قائد اعظم کا تاریخی خطاب دستور ساز اسمبلی
گیارہ اگست1947ء کو
پہلی دستور ساز اسمبلی کے
افتتاحی اجلاس سے
قائد اعظم کا تاریخی خطاب
پہلی دستور ساز اسمبلی کے
افتتاحی اجلاس سے
قائد اعظم کا تاریخی خطاب
خواتین و حضرات! آپ نے مجھے اپنا پہلا صدر منتخب کرکے جس اعزاز سے نوازا ہے میں اس کیلئے تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ یہ ایک عظیم تر اعزاز و افتخار ہے۔
1۔ جو یہ خود مختار اسمبلی کسی بھی شخص کو عطا کرسکتی ہے۔ میں ان لیڈروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے اور میری خدمات کے بارے میں توصیفی تقریریں کیں اور اپنے اپنے تاثرات بیان کئے۔ میں صدق دل سے امید کرتا ہوں کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ہم اس دستور ساز اسمبلی کو دنیا کیلئے مثالی بنائیں گے۔ دستور ساز اسمبلی کو دو خاص فرائض سرانجام دینے ہیں۔ پہلا پرمشقت اور ذمے داری کا کام پاکستان کے مستقبل کا دستور بنانا ہے اور دوسرا فریضہ پاکستان کی وفاقی مقننہ کیلئے مکمل طور پر خود مختار ادارے کے طور پر کام کرنا ہے۔ہمیں پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کے لئے ایک عارضی دستور اختیار کرنا پڑا ہے۔ آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہ بے نظیر انقلاب جس کے نتیجے میں اس برصغیر میں دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کا منصوبہ منصئہ شہود پر آیا اور اس کی تخلیق ہوئی۔ اس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس پر نہ صرف ہم خود حیران ہیں بلکہ میرا خیال ہے ساری دنیا حیران ہورہی ہے۔ یہ انقلاب اس عظیم برصغیر کے مختلف النوع باشندوں کے علی الرغم ایک زبردست اور لامثال منصوبے کے تحت لایا گیا اور اس کے متعلق اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے پرامن طور پر ہرممکن طریق سے ایک ارتقائی عمل کے ذریعے حاصل کیا۔
2۔ اس اسمبلی میں اپنی بالکل پہلی کارروائی کے موقع پر میں کوئی طے شدہ اعلان نہیں کرسکتا مگر جو باتیں اس وقت میرے ذہن میں آئیں گی وہ کہوں گا۔ سب سے پہلی اور ضروری بات جس پر زور دوں گا۔ یاد رکھئے کہ اب آپ ایک خود مختار ادارہ ہیں اور آپ کو سب اختیارات حاصل ہیں۔ اس لئے آپ پر یہ ایک نازک ترین ذمے داری آن پڑی ہے کہ آپ کو کس طرح اپنے فیصلے کرنے ہیں۔ میں پہلی توجہ اس بات پر دوں گا اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ کسی حکومت کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ ملک میں لا اینڈ آرڈر (نظم و ضبط) قائم کرے تاکہ اس کے شہریوں کی جان و مال اور مذہبی عقیدوں کا تحفظ ہوسکے۔ دوسری بات جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ ایک بہت بڑی برائی ہے جس میں ہندوستان مبتلا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے ملک اس برائی کی گرفت سے آزاد ہیں، مگر میرا یہ خیال ہے کہ ہماری حالت اس معاملے میں بہت ہی خراب ہے۔ یہ رشوت اور رشوت خوری کی لعنت ہے۔ حقیقت میں یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں فولادی ہاتھ سے اسے کچلنا ہوگا اور مجھے امید ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اس اسمبلی کو مناسب اقدامات کرنا ہوں گے۔ چور بازاری (بلیک مارکیٹنگ) ایک اور لعنت ہے۔ ہاں! مجھے معلوم ہے کہ وقتاً فوقتاً چور بازاری کرنے والے پکڑے بھی جاتے ہیں اور انہیں سزا بھی ہوتی ہے۔ عدالتیں انہیں قید کی سزائیں بھی دیتی ہیں اور بعض اوقات صرف جرمانے کئے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس دیوہیکل شیطان سے عہدہ برآ ہونا ہے جو اس وقت معاشرے کا بھیانک ناسور ہے۔ مصیبت کی اس حالت میں جب ہم خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت کا مسلسل سامنا کررہے ہوں تو جو شخص چور بازاری کرتا ہے وہ نہ صرف ایک بڑے جرم بلکہ انتہائی بھیانک جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ بلیک مارکیٹئے حقائق سے باخبر، بڑے ذہین اور بالعموم ذمے دار لوگ ہوتے ہیں اور جب وہ چور بازاری میں ملوث ہوجاتے ہیں تو میرے خیال میں وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ وہ کنٹرول کے سارے قواعد و ضوابط اور نظام کو تہ و بالا کرکے اشیائے خوردنی اور لازمی اشیاء کی قلت پیدا کرکے بڑے پیمانے پر قحط، بھوک حتیٰ کہ موت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بعد جو بات میرے ذہن میں آتی ہے اس کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہیں، دیگر تمام اچھی اور بری چیزوں کے سات یہ برائی ہے۔ یہاں پھر یہ میراث اور ترکے میں ملی ساتھ چلی آتی ہے جس کا تعلق سفارش اور اقربا پروری ہے۔ میں یہ بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں کسی قسم کی سفارش اور اقربا پروری کو بالواسطہ اثر و رسوخ ہو یا بلاواسطہ، ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ میں جہاں بھی کہیں دیکھوں گا کہ یہ برائی کم تر یا زیادہ ہورہی ہے، اسے یقیناً گوارا نہیں کروں گا۔ مجھے معلوم ہے کہ خاصی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہند کی تقسیم اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر بالکل رضامند نہیں تھے۔ اس کے خلاف بہت کچھ کہا جاچکا ہے مگر جبکہ یہ قبول کیا جاچکا ہے ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ اسے قبول کرکے آبرو مندانہ معاہدے کے مطابق اس پر عمل کریں۔ اب یہ حتمی ہے اور ہم سب اس کے پابند ہیں لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہئے جیسا کہ میں نے کہا یہ عظیم انقلاب جو آیا، بے مثال ہے۔ کوئی بھی شخص ان احساسات کو بہ خوبی سمجھ سکتا ہے جو دو قوموں میں ایک اکثریت اور دوسری اقلیت میں پائے جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ممکن اور قابل عمل تھا؟ یہ تقسیم ہونی ہی تھی۔ دونوں طرف، ہندوستان اور پاکستان میں ایسے لوگ ہوں گے جو اسے پسند نہ کریں اور اس سے اتفاق نہ کریں لیکن میری فیصلہ کن رائے میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں تاریخ اس کے حق میں فیصلہ دے گی۔ علاوہ ازیں جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے حقیقی عملی تجربے سے یہ ثابت ہوگا کہ ہندوستان کے دستوری مسئلے کا یہی واحد حل تھا۔ متحدہ ہند کا کوئی بھی نظریہ کبھی کام نہیں آسکتا تھا اور میرے تجزیئے کے مطابق وہ ہمیں خوفناک تباہی کی جانب لے جاسکتا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ نظریہ درست ہو، ہوسکتا ہے درست نہ ہو، اسے دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح اس تقسیم میں اقلیتوں کے مسئلے سے بچنا ناممکن تھا خواہ اس مملکت میں ہو یا دوسری میں، اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس کا کوئی دوسرا حل بھی نہیں ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اگر اب ہم پاکستان کی عظیم مملکت کو خوشحال اور مرفہ الحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں کامل طور پر یہاں کے لوگوں، خصوصاً غریب عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کردینی چاہئے۔ اگر ہم ماضی کو فراموش کرکے اور دیرینہ رنجشوں کو دفن کرتے ہوئے باہمی تعاون سے متحد ہوکر کام کریں گے تو یقیناً کامیاب ہوں گے۔ اگر آپ اپنے ماضی کو بدل ڈالیں اور مل جل کر اس جذبے سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر ایک قطع نظر اس سے کہ ماضی میں اس کا آپ سے کیا تعلق تھا، قطع نظر اس سے کہ اس کا رنگ، نسل اور عقیدہ کیا ہے وہ اول و آخر اس مملکت کا مساوی حقوق و فرائض کے ساتھ شہری ہے تو آپ ایسی ترقی کریں گے جس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ میں اس پر بہت زیادہ زور نہیں دے سکتا۔ ہمیں اس جذبے کے ساتھ کام شروع کردینا چاہئے اور وقت گزرنے کے ساتھ اکثریتی اور اقلیتی گروہوں کے یہ تمام زاویئے بدل جائیں گے کیونکہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے آپ میں پٹھان ہیں، پنجابی ہیں اور شیعہ و سنی وغیرہ ہیں اور ہندوؤں میں آپ دیکھیں برہمن، ویشنواس، کھتری ہیں۔ علاوہ ازیں بنگالی، مدارسی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب امتیازات مٹ جائیں گے۔ حقیقت میں اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ہند میں یہ امتیازات حصول آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے ورنہ اس کے بنا ہم سب بہت پہلے آزاد ہوچکے ہوتے۔ کوئی بھی طاقت کسی دوسری قوم کو خصوصاً چار سو ملین (چالیس کروڑ) باشندوں کو محکوم نہیں رکھ سکتی۔ نہ آپ کو کسی نے فتح کیا ہوتا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تب بھی کوئی غیر طاقت ایک طویل عرصے تک آپ پر حکومت نہ کرسکتی یہ جو کچھ ہوا آپ کے اس افتراق کے باعث ہوا۔ لہٰذا ہمیں اس (نااتفاقی و افتراق) سے سبق سیکھنا چاہئے۔ آپ اب آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا اس مملکت پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب، عقیدے یا مسلک سے ہو اس کا مملکت کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل انگلستان کے احوال ہند سے بھی زیادہ ابتر تھے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کے درپے آزار تھے حتیٰ کہ اب بھی کچھ ایسی مملکتیں موجود ہیں جہاں یہ امتیاز برتا جاتا ہے اور کسی خاص طبقے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایسے ایام میں آغاز نہیں کررہے ہم ایک ایسے زمانے میں کاروبار مملکت کا آغاز کررہے ہیں جب ایسا کوئی افتراق نہیں ہے۔ کسی ایک طبقے یا دوسرے میں کوئی امتیاز نہیں۔ کسی ایک ذات یا مسلک میں اور دوسرے میں کوئی تصادم نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول پر آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے برابر کے شہری ہیں۔ انگلستان کے لوگوں نے وقت کے گزرنے کے ساتھ صورتحال اور حقائق کا سامنا کیا اور ان پر ان کی حکومت کی طرف سے ذمے داری کا جو بار ڈالا گیا اسے پورا کرنے لگے اور وہ اس آگ سے قدم بہ قدم گزرے۔ آج تم انصاف سے کہہ سکتے ہو کہ وہاں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ موجود نہیں۔ اب کیا موجود ہے؟ یہ کہ وہاں کا ہر فرد مملکت کا شہری ہے، برطانیہ عظمیٰ کا برابر کا شہری اور وہ سب ایک قوم کے رکن ہیں۔ اب میرا خیال ہے ہمیں ا س مقصود غائی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور آپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیکھیں گے کہ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں کیونکہ یہ ہر شخص کا اپنا اپنا عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے ایک مملکت کے شہری ہونے کی حیثیت سے۔ پس حضرات! میں نہیں چاہتا کہ آپ کا مزید وقت لوں۔ ایک بار پھر آپ کا شکریہ اس اعزاز و افتخار کے کیلئے جو آپ نے مجھے بخشا۔ میں ہمیشہ عدل و انصاف اور مساوات کے رہنما اصولوں، جنہیں سیاسی زبان میں بلا تعصب یا بدگمانی، بالفاظ دیگر بیجا طرف داری اور حمایت کے
