دودی پت سر
دودی پت سر کا آئینہ
یوں تو وادی کاغان کو جھلیوں کی سر زمین کا جاتا ہے اس کے طول و عرض
میں بے شمار چھوٹی بڑئ جھلیں بکھری پڑی ہیں لیکن بات جب ہو حسن و جمال
کی رنگ و روپ کی اور قدرتی خوبصورتی کی تو بہت اسانی سے اور بلاشک و شبہ پورے
یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دودی پت سر کاغان کی
سب سے زیادہ پرکشش اور خؤبصورت جھیل ہے۔
آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے حسن کی مالک یہ داستانوی جھیل سیف الموک
سے کہیں زیادہ پری چہرہ اور ہلاکت افرین ہے قدرت نے اس جھیل کو
اتنے دلکش اطراف بخشے ہیں کہ اس کے حسن کو لافانی بنا دیا ہے
اور اصل میں اطراف ہی تو ہوتے ہیں ورنہ جھیل تو محض
پانی کا ایک ذخیرہ ہے جو کہیں بھی ہو سکتا ہے۔۔
بقول جان کیٹس
A thing of beauty is a joy for ever
کیٹس نے یہ بات کسی جھیل کے لیے نہیں کہی تھی لیکن ہم اسے دودی پت سر کے لیے مستعار
لے لیتے ہیں کہ جمالیاتی حسن سے مالا مال اور قدرت کی صناعی کا شہاکار
یہ جھیل انسان کے لیے مسلسل راحت کا باعث بنی ہے
سطع سمندر سے12800 فٹ بلندی پر واقع وادی کاغان کی اس انمول
جھیل کا جادوسر چڑھ کر بولتا ہے
مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں
لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے۔۔لیکن لاسٹ تصویر میں دیکھیں برف کا عکس
جب پانی میں پڑتا تو دودھ جیسی رنگت ہی نظر اتی۔۔
دودی پت سر فطرت کے ایک ایسے بلند و بال گوشے میں واقع ہے جہاں
سال کے اآتھ مہنے بر فیں راج کرتی ہیں اور مکمل ویرانی کا سماں ہوتا ہے لیکن یہاں کی
بہار۔۔۔ تما تر حشر سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے
سبزہ اتنا کہ جھوٹ گا گماں اور پھولوں کی بہتات کہ پائوں رکھان بھی مشکل۔۔
جھیل دودی پت سر تک جیپ ٹریک نہیں بنا لیکن شنید ہے کہ اس کی منظوری
ہوچکی اور کچھ سال تک جیپ ٹریک بن جائے گا اور پھر اس کا حشر بھی
سیف الملوک جیسا ہوگا۔۔کسی بھ جھیل کو برباد کرنے کا اسان طریقہ
یہ کہ اس تک جیپ ٹریک بنا دیا جائے کیونکہ ارام طلب اور تن اسان قوم صرف وہی
یلغار کرتی ہے جہاں اسے پیدل چلنے کی مشقت نہ اٹھانی پڑے اور وہ دن دور
نہیں جب لوگوں کو جم غفیر اس جھیل پر حملہ اور ہوگا اور قدرت کا یہ گوشہ حسیں
تباہ ہو کہ رہ جائے گا چشم تصور سے یہ دیکھنا کچھ مشکل نہیں
کہ ذہنوں سے زیادہ معدوں میں گنجائش رکھنے والے یہاں پکنک کے نام پر
پیٹ پوجا کرنے ائیں گے اور یہاں کڑھائی گوشت اور چکن نوش فرمائے گے
اور اس جھیل کے کناروں پر ہڈیاں اچھالیں گے
اس کربناک تصویر کے وجود میں انے سے پہلےسیف الموک سے سبق سیکھتے
ہوئے سادہ سی منصوبہ بندی کر کے دودی پت سر کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے مثلا یہ کہ
جھیل کے اس پاس کسی قسم کے ریستوران کھوکھوں یا سٹالز پر مکمل پابندی ہو اور اس جھیل سے ہٹ کر
کوئی علاقہ مخصوس کر دیا جائے،،جیپوں کو جھیل کے کنارے تک نہ جانے دیا جائے اور جھیل سے
کچھ فاصٌے پر ایک برئیر بان دیا جائے
لیکن سوال پھر پیدا ہوتا یہ سب کرے کون؟ ویسے بھی جہاں ملک بچانے کی
باتیں ہو رہی ہوں وہاں جھیلوں کو بچانے کی باتیں چہ از معنی۔۔
