Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری


    اسلام علکیم


    کی حال اے سب دوستاں دا امید تا اے تساں سارے خوش باش ہوسو ۔۔تسی وی اجکل
    سارے پریشان ہوسو کے بابا جی نوں ہورے کی ہو گئیا جھلیا دی طرح پوسٹا تے پوسٹ
    کیتی جا رہیے نئے۔۔تے اسدی وجہ ایہہ کے ہر شاعر اور لکھاری تے اک بنجر پیریڈ اوندا
    اے اوہدے وچ اسدا ذہن بانجھ ہو جاندا اورکج وی نہیں لکھ سکدا۔۔میں وہ گزشتہ پانچ چھ
    مہیناں توں چپ چاپ اس پیریڈ وچوں گزر رہیا ساں ہون اچانک میرے دماغ وچ خیالات دی
    رفتار تیز تر ہو گئی اےمیں ہر وقت اج کل کچ ناں کج لکھادا رہندا میری دلچسپاں بہت سارئیاں
    نے میں نظماں، غزلاں، حمداں،منقبت کلام، کالم، طنز مزاح، فلسفہ سائینس تے ہورے کی کی
    میری تعلیم تے اینی نہیں میں ایف اے پاس پرمینوں علم دا بہت شوق اے کہ میں شروع شروع
    نکے موٹے افسانے لکھدا ساں فیر میں شاعری تے فلیپ لکھن لگ پئیاں فیر میری زندگی وچ
    فلسفہ آیا جسن نے مینوں بالکل ہی بدل دیتا میرا علمی دلچسپیاں دا دائرہ بہت وسیع ہو گیا
    میرے ذہن وچوں ہر چیز دا خوف وی نکل گیا ۔۔
    تے ہوڑمینوں تصوف نال وی لگاو ہوگیا صوفیا دے کلام تے میں مقالہ لکھیا اے مینوں
    امید اے تساں نوں میری اے کوشش پسند آوسی تے ایک معذرت چاہوں گا کہ میں
    پنجابی شاعری اتے اردو وچ لکھیا کیوں کہ کج لوکی پنجابی نہیں سمجھدے تے اوہناں دی
    سولت ماریوں میں اس نوں اردو وچ لکھیا

    خوش رہو آباد رہو سانوں دل دئیاں زخماں نال ویر اے اسی ساریاں واسطے
    دعا ہی کر سکدے اں

    پوسٹ دا عنوان اے خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

    تے اللہ خیر رکھی تے اجے ہی پوسٹ کر دیساں

    رب راکھا


    بابا کھجل سائیں
    Last edited by Dr Fausts; 12 August 2011, 23:09.
    :(

  • #2
    Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

    tusan da buat shukriya ja ithy wi nazar mario ...tan umeed an tusan wadia kalam asan nal share kandian:rose
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

      تساں میری گلاں نوں سمجھئے ای نہیں میں کلام نہیں تواڈے نال شئیر کرن لگیا
      میں تے ایک مقالہ لکھیا جئے غلام فرید دی عشقیہ شاعری اتے تے میرے ارداے
      اس نون آٰتھے پوست کرن دئے نے۔۔

      سمجھ آئی کے اگلی وی گئی؟



      :lol :lol :lol :lol

      :(

      Comment


      • #4
        Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

        خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری


        خواجہ فرید جامع کمالات تھے۔۔وہ ایک صاحب حال صوفی تھے۔۔مجاہدےاور ریاضت کی
        آگ میں تپ کر نکلے تھے۔۔۔عشق حقیقی اور عشق مجازی کے رمز آشنا تھے۔۔۔فن موسیقی سے بہرہ یاب
        تھے۔۔مذہبیات کے فاضل تھے۔۔عربی فارسی اردو سندھی اور ہندی زبانوں کے ماہر تھے سب سے
        آخر لیکن سب سے اہم وہ ایک عظیم صوفی شاعر تھے۔۔۔