1۔ جو یہ خود مختار اسمبلی کسی بھی شخص کو عطا کرسکتی ہے۔ میں ان لیڈروں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے اور میری خدمات کے بارے میں توصیفی تقریریں کیں اور اپنے اپنے تاثرات بیان کئے۔ میں صدق دل سے امید کرتا ہوں کہ آپ کی حمایت اور تعاون سے ہم اس دستور ساز اسمبلی کو دنیا کیلئے مثالی بنائیں گے۔ دستور ساز اسمبلی کو دو خاص فرائض سرانجام دینے ہیں۔ پہلا پرمشقت اور ذمے داری کا کام پاکستان کے مستقبل کا دستور بنانا ہے اور دوسرا فریضہ پاکستان کی وفاقی مقننہ کیلئے مکمل طور پر خود مختار ادارے کے طور پر کام کرنا ہے۔ہمیں پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کے لئے ایک عارضی دستور اختیار کرنا پڑا ہے۔ آپ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ یہ بے نظیر انقلاب جس کے نتیجے میں اس برصغیر میں دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کا منصوبہ منصئہ شہود پر آیا اور اس کی تخلیق ہوئی۔ اس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس پر نہ صرف ہم خود حیران ہیں بلکہ میرا خیال ہے ساری دنیا حیران ہورہی ہے۔ یہ انقلاب اس عظیم برصغیر کے مختلف النوع باشندوں کے علی الرغم ایک زبردست اور لامثال منصوبے کے تحت لایا گیا اور اس کے متعلق اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے پرامن طور پر ہرممکن طریق سے ایک ارتقائی عمل کے ذریعے حاصل کیا۔
2۔ اس اسمبلی میں اپنی بالکل پہلی کارروائی کے موقع پر میں کوئی طے شدہ اعلان نہیں کرسکتا مگر جو باتیں اس وقت میرے ذہن میں آئیں گی وہ کہوں گا۔ سب سے پہلی اور ضروری بات جس پر زور دوں گا۔ یاد رکھئے کہ اب آپ ایک خود مختار ادارہ ہیں اور آپ کو سب اختیارات حاصل ہیں۔ اس لئے آپ پر یہ ایک نازک ترین ذمے داری آن پڑی ہے کہ آپ کو کس طرح اپنے فیصلے کرنے ہیں۔ میں پہلی توجہ اس بات پر دوں گا اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ کسی حکومت کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ ملک میں لا اینڈ آرڈر (نظم و ضبط) قائم کرے تاکہ اس کے شہریوں کی جان و مال اور مذہبی عقیدوں کا تحفظ ہوسکے۔ دوسری بات جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ ایک بہت بڑی برائی ہے جس میں ہندوستان مبتلا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دوسرے ملک اس برائی کی گرفت سے آزاد ہیں، مگر میرا یہ خیال ہے کہ ہماری حالت اس معاملے میں بہت ہی خراب ہے۔ یہ رشوت اور رشوت خوری کی لعنت ہے۔ حقیقت میں یہ ایک زہر ہے۔ ہمیں فولادی ہاتھ سے اسے کچلنا ہوگا اور مجھے امید ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اس اسمبلی کو مناسب اقدامات کرنا ہوں گے۔ چور بازاری (بلیک مارکیٹنگ) ایک اور لعنت ہے۔ ہاں! مجھے معلوم ہے کہ وقتاً فوقتاً چور بازاری کرنے والے پکڑے بھی جاتے ہیں اور انہیں سزا بھی ہوتی ہے۔ عدالتیں انہیں قید کی سزائیں بھی دیتی ہیں اور بعض اوقات صرف جرمانے کئے جاتے ہیں۔ اب آپ کو اس دیوہیکل شیطان سے عہدہ برآ ہونا ہے جو اس وقت معاشرے کا بھیانک ناسور ہے۔ مصیبت کی اس حالت میں جب ہم خوراک اور دیگر ضروریات زندگی کی قلت کا مسلسل سامنا کررہے ہوں تو جو شخص چور بازاری کرتا ہے وہ نہ صرف ایک بڑے جرم بلکہ انتہائی بھیانک جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ بلیک مارکیٹئے حقائق سے باخبر، بڑے ذہین اور بالعموم ذمے دار لوگ ہوتے ہیں اور جب وہ چور بازاری میں ملوث ہوجاتے ہیں تو میرے خیال میں وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ وہ کنٹرول کے سارے قواعد و ضوابط اور نظام کو تہ و بالا کرکے اشیائے خوردنی اور لازمی اشیاء کی قلت پیدا کرکے بڑے پیمانے پر قحط، بھوک حتیٰ کہ موت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے بعد جو بات میرے ذہن میں آتی ہے اس کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو ہمیں ورثے میں ملی ہیں، دیگر تمام اچھی اور بری چیزوں کے سات یہ برائی ہے۔ یہاں پھر یہ میراث اور ترکے میں ملی ساتھ چلی آتی ہے جس کا تعلق سفارش اور اقربا پروری ہے۔ میں یہ بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ میں کسی قسم کی سفارش اور اقربا پروری کو بالواسطہ اثر و رسوخ ہو یا بلاواسطہ، ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔ میں جہاں بھی کہیں دیکھوں گا کہ یہ برائی کم تر یا زیادہ ہورہی ہے، اسے یقیناً گوارا نہیں کروں گا۔ مجھے معلوم ہے کہ خاصی تعداد میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہند کی تقسیم اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم پر بالکل رضامند نہیں تھے۔ اس کے خلاف بہت کچھ کہا جاچکا ہے مگر جبکہ یہ قبول کیا جاچکا ہے ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ خلوص نیت کے ساتھ اسے قبول کرکے آبرو مندانہ معاہدے کے مطابق اس پر عمل کریں۔ اب یہ حتمی ہے اور ہم سب اس کے پابند ہیں لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہئے جیسا کہ میں نے کہا یہ عظیم انقلاب جو آیا، بے مثال ہے۔ کوئی بھی شخص ان احساسات کو بہ خوبی سمجھ سکتا ہے جو دو قوموں میں ایک اکثریت اور دوسری اقلیت میں پائے جاتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا کیا اس کے علاوہ بھی کچھ ممکن اور قابل عمل تھا؟ یہ تقسیم ہونی ہی تھی۔ دونوں طرف، ہندوستان اور پاکستان میں ایسے لوگ ہوں گے جو اسے پسند نہ کریں اور اس سے اتفاق نہ کریں لیکن میری فیصلہ کن رائے میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں تھا اور مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں تاریخ اس کے حق میں فیصلہ دے گی۔ علاوہ ازیں جیسے جیسے ہم آگے بڑھیں گے حقیقی عملی تجربے سے یہ ثابت ہوگا کہ ہندوستان کے دستوری مسئلے کا یہی واحد حل تھا۔ متحدہ ہند کا کوئی بھی نظریہ کبھی کام نہیں آسکتا تھا اور میرے تجزیئے کے مطابق وہ ہمیں خوفناک تباہی کی جانب لے جاسکتا تھا۔ ہوسکتا ہے وہ نظریہ درست ہو، ہوسکتا ہے درست نہ ہو، اسے دیکھنا ہوگا۔ اسی طرح اس تقسیم میں اقلیتوں کے مسئلے سے بچنا ناممکن تھا خواہ اس مملکت میں ہو یا دوسری میں، اسے نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا اور اس کا کوئی دوسرا حل بھی نہیں ہے۔ اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اگر اب ہم پاکستان کی عظیم مملکت کو خوشحال اور مرفہ الحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں کامل طور پر یہاں کے لوگوں، خصوصاً غریب عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کردینی چاہئے۔ اگر ہم ماضی کو فراموش کرکے اور دیرینہ رنجشوں کو دفن کرتے ہوئے باہمی تعاون سے متحد ہوکر کام کریں گے تو یقیناً کامیاب ہوں گے۔ اگر آپ اپنے ماضی کو بدل ڈالیں اور مل جل کر اس جذبے سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر ایک قطع نظر اس سے کہ ماضی میں اس کا آپ سے کیا تعلق تھا، قطع نظر اس سے کہ اس کا رنگ، نسل اور عقیدہ کیا ہے وہ اول و آخر اس مملکت کا مساوی حقوق و فرائض کے ساتھ شہری ہے تو آپ ایسی ترقی کریں گے جس کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ میں اس پر بہت زیادہ زور نہیں دے سکتا۔ ہمیں اس جذبے کے ساتھ کام شروع کردینا چاہئے اور وقت گزرنے کے ساتھ اکثریتی اور اقلیتی گروہوں کے یہ تمام زاویئے بدل جائیں گے کیونکہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے آپ میں پٹھان ہیں، پنجابی ہیں اور شیعہ و سنی وغیرہ ہیں اور ہندوؤں میں آپ دیکھیں برہمن، ویشنواس، کھتری ہیں۔ علاوہ ازیں بنگالی، مدارسی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب امتیازات مٹ جائیں گے۔ حقیقت میں اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ ہند میں یہ امتیازات حصول آزادی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے ورنہ اس کے بنا ہم سب بہت پہلے آزاد ہوچکے ہوتے۔ کوئی بھی طاقت کسی دوسری قوم کو خصوصاً چار سو ملین (چالیس کروڑ) باشندوں کو محکوم نہیں رکھ سکتی۔ نہ آپ کو کسی نے فتح کیا ہوتا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تب بھی کوئی غیر طاقت ایک طویل عرصے تک آپ پر حکومت نہ کرسکتی یہ جو کچھ ہوا آپ کے اس افتراق کے باعث ہوا۔ لہٰذا ہمیں اس (نااتفاقی و افتراق) سے سبق سیکھنا چاہئے۔ آپ اب آزاد ہیں۔ آپ اپنے مندروں میں جانے کیلئے آزاد ہیں، آپ اپنی مسجدوں میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا اس مملکت پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کیلئے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب، عقیدے یا مسلک سے ہو اس کا مملکت کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ قبل انگلستان کے احوال ہند سے بھی زیادہ ابتر تھے۔ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کے درپے آزار تھے حتیٰ کہ اب بھی کچھ ایسی مملکتیں موجود ہیں جہاں یہ امتیاز برتا جاتا ہے اور کسی خاص طبقے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایسے ایام میں آغاز نہیں کررہے ہم ایک ایسے زمانے میں کاروبار مملکت کا آغاز کررہے ہیں جب ایسا کوئی افتراق نہیں ہے۔ کسی ایک طبقے یا دوسرے میں کوئی امتیاز نہیں۔ کسی ایک ذات یا مسلک میں اور دوسرے میں کوئی تصادم نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول پر آغاز کررہے ہیں کہ ہم سب ایک ہی مملکت کے برابر کے شہری ہیں۔ انگلستان کے لوگوں نے وقت کے گزرنے کے ساتھ صورتحال اور حقائق کا سامنا کیا اور ان پر ان کی حکومت کی طرف سے ذمے داری کا جو بار ڈالا گیا اسے پورا کرنے لگے اور وہ اس آگ سے قدم بہ قدم گزرے۔ آج تم انصاف سے کہہ سکتے ہو کہ وہاں رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ موجود نہیں۔ اب کیا موجود ہے؟ یہ کہ وہاں کا ہر فرد مملکت کا شہری ہے، برطانیہ عظمیٰ کا برابر کا شہری اور وہ سب ایک قوم کے رکن ہیں۔ اب میرا خیال ہے ہمیں ا س مقصود غائی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور آپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیکھیں گے کہ ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی نقطہ نظر سے نہیں کیونکہ یہ ہر شخص کا اپنا اپنا عقیدہ ہے بلکہ سیاسی اعتبار سے ایک مملکت کے شہری ہونے کی حیثیت سے۔ پس حضرات! میں نہیں چاہتا کہ آپ کا مزید وقت لوں۔ ایک بار پھر آپ کا شکریہ اس اعزاز و افتخار کے کیلئے جو آپ نے مجھے بخشا۔ میں ہمیشہ عدل و انصاف اور مساوات کے رہنما اصولوں، جنہیں سیاسی زبان میں بلا تعصب یا بدگمانی، بالفاظ دیگر بیجا طرف داری اور حمایت کے
اپنا منصبی فرض انجام دوں گا۔ مکمل غیر جانبداری میرا اصول ہوگا اور مجھے یقین ہے کہ میں آپ لوگوں کی مدد اور تعاون سے پاکستان کو مستقبل میں دنیا کی ایک عظیم ترین قوم بنتے دیکھ سکتا ہوں۔