دودی پت سر کا آئینہ
یوں تو وادی کاغان کو جھلیوں کی سر زمین کا جاتا ہے اس کے طول و عرض
میں بے شمار چھوٹی بڑئ جھلیں بکھری پڑی ہیں لیکن بات جب ہو حسن و جمال
کی رنگ و روپ کی اور قدرتی خوبصورتی کی تو بہت اسانی سے اور بلاشک و شبہ پورے
یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ دودی پت سر کاغان کی
سب سے زیادہ پرکشش اور خؤبصورت جھیل ہے۔
آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے حسن کی مالک یہ داستانوی جھیل سیف الموک
سے کہیں زیادہ پری چہرہ اور ہلاکت افرین ہے قدرت نے اس جھیل کو
اتنے دلکش اطراف بخشے ہیں کہ اس کے حسن کو لافانی بنا دیا ہے
اور اصل میں اطراف ہی تو ہوتے ہیں ورنہ جھیل تو محض
پانی کا ایک ذخیرہ ہے جو کہیں بھی ہو سکتا ہے۔۔
بقول جان کیٹس
A thing of beauty is a joy for ever
کیٹس نے یہ بات کسی جھیل کے لیے نہیں کہی تھی لیکن ہم اسے دودی پت سر کے لیے مستعار
لے لیتے ہیں کہ جمالیاتی حسن سے مالا مال اور قدرت کی صناعی کا شہاکار
یہ جھیل انسان کے لیے مسلسل راحت کا باعث بنی ہے
سطع سمندر سے12800 فٹ بلندی پر واقع وادی کاغان کی اس انمول
جھیل کا جادوسر چڑھ کر بولتا ہے
مقامی زبان میں دودی پت سر کے معنی دودھ جیسے سفید پانی والی جھیل کے ہیں
لیکن جھیل کا رنگ سفید نہیں نیلا ہے۔۔لیکن لاسٹ تصویر میں دیکھیں برف کا عکس
جب پانی میں پڑتا تو دودھ جیسی رنگت ہی نظر اتی۔۔
دودی پت سر فطرت کے ایک ایسے بلند و بال گوشے میں واقع ہے جہاں
سال کے اآتھ مہنے بر فیں راج کرتی ہیں اور مکمل ویرانی کا سماں ہوتا ہے لیکن یہاں کی
بہار۔۔۔ تما تر حشر سامانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے
سبزہ اتنا کہ جھوٹ گا گماں اور پھولوں کی بہتات کہ پائوں رکھان بھی مشکل۔۔
جھیل دودی پت سر تک جیپ ٹریک نہیں بنا لیکن شنید ہے کہ اس کی منظوری
ہوچکی اور کچھ سال تک جیپ ٹریک بن جائے گا اور پھر اس کا حشر بھی
سیف الملوک جیسا ہوگا۔۔کسی بھ جھیل کو برباد کرنے کا اسان طریقہ
یہ کہ اس تک جیپ ٹریک بنا دیا جائے کیونکہ ارام طلب اور تن اسان قوم صرف وہی
یلغار کرتی ہے جہاں اسے پیدل چلنے کی مشقت نہ اٹھانی پڑے اور وہ دن دور
نہیں جب لوگوں کو جم غفیر اس جھیل پر حملہ اور ہوگا اور قدرت کا یہ گوشہ حسیں
تباہ ہو کہ رہ جائے گا چشم تصور سے یہ دیکھنا کچھ مشکل نہیں
کہ ذہنوں سے زیادہ معدوں میں گنجائش رکھنے والے یہاں پکنک کے نام پر
پیٹ پوجا کرنے ائیں گے اور یہاں کڑھائی گوشت اور چکن نوش فرمائے گے
اور اس جھیل کے کناروں پر ہڈیاں اچھالیں گے
اس کربناک تصویر کے وجود میں انے سے پہلےسیف الموک سے سبق سیکھتے
ہوئے سادہ سی منصوبہ بندی کر کے دودی پت سر کو تباہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے مثلا یہ کہ
جھیل کے اس پاس کسی قسم کے ریستوران کھوکھوں یا سٹالز پر مکمل پابندی ہو اور اس جھیل سے ہٹ کر
کوئی علاقہ مخصوس کر دیا جائے،،جیپوں کو جھیل کے کنارے تک نہ جانے دیا جائے اور جھیل سے
کچھ فاصٌے پر ایک برئیر بان دیا جائے
لیکن سوال پھر پیدا ہوتا یہ سب کرے کون؟ ویسے بھی جہاں ملک بچانے کی
باتیں ہو رہی ہوں وہاں جھیلوں کو بچانے کی باتیں چہ از معنی۔۔
Comment