        خواجہ فرید کی شاعری کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے تصوف و شعر کی روایات کا ذکر
        کرنا ضروری ہے جو ایران کے وجودی شاعروں اور ہندی بھگتوں کے کلام کی صورت میں ان
        تک پہنچی تھیں






        خواجہ غلام فرید نے اپنی کافیوں میں وحدت الوجود کے نظریے کی ترجمانی کی ہے۔۔فلسفے
        کی دنیا میں یہ نظریہ یونان قدیم کے لیاطی فلاسفہ پارمی نائدئس اور زینو نے پیش کیا تھا۔۔۔ان کا ادعا
        یہ تھا کہ کائنات وحدت ہے جس میں کثرت یا دوئی نہیں پائی جاتی۔۔۔بعد میں رومہ کے رواقئین
        ایپک ٹیٹیس اور مارکس آربلیس اور سکندریہ کے فلسفی قلاطینوس اور اس کے پیراوں
        فرفوریوس وغیرہ نےوحدت الوجود کی ترجمانی اپنے اپنے رنگ میں کی۔۔قلاطینویس ذات
        احد کو آفاتب سے تشبیہ دیتا تھا جس کی شعاعیں ہر شے کو منور کر رہی ہیں۔۔میر تقی میر

        تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا
        خورشیدمیں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

        فلاطینیوس کا صعود و تنزل یا فصل و جذب کا نظریہ عالم اسلام میں خاص طور سے مقبول ہوا
        ۔۔وہ کہتا ہے کہ ذات احد سے پہلاصدور عقل کل کا ہوا عقل کل سے نفس کل صادر ہوا
        جو بذات خود جملہ نفوس کا ماخذ ہے سب سے نیچے مادہ ہے اور وہ تاریکی ہے جس تک
        آفتاب کی کرنیں نہیں پہنچتیں۔۔ روح انسانی مادے کی تاریکی اور جہل میں اسیر ہو کر اپنے مصدر
        اول سے دور ہو جاتی ہےاور اس میں جذب ہونے کی آرزو اسے بے چین رکھتی ہے۔۔۔اسی آرزو
        کو عشق حقیقی کا نام دیا گیا




        جاری ہے
        Last edited by Dr Fausts; 12 August 2011, 23:30.
        :(

        Comment


        • #5
          Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

          فلاطینویس کے خیال میں تفکر تعمق مراقبےاوراستغراق کو بروئے کار لا کر
          مادے کر روح کو مادے کی اسیری سے رہائی دلائی جائے تو وہ اپنے مبدا کی طرف
          پرواز کر جاتی ہے اور اس میں دوبارہ جذب ہو کر اپنی منزل مقصود پالیتی ہے
          ۔۔۔فصل وجذب کا یہ نظریہ نو اشراقی کتب کے عربی تراجم کے ساتھ دنیائے اسلام میں
          ہر کہیں شائع ہو گیا۔۔۔مسلمان فلاسفہ الکہندی، اخوان الصفا، فارابی، اور ابن سینا کا عقوں
          کا نظریہ اسکی صدائے بازگشت ہے۔۔۔فلاسفہ روح کے ذات احد میں دوبارہ جذب ہونے کےلیے
          فکر و تعمق کو ضروری سمجھتے تھے۔۔لیکن صوفیا نے اس مقصد کے لیے مراقبے اور مجاہدے
          سے کاملینے کی دعوت دی۔۔انہوں نے ذات احد کو حسن ازلاور محبوب حقیقی کہا اور پر جوش
          انداز میں اس سے عشق کرنے لگے۔۔۔فارسی کے شاعروں عراقی عطار، رومی وغیرہنے
          عشق مجازی کے پیرائے میں عشق حقیقی کا راگ الاپنا شروع کر دیا




