قیام پاکستان کے بعد غزل
قیام پاکستان کے فوری بعدادبی افق پر نمایاں ہونے والےغزل گو شعراء کے
نام برصغیر کی تقسیم سے قبل ہی ادبی دنیا میں اپنی شناخت متعین کر چکے تھے
ان شعراء میں محمد دین تاثیر،حفیظ جالندھری،حفیظ ہوشیارپوری،صوفی غلام مصطفٰی تبسم،احسان دانش،عابد علی عابد،سیف الدین سیف،ظہیر کاشمیری،مجید امجد،میراجی،
فیض،احمد ندیم قاسمی،انجم رومانی،باقی صدیق،مختار صدیقی،عدم،عارف عبدالمتین،
یوسف ظفر،قتیل شفائی،ضیاء جالندھری،ساقی فاروقی،شہرت بخاری اور سراج الدین ظفر کےنام شامل ہیں،
ان میں سے کچھ شعراء کی غزلوں پر نظر ڈالتے ہیں
حفیظ جالندھری قدیم شعری اور کلاسیکی روایات کے علمبردار تھے
حفیظ کی ایک مشہور غزل کے چند مصرے
محبت کرنے والے کم نہ ہونگے
قیام پاکستان کے فوری بعدادبی افق پر نمایاں ہونے والےغزل گو شعراء کے
نام برصغیر کی تقسیم سے قبل ہی ادبی دنیا میں اپنی شناخت متعین کر چکے تھے
ان شعراء میں محمد دین تاثیر،حفیظ جالندھری،حفیظ ہوشیارپوری،صوفی غلام مصطفٰی تبسم،احسان دانش،عابد علی عابد،سیف الدین سیف،ظہیر کاشمیری،مجید امجد،میراجی،
فیض،احمد ندیم قاسمی،انجم رومانی،باقی صدیق،مختار صدیقی،عدم،عارف عبدالمتین،
یوسف ظفر،قتیل شفائی،ضیاء جالندھری،ساقی فاروقی،شہرت بخاری اور سراج الدین ظفر کےنام شامل ہیں،
ان میں سے کچھ شعراء کی غزلوں پر نظر ڈالتے ہیں
حفیظ جالندھری قدیم شعری اور کلاسیکی روایات کے علمبردار تھے
حفیظ کی ایک مشہور غزل کے چند مصرے
محبت کرنے والے کم نہ ہونگے
تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہونگے
دلوں کی الجھنیں بڑہتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تیری فرقت کے صدمے کم نہ ہونگے
فیض کی طرح احمد ندیم قاسمی کی غزل بھی رومان اور سیاست دوران کا امتزاج ہے
تجھے کھو کر بھی تجھے پائوں جہاں تک دیکھوں
حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
انجم رومانی کی غزل میں طنزیہ لہجہ نمایاں ہے
مرتے ہیں مگر جان سے جانا نہیں آتا
زندہ ہیں مگر آپ میں آنے کے نہیں ہم
گذشتہ ستور میں ہم نے ان شاعروں کی غزلوں کا جائزہ لیا جو قیام پاکستان سے پہلے بھی اپنی شعری حیثیت منوا چکت تھے،قیام پاکستان کے بعد جو نئے نام ادبی افق پر ابھرے ان میں سب سے اہم نام ناصر رضا کاظمی کا ہے،
ان کے علاوہ جمیل الدین عالی،ابن انشاء،حبیب جالب،عزیز حامد مدنی،احمد مشتاق،
سید ضمیر جعفری،منیر نیازی،اطہر نفیس،حمایت علی شاعر،احمد فراز،محشر بدایونی،جون ایلیا،انور مسعود وغیرہ ہیں ان غزل گو شعراء کے نام ۱۹۴۷ سے لے کر ۱۹۶۰تک کے عرصے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔
ہجرت ناصر کی غزل کی بنیاد ہے
دلوں کی الجھنیں بڑہتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تیری فرقت کے صدمے کم نہ ہونگے
فیض کی طرح احمد ندیم قاسمی کی غزل بھی رومان اور سیاست دوران کا امتزاج ہے
تجھے کھو کر بھی تجھے پائوں جہاں تک دیکھوں
حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
انجم رومانی کی غزل میں طنزیہ لہجہ نمایاں ہے
مرتے ہیں مگر جان سے جانا نہیں آتا
زندہ ہیں مگر آپ میں آنے کے نہیں ہم
گذشتہ ستور میں ہم نے ان شاعروں کی غزلوں کا جائزہ لیا جو قیام پاکستان سے پہلے بھی اپنی شعری حیثیت منوا چکت تھے،قیام پاکستان کے بعد جو نئے نام ادبی افق پر ابھرے ان میں سب سے اہم نام ناصر رضا کاظمی کا ہے،
ان کے علاوہ جمیل الدین عالی،ابن انشاء،حبیب جالب،عزیز حامد مدنی،احمد مشتاق،
سید ضمیر جعفری،منیر نیازی،اطہر نفیس،حمایت علی شاعر،احمد فراز،محشر بدایونی،جون ایلیا،انور مسعود وغیرہ ہیں ان غزل گو شعراء کے نام ۱۹۴۷ سے لے کر ۱۹۶۰تک کے عرصے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔
ہجرت ناصر کی غزل کی بنیاد ہے
انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ کے درمیان غزل کے افق پر ظہور ہونے والے شعراء میں شکیب جلالی،عبیداللہ جلالی،انور شعور،سحر انصاری،اقبال ساجد،عدیم ہاشمی،بشیر احمد،ناصر شہزاد،اور اختر ہوشیار پوری وغیرہ ہیں
فراز اپنے دور کے رومانی اور سیاسی موضوع پر شعر کہنے والے بہت کامیاب رہے
،
بزم مقتل جو سجے کل تو یہ امکان بھی ہے
ہم سے بسمل تو رہیں آپ سا قاتل نہ رہے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کروگے؟
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے؟
پیغام۔کوم
،
بزم مقتل جو سجے کل تو یہ امکان بھی ہے
ہم سے بسمل تو رہیں آپ سا قاتل نہ رہے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کروگے؟
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے؟
پیغام۔کوم
Comment