدار کر رہے ہوتے ہیں
لیکن یہ بھی ان زمانوں کی بات تھی جب جھیل کی پہلی جھلک بھی صرف جھیل ہی دکھاتی تھی
اور اس کے کناروں پر بسا شہر اور بے پناہ مخلوق نظر نہیں اتی تھی
۔۔اور یہ میں جن گزرے زمانوں کی بات کر رہا وہ اتنے بھی گئے گزرے نہیں
۔۔صرف چند سال پہلے کی بات ہے لیکن ان چند سالوں میں قوم نے صدیوں کا فاصلہ طے کر لیا
جاری ہے
Comment