          شیخ اکبر محی الدین ابن عربی بھی جن سے خواجہ غلام فرید خاص طورست فیض یاد ہوئے
          وحدت الوجود یا ہمہ استنظریہ کے قائل تھے وہ ذات احد کو ذات باری کا مترادف سمجھتے تھے
          ان کا استدلال یہ تھا کہ صفات باری ذات باری سے الگ نہیں ہیں۔۔عالم صفات سے ظہورپذیر
          ہوا ہے اس لیے عالم بھی ذات باری سے الگ نہیں۔۔کثرت غیر حقیقی ہے حقیقی وجود ایک ہے
          اور وہ ذات حق ہے۔۔ابن عربی کا اجتہاد یہ ہے کہ انہوں نے نو اشراقیوں اور دول اول کے مسلمان
          فلاسفہ کا نظریہ فصل و جذب قبول نہیں کیااورذات حق سے اشیا کے صدور کے لیے انہوں نے
          اعیان ثابتہ کا مشہور تصور پیش کیا۔۔۔ابن عربی فرماتے ہیں کہ اعیان ثابتہ وہ معلومات ہیں
          جو ذات حق کے ذہن میں موجود ہیںاور اپنے اظہار کے متقاضی ہیں اور ذاتی حق تعالی کی رحمت
          اور فیضان سے مادی شکلیں اختیار کرتے رہتے ہیں۔۔البتہ ان کا وجود بالعرض ہےاوروجود
          عین ذات حق ہے۔۔۔شیخ اکبرکی ان تعلیمات کی شاعرانہ ترجمانی عربی کے شاعر
          ابن لفارضاور ایران کے وجودی شاعروں نے نہایت وجد آمیز پیرائے میں کی ہے۔۔
          چشتیہ سلسے کے صوفیا وحدت وجود کے پرجوش مبلعغ اور شارح تھے۔۔ان کے ابلاغ و ارشاد
          سے تمام اسلامی ملکوں میں بالعلوم ہندوستان اور بالخصوص مسلک وجودیکی ہمہ گیر اقشاعت
          ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہےکہ خواجہ فرید بھی چشتیہ سلسے سےمنسلک تھے






          جاری ہے
          :(

          Comment


          • #6
            Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

            Assalaam-O-alaikum

            Iss maloomat aur khoobsurat post per kharaj-e-tehseen qubool karain. bohat hi khoobsurat aur jaama tareeqay say aap nay Khuwaja Fareed sahab ki shayeri aur unn ki "Ishq-e-Ilahee" ki soch ko paish kia hay aur mazeed iss silsilay ko jaari rakhyeh.

            Khuwaja sahab kay mazeed kalaam ka intizaar rahay ga aur bohat khusi hogi agar usski sahii TASHREEH bhi mil jayay kiyonki bazahir unn ka qalaam "Ishq-e-mijaazi" lagta hay magar uss main "Ishq-e-haqeeqi" ko bayan kia gaya hota hay.

            Shukriya aur khush rahyeh

            Fi amaan ALLAH
            sigpic

            Comment


            • #7
              Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

              Shukria the fire:rose











              صوفیا کے جیتنے سلسے ہندوستان میں پھیلے ان میں چشتیہ کو سب سے زیادہ فروغ
              ہوا۔۔۔اس سلسلے کے بانی شیخ ابو اسحاق تھے جو خراسان کےن ایک قصبے چشت
              کے رہنے والے تھے۔۔ان کے ایک جلیل القدر پیرو خواجہ معین الدین سجزی نے ہندوستان
              میں اس سلسے کو شائع کیا۔۔خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، خواجہ فرید الدین گنج شکر،شیخ
              نظام الدین اولیا الشیخ اخی سراج، خواجہ گیسو دراز، خواجہ اشرف جہانگیر سمنانی شیخ سلیم چشتی
              وغیرہ اسی سلسے عالیہ کے عظما تھے
              ۔۔ جن کی کوششوں سے یہ سلسلہ شمالی ہندوستان
              گجرات بنگال، دکن میں ہر کہیں پھیل گیا اٹھارہویں صدی میں شاہ کلیم اللہ دہلوی نے اس کا احیا کیا
              پنجاب میں خواجہ نور محمد مہاروی، شاہ سلیمان تونسوی،پیرمہر علی شاہ گولڑوی خواجہ شمس الدین
              سیالوی اورپیر حیدر علی شاہ جلالپوری نے اس کی ترویج کی۔۔سلسہ عالیہ چشتیہ کو ہندوستان کے
              اطراف میں جو حیرت انگیز مقبولیت ھاصل ہوئی اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مشائخ چشتیہ وحدت ِ وجود
              کے قئل تھے اوروحدت وجود کا نظریہ ویدانت سے مماثلت رکھنے کے باعث ہندی طبائع کے زیادہ قریں
              تھا۔۔علاوہ ازیں صوفیا چشتیہ نے ہندوئوں سے خوشگوار تعلقات قائم کئے اوران کے تالیف قلب کی
              کوشش کرتے رہے چنانچہ ہنوووں کی اکثریت انہی حضرات کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوئی



