.............bks.................
Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
Khosh Hall Khan Khatak
Collapse
X
-
Re: Khosh Hall Khan Khatak
Bohat khoob ........thanks for sharing.......
Iqbal aur Khushal khan Khattak ki shayari mein bohat cheezain mushtarak hain.....isss mouzo par haal hi mein aik article parha tha koshish karonga ke uska urdu translation aap ki khidmat mein pesh kar sakoon.......مٹی كی محبت میں هم آشفته سروں نے--------وه قرض بھی اتارے هیں جو واجب هی نهیں تھے
Comment
-
Re: Khosh Hall Khan Khatak
Sorry wo article to nahi mil saka laiken is silsiley mein meri apni raaye pesh khidmat hai.......you have the right to disagree with it........
خوشحال خان خٹك اور اقبال كی شاعری میں شہباز اور شاہین سے متعلق بہت ساری باتیں مشترك پائی جاتی ہیں۔ خوشحال خان خٹك ان پرندوں كی دلیری٬ جرات اور دیگر خوبیوں كا ذكر اس لئے پسند كرتے ہیں كہ وہ انہیں انسان كی زندگی اور اعلی اخلاق كے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔
خوشحال خان نے شاہین كی دلیری٬ ہمت اور پاكیزہ فطرت جیسی خوبیاں٬ اعلی اور اچھے كردار والے انسان كے لئے استعمال كیے ہیں۔ بعد میں اقبال نے خوشحال خان خٹك كی شاعری كا انگریزی ترجمہ پڑھا اور اُن كی پیروی كرتے ہوئے مندرجہ بالا صفات اپنے "مرد مومن" كے اعلی صفات اور اخلاقی طرز زندگی كے لئے استعمال كئے ۔ خوشحال خان خٹك كی طرح انسان كی اعلی خوبیوں اور كردار كو بیان كرنے كے لئے اقبال نے بھی شاہین٬ عقاب٬ اور شہباز كا ذكر كیا ہے۔
خوشحال خان خٹك نے اگر شاہین اور باز كے استعارے اپنی شاعری میں استعمال كئے ہیں تو یہ اُن كے ذاتی تجربہ اور ذاتی مشاہدہ تھا۔ انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے شاہین اور عقاب پالے تھے۔ اس كا ثبوت اگر آج بھی كوئی دیكھنا چاہتا ہے تو خوشحال خان خٹك كی تصنیف "باز نامہ" آج بھی كتابی شكل میں موجود ہے۔ مذكورہ كتاب میں خوشحال خان خٹك نے باز یا شاہین كی مختلف خوبیوں كو اجاگر كیا ہے اور اس كے پالنے كے طور طریقے وغیرہ اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے كی بنیاد پر بیان كئے ہیں اس كے برعكس اقبال نے عقاب پالنا تو دركنار شاید اپنی پوری زندگی كبھی ہاتھ میں بھی نہیں لیا ہوگا۔ اقپال نے صرف اتنی كوشش كی ہے كہ اُس نے خوشحال خان كے "شاہین والے استعارے" ٬ "مرد" كی بجائے "مرد مومن" كے لئے استعمال كئے ہیں۔
جس طرح شاہین پرندوں میں سب سے اعلی مقام اور قلندرانہ خوبیوں كا مالك سمجھا جاتا ہے اسی طرح خوشحال خان خٹك كا "مرد" جسے وہ كبھی "ننگیالے" كہتا ہے اور كبھی "بہادر" پكارتا ہے٬ بھی انسانوں كی دنیا میں قلندرانہ خوبیوں كا مالك اور ایك اونچا مقام ركھتا ہے۔
جس طرح میں نے اوپر بیان كیا كہ اس سلسلے میں خوشحال خان خٹك كے شاہین اور باز والے استعارات خود ان كے ذاتی تجربے اور مشاہدے كا نتیجہ تھے كیونكہ وہ خود ایك جنگجو اور ایك اعلی شكاری تھے جو ایك جوانمرد٬ قلندر٬ درویش اور ایك مجاہد كی خوبیوں سے خوب واقفے تھے مگر اقبال اگرچہ انسانی فطرت اور خوبیوں سے واقف تھے لیكن ایك شكاری اور جنگجو نہ ہونے كی وجہ سے انہیں شاہین اور باز كی فطرت او خوبیوں كا اتنا اندازہ نہیں تھا۔ صرف اتنی سی بات ہے كہ انہیوں نے خوشحال بابا كی شاعری كا مطالعہ كیا تھا اور ان كی شاعری میں دئیے گئے باز اور شاہین كے استعاروں سے كافی متاثر ہوئے تھے لہذا انہوں نے اس بنیاد پر اپنے "مرد مومن" كی صفات اور خوبیوں كو اجاگر كرنے اور اس كی شاعرانہ تشریح كی خاطر شاہین اور عقاب كے استعاروں كو اپنایا اور اس سے بہت اچھے اور عمدہ مضامین پیدا كئے۔
اس سے اقبال كا مقصد اسلام كے حجازی شان كی دوبارہ یاد دہانی اور زوال پذیر مسلمان كو اس غرض سے دعوت دینا تھی اور اُسے بیدار كرنا تھا جیسا كہ وہ فرماتے ہیں:
نگاہ عشق دل زندہ كی تلاش میں ہے
شكار مردہ سزاوار شہباز نہیں
اور خوشحال خان خٹك اپنا مدعا كچھ یوں بیان كرتے ہیں:
لكه باز په لوے لوے ښكار زما نظر دے(شاهين كي طرح بڑے شكار پہ میری نظر ہے)
نه چې ګرځي ګونګټ نيسي باد خورك يم (میں گند كھانے والا چیل كوا نہیں)
مختصر یہ كہ باز اور شاہین كی یہ صفات خوشحال خان خٹك انسانی زندگی اور اعلی اخلاق كے لئے بہت ضروری سمجھتے ہیں۔مٹی كی محبت میں هم آشفته سروں نے--------وه قرض بھی اتارے هیں جو واجب هی نهیں تھے
Comment
-
Re: Khosh Hall Khan Khatak
Originally posted by Mayan khan View PostSorry wo article to nahi mil saka laiken is silsiley mein meri apni raaye pesh khidmat hai.......you have the right to disagree with it........
