ڈاکٹریٹ کے لئیے اپی ریسرچ کے سلسلہ میں میں نے پاکستا کی سیاحت کے تھی. تیس برس گزرنت کے باوجود ایسے لگتا ہے جیسے کل ہی واپس ہوا ہوں. اس سفر کی یادگار میری ایک غزل "کراچی سے واپسی پر" اور ایک قطعہ "اہل لاھور کے نام" ہیں.
اپے سفر کے کچھ تاثرات "پیغام" کے اراکین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں. امید ہے کہ معزز اراکین پیغام کیدلچسپی کا باعث ہونگے.
تاثرات کا آغاز غزل اور قطعہ سے کر رہا ہوں.
کراچی سے واپسی پر
قدم قدم پہ محبت نوازیاں دیکھیں
تمہارے شہر میں بس شادمانیاں دیکھیں
بلا کا حسن بھی دیکھا غضب کے غمزے بھی
یہیں پہ ہم نے قیامت کی شوخیاں دیکھیں
گریں تو دل کے خرابہ کو لالہ زار کریں
وہ دلنواز تبسّم کی بجلیاں دیکھیں
عجم تو خیر عرب گنگ ہوجو سن پائے
ہر ایک لب پہ وہ شیریں بیانیاں دیکھیں
ہمیشہ ساتھ رہا صبح سحر بنگالہ
تھرکتی ناچتی ہر شام گوپیاں دیکھیں
رہے کچھ ایسے تکلّف سے وضعداری سے
نہ لطف وصل نہ فرقت کی سختیاں دیکھیں
خبر ملی جو تری واپسی کی اے ارماں
بہت اداس کراچی کی لڑکیاں دیکھیں
اپے سفر کے کچھ تاثرات "پیغام" کے اراکین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں. امید ہے کہ معزز اراکین پیغام کیدلچسپی کا باعث ہونگے.
تاثرات کا آغاز غزل اور قطعہ سے کر رہا ہوں.
کراچی سے واپسی پر
قدم قدم پہ محبت نوازیاں دیکھیں
تمہارے شہر میں بس شادمانیاں دیکھیں
بلا کا حسن بھی دیکھا غضب کے غمزے بھی
یہیں پہ ہم نے قیامت کی شوخیاں دیکھیں
گریں تو دل کے خرابہ کو لالہ زار کریں
وہ دلنواز تبسّم کی بجلیاں دیکھیں
عجم تو خیر عرب گنگ ہوجو سن پائے
ہر ایک لب پہ وہ شیریں بیانیاں دیکھیں
ہمیشہ ساتھ رہا صبح سحر بنگالہ
تھرکتی ناچتی ہر شام گوپیاں دیکھیں
رہے کچھ ایسے تکلّف سے وضعداری سے
نہ لطف وصل نہ فرقت کی سختیاں دیکھیں
خبر ملی جو تری واپسی کی اے ارماں
بہت اداس کراچی کی لڑکیاں دیکھیں
اہل لاھور کے نام
یوں تو جیے کو سبھی جیتے ہیں اس دنیا میں
اہل لاھور میں جینے کاسلیقہ دیکھا
کھردرے لہجہ میں وہ پیار و محبت وہ خلوص
لکھنویّوں سے جدا ان کا طریقہ دیکھا
آج بھی یاد ہیں وہ زندہ دلان لاھور (1)
جن کی تنقید نئے باب کا عنوان بنی
لکھنئو سے نہ ہی دلّی سے غرض تھی ان کو
ان کا مقصد تھا کہ اردو میں پڑے جان نئ
چند ہی روز گزارے تھے وہاں میں نے مگر
اب بھی پھرتے ہیں نگاہوں میں میری وہ لمحات
صبح تھیصبح بنارس تو مساء شام اودھ
صاف کہ دیتا ہون دن عید تھا شب لیل برات
یوں تو مشہور ہے ہر شہر ترا بر صغیر
حسن تعمیر کہیں اور کہیں صنعت کاکمال
کوئ ہمسر نہیں اس باب میں تیرا لاھور
ہے تری خاک میں آسودہ جہاں کا اقبال.
(1)لاھور کے چند مشہور مصنفین "نیاز مندان پنجاب" کے نام سے پنجاب کے اردو لکھے والوں پر دلّی اور لکھنئو کے تنقید نگاروں کی بےجا تنقید کا دندان شکن جواب دیا کرتے تھے.جن میں پطرس بخاری، غلام مصطفیٰ تبسّم وغیرہ شاملتھے. ان ہی کو میں نے زندہ دلان پنجاب کہا ہے،
یوں تو جیے کو سبھی جیتے ہیں اس دنیا میں
اہل لاھور میں جینے کاسلیقہ دیکھا
کھردرے لہجہ میں وہ پیار و محبت وہ خلوص
لکھنویّوں سے جدا ان کا طریقہ دیکھا
آج بھی یاد ہیں وہ زندہ دلان لاھور (1)
جن کی تنقید نئے باب کا عنوان بنی
لکھنئو سے نہ ہی دلّی سے غرض تھی ان کو
ان کا مقصد تھا کہ اردو میں پڑے جان نئ
چند ہی روز گزارے تھے وہاں میں نے مگر
اب بھی پھرتے ہیں نگاہوں میں میری وہ لمحات
صبح تھیصبح بنارس تو مساء شام اودھ
صاف کہ دیتا ہون دن عید تھا شب لیل برات
یوں تو مشہور ہے ہر شہر ترا بر صغیر
حسن تعمیر کہیں اور کہیں صنعت کاکمال
کوئ ہمسر نہیں اس باب میں تیرا لاھور
ہے تری خاک میں آسودہ جہاں کا اقبال.
(1)لاھور کے چند مشہور مصنفین "نیاز مندان پنجاب" کے نام سے پنجاب کے اردو لکھے والوں پر دلّی اور لکھنئو کے تنقید نگاروں کی بےجا تنقید کا دندان شکن جواب دیا کرتے تھے.جن میں پطرس بخاری، غلام مصطفیٰ تبسّم وغیرہ شاملتھے. ان ہی کو میں نے زندہ دلان پنجاب کہا ہے،
Comment