              ۔۔بعض ارباب نظر نے چشتیہ کی وحدت وجود اور ویدانت میں اقدارمشترک کی نشان دہی کی ہے
              ،۔مظہر جان جاناں، محسن فانی، عبید اللہ سندھی اور شستری نے خاص طور پر ان کے معنوی ربط
              کی طرفتوجہ دلائی





              دارا شکوہ نے اپنی کتاب مجمع البحرین میں ان مشترک عناصر پر تفصیل سے بحث کی ہے




              جاری ہے
              :(

              Comment


              • #8
                Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

                Originally posted by بابا کھجل سائیں View Post
                تساں میری گلاں نوں سمجھئے ای نہیں میں کلام نہیں تواڈے نال شئیر کرن لگیا
                میں تے ایک مقالہ لکھیا جئے غلام فرید دی عشقیہ شاعری اتے تے میرے ارداے
                اس نون آٰتھے پوست کرن دئے نے۔۔

                سمجھ آئی کے اگلی وی گئی؟



                :lol :lol :lol :lol

                agli wi gyi : p
                ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                Comment


                • #9
                  Re: خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری

                  ویدانت ( لغوی معنی ویدوں کا اخر) میں اُپنشدوں کی منتشر تعلیمات کو منطقی اور مربوط
                  صورت میں پیش کیا گیا ہے۔۔اس کا حاصل یہ ہے کہ برہمن ( اپنشدوں کا برہم ) ہی ذات
                  حقیقی ہے۔۔اس کے علاوہ جو کچھ بھی عالم حواس میں دکھائی دیتا ہے مایا ہے اودیا (جہالت)
                  ہے انسانی روح اورآفاقی روح ( برہمن ) اصل میں ایک ہی ہیں
                  آتما ( روح ) مایا کے جال میں پھینس کر اپنے اصل مبد کو بھول جاتی ہےاور جب اس پر حقیقت
                  منکشف ہوتی ہے کہ وہ اور برہمن واحد الاصل ہیںتو مایا کا پرہ چاک ہوجاتا ہےاوراتما اپنے اصل
                  مصدر کو لوٹ جاتی ہے۔۔یہی اس کی مکتی یا نجات ہے۔۔مکتی حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں
                  جنانا ( علم ) یوگا ( عمل ) بھگتی ( عشق )

                  گیتا کو ویدوں کا جو ہرکہا جاتا ہے اس میں بھگتی ( عشق ) کی تعلیم اور کرشن سے شخصی
                  رابطہ قائم کرنے کی دوعت دی گئی ہے

                  وقت گزرنے کے ساتھ کرشن بھگتوں نے گیتا کے فلسفی کرشن سے قطع راہ کر لیاورکرشن
                  گوپال اوررادھا کے معاشقے کا ذکر عشقیہ انداز میں کرنے لگے اس موضوع پرنظمیں لکھنے
                  کا آغاز جے دیو کی گیتا گوندا سے ہوا جو سنسکرت میں کہی گئی جس کا مشہور ترجمہ
                  آدون آرنلڈ نے انگریزی میں کیا تھا۔۔اسمیں کرشن اوررادھا کی مواصلتکا ذکر نہایت ہوس پرور
                  پیرائے میں کیا گیا ہے۔۔اسپڑھ کر کام شاستر کے مصنف و تسیان کا نظریہ یاد آجاتا کہ آتما
                  کا برہمن میں واصل ہو کر دوئی کھو دینا اور مواصلتمیں مرد عورت کی دونی کا مٹ جانا ایک ہی
                  کیفیت کی دو صورتیں ہیں