خوشحال خان خٹك اور اقبال كی شاعری میں شہباز اور شاہین سے متعلق بہت ساری باتیں مشترك پائی جاتی ہیں۔ خوشحال خان خٹك ان پرندوں كی دلیری٬ جرات اور دیگر خوبیوں كا ذكر اس لئے پسند كرتے ہیں كہ وہ انہیں انسان كی زندگی اور اعلی اخلاق كے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔
خوشحال خان نے شاہین كی دلیری٬ ہمت اور پاكیزہ فطرت جیسی خوبیاں٬ اعلی اور اچھے كردار والے انسان كے لئے استعمال كیے ہیں۔ بعد میں اقبال نے خوشحال خان خٹك كی شاعری كا انگریزی ترجمہ پڑھا اور اُن كی پیروی كرتے ہوئے مندرجہ بالا صفات اپنے "مرد مومن" كے اعلی صفات اور اخلاقی طرز زندگی كے لئے استعمال كئے ۔ خوشحال خان خٹك كی طرح انسان كی اعلی خوبیوں اور كردار كو بیان كرنے كے لئے اقبال نے بھی شاہین٬ عقاب٬ اور شہباز كا ذكر كیا ہے۔
خوشحال خان خٹك نے اگر شاہین اور باز كے استعارے اپنی شاعری میں استعمال كئے ہیں تو یہ اُن كے ذاتی تجربہ اور ذاتی مشاہدہ تھا۔ انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے شاہین اور عقاب پالے تھے۔ اس كا ثبوت اگر آج بھی كوئی دیكھنا چاہتا ہے تو خوشحال خان خٹك كی تصنیف "باز نامہ" آج بھی كتابی شكل میں موجود ہے۔ مذكورہ كتاب میں خوشحال خان خٹك نے باز یا شاہین كی مختلف خوبیوں كو اجاگر كیا ہے اور اس كے پالنے كے طور طریقے وغیرہ اپنے ذاتی مشاہدے اور تجربے كی بنیاد پر بیان كئے ہیں اس كے برعكس اقبال نے عقاب پالنا تو دركنار شاید اپنی پوری زندگی كبھی ہاتھ میں بھی نہیں لیا ہوگا۔ اقپال نے صرف اتنی كوشش كی ہے كہ اُس نے خوشحال خان كے "شاہین والے استعارے" ٬ "مرد" كی بجائے "مرد مومن" كے لئے استعمال كئے ہیں۔
جس طرح شاہین پرندوں میں سب سے اعلی مقام اور قلندرانہ خوبیوں كا مالك سمجھا جاتا ہے اسی طرح خوشحال خان خٹك كا "مرد" جسے وہ كبھی "ننگیالے" كہتا ہے اور كبھی "بہادر" پكارتا ہے٬ بھی انسانوں كی دنیا میں قلندرانہ خوبیوں كا مالك اور ایك اونچا مقام ركھتا ہے۔
جس طرح میں نے اوپر بیان كیا كہ اس سلسلے میں خوشحال خان خٹك كے شاہین اور باز والے استعارات خود ان كے ذاتی تجربے اور مشاہدے كا نتیجہ تھے كیونكہ وہ خود ایك جنگجو اور ایك اعلی شكاری تھے جو ایك جوانمرد٬ قلندر٬ درویش اور ایك مجاہد كی خوبیوں سے خوب واقفے تھے مگر اقبال اگرچہ انسانی فطرت اور خوبیوں سے واقف تھے لیكن ایك شكاری اور جنگجو نہ ہونے كی وجہ سے انہیں شاہین اور باز كی فطرت او خوبیوں كا اتنا اندازہ نہیں تھا۔ صرف اتنی سی بات ہے كہ انہیوں نے خوشحال بابا كی شاعری كا مطالعہ كیا تھا اور ان كی شاعری میں دئیے گئے باز اور شاہین كے استعاروں سے كافی متاثر ہوئے تھے لہذا انہوں نے اس بنیاد پر اپنے "مرد مومن" كی صفات اور خوبیوں كو اجاگر كرنے اور اس كی شاعرانہ تشریح كی خاطر شاہین اور عقاب كے استعاروں كو اپنایا اور اس سے بہت اچھے اور عمدہ مضامین پیدا كئے۔
اس سے اقبال كا مقصد اسلام كے حجازی شان كی دوبارہ یاد دہانی اور زوال پذیر مسلمان كو اس غرض سے دعوت دینا تھی اور اُسے بیدار كرنا تھا جیسا كہ وہ فرماتے ہیں:
نگاہ عشق دل زندہ كی تلاش میں ہے
شكار مردہ سزاوار شہباز نہیں
اور خوشحال خان خٹك اپنا مدعا كچھ یوں بیان كرتے ہیں:
لكه باز په لوے لوے ښكار زما نظر دے(شاهين كي طرح بڑے شكار پہ میری نظر ہے)
نه چې ګرځي ګونګټ نيسي باد خورك يم (میں گند كھانے والا چیل كوا نہیں)
مختصر یہ كہ باز اور شاہین كی یہ صفات خوشحال خان خٹك انسانی زندگی اور اعلی اخلاق كے لئے بہت ضروری سمجھتے ہیں۔Last edited by sohail khan; 1 August 2011, 00:36.
Comment
Comment