                  ان تصریحات سے اس بات کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ دوسرے چشتیہ صوفیا
                  کی طرح خواجہ غلام فرید بھی شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی وحدت الوجود
                  کے شارح ہیں۔۔اپنی کافیوں میں جب وہ حقیقت کا بیان حقیقت ہی کے رنگ میں کرتے
                  ہیں تو وہ خالصتا وحدت وجود کے عارفانہ مضامین بیان کرتے ہیں جیسے کہ مثلا
                  عطار، سنائی یا رومی نے کئے ہیں۔۔۔



                  لیکن جب وہ حقیقت کا بیان مجاز کے شاعرانہ پیرائے میں کرتے ہیں تو وہ سندھی اور ہندی
                  شاعری کی ملکی روایات کا اپنا لیتے ہیں جس میں عورت مرد سے اظہار عشق کرتی ہے
                  کرشن بھگتوں نے رادھا ( روح ) کی زبانی کرشن ( برہمن ) سے محبت کا ظہار کیا ہے
                  شاہ لطیف بھٹائی اور خواجہ فرید کی شاعری میں سسی ( روح ) اور پُنل ( ازلی محبوب ) کی
                  جستجو میں حیران اوراس کے وصال میں کوشاں ہے۔۔


                  خواجہ فرید نے جو کافیاں برج بھاشا میں لکھی ہیں ان میں کرشن بھگتوں کا پیرایہ
                  بیان کیا گیا ہے ،ایک کافی میں فرماتے ہیںً


                  اج بن موج برج راج بنسری بجائی
                  بنسری بجائی اگم گیت اگائی
                  کونج موں بھلی کرشن رے کھیلوں ہوری
                  پریم نیم کی گلال کو اڑائی
                  من مینہ سادھ سدھ دا لکھ لاگ رہو
                  مہاں گھٹ وحت پٹ جوت ہیں جگائی
                  کاشی متھرا پراگ برہم وشنو مہیش
                  سب ہی اپنے بھیس کیوں بدیس جائی




                  یعنی آج بندرا بن میں مہاراج کرشن نے بنسری بجائی مقدس گیت گاے
                  محبوب کی گلی میں کرشن کے ساتھ ہولی کھیلی محبت کے عہد کی توثیق
                  ہوئی معرفت کی گلال اڑا کر سرخرو ہوئے سچے محبوب کےتصور نے اخر
                  ذات محبوب کا پتہ دیا۔ خودی کی شکست سے روح واصل نور حقیقی ہوئی
                  اور چراغ دل روشن ہوا۔۔۔کاشی متھرا پراگ برہم وشنو مہیش سب ہمارے دل
                  میں ہیں۔۔پردیس جانے جانے کی کیا ضرورت ہے



                  خواجہ فرید کیمشہور کافی ہے

                  میںدا عشق وی توں میںڈا یار وی توں۔۔۔۔مینڈا دین وی توں ایمان وی توں


                  اسیمیں فرماتے ہیں

                  مینڈا سانول مٹھرا شام سلونا
                  من موہن جاناں وی توں


                  شام اور من موہن کرشن ہی کے نام ہں۔۔لفظ کرشن کا لغوی معنی کالا ہے کیونکہ
                  وہ سانولے رنگ کا تھا۔۔چنانچہ اسی بنا پر اسے سانولا، سانول، اورسلونا بھی کہتے ہیں سانول محبوب
                  کے معنی میں خواجہ نے کثرت سےبیان کیا ہے







                  جاری ہے
                  Last edited by Dr Fausts; 8 September 2011, 19:11.
                  :(

                  Comment

                  Working...
                  X